اندرون لاہور میں واقع ایک عظیم الشان کوٹھی میں نواب فیروز خان کا خاندان رہتا تھا۔ علاقے میں سب انھیں نواب صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ نواب صاحب کی شان و شوکت قابل دید تھی۔ اونچی پگڑی، چست شیروانی اور کامدار کھسہ ان کا لباس تھا۔ جب وہ اس شان سے بگھی میں بیٹھ کر بازار سے گزرتے تو دکان دار اور راہگیر مڑ مڑ کر انہیں دیکھتے تھے۔
ان کے انداز سے غرور و تکبر جھلکتا تھا۔ نواب صاحب کے خاندان میں کل پانچ لوگ تھے: دو بیٹے، ایک بیٹی، بیگم اور اماں بی۔ بیگم صاحبہ تو ہر وقت سونے کی دکان بنی رہتیں، نمائش میں اپنے شوہر سے دو ہاتھ آگے تھیں۔ اماں بی ٹھہرے ہوئے مزاج کی عورت تھیں مگر ان کی کوئی نہ سنتا تھا۔
نواب صاحب کے بیٹے اپنے شوق کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے والد کی پگڑی اونچی رکھنے کے لیے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اب رہ گئی نواب زادی ماہ فیروز جو عمر میں سب سے چھوٹی تھی، وہ بھی اپنے ماں، باپ کے غرور و تکبر کی وجہ سے ان جیسی ہوگئی تھی، ملازموں اور غریبوں سے بہت برا سلوک کرتی، انھیں بری طرح دھتکارتی اور ذلیل کرنے کے موقع ڈھونڈتی رہتی۔
ایک دن وہ دالان میں کھڑی تھی کہ کسی فقیر نے دستک دے کر صدا لگائی:’’ہے کوئی میری مدد کرنے والا؟‘‘
ماہ فیروز دروازے تک گئی تو فقیر نے کہا:’’اللہ نوابوں کی شان سلامت رکھے۔ تم ہمیں دو گے تو اللہ تمہیں اور دے گا۔ اللہ بھلا کرے گا بیٹی! کچھ کھانے کو دے دو!‘‘
ماہ فیروز نے غرور بھرے لہجے میں کہا:’’اب کیا نوابوں کی شان تجھ جیسے کمی کمینوں کی وجہ سے ہے؟ تم جیسوں کا تو کام ہی در در جا کر بھیک مانگنا ہے، جاؤ جا کر کہیں اور مانگو!‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ملازم کو دروازہ بند کرنے کا اشارہ دیا۔ فقیر نے اس سے نرمی سے کہا:’’بی بی! ان کوٹھیوں پہ غرور نہ کر! آج تیری تو کل کسی اور کی۔‘‘ ابھی بات اس کے منہ میں ہی تھی کہ دروازہ بند ہو گیا۔
ماہ فیروز کے ذہن میں وہ الفاظ نقش ہوگئے، وہ اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھی تھی کہ اچانک اس نے دیکھا کہ اس کے کپڑے انتہائی پھٹے ہوئے اور حالت بے حد خراب تھی۔ اپنے ہی گھر کی کی دہلیز پر بیٹھی گڑگڑا رہی تھی۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو نام والی تختی (نیم پلیٹ) بدل چکی تھی۔ اب اس پر اس کے باپ کا نام نہیں لکھا تھا۔ اسے دھچکا لگا۔ اس پر اپنے ہی گھر کا دروازہ بند ہو چکا تھا، بالکل اسی طرح جیسے اس نے اس فقیر کے لیے کیا تھا۔ اچانک اس کی آنکھ کھلی اور اس نے خود کو کرسی پر پایا۔ اپنے قیمتی کپڑوں کو چھو کر دیکھا سب کچھ ٹھیک تھا۔ وہ پریشانی سے بھاگتی ہوئی باہر گئی، دروازے کے باہر لگی تختی کو دیکھا، اس پر وہی نام تھا: نواب فیروز خان۔ اس کی جان میں جان آئی کہ وہ صرف ایک خواب تھا۔
وہ اندر گئی، اپنی دادی کی گود میں سر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ پھر سارا ماجرا بیان کیا۔ اماں بی نے اسے پیار کیا اور کہا:’’بیٹی! اس فقیر نے سچ کہا تھا، نام، رتبہ، شان سب عارضی ہیں۔ غرور و تکبر انسان کو اللہ کی نظر میں گرا دیتا ہے۔ اگر اس نے آج یہ شان و شوکت دے رکھی ہے تو کل چھین بھی سکتا ہے۔ کیا پتا کہ کل وہی فقیر تمہاری جگہ ہو اور تم اس کی جگہ! اگر رب نے تمہیں مال دیا ہے تو وہ خدا کی مخلوق کے لیے ہے، تمہیں کون سا اپنی جیب سے دینا ہے، یہ تو سب اس ذات کی عطا ہے۔ تم ایک دو گی تو تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ وہ تمہیں کہاں کہاں سے نواز دے۔ نام والی تختیاں تو بدلتی رہتی ہیں، باقی نام صرف اللہ کا رہے گا۔‘‘
تب سے ماہ فیروز نے اماں بی سے عہد کیا کہ میں آئندہ کبھی کسی کو اپنے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹاؤں گی اور نہ ہی کسی کے ساتھ بدسلوکی کروں گی، کیوں کہ وہ یہ حقیقت جان چکی تھی کہ یہ شان و شوکت یہ محل عارضی چیزیں ہیں، ہمیشہ رہنے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے۔
The post نام والی تختی appeared first on ایکسپریس اردو.