قسط نمبر 32
مجھے ایسا ہی محسوس ہوا کہ ماں جی نے میرا ہاتھ تھام لیا ہے، پھر میں پرسکون نیند سو چکا تھا، شاید شب کا نصف سے تھوڑا سا زیادہ پہر گزر چکا تھا کہ سسکیوں کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی، بزرگ بابا دعائے نیم شب میں مصروف تھے، میں نے پھر سے سونے کی کوشش کی لیکن! تھوڑی دیر بعد بابا نے چولہے کے نیچے لکڑیاں جائیں اور ان پر ایک بڑا دیگچا رکھا، میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن خاموش رہا۔
بابا یہ کرنے کے بعد پھر سے رب سے مناجات میں مصروف ہوگئے۔ کیا کر رہے تھے وہ، میں سوچنے لگا لیکن اب میں انتظار کرنا سیکھ گیا تھا، تھوڑی دیر بعد میں بھی اٹھ کھڑا ہوا اور باہر نکل گیا، خنک ہوا چل رہی تھی، گہری خاموشی تھی اور قبروں کے کتبے مجھے تک رہے تھے، عجیب منظر ہوتا ہے، قبرستان کا سناٹا اور گہری خاموشی، لیکن اس میں ایک خاص طرح کا سکون بھی پوشیدہ ہوتا ہے اور سوچ کے نئے در وا کرتا ہے۔
کیسے کیسے لوگ مٹی میں مل گئے لیکن انسان یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی انجان بنا رہتا ہے، اور خود فریبی میں مبتلا رہتا ہے، انجام معلوم ہے لیکن بس انجان، افسوس۔ تم جاگ گئے بیٹا؟ مجھے بابا جی کی آواز سنائی دی۔ جی بابا میں جاگ گیا ہوں۔ پگلے اسے جاگنا تھوڑی کہتے ہیں، خیر! بابا یہ کہتے ہوئے میرے قریب آکر کھڑے ہوگئے۔
پھر وہ کہنے لگے:دیکھو بیٹا! مصوّر کی تصویر، مصوّر کا شاہ کار ہوتی ہے۔ اور پھر جب مصوّر خود منادی کرے کہ میں نے ہر تصویر شان دار، خوب صورت اور من موہنی بنائی ہے کہ میں نے خود بنائی ہے۔ اور پھر ایسی تصویریں جنھیں بنانے سے پہلے اس مصوّر نے تمام اعتراضات کو مسترد کردیا ہو۔ اور نہ صرف مسترد بل کہ اعتراض کرنے والوں کو حکم بھی دیا ہو کہ وہ اس کی بنائی ہوئی تصویر کا احترام کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوجائیں اور پھر وہ ہوئے بھی لیکن ’’وہ‘‘ نہیں ہوا جسے راندہ قرار دے کر ہمیشہ کے لیے دھتکار دیا گیا اور وہ مایوس ابلیس کہلایا اور پھر یہی نہیں کہ تصویریں چاہ سے بنائیں بل کہ اپنی تصویروں کو اشرف کا مقام بلند بھی عطا فرمایا۔
پھر وہ مایوس کہ ابلیس کہتے ہیں جسے ، نے اس مصوّر سے کہا میں تیرے بندوں کو تیری سیدھی راہ پر بیٹھ کر گم راہ کروں گا اور رب نے اعلان کردیا کہ جو تیرے کہے میں آئیں گے اور تیری راہ پر چلیں گے میں ان سے اپنی جہنّم کو بھر دوں گا۔
عجب داستان ہے ابن آدم کی بھی، ہاں بہت عجیب۔ وہ آدم جسے رب نے کائنات میں افضل کیا، اسے خلافت کے مقام عظمت پر فائز کیا۔ اور اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑا، اس کی نافرمانی کے باوجود اس کی جان کو اپنے گھر سے زیادہ تکریم دی ہاں وہ آدم۔
وہ آدم کہ جسے راہ دکھانے کے لیے اس نے اپنے برگزیدہ بندے اور نبی بھیجے اور پھر وہ نبی مکرّم کہ رحمت کہیں جسے، عالمین کے لیے رحمت۔ جناب نبی کریمؐ جو نبیوں میں رحمت لقب پانے والے اور مرادیں غریبوں کی بر لانے والے اور وہ جو اپنے پرائے کا غم کھانے والے اور وہ جو خود بچوں پر سلامتی بھیجنے والے، ہاں وہ جنہوں نے فرمایا کہ ’’ بچے رب کے باغ کے پھول ہیں‘‘ ہاں، ہاں وہی جنہوں نے طائف کے میدان میں پتھر کھا کے دعائیں دیں ، وہی نبی رحمتؐ کہ جنہوں نے جب سنا کہ کسی نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کردیا تو انکھیں برسنے لگیں، ہاں وہی نبی رحمتؐ کہ جو موسم کا پہلا پھل مجلس کے سب سے چھوٹے بچے کو عنایت فرماکر مسرور ہوتے۔
ہاں وہی نبی رحمتؐ کہ جنہوں نے جنگوں کے اصول بھی مرتّب فرمائے اور حکم دیا کہ ’’ کسی عورت، کسی بچے ، کسی بوڑھے، کسی نہتّے کو قتل نہیں کیا جائے گا، جو کہیں پناہ لے گا اسے امان ہوگی، بس اس سے مقابلہ کیا جائے گا جو ہتھیار بند ہوکر مقابلے پر اتر آئے، کسی بھی صورت میں فصلوں کو برباد نہیں کیا جائے گا، درختوں کو نہیں کاٹا جائے گا اور پانی میں زہر قطعاً نہیں ملایا جائے گا۔‘‘
گم راہی کتنی سہانی ہوتی ہے لیکن کیا اتنی سہانی اور نشّہ انگیز کہ اس کے اسیر یہ بھی سوچنے سے عاری ہوجاتے ہیں کہ وہ خالق سے پیار کے نام پر اسی کی مخلوق کو قتل کرتے پھریں گے۔کیا اتنی کہ اس کے اسیر مصوّر کی محبت کے حصول کے لیے اسی مصوّر کی تصویروں کو نابود کرتے پھریں۔ کیا اتنی کہ اس کے اسیر اس کے باغ کے پھولوں کو مسل ڈالیں گے۔ہاں اتنی ہی نشّہ انگیز ہوتی ہے گم راہی، کہ اس کے اسیر یہ تک بھول جاتے ہیں کہ وہ اگر مصوّر کی تصویروں کو برباد کریں گے تو اس مصوّر کی محبّت نہیں اس کے عتاب کے حق دار ہوں گے۔کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ خالق سے محبت، مخلوق سے محبت سے مشروط ہے۔
کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتے حرم کعبہ کے احترام سے زیادہ انسان کا احترام فرض ہے، جو خود رب نے حکم فرمایا ہے۔ وہ اپنی گم راہی کو راستی سمجھتے ہیں، جو بہ ذات خود گم راہی ہے۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اور کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے انسانیت کو دوام بخشا۔ لیکن وہ نہیں جانتے، ہاں وہ نہیں جانتے کہ وہ زمین میں فساد برپا کررہے ہیں، جسے وہ اصلاح کا نام دیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مخلوق کو قتل کر کے خالق کی نافرمانی کی ہے وہ مایوس لوگ ابلیس کے پیروکار ہیں۔ اب وہ اپنی خیر منائیں اور انتظار کریں، کہ جس کا باغ اجڑا ہے وہ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
یہ دیکھ رہے ہو قبرستان، بھرے پڑے ہیں ایسے لوگوں سے۔ نبی رحمتؐ نے فرمایا ہے: قبر کو مٹی کا ڈھیر مت سمجھو، یہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ نادان انسان، اس مٹھی بھر خاک کو رب نے اشرف بنایا اور یہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اسفل بن گیا، اور احسان فراموش ایسا کہ بہ جائے بندہ بننے کے بعد خود کو خدا سمجھنے لگا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں بن سکتا، بن ہی نہیں سکتا، کہ رب تو بس وہی تنہا ہے اور اپنے لہجے میں کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ افسوس!
پھر خاموشی چھا گئی، بابا کا جلال عروج پر تھا۔ فجر کی نماز کے بعد انہوں نے کہا، چلو بیٹا رب کا حکم ہے کہ اس کا فضل تلاش کرو، محنت کرو، اکل حلال کے لیے تگ و دو کرو، یہ رب کے قرب کی بنیادی شرط ہے۔ ہم کٹیا میں آئے اور انہوں نے وہ دیگچا ایک چادر میں باندھا جس میں انہوں نے چھولے بنائے تھے، میں نے رکابیاں اور دری اٹھائی اور قبرستان سے باہر نکل گئے، کچھ دور چلنے کے بعد ایک چھپر ہوٹل کے تندور سے روٹیاں لیں اور پھر اس جگہ پہنچے جہاں کچھ عمارتیں تعمیر ہورہی تھیں، میں نے بابا کے حکم پر دری بچھائی اور بابا نے دیگچا سنبھالا اور پھر چند لمحے بعد مزدور پہنچ گئے اور ہمارا کام شروع ہوگیا۔
وہ انتہائی محبت سے ان سے باتیں کرتے، ان کا حال پوچھتے، ان کے کام کا دریافت کرتے، اور ساتھ ہی انہیں ناشتہ کراتے، کوئی مزدور انہیں پیسے دیتا اور کوئی کہتا بابا لکھ لو جب آئیں گے تو دے دوں گا، اور بابا کہتے جاتے، کوئی بات نہیں بیٹا بس محنت کرو، کوئی فکر کی بات نہیں، جب پیسے ہوں تب دیے دینا، لیکن سنو پیسے ہوں نہ ہوں ناشتہ کرنے ضرور آنا، مجھے فکر ہوتی ہے ناں بیٹا! بہ مشکل دو گھنٹے میں ہم فارغ ہوگئے تھے۔ مزدور اپنے کام پر چلے گئے اور ہم اپنے کام سے فارغ ہوکر اپنی کٹیا کی طرف روانہ ہوئے۔ کیسا لگا بیٹا! بابا نے اچانک مجھ سے دریافت کیا۔
جی بہت اچھا، میں نے کہا۔ ہاں اکل حلال کی تلاش فرض ہے بیٹا، اور دیکھو یہ جو کھانے پینے کا کام ہے اس میں تو دہرا اجر ہے۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے دریافت کیا، وہ کیسے بابا! پگلے وہ ایسے کہ رب کا حکم ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلاؤ، تو جو لوگ یہ کھانے پینے کا کام کرتے ہیں اگر وہ محبت سے یہ کام کریں، مناسب پیسے لیں اور جس کے پاس نہیں ہیں انہیں رعایت دیں تو یہ کام رب کی خوش نودی کا باعث ہے، سمجھے تم!
وہ باکمال انسان تھے، چلیے ہم آگے بھی چلیں گے لیکن دیکھیے مجھے بابا احمد علی یاد آگئے، زندگی تو روانی کا نام ہے، جمود کا شکار زندگی بھی کوئی جینا ہے کیا، ٹھہرا ہوا تعفن زدہ جوہڑ، جو مخلوق کے لیے آزار ہے۔ ہر پل نیا امتحان ہے زندگی اور اسے خوش اسلوبی سے نبھانے کو کہتے ہیں جینا۔ سچ ہی تو کہا ہے بابے اقبال نے: اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔
میں احمد علی کو بابا ہی کہتا تھا، لوگوں کے گھروں اور دکانوں میں پانی بھرا کرتے تھے، میں سناتا ہوں ان کی کتھا!
احمد علی کے والد منشی تھے۔ احمد علی نے دینی تعلیم حاصل کی تھی، وہ بھی بس واجبی سی۔ ان کے والد کی اتنی آمدنی تھی کہ گزارا اچھا ہوتا تھا۔ لوگوں میں خلوص تھا، ہم دردی تھی اور سب سے بڑھ کر انسانیت تھی۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ وہ کھائے گا کہاں سے؟ لائے گا کہاں سے؟ بڑے بوڑھے اپنے دھندوں سے لگے رہتے اور لڑکے بالے کھیل کود میں۔ بیس برس کے نوجوانوں کو بھی یہ کہا جاتا تھا کہ ابھی سے ان پر کیا بوجھ ڈالیں، ان کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ لڑکے ٹولیوں کی شکل میں کھیت کھلیانوں میں گھومتے پھرتے، بستی بستی سیر سپاٹا کرتے، کٹھ پتلی کا تماشا دیکھ کر قہقہے برساتے اور زندگی کا لطف دوبالا ہوتا رہتا۔
تہواروں پر میلے لگتے اور پھر وہاں مقابلے ہوتے، ڈھول تاشے بجتے اور زندگی بلا کسی خوف و اندیشے کے گزرتی چلی جاتی۔ زندگی نام تھا زندہ دلی کا، بہار کا، ایسی بہار جسے خزاں کا خوف نہیں تھا، ایک کے غم میں دوسرے ایسے شریک ہوتے کہ وہ اپنا غم بھول جاتا اور شادیوں کے گیت مہینوں تک گائے جاتے۔ کسی ایک گھر کی میت گاؤں بھر کی میت تھی اور شادی گاؤں بھر کے لیے نوید مسرت۔ سب کچھ سانجھا تھا۔ خوشی بھی غم بھی، عیش بھی، تنگ دستی بھی۔ کیا خوب صورت اور سنہرا دور تھا۔
احمد علی گھنٹوں اپنی کہانی سناتے اور یوں لگتا جیسے وہ خود کو وہیں پاتے ہیں۔ خوشی ان کے چہرے سے پھوٹتی اور چاروں اور رقص کرنے لگتی اور پھر وہ محبت سے میرا ہاتھ تھام لیتے اور کہتے بیٹا! تمہیں کیا کیا سناؤں، زندگی کے پچھتّر سالوں کی کہانی سنانے کے لیے مہینوں درکار ہیں اور تمہیں تو بہت کام ہیں۔ نوجوانوں پر انہیں بہت ترس آتا اور وہ کہتے ان بے چاروں کی تو زندگی اجیرن ہے۔ پیدا ہوتے ہی وہ خود کو مفلسی میں گھرا پاتے ہیں، کھیت نہ کھلیان کہ جہاں جاکر وہ کھیل سکیں، جھیلیں نہ نہریں، وہ کیا کریں، کہاں جائیں اور پھر بھی وہ بدنام ہیں۔ صبح جاگتے ہی کام پر دوڑتے ہیں، بسوں میں دھکے کھاتے ہیں۔ کیا زندگی ہے ان کی، مجھے ان معصوموں پر بہت ترس آتا ہے۔ کتنی دکھ بھری زندگی ہے، یہ تو بس بوڑھے ہی پیدا ہوتے ہیں، قہقہے، شرارتیں، شوخیاں، نہ امنگ۔
احمد علی نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے دنیا کے نقشے پر ابھرتے دیکھا تھا۔ وہ بتاتے:
بیٹا مجھے وہ زمانہ بہت خوب یاد ہے۔ ایک دن گاؤں میں جھگڑا ہوگیا پھر گاؤں دو حصوں میں بٹ گیا، ہندو اور مسلم میں۔ دو دن ہی گزرے تھے کہ پھر جھگڑا ہوگیا۔ وجہ تھی پاکستان۔ اور پھر تو قیامت ٹوٹ پڑی۔ میرے دو بھائی اس دن مارے گئے۔ پاکستان بن گیا تھا اور ہمارے گاؤں کے مسلمانوں نے ہجرت کی تیاری شروع کردی تھی۔ شیطان ننگا ناچنے لگا اور ایک کالی رات میں ہم پر حملہ ہوگیا۔ نفسانفسی کا عالم تھا۔ مجھے تم بزدل کہوگے، کہہ لو۔ میں گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا۔ کچھ پتا نہیں ماں باپ، بہنوں اور بھائی کا کیا ہوا؟
ساری رات بھاگ بھاگ کر میری حالت خراب ہوگئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ ندی نالے، کھیت کھلیان مرگھٹ بن گئے تھے۔ جسے جتنی کمینگی اور درندگی کا موقع ملا وہ کر گزرا۔ میں قافلوں کے ساتھ لاہور پہنچنے میں کام یاب ہوگیا، افسردہ اور اکیلا۔ لاہور میں کیمپ لگے ہوئے تھے، کوئی پرسان حال نہیں تھا، جو حالت تھی وہ سب کو معلوم ہے، میرے تو کوئی آگے پیچھے رہا نہیں تھا۔ گم صم بیٹھا رہتا یا سڑکوں پر گھومتا۔ کھانا کہیں نہ کہیں سے مل جاتا۔
مجھے کوئی کام آتا تھا نہ کاج۔ لاڈ پیار میں پلا بڑھا تھا اور گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور وہ بھی سر چڑھا۔ لیکن کچھ تو کرنا تھا۔ میں کئی مرتبہ راوی گیا اور سوچتا رہا جب کوئی نہیں بچا تو میں زندہ رہ کر کیا کروں۔ پھر آواز آتی اگر مرنا ہی تھا تو وہیں گاؤں میں سب کے ساتھ مرجاتے، اتنی مصیبتوں اور تکلیفوں سے یہاں تک پہنچنے کی کیا ضرورت تھی۔ بس یہ سن کر میں اپنے ارادے سے باز آجاتا۔ پھر ایک سیٹھ کے پاس کام کرنے لگا۔ کچھ پیسے جمع کیے اور ٹھیلے پر بچوں کی چیزیں فروخت کرنا شروع کیں۔ کیمپ کے لوگوں سے دوستی تو ہو ہی گئی تھی۔ سب ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔
ایک دن ایک بڑے صاحب نے مجھے کہا تمہیں شادی تو کرنا ہی ہے تو اب کرڈالو۔ میں نے انکار کردیا کہ میں کہاں رکھوں گا اور کیسے کھلاؤں گا۔ انہوں نے حوصلہ بڑھایا اور پھر کیمپ ہی میں ایک ایسی لڑکی سے جس کا کوئی نہیں بچا تھا میری شادی کرادی گئی۔ میں کچھ عرصے ان صاحب کے گھر مقیم رہا اور پھر کراچی آگیا۔ کیوں؟ بس ویسے ہی، کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ کراچی میں اس وقت مہاجرین پہنچ رہے تھے۔ مقامی لوگ خیال بھی رکھتے تھے۔ مجھے بھی کہا گیا کہ کلیم بھرو لیکن میری غیرت نہیں مانی، کیا قربانیوں کے بدلے گھر لے لوں۔ میرے ہاتھ پاؤں میں دم تھا، کچھ رقم تھی۔
میں نے کھوکھا لگالیا، گزارہ اچھا تھا، ہم دو افراد تھے۔ پھر نہ جانے کیوں وہ کھوکھا بیچ دیا اور کباڑی کا کام کرنے لگا۔ اسے چھوڑ کر مزدوری کی۔ وزن اٹھایا، کہیں چین نہیں آیا تو لوگوں کے گھروں اور دکانوں پر پانی بھرنے لگا۔ اب تو پانی کی سہولت گھر گھر ہے۔ اس وقت بہت تنگی تھی، بس اب تک یہی کیے جارہا ہوں۔
احمد علی جنہیں میں بابا کہا کرتا تھا، یہاں تک پہنچ کر خاموش ہوجاتے۔ لیکن ان کی اصل کہانی تو مجھے معلوم تھی۔ اﷲ نے انہیں چار بچیوں سے نوازا تھا۔ میں نے ان جیسا خود دار انسان نہیں دیکھا۔ کرائے کے چھوٹے سے گھر میں مقیم تھے۔ سارا دن گھروں اور دکانوں میں پانی بھرتے، سردی ہو یا گرمی ان کے معمول میں کبھی فرق نہیں پڑتا تھا۔ خاموش طبع تھے۔ میں جانتا تھا کہ وہ بہت تنگی میں اپنا گزارا کرتے ہیں۔ سعادت مند بچیوں کا نصیبا جاگا اور وہ اپنے گھروں کی ہوگئیں۔ بچیوں کی رخصتی میں جتنی مشکلات انہیں پیش آئیں وہ ایک الگ کہانی ہے، لیکن ان کی ہمت اور خودداری کو کوئی شکست نہیں دے سکا۔
ان کی اہلیہ کمال کی صابر اور شاکر خاتون تھیں۔ ایک دن میں ان کے گھر پہنچا تو وہ سخت بیمار تھیں، اور بابا کام پر گئے ہوئے تھے۔ میں نے اصرار کیا کہ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں تو انہوں نے انکار کردیا۔ کہنے لگیں: بیٹا اب وقت قریب ہے، کسی دوا سے نہیں ٹلے گا۔ تم میرے پاس بیٹھو، تم سناؤ کیسے ہو؟ میری ضد پر دوائیں کھانے لگیں مگر وہ سچ کہتی تھیں، وقت کو کون ٹال سکا ہے۔ کوئی بھی تو نہیں۔ ایک رات وہ چپ چاپ اپنے رب کے پاس جاپہنچیں۔ بابا تنہا ہوگئے تھے لیکن معمولات میں کبھی فرق نہیں آنے دیا۔ کسی کو اپنی بپتا نہیں سناتے تھے۔ کبھی دست سوال دراز نہیں کیا، ہمیشہ شکر کرتے اور اپنے رب کے شکر گزار رہتے۔ وہ ایک مطمئن روح تھے۔ اپنے رب سے لو لگائے ہوئے۔
گھر کی کل کائنات ایک ٹوٹا ہوا ٹرنک، دو چارپائیاں، ایک گھڑا، ایک ٹھیلا، جس پر پانی کی ٹنکی بندھی ہوئی تھی۔ بابا تنہا ہوگئے تھے، کوئی دیکھ بھال کرنے والا تھا نہیں۔ پھر ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ خود ہی اسٹور سے دوا لے کر کھالیا کرتے۔ میرے اصرار پر ایک ڈاکٹر سے علاج کرانا شروع کیا وہ بھی اس شرط پر کہ دوائیں خود خریدیں گے۔ دوائیں خریدنے کے لیے کام کرتے اور یوں مرض بڑھتا رہتا۔ آرام تو انہیں چُھو کر نہیں گزرا تھا۔ آخر کار میں نے اپنا پرانا حربہ ضد استعمال کیا اور ان سے بہ ظاہر ناراض ہوگیا۔
دو دن بعد انھوں نے ہار مان لی۔ مجھے آخری دنوں میں ان کے پاس رہنے کی سعادت ملی، وہ گھنٹوں اپنی داستان سنایا کرتے۔ خوش اور مطمئن۔ اور پھر وہ گھڑی آن پہنچی جب سب اپنے رب کے حضور پیش کردیے جاتے ہیں۔ دسمبر کی ایک سرد رات میں وہ راہی ملک عدم ہوئے۔کیا بات تھی بابا احمد علی کی۔ طمع، حرص، لالچ، خود غرضی سے پاک۔ وہ واقعی بے مثال انسان تھے، گدڑی کا لعل!بزرگ بابا نے صد فی سچ بتایا تھا: چلو بیٹا رب کا حکم ہے کہ اس کا فضل تلاش کرو، محنت کرو، اکل حلال کے لیے تگ و دو کرو، یہ اکل حلال رب کے قرب کی بنیادی شرط ہے۔ لیجیے یہ بابا بلھے شاہ بھی تشریف لے آئے:
حج وی کیتی جاندے او
لہو وی پیتی جاندے او
کھا کے مال غریباں دا
بھج مسیتے جاندے او
پھٹ دلاں دے سیندے نئیں
ٹوپیاں سیتی جاندے او
چُھری نہ پھیری نفساں تے
دْنبے کٹ دے جاندے او
دل دے پاک حجرے دے وچ
بھری پلیتی جاندے او
فرض بھلائے بیٹھے او
نفلاں نیتی جاندے او
دسّو ناں کجھ بلّھے شاہ
اے کی کیتی جاندے او
اے کی کیتی جاندے او
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.