ہماری بعض عادات اور مزاج جہاں ہماری شخصیت کو سنوارنے یا اس پر منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث ہوتا ہے، وہیں ہماری نفیسات اور ذہنی کیفیت بھی ہمارے ظاہر پر گہرا اثر چھورتی ہے۔ ایک طرف ہمارے سوچنے کا انداز اور کسی بھی شے یا لوگوں سے متعلق طرزِ فکر بھی ہماری شخصیت کو بنانے یا بگاڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور دوسری جانب انسانی نفسیات اور اس سے جڑے عوامل ہمیں اچھا یا برا بناتے ہیں۔
کسی بھی انسان کی شخصیت اور اس کی ذہنی کیفیت یا نفسیات بچپن کے ماحول، والدین اور لوگوں کا رویہ اور برتاؤ، خاندانی اور سماجی معاملات کے تحت تشکیل پاسکتے ہیں اور یہ مختلف طریقوں سے اثر انداز ہو کر ہمارے رویوں سے جھلکتے ہیں۔ انسانی ذہن کی گتّھیاں سلجھانا اور ان کی پیچیدگی دور کرنے کی کوئی کوشش شاید ہی کسی نے کی ہو اور اس حوالے سے اپنے تجربات دنیا کے سامنے رکھے ہوں۔ البتہ کسی بھی فرد کی ابتدائی زندگی کو جان کر ایک خاص عمر میں اس کی شخصیت میں پیدا ہونے والی کجی، کمی کو دور کر کے اسے نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے اور یہ کام یاب بھی ہوتی ہے۔ عام بات ہے کہ جہاں زندگی کے مختلف ادوار کے حالات اور مختلف عوامل انسانی شخصیت میں بعض اچھے نقش ابھارنے کا سبب بنتے ہیں، وہیں منفی سوچ اور جذبات بھی پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔ تاہم اس پر قابو پانا اور مثبت تبدیلی لانا ضروری ہے ورنہ بعض صورتوں میں یہ منفی جذبے شخصیت کو بری طرح مسخ کر سکتے ہیں۔
یہ منفی سوچ اور جذبے کسی سے مختلف وجوہ کی بنا پر اور بسا اوقات بے سبب ہی نفرت کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ ذہنی کیفیت حسد، جلن، احساسِِ کم تری، بے حسی، خود غرضی کو جنم دینے کے ساتھ کسی بھی انسان کو غیرذمہ دار اور دوسروں کے لیے ناپسندیدہ بنا دیتی ہے۔ یہ سب ابتدا میں عارضی کیفیت معلوم ہوتی ہے، لیکن بدلاؤ کی کوشش نہ کرنے اور مسلسل منفی جذبات اور ردعمل ظاہر کرنے سے یہ شخصیت کا مستقل حصّہ بن جاتے ہیں۔ ایسے منفی جذبوں کی وجہ سے آپ اپنے اہلِ خانہ، سہیلیوں اور معاشرے کے دیگر لوگوں کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابلِ برداشت بن سکتی ہیں جس کا نقصان آپ ہی کو ہوتا ہے۔ آج اگر آپ اپنی بعض عادات اور اپنے رویے کا جائزہ لینا چاہیں تو ہم آپ کو اس کا ایک عام طریقہ بتا رہے ہیں۔ اس طرح آپ جان سکتی ہیں کہ کہیں آپ بھی کسی منفی جذبے کا شکار تو نہیں؟ اور اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کسی نہ کسی طرح منفی خیالات میں گِھرا ہوا ہے، مگر مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے اندر اس قسم کے جذبات زیادہ آسانی سے پروان چڑھتے ہیں۔ تاہم پریشان نہ ہوں۔ یاد رکھیں کوئی بھی شخص کسی طرح مکمل نہیں ہوتا، ہم سبھی میں کوئی خامی یا کوئی ایسا عیب ضرور موجود ہوتا ہے جو ہماری شخصیت پر برا اثر چھوڑتا ہے۔ ان عیوب میں پہلے قدرتی طور پر ہمارے اندر رہ جانے والی خامیوں کی بات کرتے ہیں، یہ خامیاں ذہنی و جسمانی معذوری کی صورت میں ہوتی ہیں۔ اس کے آگے ہم بے اختیار ہیں۔ ایسے افراد کو ہماری خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی عادات اور رویے ہم سے رعایت، صبر اور درگزر کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خامیاں اور کمی ہوتی ہے جو ہمارے اندر کسی نہ کسی طرح پیدا ہو جاتی ہیں اور ہماری شخصیت کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ اگر آپ ایک عورت ہیں تو ان باتوں کا آپ کی زندگی پر گہرا اثر پڑے گا اور یہ آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
٭ سوچیے کہ کسی خلافِ مزاج بات یا واقعے پر آپ ایک دَم غصے میں آجاتی ہیں اور آپ کے اندر ایک لاوا سا اُبلنے لگتا ہے، دل چاہتا ہے کہ سب کچھ تلپٹ کردیں، اپنی ذات یا دوسروں کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچائیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ غصّے کی عادی ہو چکی ہیں اور آپ کے اندر برداشت ختم ہو چکی ہے۔ یہ ایک منفی جذبہ ہے۔ جب کہ آپ جانتی ہیں کہ اکثر باتیں ہمارے مزاج کے خلاف ہوتی ہیں اور اس حوالے سے رواداری اور درگزر کی عادت ڈالنی چاہیے۔
٭ کیا دنیا میں کوئی وجود ایسا بھی ہے جو آپ کے لیے سخت ناپسندیدہ ہے، آپ کی دلی خواہش ہو کہ وہ اب مزید نہ رہے، یا پھر اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے، اسے تباہ و برباد کرنے کا خیال آپ کے دل میں شدت سے موجود ہو اور اس سے جان چھڑانا ممکن نظر نہ آتا ہو۔ اگر ایسا ہے تو آپ نفرت کرنا سیکھ چکی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ نفرت خود ایک قابل مذمت جذبہ ہے۔ کسی بھی انسان سے ذاتی رنجش اور کسی وجہ سے اختلاف رکھنے کے باوجود آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اس کے لیے انتہائی برا سوچیں۔ نفرت کو دفن کر دیں۔ یہ آپ کی صلاحیتوں اور وقت کو نگل رہی ہے۔ اختلاف اور ناپسندیدگی ایک حد تک بہرحال قابلِ قبول ہے اور یہ عام بات ہے، مگر اس سے زیادہ سوچنا آپ کی شخصیت کو برباد کر رہا ہے۔
٭ کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ کی سہلیاں آپ سے مخلص نہیں، محض مطلب اور ضرورت پڑنے پر آپ سے ملتی ہیں۔ اگر یہ خیال چند ایک کے بارے میں ہے تو کسی حد تک درست ہو گا، کیوں کہ یہ بھی انسان کی فطرت ہے اور ایسے لوگ ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں، لیکن اگر آپ سب کے لیے ہی ایسا سوچتی ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپ کی شخصیت میں کمی ہے اور آپ بے اعتمادی کا شکار ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ اپنے اندر اس حوالے سے مثبت تبدیلی لائیں۔ تمام لوگ ایسے نہیں ہوتے۔ شک کرنے کی عادت اور غیر ضروری طور پر دوسروں کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلینا ایک منفی جذبہ ہے۔
٭ حسد اور جلن بھی انسان کی شخصیت کو کھا جاتے ہیں۔ کیا آپ کو اپنے ارد گرد موجود خود سے کسی بھی حوالے سے بہتر لوگوں سے چڑ ہوتی ہے۔ وہ آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے، دوستوں کی کام یابی آپ کو اچھی نہیں لگتی، دوسروں کی ترقی کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے، دوسروں کی سماجی حیثیت، خوب صورتی، ان کا ہر دلعزیز ہونا آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہے؟ جان لیں کہ آپ حسد کا شکار ہیں۔ یاد رکھیے! اس طرح ان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگر آپ خود کو زندگی کی حقیقی خوشیوں سے دور کررہی ہیں۔ ان سے سیکھنے کی کوشش کریں، ان کی حیثیت کا احترام کریں اور سوچیں کہ آپ بھی ان جیسی بن سکتی ہیں۔
٭ کیا آپ سوچتی ہیں کہ دوسرے آپ سے زیادہ باصلاحیت ہیں، وہ جو کام کرسکتے ہیں آپ اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکتیں ، آپ ہر معاملے میں اپنے آپ کو پست گردانتی ہیں، یہ احساس کم تری کا جذبہ ہے، جو آپ کی شخصیت کو گھن کی طرح کھا رہا ہے، کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ آپ یہ نہیں کرسکتیں، وہ نہیں کرسکتیں، اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ جب جسمانی طور پر معذور شخص پہاڑ کی بلند چوٹی سَر کرسکتا ہے، تیرنے کا عالمی ریکارڈ بنا سکتا ہے، ہاتھ نہ ہونے کے باوجود اپنے پاؤں سے آرٹ تخلیق کرسکتا ہے تو پھر آپ کیوں نہیں کچھ کر سکتیں۔ کم از کم آپ اپنے گھر کو اچھی طرح سجانے اور سنوارنے کے ساتھ اپنے اہلِ خانہ کے سکون اور ان کی زندگی آسان بنانے کے لیے تو اپنی توانائیاں صرف کر سکتی ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی کام یابی ہے۔ اپنے گھر والوں کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مختلف شکلوں میں بروئے کار لائیں۔ کیا صرف پہاڑ کی چوٹی پر جھنڈا گاڑنا اور کوئی فن پارہ تخلیق کر کے شہرت پانا ہی کمال ہے؟
٭ آپ کوئی کام کرنے سے پہلے بار بار سوچتی ہیں، ارادہ کرتی ہیں اور پھر ملتوی کردیتی ہیں، اور بار بار ایسا کرتے ہوئے کوئی بھی کام سَر انجام نہیں دے پاتیں، یہ جھجھک آپ کو نکالنا ہو گی۔
٭یہ بات تسلیم کرتے ہوئے سب ہی ہچکچاتے ہیں کہ وہ غیر ذمے دار ہیں، لیکن اگر آپ ضروری کاموں کو ٹال دیتی ہیں، چھوٹی بڑی باتوں کا خیال نہیں کرتیں، اپنے رویوں اور کام کے لیے آپ کی سوچ ’’سب چلتا ہے‘‘ والی ہے تو تسلیم کرلیجیے کہ آپ غیر ذمے دار ہیں۔ اس حوالے سے خود کو بہتر بنانے کی سعی کریں۔ ہر معاملے میں ذمہ داری کا ثبوت دیں تو آپ خود اپنے اندر تبدیلی محسوس کریں گی۔
٭ آج انسان جس قدر مصروف ہوتا جارہا ہے، بے حس اور سرد مہری کا مظاہرہ کرنے لگا ہے۔ یہ منفی جذبہ غیر محسوس انداز میں اس پر حاوی ہوتا جارہا ہے، ماضی میں کسی کی تکلیف پر لوگ بے چین ہوجایا کرتے تھے، اس کی پریشانی اور مشکل میں ہر طرح سے کام آنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن آج حالات بہت بدل چکے ہیں۔ آپ اپنا جائزہ لیجیے کہ کہیں آپ بھی بے حس تو نہیں ۔
٭ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ ہر جگہ، ہر معاملے میں اپنے مفادات عزیز رکھتی ہوں، دوسروں کے جذبات، احساسات، رشتوں کی اقدار سے زیادہ اپنی ذات کو اہمیت دیتی ہوں، اپنے ذرا سے فائدے کی خاطر دوسروں کے نقصان کی پروا نہیں کرتیں، ایسا ہے تو یقین جانیے! آپ بہت جلد تنہائی کا شکار ہونے والی ہیں، خود غرضی کے اس منفی جذبے سے جتنی جلد ممکن ہو نجات حاصل کر لیں۔
یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ منفی جذبے کسی بھی قسم کے ہوں، شخصیت کی خامی تصور کیے جاتے ہیں، یہ شخصیت کی تکمیل اور لوگوں میں آپ کی مقبولیت کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ ایسے تمام تر جذبوں کا خاتمہ پختہ ارادے کے ساتھ ثابت قدم رہ کر کیا جاسکتا ہے۔
The post آئیے، خود کو بدلیں!! appeared first on ایکسپریس اردو.