پرہجوم سڑکوں پر’’ نوائے پریشاں ‘‘سنا کر راستہ مانگتی ایمبولینس کوئی عام گاڑی ہے نہ اُمید و بیم کی حالت میں اس کے اندر لیٹا شخص کوئی عام مریض ہے۔
ایمبولینس میں کسی بیمار کواس کے عزیز تشویشناک حالت میں طبی ادارے میں لے جا رہے ہیں، حادثے کے بعد کسی زخمی کو ہسپتال پہنچایا جا رہا ہے، گولی بارود سے لہولہان کوئی شہری مسیحاؤں کی جانب رواں دواں ہے۔
ایسے مریضوں کی زندگی کے تحفظ یا انہیں کسی مستقل معذوری سے بچانے کے لیے پہلا ایک گھنٹہ بہت اہم ہے جس میں انہیں طبی امداد کے لیے فوراََہسپتال پہنچانا ہوتا ہے۔ ایمبولینس ہسپتال بروقت پہنچ جائے تو ان کی زندگی بچ سکتی ہے۔اگر ٹریفک جام ہونے یا کسی دوسری وجہ سے راستہ نہ ملنے پر تاخیر ہوجائے توکسی مریض کی موت واقع ہوسکتی ہے یا وہ عمر بھر کی معذوری اور محرومی کاشکار ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں ایمبولینس کو راستہ نہ دینے کا منفی رجحان پایا جاتا ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔اس کی مختلف سماجی،سیاسی اور انفرادی وجوہات ہیں۔ آبادی بڑھنے، موٹر گاڑیوں میں اضافہ ہونے اور سڑکوں کی تنگی کے سبب اکثر ٹریفک جام رہتی ہے اور عزیزو اقارب سڑکوںپرمریض کی زندگی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ ایک وجہ آئے دن کے ’’ضروری وغیر ضروری‘‘ احتجاج ہیں، مظاہرین راستہ روک لیتے ہیںاور ایمبولینس کے مسلسل بجتے سائرن کا حال یہی ہوتا ہے کہ
شور میں کہیں دب کر نہ رہ جائے تمہاری آواز
شہر میں اگر زخم کھاؤ تو چیخا نہ کرو
ایمبولینس کو راستہ نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ ہمارے انفرادی رویے ہیں، جسے آپ غفلت یا بے حسی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ لوگوں کو مسئلے کی نزاکت کا احساس ہی نہیں ہے۔ ڈرائیورز مائیک میں آوازدے رہے ہوتے ہیں:’’بھائی! راستہ دے دیں، مریض کی حالت خراب ہے‘‘ لیکن کچھ لوگ دیوار بنے کھڑے رہتے ہیں۔
بعض موقع پرست سمجھتے ہیں کہ ایمبولینس کو تو راستہ ملنا ہی ہے اور اپنی گاڑی اس کے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں۔کسی جگہ ویگن یا بس سواریاں اتار نے کے لیے بیچ سڑک راستہ روکے نظر آتی ہے۔ اگر کہیں بند اشارے پر ٹریفک وارڈن ایمبولینس کو گزرنے کی اجازت دیتا ہے یا ایک طرف سے آنے والی ٹریفک کو روک کے راستہ بناتا ہے تو ایک جمِ غفیرخاص طور پر موٹرسائیکل سوار اس کوشش میں ہوتا ہے کہ بند اشارے پر ایمبولینس کے ساتھ ہی گزر جائیں۔
ایمبولینس کو راستہ نہ ملنے کی ایک وجہ اربابِ سیاست و ریاست کا پروٹوکول بھی ہے(جس میں اب نسبتاً کمی ہوئی ہے)۔بقول انور مسعود:
مریض کتنے تڑپتے ہیں ایمبولینسوں میں
اور ان کی حالت ہے ایسی کہ مرنے والے ہیں
مگر پولیس نے ٹریفک کو روک رکھا ہے
یہاں سے قوم کے خادم گزرنے والے ہیں
انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس (ICRC)نے چند برس قبل (2015میں) AAPNAانسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ سندھ میڈیکل یونیورسٹی اور جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سنٹر کے اشتراک سے ایک تحقیقی مطالعہ کیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ کراچی میںدیگر طبی عملے کے ساتھ ساتھ ایمبولینس ڈرائیوز (66%) کو بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جسمانی یا نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کراچی میں سات مختلف مقامات پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جناح میڈیکل سنٹر کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شیراز شیخ کا کہنا ہے: ’’سڑک پر دوتہائی لوگ ایمبولینس کو راستہ دیتے ہیں جبکہ ایک تہائی ایسا نہیں کرتے اورا یمبولینس کے توجہ دلانے پر غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ٹریفک جام میں ہی ایمبولینس کو دشواری ہوتی ہو، بعض اوقات کوئی ایک گاڑی بھی رکاوٹ پیدا کردیتی ہے۔‘‘ راولپنڈی اسلام آباد میںآغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی تحقیق کہتی ہے: ’’978 مریضوں میں سے صرف 303 (30.9%) مریض ایک گھنٹے کے اندر اندر ایمرجنسی رُوم تک پہنچ سکے۔ حادثے کے بعد کسی مریض کو پہنچنے میں تو پونے پانچ گھنٹے بھی لگے۔ ‘‘
ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کی بات ہے، پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طلبہ اکثر اپنے مطالبات کے حق میںیا مخالف طلبہ تنظیم کے سلوک کے خلاف ہاسٹلز سے نکل کر کیمپس پل پر احتجاج کرتے ہیں اور کبھی نہر پر دونوں طرف سے آنے والی ٹریفک روک لیتے ہیں۔
شہر میں آنے جانے کا داخلہ بند ہونے سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور ایمبولینس اس ٹریفک جام میں پھنس جاتی ہیں۔ نہر کے ساتھ گزرتی یہ سڑک جناح ہسپتال،شیخ زید ہسپتال، جنرل ہسپتال سمیت کئی بڑے ہسپتالوں کی طرف جاتی ہے۔ لاہور کا کوئی بھی ہسپتال ہو ،ملتان روڈ سے آنے والے مریض کے لیے تواس سڑک پرٹریفک جام ہونا رکاوٹ ہی ہے۔یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم ایک دو بار مریض کے دم توڑ جانے کی خبر بھی سننے کو ملی ہے۔ جب ایسی صورتحال ہو تو بوجوہ حالات یونیورسٹی انتظامیہ کے قابو میں نہیں ہوتے اور ایک دو گھنٹے بعد پولیس آتی ہے، مذاکرات ہوتے ہیںاور پھر کہیں جا کر راستہ کھلتا ہے۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ایدھی سنٹر کے ایک ڈرائیور سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔اس نے بتایا کہ سڑک پر اکثر لوگ سائرن یا مائیک کے ذریعے راستہ مانگنے پر تلخ کلامی پر اتر آتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بے ہنگم ٹریفک میں پھنسے ہوتے ہیں لیکن ٹریفک پولیس کی طرف سے بے اعتنائی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ریسکیو سروس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہمارا رسپانس ٹائم سات منٹ ہے ،ہمیں اس تھوڑے سے وقت کے اندر جائے حادثہ پر پہنچنا ہوتا ہے،بعض لوگ خالی گاڑی دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ شاید ہم کسی اور کام سے جارہے ہیںاور راستہ نہیں دیتے۔
پس چہ باید کرد؟ٹریفک میں ایمبولینس کے ساتھ تعاون کے لیے ہم سب کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
سب سے پہلے تو ہمیں انفرادی سطح پر اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ہمیں چاہیے کہ جیسے ہی ایمبولینس کا سائرن سنیں،نہ صرف اس کو راستہ دیں بلکہ اس کے لیے راستہ بنانے میں کردار ادا کریں۔دیگر ملکوں میں سڑک کے دائیں طرف کی لائن ایمبولینس کے لیے خالی کردی جاتی ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بائیں طرف ہو کر ایمبولینس یا ریسکیو کی گاڑیوں کو راستہ دیں۔ اگر سڑک پر بے احتیاطی کریں اور کچھ دیر بعد آپ کو پتہ چلے کہ ایمبولینس میں مریض آپ کا اپنا عزیز تھااور راستہ نہ ملنے سے اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہے تو سوچیں،آپ پر کیا بیتے گی؟
اگر سڑک پر کوئی ایمرجنسی گاڑی یا ایمبولینس خالی سفر کر رہی ہے تو وہ فراغت سے نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زخمی یا مریض کو لینے جارہی ہے۔ان کو فوری راستہ دینا اس لیے بھی اہم ہے کہ جائے حادثہ سے مریض کو ایمبولینس میں شفٹ کرکے اسے ابتدائی طبی امداد یا کوئی اور طبی سہولت فراہم کر کے اس کی زندگی بچائی جاسکتی ہے یا جسمانی نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔
حکومت اور میڈیا کی ذمہ داری ہے اس مسئلے کی حساسیت سے لوگوں کو آگاہ کرے کہ ایمبولینس کا ٹریفک میں پھنسنا مریض کی جان کے لیے خطر ناک ہوسکتا ہے۔ عوامی آگاہی کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت ایک مراسلہ جاری کرے اور ہر علاقے کے ایس ایچ او کے ذریعے مساجد میں جمعہ کے خطبہ میں اس مسئلے کی سنگینی اور تدارک کی طرف توجہ مبذول کروائے۔ذرائع ابلاغ بالخصوص سماجی رابطے کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا )کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی اور آگاہی کا سلسلہ شروع ہو(مثلاََکوئی #ٹیگ کی مہم چلائی جائے)۔
ایمبولینس کو راستہ دینے کے حوالے سے ہمارے ملک میں کوئی واضح قانون سازی نہیں۔دیگر ملکوں میں ایمرجنسی سروسز دینے والی گاڑیوں کو راستہ دینے کے ضمن میںباقاعدہ قوانین ہیں جنہیں (Move Over Laws)کہا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے قوانین بننے چاہئیں جو یہ طے کریں کہ سڑک پر ایمبولینس کے گزرنے کا راستہ کیا ہو،سائرن کی آواز سن کر لوگوں کا کیا ردِعمل ہواور راستہ نہ دینے پریا ان پر کسی قسم کا تشدد کرنے پر کیا سزا ہوگی۔ پھر ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد بھی کرایا جائے۔ آج کل ایک خاص ذہنیت کے حامل کچھ لوگوں نے اپنی گاڑیوں پر ’’ہُو ٹر‘‘لگا رکھے ہیں،اس لیے شاید لوگ بعض اوقات ایمبولینس کی آواز کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ٹریفک پولیس کو چاہیے کہ ایسی گاڑیوں کو موقع پر نہ صرف بھاری جرمانہ کریں بلکہ انہیں گاڑی سمیت تھوڑی دیر کے لیے جیل بھجوادیا جائے۔
کئی ملکوں میں ایمرجنسی گاڑیوں کے لیے الگ ٹریک ہوتا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ایسی سہولت کا ملنا فی الحال خواب ہی ہے۔ تاہم حکومت کوچاہیے کہ بڑے شہروں کی شاہراہوں پر کوئی الگ ٹریک بنانے کا آغاز کرے ۔اگر اور کچھ نہیں تو جن شہروں میں میٹرو بس کے راستے(ٹریک)ہیں،ا ن کو ایمبولینس اور ریسکیو گاڑیوں کے آنے جانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے ۔اس سے بہت سوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔
بڑے شہروں میں ایمبولینسوں کی کسی ایک مرکز سے ریگولیشن بھی ضروری ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی خود کش حملے یا سانحہ کے بعد کئی سرکاری اور رفاہی اداروں کی ایمبولینسیں جائے وقوعہ پر ایک ساتھ پہنچ جاتی ہیں۔ اس سے بھی رش پیدا ہوتا ہے اور ایک ایمبولینس دوسری کے لیے رکاوٹ پیدا کردیتی ہے۔ علاوہ ازیںٹریفک پولیس کے تعاون سے ایمبولینس ڈرائیورز کو بھی پیشہ ورانہ تربیت دی جائے اور سڑک پر مسائل سے نمٹنے کے لیے ان کی رہنمائی کی جائے۔
ایمبولینس کو راستہ دینے کے موضوع پر تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیز میں سیمینارز اور پروگرامز منعقد کیے جائیں۔ میٹرک کے نصاب میں اس سے متعلق کوئی مضمون شامل کیا جائے۔ ہم نصابی سرگرمیوں (تقریری و تحریری مقابلوں) میں اس مسئلے کو موضوع بنایا جائے اور آرٹس کونسلز مسئلے کی نزاکت اجاگر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
اشفاق احمد کہا کرتے تھے ’’اللہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے‘‘۔بحیثیت انسان ہمارا اخلاقی و سماجی فرض ہے کہ فرمانِ الٰہی ’’ومن احیاھا فکانمااحیا الناس جمیعا‘‘(المائدہ)کو ذہن میں رکھ کر ایمبولینس کو دیکھتے ہی،آواز سنتے ہی اس کو گزرنے کے لیے راستہ دیں۔ آج کوئی اور ہے تو کل اس میں ہمارا کوئی پیارا بھی ہو سکتا ہے یاہم خود بھی ہوسکتے ہیں۔ ذرا سوچئے!
The post راستہ دیں اور زندگی بچائیں! appeared first on ایکسپریس اردو.