Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سارے رنگ

$
0
0

’’جملہ حقوق محفوظ ہیں‘‘ کا ایک منفرد انتباہ!

مرسلہ: فاروق احمد، کراچی

ایک نہایت اچھوتا ’کاپی رائٹ نوٹس‘ جو اردو کے ایک ثقہ ادیب نے دہلی کے موقر روزنامے میں شائع کیا، کچھ اس طرح تھا:

’’پہلے بھی خبردار کیا تھا اور دوبارہ کہے دیتے ہیں کہ جو بھی جملہ حقوق کے معاملے میں ہاتھ ڈالے گا اور اس بابت سرمایہ کاری کرے گا، وہ اپنے نقصان کا بہ نفسِ نفیس ذمے دار ہوگا اور مقدمہ بازی کی لاگت بھی اپنے پلے سے ادا کرے گا۔۔۔ ہم بارہا وارننگ دے چکے ہیں، اس کے باوجود اگر کچھ طالع آزما اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا چاہتے ہیں، تو بہ صدِ شوق کٹوائیے اپنی ٹانگیں۔۔۔ ڈبوایئے اپنی لٹیا۔۔۔ فالتو کا پیسہ ہے، تو جرمانے اور ہرجانے کی مد میں ادا کرنے کے بہ جائے کسی فلاحی رفاہی ادارے میں بانٹ آئیے، ورنہ الف ہو یا ب، سب کا تین پانچ ہو جائے گا۔۔۔ میرا پیغام محبت ہے، جہاں تک پہنچے۔۔۔!‘‘

خانہ پُری، آگ کو کھیل ’’پتنگوں‘‘ نے سمجھ رکھا ہے۔۔۔!

ر ۔ ط ۔ م

ہمارے اسی میگزین کے صفحات پر ایک نہایت دل چسپ مضمون ’پتنگوں سے کھینچی جانے والی گاڑیوں‘ پر بھی شامل ہے، جسے پڑھ کر ہمیں تعجب ہوا کہ ماضی میں ایسا عجوبہ بھی ہو چکا۔۔۔!

ویسے صاحب، یہ تو گاڑیاں ہیں، ہمارے ہاں تو کئی حکومتیں تک ’پتنگوں‘ سے کھینچی جا چکی ہیں۔۔۔ اس مضمون کے مطابق ’پتنگ سے گاڑی چلانے و الے ’جارج پوکوک‘ نے اندازہ لگایا تھا کہ پتنگوں میں کسی چیز کو اُٹھانے یا بلند کرنے کی بہت زبردست طاقت ہوتی ہے۔‘

جی بالکل۔۔! ہمیں تو اس ’طاقت‘ کا اچھی طرح تجربہ ہے، یہاں کس طرح بہت سے لوگ ’پتنگ‘ سے بندھے، تو اتنے بلند ہوئے کہ ان کے پیر ہی زمین سے اٹھ گئے۔۔۔! پھر باقی کچھ ’اُٹھ‘ ہی گئے اور کچھ ایسے بھی اٹھے کہ ’بے چارے‘ ملک سے باہر گئے۔۔۔ (پھر بہت سے ’اُٹھ اُٹھ کے واپس بھی آئے) بہت سے یہاں ’اپنوں ‘پر ہی چڑھ دوڑے۔۔۔ ’بے زمینی‘ کے طعنوں سے تنگ بہت سی ’پتنگوں‘ نے ’طیش‘ میں آکر اپنی ہی گلیوں اور محلوں کی ’زمینوں‘ کو ہی ’’اپنا لیا‘‘ (چائنا کٹنگ) شاید ’دو فی صدیہ زمیں داروں‘ کے خلاف اس ’تحریک‘ کا مقصد انہوں نے اپنی ہی ’’دو فی صدیہ‘‘ میں شمولیت کو بنا لیا تھا۔۔۔ اور پھر جب برباد کرنے کو کچھ باقی نہ رہا تو ؎

آگ لگا کے شہر میں، فتنے جگا کے دہر میں

جا کے الگ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ’ہم نہیں!‘

اُس مضمون میں لکھا ہے کہ ’انیسویں صدی میں تجرباتی طور پر پتنگ کی ڈور سے کچھ چھوٹے چھوٹے پتھروں کو باندھا جاتا، جو آسمان کی گہرائیوں میں جا کر گم ہو جاتے۔‘ گویا ’’چھوٹے پتھروں‘‘ کا ’پتنگ‘ سے جڑ کر گُم ہونے کا قصہ کوئی آج کی بات نہیں۔۔۔ یہاں تو کافی بڑے بڑے ’پتھر‘ بھی تھے، جو ’بوکاٹا‘ کے بعد گرے بھی تو ہمی پر گرے، بولے ’یہ آدمی ہمیں کہاں لے آیا۔۔۔!‘

جیسے جیسے ’’پتنگ گاڑی‘‘ والا ’جارج پوکوک‘ بڑا ہوتا گیا اس کے تجربے اور بھی زیادہ شدید اور خطرناک ہوتے چلے گئے۔‘ جی، بالکل! یہاں بھی اس باب میں تجربات کافی خطرناک ہوئے، پھر اس نے اپنے تجربات میں جو کچھ لکھا، آپ اس کی کوئی دوسری توجیہہ بھی ضرور ڈھونڈیے گا، ورنہ یقین مانیے ساری ’’خانہ پُری‘‘ رائیگاں جائے گی۔۔۔!

اُس نے لکھا کہ ’اس سفر کے لیے بپھری ہوئی ہوائوں کو لگامیں ڈالنا ہوں گی اور انہیں اپنے قابو میں کر کے اپنی پتنگ سے چلنے والی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لیے مہارت اور ہوشیاری کی ضرورت ہوگی۔ جب ہم فضا میں بلند ہوتی پتنگوں کو قابو میں کر کے اپنی منزل پر پہنچنے میں کام یاب ہوں گے، تو ہمیں زبردست خوشی اور اطمینان حاصل ہوگا۔‘

اب آپ سامنے ہی ہے کہ یہاں بھی ’پتنگ‘ سے چلنے والوں کے لیے بپھری ہوا کو قابو میں نہ کیا جا سکا، تو کیا کیا ہوا۔۔۔ اب دیکھتے ہیں کہ کب ’پتنگوں کو قابو میں کر کے ’منزل‘ پہنچا جاتا ہے۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ کہ یہاں ’پتنگ باز‘ اور ’منزل‘ ایک دوسرے کا ’تضاد‘ قرار پائے ہیں!

تاریخ بتاتی ہے کہ ’جارج پوکوک‘ کی ’پتنگوں‘ کا تجربہ تو کام یاب نہ ہوا، کیوں کہ ’پتنگ‘ بھلے مضبوط ’ڈور‘ سے بندھی ہو، لیکن بپھری ہوئی ہَوا کو ’قابو‘ میں رکھنا تو اب تک خواب ہی ہے! یہ ہَوا جب منہ زور ہوتی ہے تو ’پکی‘ ڈور ’پتنگ‘ نہیں بچاتی، الٹا ہاتھ ’کٹا‘ کر ڈور سمیت ہی ’اُڑن چھو‘ ہو جاتی ہے۔۔۔!؎

آگ کو کھیل ’’پتنگوں‘‘ نے سمجھ رکھا ہے

سب کو ’انجام‘ کا ڈر ہو یہ ضروری تو نہیں!

’اسرار خودی‘ کتنی بار پڑھی ہے؟

مرسلہ: محمد اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

ایک دفعہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے علامہ اقبال سے دبی ہوئی زبان سے یہ عرض کا کہ ’اسرار‘ اور ’پیام‘ دونوں کتابیں سمجھ میں نہیں آتیں، لیکن ان سے قطع نظر بھی نہیں کر سکتا، دماغ قاصر سہی، لیکن دل ان کی طرف ضرور مائل ہے۔ یہ سن کر علامہ نے دریافت فرمایا کہ ’’اسرارِ خودی کتنی بار پڑھی ہے؟‘‘

جواب میں کہا ’’جناب والا! ساری کتاب تو نہیں پڑھی صرف پہلا باب پڑھا، لیکن وہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لیے آگے پڑھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ اب رہی دوسری کتاب تو اس کی ساری غزلیں تو پڑھ لی ہیں، لیکن نہ لالہ طور تک رسائی ہوئی نہ نقش فرنگ تک۔‘‘

یہ سن کر علامہ نے فرمایا کہ ’’خوش نویسی یا موسیقی ایک دن میں نہیں آ سکتی تو فلسفیانہ نظمیں ایک دفعہ پڑھنے سے کیسے اور کیوں کر سمجھ میں آ سکتی ہیں؟ الفارابی نے ارسطو کی مابعدالطبیعات کو کئی سال تک پڑھا تھا۔ تم بھی اس کی تقلید کرو اور ان کتابوں کو بار بار پڑھو!‘‘

( پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی کی ’’کلیات شرح اقبال‘‘ سے چُنا گیا)

پانچ گھنٹے دیری سے۔۔۔!

مرسلہ: سترط شاداب، لانڈھی،کراچی

’’روٹھنا تو کوئی تم سے سیکھے دیو۔۔۔

بالکل ویسے کے ویسے ہی ہو۔۔۔!‘‘

’’تم بھی تو بالکل ویسی کی ویسی ہو۔‘‘

’’کیسی۔۔۔؟‘‘

’’گنوار۔۔۔!!‘‘

’’ہاں۔۔۔!! اب تو ہم سب گنوار ہی لگیں گے، لندن سے جو پڑھ کر آئے ہو!

ویسے لندن بہت بڑا شہر ہے نا۔۔۔!‘‘

’’لندن کی بات ہی کچھ اور ہے۔۔۔!

بڑے بڑے لوگ۔۔۔ بڑی بڑی باتیں۔۔۔ بڑی بڑی سڑکیں۔۔۔ بڑی عمارتیں۔۔۔

ٹریفالگر اسکوائر۔۔۔ کبوتر، رانی کا محل۔۔۔ جدھر دیکھو چہل پہل۔۔۔

لندن کے لوگ اپنی ہی دنیا میں مست ہیں۔۔۔!‘‘

’’ایک بات بتائو دیو، لندن کہاں ہے؟‘‘

’’پَچھم میں۔‘‘

’’سورج کہاں ڈوبتا ہے؟‘‘

’’پَچھم میں۔۔۔!!‘‘

’’کیا لندن میں سچ مچ سورج پانچ گھنٹے دیری سے اُگتا ہے۔۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ وہ تو ہے!‘‘

’’اسی لیے تم سب کچھ اتنی دیری سے سمجھتے ہو۔۔!‘‘n

(’’دیوداس‘‘ میں ’پارو‘ اور ’دیوداس‘ کے کچھ دل چسپ مکالمے)

چاندنی چَٹکی ہوئی ایک رات۔۔۔

قرۃ العین حیدر

رات گہری ہو چکی تھی۔ نیلمبر دت نواب کمن کے جانے کے بعد تھوڑی دیر ڈرائنگ روم میں ٹہلتے رہے، انہوں نے گھومنے والی الماریوں سے ایک کتاب نکال کر اس کی ورق گردانی کی، مگر اس میں بھی ان کا دل نہ لگا۔ انہوں نے چاروں طرف دیکھا، الماریوں میں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ اخباروں کے مجلد فائل، قانون کے رسالے، کمیٹیوں کی رپورٹیں اور قراردادیں۔ ہر طرف مسائل تھے اور مسائل کا حل انہوں نے پا لیا تھا۔

مسائل کا حل انہوں نے پا لیا تھا؟ نیلمبردت کا دم گھٹنے سا لگا۔ ہوا بند تھی اور رات گرم تھی، باہر سڑکوں پر لیمپ مدھم مدھم ٹمٹما رہے تھے۔ دفعتاً عروس البلاد کلکتہ ان کو بے حد خوف ناک معلوم ہوا، وہ گھبرا کر باہر برآمدے میں نکل آئے۔ ایسی ہی راتوں میں دکھی روحوں کی پرواز کی سنسناہٹ سنائی دیتی ہے۔ آنگن میں کیلے اور پام کے پتے ساکن کھڑے تھے۔ پختہ حوض کے کنارے ایک کتا دم ٹانگوں میں سمیٹے سو رہا تھا۔ اگر ان کو آواگون میں یقین ہوتا، تو شاید وہ سوچتے کہ یہ کتا کسی کی دکھی روح ہے، وہ برآمدے سے اتر کر گیندے کے کنارے کنارے ٹہلتے رہے۔ اوپر منو رنجن کے کمرے میں خاموشی چھا چکی تھی۔ کیمپبل میڈیکل اسکول کا لڑکا ابھی تک دریچے میں بیٹھا تھا، وہ بھی ہارمونیم کے پردوں پر سر رکھ کر سو چکا تھا۔ منورنجن کے کمرے سے جو زینہ باغ میں اترتا تھا، اس کی آخری سیڑھی پر بیٹھا کوئی تو رولتا کی نئی انگریزی نظم آہستہ آہستہ پڑھ رہا تھا۔ چاند اب دت ہائوس کے عین اوپر آچکا تھا۔

برآمدے میں لڑکوں کا ایک گروہ تورولتا کی نظم پر سر دھن رہا تھا۔ نیملبر دت مبہوت اس نظم کو سنتے رہے۔ انہوں نے آواز پہچانی، یہ ان کے بیٹے کی آواز تھی۔ منو رنجن اور وہ آہستہ آہستہ رو رہا تھا، وہ جس نے کلکتہ یونیورسٹی کے فلسفے اور منطق کے امتحانات میں سارے ریکارڈ توڑے تھے، جو اگلے ہفتے کیننگ کالج کا پروفیسر ہوکر پردیس جانے والا تھا۔

نیلمبردست مسکرائے۔ مبارک ہیں وہ لوگ انہوں نے اپنے آپ سے کہا، جو محبت کر سکے، خواہ اس میں انہیں ناکامی ہی ہوئی ہو، پھر انہوں نے چاند کو دیکھا، جو تیرتا تیرتا دت ہائوس کے عین مقابل میں آچکا تھا۔ اس کی کرنیں حوض کے پانی میں منعکس تھیں۔ چاند نے ان کو بہت سی کہانیاں سنائیں، وہ پورن ماشی کی رات تھی۔n

(شاہ کار ناول ’آگ کا دریا‘ کی کچھ سطریں)

قلعہ نما ریلوے اسٹیشن

مرسلہ: سید اظہر علی

1857ء کے یہ وہی دن تھے، جب برصغیر کے طول و عرض میں ریلوے لائنیں ڈالی جا رہی تھیں اور تیزی سے ڈالی جا رہی تھیں۔ ہندوستان کے افق پر بغاوت کے اٹھتے ہوئے بادل پہلے ہی نظر آنے لگے تھے اور حکمرانوں کی کوشش یہ تھی کہ ریل گاڑی چل جائے، تاکہ فوجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچانے کا بندوبست ہو جائے۔

وہ جو آزادی کی دھن میں مگن تھے، سندھ سے لے کر بہار اور بنگال تک اپنی بوسیدہ فرسودہ بھرمار بندوقیں اور طمنچے اٹھائے پھر رہے تھے اور بدیسی حکمرانوں پر قہر کر رہے تھے، لہٰذا ریلوے لائنیں ڈالنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔ کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرنے کے بعد انگریزوں نے لاہور کا ریلوے اسٹیشن بنایا۔ عمارت کو باغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قلعے کی طرح بنایا گیا۔ اس میں فصیلیں بھی تھیں، برج بھی تھے، رائفلیں داغنے کے لیے فصیلوں روزن بھی تھے، غرض یہ کہ حملہ آور کو پرے رکھنے کے سارے انتظامات تھے۔ اس وقت اسٹیشن کے دونوں سروں پر لوہے کے بہت بڑے در بھی لگائے تھے، تاکہ حملہ ہو تو عمارت کو ہر طرف سے بند کر دیا جائے۔ شروع شروع میں راتوں کو لاہور اسٹیشن کے یہ دونوں آہنی گیٹ بند کر دیے جاتے تھے۔ یہ شاید وہی دن تھے، جب یہاں رات کے وقت ٹرین نہیں چلتی تھی۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ اسٹیشن قدیم لاہور کی پرانی عمارتوں کے اوپر بنایا گیا ہے کہتے ہیں کہ اسٹیشن کی عمارتوں کی بنیادیں ڈالنے کے لئے زمین کھودی گئی تو گہرائی تک قدیم عمارتوں کی بنیادیں ملیں۔ لاہور والے بتاتے ہیں کہ مغلوں کے محل اسی علاقے میں تھے۔ اب بھی کچھ مغلیہ عمارتیں اسٹیشن کے آس پاس موجود ہیں۔ خود انگریزوں کی جی ٹی روڈ وہیں سے گزرتی تھی، جہاں یہ اسٹیشن ہے ، اسے بھی ہٹاکر دور لے جانا پڑا۔n

(رضا علی عابدی کی کتاب ’ریل کہانی‘ سے انتخاب)

صد لفظی کتھا ’دور اندیش‘

رضوان طاہر مبین

’’یہ ہمارے ملک کا وہ ضلع ہے، جہاں ترقیاتی کاموں کی صورت حال نہایت حوصلہ افزا ہے۔۔۔!‘‘

ثمر نے مجھے آگاہی فراہم کرنے والے انداز میں بتایا۔

پھر اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے وہاں کے کمشنر کی طرف اشارہ کر کے بولا:

’’دیکھو، انہیں موسمیاتی ’تبدیلی‘ کا کس قدر خیال تھا کہ انہوں نے یہاں کئی برس پہلے ہی بہت سارے درخت لگوا دیے۔‘‘

’’شجرکاری کی وجہ موسمیاتی تبدیلی نہ تھی!‘‘ کمشنر نے ٹوکا۔

’’پھر۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’مجھے پتا تھا کہ یہاں سوئی گیس کا شدید بحران آنے والا ہے۔۔۔!‘‘

کمشنر نے نہایت آہستگی سے بتایا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles