’’میرا بچہ ہر وقت ناخوش رہتا ہے۔‘‘
’’اس میں اعتماد کی کمی ہے۔‘‘
’’یہ اکثر اداس اور غمگین نظر آتا ہے‘‘
’’بھائی بہنوں سے اس کی بالکل نہیں بنتی، یہ آپس میں لڑتے ہیں۔‘‘
’’ اساتذہ کہتے ہیں یہ پڑھ نہیں سکتا۔‘‘
’’میرابچہ موبائل کو تو چھوڑتا ہی نہیں۔ ہر وقت گیم کھیلتا رہتا ہے۔‘‘
’’بچے جھوٹ بہت بولتے ہیں۔‘‘
اکثر ماؤں کو اپنے بچوں سے یہ شکایات ہوتی ہیں۔ عموماً والدین بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ یا سختی کرکے اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماؤں کا ایک ہی شکوہ ہوتا ہے کہ آج کل کے بچے کسی کی نہیں سنتے۔ ایسی تمام ماؤں کی پریشانی دور کرنے میں یہ تحریر کسی حد تک ضرور مدد دے سکتی ہے۔ ذیل میں درج نکات پر عمل کریں تو آپ بچے میں مثبت تبدیلی محسوس کریں گی۔
٭ بچہ چڑچڑا ہے اور پُر اعتماد بھی نہیں:
جب والدین یہ محسوس کریں کہ ان کا بچہ چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے اور آپ سمجھیں کہ اس میں اعتماد کی کمی ہے جس کے باعث وہ آگے نہیں بڑھ پاتا۔ چاہے وہ تعلیمی میدان ہو تقریبات وہ ہمیشہ پیچھے رہتا ہے اور لوگوں کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے تو والدین کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ بچہ جب گفتگو کرے تو غور سے سنیں۔ عموماً مائیں کام میں مصروف رہتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ میں نے بچے کی بات سن لی ہے، لیکن حساس بچے اس رویے سے بے حد دکھی ہوجاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ماں نے اہمیت نہیں دی اور یہ بات ان کو افسردہ کردیتی ہے۔ بچوں کی ہر چھوٹی سی چھوٹی بات کو دھیان سے سنیں۔ کیوں کہ آج اگر آپ اس کی چھوٹی سی بات کو نہیں سنیں گے تو کل وہ اپنی زندگی کے بڑے معاملات بھی شاید آپ کو نہ بتائے۔ لہٰذا بچوں کو اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرنے دیں اور ان کو اہمیت دیں۔ ہر مثبت عمل پر ان کو سراہیں۔
بچوں کو ہر وقت پڑھائی یا امتحان کا کہہ کر بیزاری میں مبتلا نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے بھاری بوجھ سمجھنے لگیں اور پڑھنا ان کے لیے عذاب بن جائے۔ کھیل کود کا موقع دیں اور اس دوران پڑھائی کی بات نہ کریں۔ کچھ وقت فارغ بھی رہنے دیں۔ چاہے وہ کھیلیں یا اپنے کسی پسندیدہ مشغلے میں وقت صرف کریں۔ روک ٹوک نہ کریں۔ ان پر نظر رکھیں مگر ایسا رویہ نہ اپنائیں کہ بچے کو محسوس ہو کہ اس کی نگرانی کی جارہی ہے۔ اسے آزادانہ اپنا وقت گزارنے دیں۔ اس سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے اور اس میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ کھانا ساتھ مل کر کھائیں۔ بچے سے دن بھر کی روداد سنیں۔ بچوں سے ہمیشہ مسکراتے ہوئے گفتگو کریں۔ خوش گوار ماحول بچوں کی شخصیت کو پُراعتماد اور انھیں خوش مزاج بناتا ہے۔
٭ اگر بچہ اداس یا غمگین رہتا ہے:
اس صورت حال میں سب سے پہلے اس رویے کے پیچھے جو وجہ ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ خدانخواستہ والدین، خاندان یا کسی عزیز دوست کی موت ہوجائے یا کوئی دوسرا جذباتی صدمہ پہنچے تو بچے ایسی کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ پالتو جانور یا پرندے کی موت بھی بسا اوقات بچوں کو کئی دن غمگین رکھتی ہے۔ بچوں کو اس کیفیت سے نکالنا ازحد ضروری ہے کیوں کہ بچے اپنے جذبات اور کیفیات کا اظہار نہیں کرپاتے۔ البتہ ان کی شخصیت میں تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مثلاً بھول جانا، دماغ حاضر نہ ہونا، توجہ مرکوز نہ کر پانا، بستر گیلا کر دینا وغیرہ۔ تین سے چھے سال کی عمر کے بچوں میں یہ علامات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔
کچھ بچے بات بات پر شدید غصہ اور لڑائی جھگڑا کرنے لگتے ہیں۔ اس صورت میں ان سے گفتگو بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ہم ان سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ محبت کا احساس شخصیت میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے اور غم کے احساس کو مندمل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بچوں کو کہانیاں سنانا اور آرٹ میں مشغول رکھنا بھی سود مند ثابت ہوتا ہے۔ بسا اوقات والدین یا کسی قریبی عزیز کی موت کے بعد کوشش کی جاتی ہے کہ بچے کو نہیں بتایا جائے، لیکن حقیقت بہرحال ان کے سامنے آجاتی ہے۔ اس ضمن میں پیار سے نرمی سے شفقت بھرے لہجے میں ان کو آگاہ کرنا بہتر ہے۔ خصوصاً سات سال سے بڑے بچے صورت حال کو سمجھ لیتے ہیں۔
اداس یا خوف زدہ بچے اکثر پیٹ درد کی شکایت کرتے ہیں۔ وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کو اس کیفیت سے نجات دلانے کے لیے ایسی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے جو کھیل کود کے ساتھ ذہنی آزمائش اور دل چسپی کا باعث ہوں۔ انھیں ڈرائنگ وغیرہ میں مصروف رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم پیٹ درد کی کوئی طبی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ بچے لڑکپن یا نوجوانی کے دور میں بھی احساسات کے اظہار سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ کہیں ان کو کم زور نہ سمجھا جائے۔ اس ضمن میں ان کو گفتگو کرنے کے لیے آمادہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ احساسات و جذبات کو بیان کرنے سے وہ خود زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو مذہبی تعلیمات اور عبادت کے ساتھ ساتھ یوگا اور ورزش وغیرہ کے ذریعے پرسکون رکھنے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔
٭اگر بچے آپس میں لڑتے ہیں:
بچوں کا بہن بھائیوں سے لڑنا جھگڑنا والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچے کو جب یہ محسوس ہو کہ دوسرے بھائی بہن کی موجودگی میں اس کو والدین کی بھرپور توجہ نہیں مل رہی یا اکلوتے بچے کے لیے بھائی یا بہن کا خاندان میں اضافہ بھی حسد کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ فی زمانہ کھیل کود کا رحجان کم ہوتا جارہا ہے۔ ورزش یا کھیل کود کرنے والے بچے عموماً پرسکون و مطمئن رہتے ہیں جب کہ جن بچوں کو کھیل کود کے مواقع میسر نہیں ہوتے وہ آپس میں بھائی بہنوں کے ساتھ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے بچوں کو کھیلنے کا مواقع فراہم کیا جائے اور بچوں کے چھوٹے موٹے جھگڑوں کو نظر انداز کردینا چاہیے۔ دوسرے بچے کو کسی بچے پر سبقت نہ دیں بلکہ تمام بچوں کو یکساں اہمیت دیں۔
ہر بچے میں موجود خاص ٹیلنٹ اور اس کی کام یابیوں کو سراہیں۔ غصہ کرنے والے بچے سے اس کے غصے کی وجہ پوچھیں اور ان کو سکھائیں کہ غصے کو کس طرح قابو کیا جائے۔ اسی طرح بہن بھائیوں کے درمیان ہونے والی نوک جھونک، چھیڑ چھاڑ یا شرارتوں پر ان پر برسنے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں اور انھیں سمجھائیں۔ بڑے بچے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اس کو چھوٹے بہن بھائیوں کا ٹیچر یا کسی بھی کام کی صورت میں اس کو انچارج بنا دیں۔ اس طرح وہ خود کو اہم سمجھے گا۔ ساتھ ہی ساتھ والدین کو چاہیے کہ تمام بچوں کے درمیان محبت اور توجہ میں برابری رکھیں کیوں کہ بچے بے حد حساس ہوتے ہیں۔ اگر والدین یا اہل خانہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہوں تب بھی بچے اس کا بے حد اثر قبول کرتے ہیں اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ وہی رویہ اپناتے ہیں۔
٭اگر بچہ پڑھائی میں کم زور ہے:
بچے کی شخصیت ہی نہیں اس کی صلاحیتوں پر بھی والدین کو بھروسا ہونا چاہیے۔ البرٹ آئن اسٹائن کی والدہ کو ان کے استاد کی طرف سے خط ملا تھا کہ وہ پڑھ نہیں سکتا۔ مگر والدہ نے خود پڑھانا شروع کیا اور بچے پر کبھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ خط میں کیا لکھا تھا۔ یہ بچے کی صلاحیتوں پر ایک ماں کا بھروسا تھا۔ جس نے ایک بچے کو البرٹ آئن اسٹائن بنادیا۔ لہٰذا محبت، توجہ اور محنت سے ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
٭ اگر بچہ ہر وقت موبائل پر گیم کھیلنا چاہتا ہے:
اکثر والدین کو یہی شکایت ہوتی ہے کہ بچے ہر وقت گیم کھیلنا چاہتے ہیں ۔ اس عادت کو ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بچے کزنز، بھائی بہنوں اور دوستوں کے ساتھ کھیلیں یا والدین بچے کے ساتھ کھیلیں۔ وقت دیں، کرکٹ، فٹ بال، بیڈمنٹن سے لے کر لوڈو، کیرم تک بے شمار کھیل کھیلے جاسکتے ہیں۔ سب سے بہترین یہ ہے کہ بچے کو پارک لے جائیں۔ صبح سے شام کے دوران کسی بھی وقت بچے کو سبزے کے حسین نظارے سے لطف اندوز ہونے دیں۔ اسکرین کے وقت کو کم کرنے یعنی موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ کے استعمال کو کم کرنے کی یہ بہترین تھراپی ہے۔
٭اگر بچے جھوٹ بولتے ہیں:
بچوں کے جھوٹ بولنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ بسا اوقات سزا کا خوف، کبھی اپنی برتری قائم رکھنا۔ کبھی اپنی کوئی غلطی چھپانا ہو یا والدین کو جھوٹ اور غلط بیانی کرتا دیکھ کر بچے بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ تاہم وجہ کوئی بھی ہو یہ عادت ختم کروانے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ بچے کے سامنے ہمیشہ سچ بولیں۔ بچے سے کوئی ایسا وعدہ نہ کریں جو پورا نہ کرسکیں ورنہ وہ سمجھے گا کہ جھوٹ بولا گیا تھا اور سب سے اہم یہ ہے کہ بچے کو ہمیشہ ایسا اعتماد دیں کہ وہ والدین سے کبھی جھوٹ نہ بولے۔ کبھی کچھ نہ چھپائے۔ اس کو یہ یقین ہو کہ سچ بولنے کی صورت میں ہی وہ کام یاب ہو سکتا ہے۔
The post بچوں کے رویّے میں مثبت تبدیلی ممکن ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.