یہ نفرت اور دشمنی بھی عجیب بلائیں ہیں، آسیب کی طرح یوں سر پر سوار رہتی ہیں کہ آدمی ’’رانجھا رانجھا کردی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ کے مصداق دشمن کے بارے میں سوچ سوچ کر خود اپنا دشمن ہوجاتا ہے۔ اسی نفسیات کو احمد جاوید کا یہ شعر بیان کرتا ہے:
ہمیشہ دِل ہوسِ انتقام پر رکھا
خود اپنا نام بھی دشمن کے نام پر رکھا
واہگہ پار بسنے والے نریندرمودی جی بھی اسی کیفیت کا شکار ہیں۔ موصوف کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مودی تو ہیں مگر ’’موڈی‘‘ نہیں، اُن پر ہر وقت ایک ہی موڈ طاری رہتا ہے، یعنی مسلمانوں اور پاکستان پر غصے کا موڈ۔ یہ موڈ ان کی کیفیت ہی نہیں سیاسی ضرورت بھی ہے۔ اُن کا معاملہ یہ ہے کہ:
کروں گا کیا جو ’’میں نفرت‘‘ میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
لے دے کے انھیں چائے بنانا ہی آتی ہے، اس کام کو بھی چھوڑے عرصہ ہوگیا، جب مسلمانوں کے خلاف چائے کی طرح خود اُبلنے اور کھولنے لگے، تو سیاست میں گُھس آئے، اب وہ چائے کی پیالی میں طوفان تو اُٹھا سکتے ہیں لیکن یہ نہیں پتا کہ چائے بنانے کا طریقہ یاد ہے یا بھول چکے ہیں۔ بہ ہرحال، ان دنوں مودی جی کی نفرت کا اُبال زوروں پر ہے، غصے میں چولہے پر چڑھی کیتلی بنے ہوئے ہوئے ہیں۔
اُن کا یہ موڈ چھوت کی طرح بھارت میں پھیلا ہے، جسے پھیلانے میں بھارتی الیکٹرانک میڈیا آگے آگے ہے۔ الیکٹرانک میڈیا تو ہم آپ کو سمجھانے کے لیے کہہ رہے ہیں، ورنہ دنیا میں جسے الیکٹرانک میڈیا کہا جاتا ہے بھارت میں وہ ’’الیکٹرانک مودیا‘‘ ہوچکا ہے اور نہایت ’’موذیا‘‘ بھی۔ یہ موڈ مودی جی کے سر پر ایسا سوار ہے کہ ان کی زبان پر ہر وقت پاکستان یا اس سے متعلق کوئی نام رہتا ہے۔
چناں چہ گجرات کے علاقے جام نگر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مودی جی بھارتی شہر کوچی کو کراچی کہہ گئے۔ لوگ ہنسے تو جھینپ کر کہنے لگے میرے دماغ میں آج کل صرف پاکستان چل رہا ہے۔ لگتا ہے کہ جلد ہی الزام لگادیں گے کہ پاکستان ان کے بھیجے میں گُھس بیٹھا ہے، جہاں سے پاکستان کو نکالنے کے لیے بھارتی سینا کو گھسنا پڑے گا۔ خُدا خیر کرے، مودی جی کے بھیجے میں ہونے والے اس آپریشن کے دوران بساند اور سڑاند کے باعث جانے کتنے سینکوں کی جان جائے گی۔
بہ قول مودی صاحب اُن کے دماغ میں پاکستان ’’چَل رہا ہے‘‘، لہٰذا اندیشہ ہے کہ جس طرح وہ ’’کوچی‘‘ کو کراچی کہہ گئے، اس طرح کی غلطیاں آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ ہوسکتا ہے اداکار سلمان خان کی تعریف کرتے ہوئے کہہ جائیں ’’عمران کھان بہت اچھی پھائٹ کرتا ہے۔‘‘ جاویداختر کی شاعری کو سراہتے ہوئے فرمائیں ’’بھیا! قمرجاوید کے گیت نے تو ہمیں ناچنے پر مجبور کردیا۔‘‘ غضب تو تب ہوگا جب وہ خود کو نریندرمودی کی جگہ حافظ سعیدی یا اظہرمسعودی کہہ جائیں گے۔ سُننے والوں کا کیا حال ہوگا جب پردھان منتری جی اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے،’’بھارتیو! تمھارے ہر درد کا علاج حافظ سعیدی کے پاس ہے‘‘ یا ’’جنتا بھارت کے وِکاس کے لیے اظہرمسعودی کا ساتھ دے۔‘‘
The post پاکستان مودی جی کے بھیجے میں گُھس بیٹھا appeared first on ایکسپریس اردو.