Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

اسلام یا سیکولرازم : ترکی کا مستقبل کس کے ہاتھ میں ہوگا؟

$
0
0

90برس قبل ایشیا اور یورپ کے مشترکہ ’’مرد بیمار‘‘ ترکی کو مصطفی کمال اتا ترک کی شکل میں ایک نجات دہندہ ملا۔

مرحوم نے مذہب کو مسائل کی جڑ سمجھتے ہوئے اس سے نجات اور سیکولرازم کا تریاق دے کر مرد بیمار کے معالجے کی ایک کوشش کی۔ انہی خیالات کی بناء پرانہوں نے ملک کو سیکولر پہچان دینے کے لیے ایسے فیصلے بھی کردیے جس کی جرأت ماضی کی بادشاہتوں میں کسی حاکم وقت کو بھی نہیں ہو پائی تھی۔

مصطفی کمال نے جب ’ مردِ بیمار‘ کے معالجے کے لیے اسلامی اقدار پرنشتر زنی کی تواس وقت ملک کثیرالقومی ریاست تھا۔ ترک، آذر، ازبک، البانوی، تاتاری، چیچن، جارجین، آرمینین،بوسنیائی، کرد، عرب، تاجک ، بلغارین ، یونانی، قبرصی، ایشیائی اور یورپی قوموں کا ایک ملغوبہ تھا۔ترکوں کے بابائے اعظم نے ان تمام اقوام کو ایک خاندان میں ڈھالنے کا خواب دیکھا، جس کے لیے انھیں صرف سیکولر نظام حکومت ہی پہلا اور آخری حل نظرآیا۔1923ء میں جب انہوں نے ری پبلیکن پارٹی کی حکومت قائم کی انہیں اندازہ ہوا کہ ملک کے طول وعرض میں پھیلے اس کثیرالقومی چربے کویکجا کرنا کتنا مشکل کام ہے۔

چونکہ مذکورہ تمام اقوام خلافت عثمانیہ کے دور سے ترکی کے سماجی دھارے کا حصہ بن چکی تھیں اس لیے سیکولر نظام ان سب کے لیے زیادہ قابل قبول ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ مصطفی کمال اتاترک کا سیکولرازم اپنی تمام ترجدت سامانیوں کے علی الرغم جمہوری استبدادیت بن کر رہ گیا۔ ملک میں بسنے والے عیسائیوں اور دیگراہلِ مذاہب نے بھی کمالی سیکولرازم کوآمرانہ نظام حکومت قرار دے کر اس کے خلاف تحریکیں شروع کردیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اتاترک نے نہ صرف اسلامی اقدار پر پابندی عائد کردی تھی بلکہ اس جمہوری استبدادیت کی زد عیسائیوں اور دیگر اہلِ مذاہب کی مذہبی آزادی پربھی پڑ رہی تھی۔

مصطفی کمال کی قائم کردہ ریپبلکن پارٹی 1950ء تک ریاست کے سیاہ سفید کی مالک تھی۔ جوطبقے خلافت عثمانیہ کے دور میں خلیفہ کے فیصلوں سے تنگ تھے، اب وہ ری پبلیلکن پارٹی سے بھی نالاں ہونے لگے تھے۔ خود پارٹی کے اندر ایک بھونچال تھا، نتیجہ پارٹی کی پھوٹ کی صورت میں نکلا۔ پارٹی کے ایک زیرک رہ نما عدنان مندریس نے بغاوت کرتے ہوئے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی قائم کرلی۔ عدنان مندریس کی بغاوت اتا ترک کے نافذ کردہ نظام حکومت کی مربوط کڑی کا وہ پہلا دانہ تھا جس کے بعد آج تک اس میں سے دانے مسلسل گر رہے ہیں۔

جدید ترکی بہت بدل چکا ہے۔ جہاں اب مذہب اور سیکولر نظام میں فیصلہ کن جنگ شروع ہوچکی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ترکی کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ملک ایک مذہبی ریاست کی جانب بڑھ رہا ہے؟ کیاترکوںکی خوئے خلافت اور جہاں بانی ایک مرتبہ پھر سے جاگ رہی ہے؟ یا یہ سب وقتی سیاسی تبدیلی ہے اور ترکی کی متحدہ اقوام کمالی فلسفے کو دل جان سے لگائے رکھیں گی؟ یہ سوالات ان دنوں ترک لٹریچر کا حصہ ہیں۔ انہی موضوعات پر کتب شائع ہو رہی ہیں اور طلباء ان پر تعلیمی مقالے لکھ رہے ہیں۔

مصرکی جامعہ الازھر سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کرنے والے جرمن مستشرق ڈاکٹر رائر ہیرمن (Raier Hermann) کی تازہ کتاب’’ترکی سول سٹیٹ سے مذہبی ریاست تک‘‘ میں ترکی کے سیاسی مستقبل کے خدوخال کے بارے میں تقریباً انہی سوالات کے جوابات کے ساتھ ایسے تہلکہ خیز تجزیات اور حقائق بھی پیش کیے گئے ہیں، جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ مصنف لکھتے ہیں:

’’مصطفی کمال اتاترک نے سیاست اور سماج کو مذہب سے الگ کرنے کا ایک ایسا نامعقول اقدام کیا جس کے نتائج توقع کے برعکس نکلے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ترکی میں موجود اقوام کو سیکولرازم کے ذریعے اپنا’’سسرالی‘‘ خاندان بنا لیں گے مگر ان کے وضع کردہ نظام کو اس وقت کاری ضرب لگی جب ان کی اپنی جماعت’ری پبلیکن‘ کے اندر سے کمالی نظام کے خلاف آواز اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ توانا آواز سابق مصلوب وزیراعظم علی عدنان ارتکین مندریس تھے ،جنہوں نے مصطفی کمال کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔

تاہم کمال مذہب کو سیاست کی افیون قرار دینے والے اتا ترک ریاستی معاملات میں فوجی سیاست کی ایسی لت ڈال چکے تھے کہ اب فوج کے منہ کو لگی سیاست کسی طورپر چھٹ نہیں رہی تھی۔ فوج کسی قیمت پر کمالی سیکولرنظام میں تبدیلی کی روادار نہیں تھی۔ فوج کے خیال میں مندریس کی بغاوت کے بعد ان کی سیاست میں کی گئی اصلاحات مذہب کو سیاست میں لانے کی کوشش تھی ۔ اس کی سزا کے طورپر1960ء میں فوج نے ایک بڑی غلطی کرتے ہوئے مندریس کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ آج اگر فو ج کو سیاست سے بے دخل کردیا گیا ہے تو اس میں ایک بڑا کردار خود فوج کے ماضی کا بھی ہے‘‘۔

سترہ سال تک استنبول میں رہنے والے جرمن مصنف اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ عدنان مندریس کی پھانسی ترک سیاسی نظام میں تبدیلی کا نقطہ آغاز تھا۔ چونکہ وہ اپنے دور میں اتاترک کی اسلامی روایات پر عائد بہت سی پابندیوں کو کالعدم قرار دے کرانہیں کسی حد تک آئینی تحفظ بھی دلا چکے تھے، اس لیے فوج کو ان تمام تبدیلیوں کوبیک جنبش قلم ختم کرنا ممکن نہ تھا۔ فوج نے انہیں پھانسی پرلٹکا تو دیا مگرمندریس کے اقدامات نے اسلام پسند حلقوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی جس کے نتیجے میں ملک کے دانشور طبقے کے ترجمان پروفیسر نجم الدین اربکان نے 1969ء میں نظام پارٹی کی داغ بیل ڈال کرسیاسی تالاب میں ایک نیا ارتعاش پیدا کردیا۔

پروفیسر اربکان کی جماعت مذہبی بنیادوں پرقائم کی گئی تھی، اس لیے فوج کے لیے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ فوجی حکومت نے نظام پارٹی پرپابندی عائد کردی۔ فوج نے ایک دوسری بڑی غلطی ملک کے ایک ہردلعزیز مبلغ سعید نورسی کو ملک بدر کرکے کی۔ اسلام سے کسی حد تک لگاؤ رکھنے والے طبقات کے لیے علامہ نورسی کی ملک بدری ناقابل برداشت ثابت ہوئی، اس کے رد عمل میں پروفیسر اربکان کی سیاست مضبوط ہونے لگی۔ آج جوکچھ ترکی کی سیاست میں دیکھا جا رہا ہے وہ فوج کی انہی غلطیوں کا ایک رد عمل ہے۔ جب تک فوج اپنی ڈھٹائی اور من مانی پر تلی رہی مصطفی کمال کا نافذ کردہ سیکولر نظام بھی معاشی ترقی کا موجب نہ بن سکا، جب عوام کو اپنی مرضی کے مطابق سیاست کے اہل لوگوں کو منتخب کرنے کا موقع دیا گیا تو معاشی ترقی چوکڑیاں بھرتی آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال سے صاف لگ رہا ہے کہ کمالی فلسفے کے تحت بنائی گئی سیکولرزم کی معجون اب زائد المیعاد ہوچکی ہے‘‘۔

ایک مصری محقق محمد صادق اسماعیل کی کتاب’’اتا ترک سے اردگان تک…ترکی کا سیاسی تجربہ‘‘ میں بھی ملک میں آنے والے پے درپے سیاسی انقلابات اور مستقبل کے سیاسی نقشہ راہ پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب کے مصنف کاماننا ہے کہ ’’ترک عوام پاپائے اعظم کمال اتا ترک کے نظام کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ ان کی باقیات حتیٰ کہ فوج بھی اب بخوبی سمجھ چکی ہے کہ ریاست کا مستقبل ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے‘‘۔

اسماعیل صادق کتاب کے باب نمبر پانچ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہو سکتا ہے کہ یہ بات بہت سے ترکوں کے لیے ناگوار ہو کہ ترکی ایک مذہبی ریاست بننے جا رہا ہے، لیکن یہ امر ایک مسلمہ حقیقت کا روپ دھارچکاہے۔ عدنان مندریس کے بعد سیکولرطبقات کو سیاسی میدان میں سوائے شکست کے کچھ نہیں ملا‘‘۔ سیاسی تبدیلیوں کے محرکات کے بعد انہوں نے موجودہ حکمران جماعت ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ کے اقدامات اور اس کے دور میں ہونے والی ترقی کا سیکولر دور کے ساتھ ایک تقابل کیا ہے۔

تقابلی جائزے میں وہ رقم طراز ہیں کہ ’’ کمال اتا ترک ملک کو ترقی کے بام عروج تک پہنچانے کا خواب دیکھ رہے تھے، صرف اسی مقصد کے لیے انہوں نے ملک کو مذہبی سیاست سے آزاد کرنے کی ٹھانی، لیکن مرحوم کے جانشین حتیٰ کہ ان کا اپنا نافذ کردہ نظام پوری طرح ناکام رہا۔ ملک کی معاشی ترقی کا وہ خواب اسلام پسندوں نے شرمندہ تعبیر کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ترکی کو ایک طاقتور ریاست بنانے کی صلاحیت صرف ان میں ہے۔ ان کے سیکولرسیاسی حریف اپنے اندر ملک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسماعیل صادق افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اچھا ہوتا کہ سیکولر جماعتیں بالخصوص کمالی نظام کے پیروکار اپنے اندرسیاسی بالغ نظری کے ساتھ کوئی طیب اردگان پیدا کرسکتے‘‘۔

ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اسماعیل صادق کا تجزیہ ہے کہ وزیراعظم طیب اردگان اور صدرعبداللہ گل کی جسٹس پارٹی تھوڑی سی مزید وسعت نظرپیدا کرے تو وہ آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرسکتی ہے۔ اگر جسٹس پارٹی پارلیمان میں دو تہائی اکثریتی جماعت بن گئی تو فوج اور سیکولر طبقات کے لیے یہ بری خبر ہوگی۔ خدشہ ہے کہ فوج ایک مرتبہ پھر اپنے دانت تیز کرنا شروع کردے گی کیونکہ فوج ترکی کو ایک کمزور معاشی ملک کے طورپر گوارا کرسکتی ہے مگر مذہبی ریاست چاہے وہ کتنی ہی معاشی طورپر مضبوط ہو قابل قبول نہیں ہوگی۔

العربیہ ٹی وی چینل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ترک پارلیمنٹ میں اسلامی قوانین کی منظوری اور غیراسلامی دفعات کے خاتمے کے لیے جو لچک آج دیکھی جا رہی ہے پچھلے نوے سال میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔
اس لچک کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ نوے سال کے بعد ترک پارلیمنٹ مشرف بہ حجاب ہوئی ہے۔ 1999ء میں فضیلت پارٹی کی مروہ قاؤجی حجاب اوڑھ کرایوان میں آئیں تو اس وقت کے وزیراعظم بلند ایجوت نے انہیں نہ صرف پارلیمنٹ سے نکال دیا بلکہ ملک بدر بھی کردیا گیا۔ جس کے بعد مروہ امریکا چلی گئیں۔

آج بھی وہی پارلیمنٹ ہے لیکن ری پبلیکن پارٹی نے خواتین ارکان کے سکارف اوڑھنے پر رسمی احتجاج ضرور کیا ہے لیکن انہوں نے بھی مان لیا ہے کہ حالات تیزی سے حکمران جماعت کے لیے سازگار ہو رہے ہیں۔ فوج اس حقیقت کو تسلیم کرچکی ہے کہ اب پارلیمنٹ ملک کا ایک مضبوط اور بالادست ادارہ ہے وہ اپنی حدوں میں رہتے ہوئے خود کو دفاع تک محدود رکھے گی۔ تاہم فوج میں ایسے عناصرموجود ہیں جو بیرونی اشاروں اور نادیدہ قوتوں کی مدد سے انتشار پھیلا سکتے ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو ترکی کو طیب اردگان اور عبداللہ گل جیسے لوگوں کے ہاتھوں ایک مذہبی ریاست بنتا دیکھ رہے ہیں‘‘۔

اسلام پسند قابل اعتماد کیوں؟
کتاب ’’اتا ترک سے اردوگان تک‘‘ کے مصنف آخر میں اعتراف کرتے ہیں کہ ملک کی معاشی، خارجہ اور دفاع کی تین بڑی پالیسیوں میں جو کامیابی جسٹس پارٹی اور وزیراعظم طیب اردوگان کو ملی ہے وہ عوام کے اعتماد کا نتیجہ ہے لیکن قوم نے جسٹس پارٹی پر اعتماد اس لیے کیا کہ اردگان اور ان کے ساتھیوں نے انتخابی مہمات میں جو نعرے لگائے تھے ان سے بڑھ کر وہ عوامی توقعات پر پورا اترے ہیں۔ انہوں نے ترکی کا عالمی اور علاقائی سفارتی وسیاسی کردار بحال کیا۔

گوکہ یورپی یونین کی رکنیت تو نہیں مل سکی مگر یورپ کے سوئٹرزلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں ملک کو کھڑا کردیا۔ تیسری کامیابی دفاعی میدان میں ہوئی ۔ سیکولر نظام کے باوجود ترک عوام دلی طورپر فلسطینیوں سے بے حد ہمدردی اور اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ جسٹس پارٹی نے عوام کے اسرائیل مخالف جذبات سے بھی بھرپور استفادہ کیا ۔اسلام پسندوں نے اسرائیل اور فلسطینی ’’فیکٹر‘‘ بارے عوامی موڈ کو دیکھتے ہوئے دفاعی پالیسی میں جوہری تبدیلیاں کی ہیں۔ اسرائیل اور یورپ سمیت تمام ملکوں کے ساتھ حقیقی معنوں میں برابری کی سطح پربات کا ڈھنگ اختیار کرکے عوام کو مزید حوصلہ دیا ہے۔

جہاں تک معاشی ترقی کا معاملہ ہے تو اس میدان میں بھی اسلام پسندوں نے معجزاتی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ 2005ء سے قبل ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کا سالانہ حجم صرف ایک ارب ڈالر تھا جو جسٹس پارٹی کی حکومت بننے کے صرف ایک سال میں نو ارب ڈالر اور دوسرے برس 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا۔ 2005ء میں ترکی میں کام کرنے والی غیرملکی سرمایہ کار کمپنیوں کی کل تعداد 1200تھی لیکن 2006ء میں یہ تعداد 15000سے تجاوز کرگئی، ان میں نصف فرمیں یورپی یونین کی تھیں۔

جسٹس پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں ترکی کے جی ڈی پی کا حجم تاریخ میں پہلی مرتبہ 400 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا۔ جس کے بعد انتہائی مختصر عرصے میں یہ مرد بیمار یورپ کے امیر ترین ملکوں سوئٹرزلینڈ، سویڈن اور بیلجیم کے مدمقابل آن کھڑا ہوا۔ یوں ترکی یورپ کی چھٹی بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ جرمنی اور ترکی دونوں پڑوسی ہونے کے اعتبار سے ایک دوسرے کی درآمدات وبرآمدات کی بڑی مارکیٹیں ہیں لیکن سابقہ حکومتوں کے دور میں دونوں ملکوں میں صرف دس سے پندرہ کروڑ ڈالرکا سامان درآمدات کی مد میں بھیجا جاتا تھا، جسٹس پارٹی کے پہلے دور حکومت میں دو طرفہ تجارت کا حجم 9.1 ارب یورو کی نفسیاتی حد بھی عبور کرچکا ہے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>