’’اجراء‘‘ (ادبی جریدہ)
مدیر: احسن سلیم،ملنے کا پتا: 1-G-3/2، ناظم آباد، کراچی،صفحات: 576،قیمت: 400 روپے
زیر تبصرہ پرچہ سہ ماہی اجرا کا پندرھواں شمارہ ہے، جس کے دو پہلو قابل ذکر ہیں۔ پہلا؛ تسلسل۔ اور دوسرا؛ منشور کی اشاعت۔ واضح رہے کہ اجرا کے پلیٹ فورم سے ’’ادب برائے تبدیلی‘‘ کی تحریک شروع کی گئی تھی، جس سے متعلق گذشتہ شماروں میں مضامین بھی شایع ہوئے، اور اداریوں میں بھی اِس کا تذکرہ آیا، مگر چھے نکات پر مشتمل منشور کی اشاعت کے بعد، اب علمی و ادبی حلقے اِس تحریک کی ضرورت اور تقاضوں پر بہتر انداز میں بحث کر سکیں گے۔ اداریے میں احسن سلیم نے ادیب کی ذمے داری، موجودہ مسائل اور عصری تقاضوں پر بات کی ہے۔
گذشتہ چند شماروں کے مانند پرچے کے سرپرست، شاہین نیازی اِس بار بھی غیرحاضر ہیں۔ ’’گفتگو‘‘ کے زیر عنوان شایع ہونے والے اُن کے مضمون کی اب کمی محسوس ہونے لگی ہے۔تخلیقات پر نظر ڈالی جائے، تو شعری حصہ متوازن دکھائی دیتا ہے۔ نظموں کی تعداد 23 ہے۔ غزلیں 45 ہیں۔ سینیرز کے ساتھ نئے شعرا کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ ایک حصہ نثری نظموں کے لیے مختص ہے۔ افسانوں کی کُل تعداد 21 ہے۔
کچھ تحریریں قابل ذکر ہیں۔ مثلاً ذکی احمد نے اپنے مضمون میں خدا کے ریاضیاتی تصور کو موضوع بنایا ہے۔ اردو افسانے کے نسوانی لحن پر مرزا حامد بیگ کا مضمون ہے۔ ڈاکٹر ممتازاحمد خان نے مرزا اطہر بیگ کے ناول ’’صفر سے ایک تک‘‘ اور احسن سلیم کی طویل نظم ’’ست رنگی آنکھیں‘‘ کو موضوع بنایا ہے۔ پروفیسر سلیم بیگ نے بابو رفیق ریواڑوی کے فن پر قلم اٹھایا ہے۔
اسد محمد خان نے پولینڈ کے شاعر، تادیوش روسے وچ کی نظموں کا ترجمہ کیا ہے، جب کہ عاصم بٹ نے بورخیس کے افسانوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔مجموعی طور پر یہ پرچہ قاری کے وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوسکتا ہے۔ اشاعت کا تسلسل خوش آیند ہے، البتہ تخلیقات کے انتخاب کے معاملے میں بہتری کا امکان موجود ہے، خصوصاً منشور کی اشاعت کے بعد اِس کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔ پرچے میں اشتہارات کی کمی تھوڑی پریشان کن ہے۔
’’عبارت‘‘ (ادبی جریدہ)
مدیر: ڈاکٹر مسرور احمد زئی،صفحات: 432،قیمت: 200 روپے،ناشر: ادارہ انوار ادب، حیدرآباد
کسی بھی زبان کے ادب کی حیات میں ادبی جراید کی اشاعتِ مسلسل کلیدی کردار ادا کرتی ہے کہ اُن کے وسیلے ادب میں تجربات کا امکان پیدا ہوتا ہے، نئے لکھاریوں کی آمد ہوتی ہے، جدید اسلوب متعارف ہوتے ہیں۔
خوش قسمتی سے گذشتہ برسوں میں اردو کے ادبی جراید کی اشاعت میں تیزی آئی ہے۔ حیدرآباد سے نکلنے والا سہ ماہی عبارت بھی اس سلسلے کی کڑی ہے، جو گذشتہ کئی برس سے شایع ہورہا ہے۔گذشتہ دنوں عبارت کا سال نامہ شایع ہوا، جس کے اداریے میں مستقبل قریب میں اقبال، فیض اور فراز نمبر لانے کا اعلان کیا گیا ہے، جو خوش آیند ہے۔
مندرجات پر نظر ڈالی جائے، تو پروفیسر مختار الدین احمد کے مضمون ’’آٹھویں صدی ہجری کا ایک نام وَر عرب مصنف‘‘ سے سامنا ہوتا ہے، جو صلاح الدین الصفدی سے متعلق ہے۔
’’امیر مینائی کی لغت نویسی اور اصول لغت نویسی ‘‘ پر ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے قلم اٹھایا ہے۔ سلسلہ ’’منہاج تنقید‘‘ میں سات مضامین شامل ہیں۔ خاکوں کے لیے مختص حصے میں چار تخلیقات ہیں، جو پروفیسر انوار احمد زئی کے قلم سے نکلی ہیں۔ گوشہ، صابر بدر جعفری سے متعلق ہے، جس میں ان کے فن و شخصیت کی مختلف جہتوں پر مضامین ہیں۔ پرچے میں تین افسانے شامل ہیں۔ شعری حصے میں توازن دکھائی دیتا ہے۔ کاغذ، چھپائی اور قیمت مناسب ہے۔ مجموعی طور پر اِس پرچے میں پڑھنے کے لیے لائق خاصا مواد ہے۔
تناظر (سماجی، ادبی جریدہ)
مدیر: ایم۔خالد فیاض،رابطہ: معرفت آئیڈیل بک سینٹر، ڈاکٹر سرور والی گلی، ریلوے روڈ، گجرات،صفحات: 544،قیمت: 500
ایک جانب بے قیمتی کا المیہ اور مطالعے کا گھٹتا رجحان، دوسری جانب تناظر جیسے ادبی جراید، جن کی آمد سے ادبی منظر پر چھائے غیریقینی کے دبیز بادلوں میں ایک چھوٹا سا شگاف پیدا ہوتا ہے۔ اور کچھ روشنی دکھائی دیتی ہے۔
گجرات سے نکلنے والے اس پرچے کا مواد معیاری بھی ہے، اور دل چسپ بھی۔ سرورق اِسے ادبی کے ساتھ ایک سماجی جریدہ بھی قرار دیتا ہے، اور مواد اس کی دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے۔ پہلا حصہ سماجی علوم سے متعلق ہے۔ سلسلہ ’’عالمی ادب‘‘ میں تخلیقات بھی ہیں، اور مضامین بھی۔ پابلو نیرودا، جیمز جوائس، موپاساں اور ہوزے سارا ماگو کی تخلیقات اِس حصے کا قد بڑھاتی ہیں۔2012 میں ادب کے نوبیل انعام سے نوازے جانے والے ناول نگار مُویان کا تعارف اور ایک افسانے کا ترجمہ بھی شامل ہے۔
معروف افریقی ادیب، چنوا اچپسے کے فن سے متعلق ایک حصہ مختص ہے۔ ساتھ ہی منٹو اور میرا جی کے فن کو بھی مطالعے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ ایک سلسلہ ’’آپ کے خیال میں‘‘ کے زیرعنوان ہے، جس مین اکیسویں صدی میں اردو ادب کو درپیش چیلینجز کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پڑھنے کے لائق مضامین کے بعد اگر توجہ تخلیقات کی جانب مرکوز کریں، تو نو افسانہ نگاروں، دس نظم گو شعرا اور چودہ غزل گو شعرا سے ملاقات ہوتی ہے۔ سینیرز اور نئے تخلیق کاروں، دونوں کا کلام شامل ہے۔
مجموعی طور پر تناظر ایک مثبت کوشش ہے، جس کے لیے مدیر، ایم۔ خالد فیاض اور ان کی ٹیم داد کی مستحق ہے۔ پرچے کا سرورق بامعنی، طباعت معیاری ہے۔ بس، ایک معاملہ پریشان کن ہے۔ پرچے میں کوئی اشتہار نہیں، جس سے اِس کی زندگی سے متعلق اندیشے پیدا ہوتے ہیں۔
’’مشین گردی‘‘ (افسانے)
افسانہ نگار: آغا گل،ناشر: ظفر اکیڈمی، کراچی،صفحات: 158،قیمت: 160روپے
اِس کتاب کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ یہ آغا گل کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اِس بلوچستانی فکشن نگار کے ہاں حقیقت نگاری اور کاٹ دار مزاح کا امتزاج، زمین سے جُڑے قصّوں میں نہ صرف پختگی، بلکہ خاص نوع کی سہولت کے ساتھ رچ بس گیا ہے۔
آغا گل بلوچستان کی معاشرت، وہاں کے مسائل کو ’’بلوچستاتی اردو‘‘ میں (جس کی واضح ترین جھلک ہمیں اُن کے ناول ’’بابو‘‘ میں دکھائی دی) گوندھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ بین الاقوامی صورت حال کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔
آغا گل نے ایک بار کہا تھا؛ انسان کو مرنا ہی ہے، تو افسانہ لکھتے ہوئے مرے! تو وہ مسلسل لکھ رہے ہیں۔ اور وہ ہی کچھ لکھ رہے ہیں، جو لکھنا چاہتے ہیں۔
اب توجہ کتاب پر مرکوز کرتے ہیں۔ یہ مجموعہ چودہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کا انتساب ممتاز مترجم اور دانش وَر، ڈاکٹر شاہ محمد مری کے نام ہے۔ حسین شاہد، دیپک بُدکی اور نوید حیدر ہاشمی کے مضامین کتاب میں شامل ہیں۔ بیک فلیپ پر شاعر علی شاعر کی رائے درج ہے۔ آخر میں فرہنگ دی ہوئی ہے، جس میں ناول میں برتے جانے والے ان الفاظ کا ترجمہ دیا گیا ہے، جو اردو پڑھنے والوں کے لیے اجنبی ہیں۔
آغا گل کے دیگر افسانوی مجموعوں کی طرح یہ مجموعہ بھی بلوچستان کے زرخیز خطے، وہاں کی زندگی اور زندگی کا جُزو بن چکے مسائل کے اطراف گھومتا ہے۔ ہر افسانے کا محور بلوچستان ہے، اور ہر افسانے میں آغا گل خود دکھائی دیتے ہیں، مگر اِن عوامل سے افسانوں میں یک سانیت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ یہی عوامل قاری کو گرفت میں لے لیتے ہیں۔ آغا گل کا گُتھا ہوا، پختہ اسلوب ان کی پہچان ہے، جو اس کتاب میں بھی اپنے عروج پر ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ آغا گل کو بلوچستانی ادیب کے بجائے ایک اردو تخلیق کار کے طور پر زیر بحث لایا جائے۔
ہند میں اردو (ساتویں صدی سے)
مصنف: محمد احمد سبزواری،پبلشر:Beyond Time پبلی کیشن، کراچی،
صفحات: 228،قیمت: 350روپے
کسی سو سالہ شخص کی کتاب کا منصۂ شہود پر آنا، اِس بات سے قطع نظر کی کتاب کا موضوع اور معیار کیا ہے، ایک حیران کن کارنامہ ہے۔ اردو میں شاید ہی اِس نوع کی کوئی مثال ملے۔ یہ کارنامہ محمد احمد سبزواری نے انجام دیا ہے۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ کتاب کا موضوع بھی انتہائی اہم ہے۔ محمد احمد سبزواری معاشیات اور اقتصادیات کے علوم میں سند تصور کیے جاتے ہیں۔ اردو میں بینکاری کے مضمون لکھنے والے ابتدائی لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ’’اصطلاحاتِ بینکاری‘‘ پر بھی انھوں نے خاصا کام کیا۔
اس کتاب میں انھوں نے اردو کے آغاز اور اُس کی قدامت کو تاریخ کے توسط سے دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اردو ادب کی قدامت ایک ایسا موضوع ہے، جس پر ماضی میں بھی کام ہوا، تاہم اِس کی وسعت اور گہرائی کے باعث تحقیق کی ضرورت ہنوز موجود ہے۔ مصنف نے اِس کتاب کو اردو کے ایک فراموش کردہ گوشے کو اجاگر کرنے کی حقیر کوشش سے تعبیر کی ہے۔
ایک زاویے سے ’’ہند میں اردو‘‘ تاریخی، سیاسی اور سماجی حوالوں سے تحقیقی مواد پر مبنی ایسی دستاویز ہے، جو اردو زبان کی ابتدا، ارتقا اور ادبی صورت میں ڈھلنے تک کے احوال پر بحث کرتی ہے۔ مصنف سے فکری اختلاف ہوسکتا ہے، تحقیقی نقطۂ نگاہ سے سوالات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں، مگر سبزواری صاحب کی یہ کوشش ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ ساتھ ہی یہ کوشش دیگر محققین کو بھی اِس پر قلم اٹھانے کی تحریک دیتی ہے۔کتاب کے ابتدائی ڈیڑھ سو صفحات تحقیقی مواد پر مشتمل ہیں۔ اگلے حصے میں مشاہیر کی مصنف کی شخصیت اور فن سے متعلق آرا شامل ہیں۔ کتاب کا سرورق خوب صورت ہے۔ کاغذ اور چھپائی انتہائی معیاری ہے۔ مصنف اور اُن کے اہل خانہ کی تصاویر بھی کتاب میں شامل ہیں۔
راہداری میں گونجتی نظم
شاعر: فہیم شناس کاظمی،ناشر: دنیازاد پبلی کیشنز، بی 155بلاک 5، گلشن اقبال، کراچی
صفحات:325 ،قیمت:300روپے
سچی شاعری پہلے دل میں خون سے تحریر ہوتی ہے، روح پر سلوٹوں کی صورت نقش ہوتی ہے، ذہن وشعور کے خانوں میں پرورش پاتی ہے، پھر کہیں لفظوں کی صورت لے کر صفحات پر اُترتی ہے، ورنہ مانگے تانگے کے خیالات الفاظ میں بھر اور انھیں تیکنیک کے سانچوں میں جڑ کر بس شاعر ہونے کا اعزاز حاصل کیا جاسکتا ہے۔ فہیم شناس کاظمی کی نظمیں ان کے اندر کی سچائیوں سے پھوٹی ہیں، سو وہی انفرادیت لیے ہوئے ہیں جو سچی شاعری کا خاصہ ہے۔
’’راہداری میں گونجتی نظم‘‘ فہیم شناس کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ غزل روایت کی امین اور اپنا ایک خاص اسلوب رکھتی ہے۔ لفظوں کے ’’خاندان‘‘ سے تیکنیکی شرائط تک یہ پابندیوں کا ایک نظام ہے۔ اس کے مقابلے میں آزاد نظم شاعر کو آزادی کا وسیع میدان تو دیتی ہے، لیکن اس آزادی کے بدلے میں یہ شاعر سے ندرتِ فکر اور لفظ کو نئے معنی دینے کی مشقت بھی طلب کرتی ہے۔ یہ فکری اچھوتا پن اور نومعنویت شاعر کی زندگی اور ذات کی پیچیدگیوں اور گہرائیوں سے جنم لیتے ہیں۔ فہیم شناس کے زیرتبصرہ مجموعے میں شامل نظمیں صاحب کتاب کی زندگی اور ذات کی پرتوں کی عکاسی کر رہی ہیں۔
ان کی نظموں میں فکری تنوع پایا جاتا ہے، جس سے ان کے خیالات اور تصورات کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ حال کے گلی محلوں ہی میں سانسیں نہیں لیتے بل کہ ماضی کے کوچے اور چوبارے بھی ان کی شعری دنیا کا حصہ ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں حال اور ماضی کو جوڑتے اور حال میں ماضی بازیافت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شعری جہتوں سے متعلق ڈاکٹر رشید امجد رقم طراز ہیں،’’فہیم شناس کاظمی کی شاعری کا فکری کینوس بہت وسیع ہے اور ماضی سے حال تک کا سفر طے کرتا۔۔۔۔مسلم زوال کے کئی موڑوں کی نشان دہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظموں کا مواد برصغیر میں مسلم زوال کی تاریخ کے ساتھ اپنی ادبی روایات خصوصاً داستان کی پُرتحیر دنیا سے جنم لیتا ہے۔‘‘ یہ الفاظ فہیم شناس کی شاعری کا جامع تعارف کرا رہے ہیں۔
کتاب کا خوب صورت سرورق اپنے اندر ان نظموں کی سی گہرائی لیے ہوئے ہے جو اس کتاب میں شامل ہیں۔ تاہم سرورق پر شاعر کا نام شایع نہیں کیا گیا، جو شاید غلطی کے باعث ہوا ہے۔ اچھا شعری ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ ایک قابل مطالعہ کتاب ہے۔
’’زندہ ہے زندگی‘‘ (شعری مجموعہ)
شاعر: احفاظ الرحمٰن،ناشر: شہرزاد، کراچی،صفحات:302،قیمت:400روپے
وہ کون سے عوامل ہیں، جو کتاب کی۔۔۔ادبی کتاب کی۔۔۔۔ قدر و منزلت اور زندگی کا تعین کرتے ہیں؟
سب سے پہلے تو ادبیت، بلاشبہہ۔ پھر مطالعیت کا عنصر۔ پھر جمالیات۔ البتہ ایک اور کلیدی عُنصر ہے، جس کی اہمیت سانحۂ نو گیارہ کے بعد دوچند ہو گئی ہے۔ اور یہ ہے؛ عصری شعور۔
سچ تو یہ ہے کہ عصری شعور ہی وہ باٹ ہے، جو ترازو کے ایک پلڑے میں ہو، تو دوسرے پلڑے میں رکھی بیش تر کتابیں بے وزن ثابت ہوتی ہیں۔ ’’زندہ ہے زندگی‘‘ رواں برسوں میں شایع ہونے والی اُن گنی چنی کتابوں میں سے ہوگی، جنھیں اِس ترازو میں تولا جاسکتا ہے کہ اِس کے اوراق میں عصری شعور دوڑتا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظمیں ایک حساس دل سے نکلی ہیں۔
معروف شاعر، ادیب اور صحافی، احفاظ الرحمٰن کو بڑے احترام اور محبت کے ساتھ متعارف کروایا جاتا ہے، مگر ایک پہلو کا تذکرہ رہ جاتا ہے۔ میرے نزدیک احفاظ الرحمٰن ایک استاد ہیں۔ میدان صحافت کے کئی شہ سوار خود کو، بڑے فخر کے ساتھ، اُن کا شاگرد قرار دیتے ہیں۔ اُن کی اصول پسندی اور جہد مسلسل کا تذکرہ کرتے ہوئے میدان صحافت و ادب میں اُنھیں قابل تقلید قرار دیتے ہیں۔
بلاشبہہ، احفاظ الرحمٰن نے عملی جدوجہد کی۔ اور اِسی جدوجہد، اصول پسندی، حق گوئی اور بے باکی نے اُن کی نظموں کو وہ جہت عطا کی، عہد حاضر جس کا متقاضی ہے۔
میرے نزدیک عصری شعور کی حامل، عہد حاضر کے مسائل کا احاطہ کرتی نظمیں، جو ایک دردمند دل کی پکار ہیں، ’’زندہ ہی زندگی‘‘ کا خاصہ ہیں۔ شاعر نے کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے دہشت گردی کے پے درپے واقعات، سام راجی ہتھ کنڈوں، ظلم کی مختلف اشکال کے خلاف جدوجہد اور دیگر سیاسی و سماجی مسائل کو موضوع بنایا ہے۔
دہشت گردی، سام راجی چالیں، ظلم، سیاسی موقع پرستی؛ کیا یہی وہ مسائل نہیں، جنھوں نے ہمیں آج گھیر رکھا ہے۔ یاسیت اور عدم تحفظ کی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دہشت گردی ہی وہ عفریت ہے، جس کی پھنکار نے اِس خطۂ زمین کو شہر خموشاں میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاست دانوں کو تو رہنے ہی دیں، المیہ یہ ہے کہ اِس خطے کے شاعر، ادیب، دانش وَر — خوف کے باعث یا مصلحت کی وجہ سے ان مسائل پر قلم اٹھانے سے ہچکچانے لگے ہیں۔ ظالم کو ظالم قرار دینے میں تامل کیا جاتا ہے۔ مظلوم کو مظلوم گرداننا بھی اب ہمیں گوارا نہیں رہا۔ ہم تو ابہام کی دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔ ایسے میں ’’زندگی ہے زندگی‘‘ میں شامل نظمیں ہمیں ابہام کے سحر سے جان چھڑا کر حقیقت کو حقیقت کہنے کا پیغام دیتی ہیں، ظالم کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اُس روشن جدوجہد کو بیان کرتی ہیں، جسے ہمیں بُھلا بیٹھے ہیں۔
کتاب میں احفاظ الرحمٰن کے فن سے متعلق پروفیسر سحر انصاری اور فہمیدہ ریاض کے مضامین شامل ہیں، جن میں اِن نظموں کا گہرائی اور باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ سو کے قریب نظمیں ہیں، جنھیں موضوع کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پانچواں حصہ تراجم کے لیے مختص ہے، جس میں ہوزے مارتی، جان لینن اور باب ڈیلن کی امیدپرست شاعری کو اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ آخری حصے میں ’’میں تو سب سے محبت کرتا ہوں‘‘ کے زیر عنوان ایک منفرد نثر پارہ ہے، جسے نوم چومسکی اور البرٹ مائیکل کے مشہور زمانہ ’’زیڈنیٹ میگرین‘‘ کے Creative Section میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
اس کتاب کے مقام اور قدر و منزلت کا حتمی فیصلہ تو ناقدین اور قارئین کریں گے، البتہ یہاں احفاظ الرحمٰن کے فن سے متعلق اردو شاعری کی دو اہم شخصیت کی رائے درج کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، جسے میں اپنے اندرون کے قریب تر پاتا ہوں۔
’’زندہ ہی زندگی‘‘ میں شامل نظموں کو تہ داری کی حامل قرار دینے والے پروفیسر سحر انصاری کے بہ قول،’’احفاظ الرحمٰن نے جس اسلوب کی شاعری کی ہے، وہ خمارِ گندم سے نہیں، بلکہ خمارِ انسانیت سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘ایک اور جگہ لکھتے ہیں،’’شاعر کا اول و آخر عنوان یہ ہے کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے، ہر قسم کا استحصال، دہشت گردی اور تخریب کاری نیست و نابود ہوجائے۔‘‘
فہمیدہ ریاض، جنھیں احفاظ الرحمٰن کی شاعری میں فیض احمد فیض اور اختر الایمان کی شعری روایات کا انوکھا امتزاج نظر آیا، اُن کے اوریجنل انداز کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں،’’احفاظ الرحمٰن کے ہاتھ میں ایک طاقت وَر قلم ہے، اور اُن کی پُرنم آنکھوں سے ہمارے ادبی اور صحافتی منظر کا کوئی بھی بدصورت پہلو بچ کر نہیں نکل سکتا۔‘‘
آصف فرخی کے ادارے شہرزاد سے شایع ہونے والی اِس کتاب کا سرورق بامعنی ہے۔ کتاب ڈسٹ کور کے ساتھ شایع کی گئی ہے۔ کاغذ اور طباعت معیاری ہے۔ کتاب کی ضخامت اور معیار کے پیش نظر قیمت نہایت مناسب ہوتی ہے۔