جب سے انسانی تاریخ رقم کی جانے لگی ہے، تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے عکس سے مسحور ہوتا چلا آرہا ہے اور آئینوں سے ہمیشہ ہی سے ایک عجیب قسم کی پراسراریت وابستہ رہی ہے۔
آئینے کی ایجاد سے پہلے انسان اپنا عکس دیکھنے کے لیے پانی کے تالابوں یا پانی سے بھرے ہوئے برتن کا سہارا لیتا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آئینے کی ابتدائی شکل تھی۔ آج کل آئینے المونیم کے پاؤڈر سے بنتے ہیں لیکن قدیم مصری اپنے آئینے تانبے کو پالش کر کے بناتے تھے۔ تانبہ ان کی ایک دیوی’’ ہیتھور‘‘ سے منصوب تھام، جسے حسن، محبت، جنس، تولید اور جادو کی دیوی سمجھا جاتا تھا۔
لگ بھگ 6000 قبل از مسیح میں پالش کیا ہوا شیشہ اس مقصد کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اس سے پہلے شروع شروع میں آتش فشانی پتھروں کے ٹکڑوں کو چمکا کر ان سے آئینے کا کام لیا جاتا تھا۔ ایزٹک تہذیب میں ایک قسم کے سیاہ پتھر کو چمکا کر اس سے آئینہ بنایا جاتا تھا اور ان کا عقیدہ تھا کہ اس کا تعلق ان کے ایک دیوتا ’’تیزکاٹلیپوکا‘‘ سے ہے۔ یہ دیوتا رات، وقت اور آبائی یادداشت کا دیوتا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ آئینے اِس دنیا اور اْس دنیا کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں۔
آئینے بنانے کے لیے ایک خاص پتھر جس کا نام ’’آکسیڈین‘‘ ہے، زیادہ کارآمد تھا کیونکہ اس میں قدرتی طور پر چمک پائی جاتی ہے۔ چمکدار ’’آکسیڈین‘‘ کے یہ آئینے موجودہ ترکی کے شہر ’’اناطولیہ‘‘ سے دریافت ہوئے ہیں۔ کسی دور میں صاحبِ ثروت خاندان اپنی دولت وامارت کی نمائش کرنے کے لیے گھروں میں وینس کے بنے ہوئے بڑے بڑے آئینے نصب کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں آئینے بہت مہنگے ہوا کرتے تھے اس لیے ان سے گھر آئے مہمانوں پر امیر صاحبِ خانہ کا اچھا خاصہ رُعب پڑتا تھا۔
آئینہ صرف چہرہ دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ صدیوں سے دوسرے مختلف مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ جنگ عظیم دوئم کے وقت تک کیونکہ ریڈار ایجاد نہیں ہوا تھا اس لیے جنگ میں دشمن کے ہوائی جہازوں کی آمد کا ان کی آوازوں کے ذریعے پتہ چلانے کے لیے پتھروں سے بنے ’’صوتی آئینے‘‘ ریڈار کے طور پر استعمال ہوئے جو آواز کی لہروں کو منعکس کرتے تھے اور یوں یہ صوتی آئینے ریڈار کا کام سرانجام دیتے تھے۔ یہ آئینے پیالہ نما ہوتے تھے اور زمین پر عمودی انداز میں کھڑے کر دیئے جاتے۔ ان کو ’’اکوسٹک‘‘ (Acoustic) یعنی صوتی آئینے کہا جاتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے چاند پر بھی خاص ترتیب سے آئینے نصب کیے گئے ہیں جو لیرز اور زمین پر لگی ٹیلی اسکوپس کی مدد سے زمین اور چاند کے درمیانی فاصلے کی پیمائش کے کام آتے ہیں۔ یہ فاصلہ چونکہ چاند کے زمین کے گرد بیضوی مدار کی وجہ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے اس لیے یہ انتظام ضروری تھا تاکہ اس بدلتے فاصلے کی صحیح صحیح پیمائش ریکارڈ کی جا سکے۔ قدیم چین میں آئینے چاند کی توانائی کو مقید کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے دعویٰ کیا کہ جو کوئی ان کے آئینے میں دیکھتا ہے وہ ان کے اندر کی خصوصیات جان لیتے ہیں۔ روایت کے مطابق اپنے آئینے کی اسی خصوصیت کی مدد سے وہ اقتدار میں آئے تھے۔
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ آئینے مادے کو بھی بالکل اس طرح منعکس کر سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسا کہ وہ روشنی کا انعکاس کرتے ہیں۔ یہ ’’ایٹامک مررز‘‘ (Atomic Mirrors) کہلاتے ہیں۔ یہ خاص آئینے مقناطیسی میدان کو استعمال کرتے ہوئے ’’نیوٹرل آئٹمز‘‘ (Neutral Atomis) کو منعکس جبکہ ’’سلو آئٹمز‘‘ (Slow Atomis) کو پکڑ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ’’ایٹامک بیم‘‘ (Atomic Beam) کو کسی ایک نقطے پر مرکوز بھی کر سکتے ہیں۔ آئینے کیونکہ روشنی کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ ٹیلی سکوپس اور دیگر سائنسی آلات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
آئینوں کے کچھ ایسے عجیب و غریب اور پراسرار استعمال بھی ہوتے رہے ہیں کہ جن میں سے بعض آپ کو حیرت زدہ کر دیں گے۔ مثلاً آئینے میں اپنے عکس کو مسلسل تکنے سے فریب نظر کا ایک عجیب جادو اثر تجربہ ہوتا ہے۔ یہ ایک قدیم عمل ہے جس کو جدید سائنس تحقیق کی سان پر پرکھ رہی ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ عمل یہ ہے کہ ایک اندھیرے کمرے میں آئینے کے سامنے تقریباً 3 فٹ کے فاصلے پر بیٹھ کر 10 منٹ تک اپنے عکس کو گھورا جائے۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ اندھیرے کے باوجود آپ اپنے عکس کو دیکھ پا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد آپ کو اپنا عکس مسخ ہوتا ہوا نظر آئے گا۔
چند منٹوں بعد آپ کے عکس میں ڈرامائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی اور وہ ایک مومی تصویر کی صورت اختیار کر جائے گا اور آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ وہ آپ نہیں بلکہ کوئی دوسرا شخص ہے جو آئینے میں سے آپ کو گھور رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو اس تجربے کے دوران آئینے میں کئی دوسرے چہرے، جانور یا عجیب الخلقت عفریت اور بھوت پریت بھی نظر آتے ہیں۔ بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں کہ آئینے روح کا سایہ دکھاتے ہیں، یعنی اس شخص کی اصل شخصیت آئینے میں آ جاتی ہے۔ اس کی روشنی میں خیال کیا جاتا تھا کہ چڑیلوں اور بھوتوں کا سایہ نہیں ہوتا۔
بچے عام طور پر دو سال کی عمر کو پہنچنے پر آئینے میں اپنے آپ کو پہچاننے لگتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ کر اپنی شخصیت کے بارے میں درست اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ ایسا ہرگز ضروری نہیں۔ سائنسدان اس کے لیے ایک طریقہ استعمال کرتے ہیں جسے ’’مرر مارک ٹیسٹ‘‘ (Mirror Mark Test) کہتے ہیں۔ اس میں کسی کو آئینے کے سامنے بٹھا کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ شخص آئینے میں اپنے عکس کو دیکھنے کے دوران کس طرح کی حرکات و سکنات کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر اس کے ردِعمل سے اس کی شخصیت و کردار کے متعلق اندازہ لگایا جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دوران وہ شخص اگر اپنے تاثرات کو مصنوعی طور پر بنا کر پیش کرے تو بھی اس کا یہ جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔ سو اگلی بار آئینہ دیکھتے ہوئے احتیاط سے کام لیں، دیکھیں کہیں کوئی اور تو آپ کی شخصیت کا عکس نہیں دیکھ رہا ؟ اور آپ کا پول کُھل جائے۔
روایتی طور پر مشہور ہے کہ آئینہ عکس کو الٹ دیتا ہے یعنی آئینے میں نظر آنے والے عکس کی داہنی سائیڈ اصل میں آپ کی بائیں اور بائیں سائیڈ دراصل آپ کی دائیں سائیڈ ہوتی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ درحقیقت ہوتا یہ ہے کہ آئینے میں دکھائی دینے والا آپ کا عکس کیونکہ آپ کی داہنی سائیڈ کو آئینے میں داہنی طرف ہی اور بائیں سائیڈ کو بائیں طرف ہی دکھا رہا ہوتا ہے تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ جیسے آئینے نے آپ کے عکس کو الٹ دیا ہے۔ یہ محض فریب نظر ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ البتہ دوسری طرف ایسے آئینے بھی دستیاب ہیں جو عکس کو الٹ سکتے ہیں۔ اگر دو عام آئینوں کو بھی نوے درجے کے زاویئے سے آپس میں جوڑ دیا جائے تو وہ آپ کے عکس کو دائیں، بائیں سائیڈز کے الٹ دکھانے لگیں گے۔
دنیا کا سب سے بڑا قدرتی آئینہ اتنا بڑا ہے کہ اسے خلاء میں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’جنوب مغربی بولیویا‘‘ (South West Bolivia) میں واقع 10,582 کلومیٹرز پر پھیلا ہوا دنیا کا سب سے بڑا نمک کا طلسماتی میدان ’’سالارڈی یونی‘‘ (Salar De Uyuni) اس وقت ایک بڑا سا قدرتی آئینہ بن جاتا ہے، جب ہر سال اس پر پانی کی پتلی سی تہہ پھیل جاتی ہے۔
دنیا کے کچھ معاشروں میں آئینے کے بارے میں مختلف دلچسپ اور عجیب و غریب توہمات بھی مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر آئینہ ٹوٹ جائے تو یہ بدقسمتی کی علامت ہے اور سات برس تک بدقسمتی اس گھر کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ رومیوں میں یہ روایت ہزارہا برس سے چلی آرہی ہے۔ البتہ پاکستان میں اس کے الٹ روایت ہے۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ گھر میں آئینے کا ٹوٹنا نیک شگون ہے کیوں کہ اس طرح آپ پر نازل ہونے والی بلا آئینے کو آ گئی ہے۔مشہور یونانی دانشور سقراط نوجوانوں کو آئینہ دیکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر آپ خوبصورت ہیں تو آئینہ دیکھ کر آپ اپنی خوبصورتی کی قدر کریں گے اور اگر آپ بدصورت ہیں تو آپ کوشش کریں گے کہ اپنے علم کے ذریعے اپنے آپ کو نکھاریں۔
ادب اور فلم کے حوالے سے بھی آئینوں کو ہمیشہ زبردست اہمیت حاصل رہی ہے۔ آئینہ نہ صرف حقیقی دنیا کی تصویر کشی کرتا ہے بلکہ تصوراتی دنیا کے دروازے بھی ہم پر وا کرتے ہوئے ہمیں اَن دیکھی دنیاؤں کی سیر کرواتا ہے۔ انگریزی ہارر فلم ’’دی مِرر‘‘ (The Mirror) اس کی ایک شاندار مثال ہے۔ اکثر دوسرے لوگوں ہی کی طرح اداکار بھی بہت توہم پرست ہوتے ہیں۔ بہت سے اداکار سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کسی پرفارمنس سے پہلے آئینہ دیکھ رہے ہوں اور پیچھے سے کوئی آ کر ان کا عکس دیکھ لے تو یہ برا شگون ہے۔ آئینوں کے بارے میں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے اندر سارے واقعات ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ مشہور کہانی سنو وائٹ میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اصل سنو وائٹ 18ویں صدی کی ایک جرمن نواب زادی تھی جس کے باپ نے دوسری شادی کر لی تھی۔ اس کی سوتیلی ماں کو سنو وائٹ کے باپ نے تحفے میں ایک آئینہ دیا۔ یہ آئینہ باتیں بھی کرتا تھا۔ اس علاقے میں مشہور تھا کہ آئینے ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اسی سے یہ کہانی مشہور ہو گئی، جو ظاہر ہے کہ کہانی ہی ہے لیکن اصل آئینہ آج بھی جرمنی کے ایک میوزیم میں موجود ہے۔
اردو زبان میں بھی دیگر زبانوں کی طرح آئینے کو محاوروں میں استعمال کیا گیا ہے، جیسے ’’آئینہ دکھانا‘‘ وغیرہ۔
آپ نے کبھی غور کیا کہ اُونچی اُونچی عمارتوں میں لگی لفٹس میں آئینہ کیوں نصب ہوتا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں دن بہ دن عمارتوں کی بلندی میں اضافے کے ساتھ کیونکہ سیڑھیوں کا استعمال مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا تھا اور عام لوگ تو رہے ایک طرف، بیمار، معذور اور ضعیف افراد تو خاص طور پر چند منزلوں سے زیادہ اوپر نہیں جا سکتے۔ ایسے میں لفٹ کی ضرورت پڑ گئی۔ انسانی زندگی کو آسان بنانے والی مفید ایجادات میں لفٹ بھی شامل ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے بہت سے تجربات کیے جاتے رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت لفٹ میں آئینے بھی نصب کیے گئے لیکن یاد رہے کہ یہ آئینے محض میک اپ چیک کرنے کے لیے نہیں لگائے جاتے بلکہ اس تنصیب کی کہانی کچھ اور ہے۔ یہاں وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر لفٹ میں آئینے کیوں لگائے جاتے ہیں اور ان کے پیچھے کیا راز چھپا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ شروع شروع میں لفٹس میں آئینے نہیں لگائے جاتے تھے۔ ایسے میں لفٹ یں سوار افراد یا تو خلاء میں تکتے رہتے یا بے حس و حرکت کھڑے رہتے اور کیونکہ ان کو وہاں کرنے کا کوئی کام نہیں ہوتا تھا تو ان کے ذہن میں لفٹ گرنے جیسے طرح طرح کے پریشان کن خیالات آتے رہتے، جس سے وہ خوف محسوس کرنے لگتے۔ اسی ڈر و خوف پر قابو پانے کے لیے لفٹ میں آئینہ لگایا جانے لگا۔ اس سے یہ ہوا کہ لفٹ میں سوار افراد بجائے اِدھر اُدھر کے فضول خیالات سوچنے کے، آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے میں مگن ہو جاتے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ لفٹ میں سوار لوگ ایک چھوٹے سے ڈبے نما کمرے میں خود کو محصور محسوس کرتے تھے۔ آئینے کی وجہ سے لفٹ کی وسعت زیادہ لگنے کے باعث لوگ اس ذہنی الجھن سے بھی نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ آئینے کی یہ حیثیت بھی ہمارے لیے ایک بہت بڑی سہولت ہے۔
آئینے کی ایجاد کے بعد سے اس نے انسان کو اپنے سحر میں کچھ اس طرح جکڑا کہ اس کے بارے میں طرح طرح کی روایات نے جنم لے کر اسے پراسراریت کے لبادے اڑا دیئے۔ قدیم یونان میں تیسری صدی قبل مسیح کے دوران ’’تھیسالی‘‘ میں جادوگرنیاں خون سے لتھڑے ہوئے آئینوں کی مدد سے لوگوں کو ان کی قسمت کا حال بتایا کرتی تھیں۔ اسی طرح روم میں بھی آئینوں کے ذریعے ماضی کے بارے میں بتایا جاتا تھا اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کی جاتی تھیں۔ اب بھی کئی لوک کہانیوں میں آئینے کے ایسے ہی استعمال کا ذکر مل جاتا ہے۔ چند لوگوں کا ماننا ہے کہ آئینے کے سامنے سونے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ان کے نزدیک ماحول میں موجود توانائی کا اس معاملے سے گہرا تعلق ہے۔
قدیم چینی نظریئے ’’فنگ شو اے‘‘ جو خلاؤں یں موجود مختلف دنیاؤں کے مابین استوار مادی توانائیوں کی ہم آہنگی پر مبنی ہے، میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ توانائیاں اگر منظم ہوں تو ہماری زندگیوں میں بہتری اور ترقی لاتی ہیں۔ ’’فنگ شو اے‘‘ کے بقول آئینے دو رخی آلات کا کام کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس بارے میں بہت محتاط رہنا چاہیے کہ ہم انہیں اپنے کمروں میں کہاں اور کس جگہ نصب کر رہے ہیں۔ اس بات کا تو خاص طور پر دھیان رکھنا چاہیے کہ یہ ایسی جگہ پر نا لگے ہوں جہاں سے ہمارے سونے کی جگہ کا عکس ان میں نظر آئے کیونکہ یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسی صورت میں ساری رات ماحول میں موجود توانائی ہمارے جسم اور آئینے کے درمیان ٹکرا ٹکرا کر بیچ میں ہی چکراتی رہے گی اور ہم آرام دہ اور پرسکون نیند سے محروم رہیں گے اور یوں ہمارا اگلا دن خراب گزرے گا۔ اس لیے وہ یہ تجویز کرتا ہے کہ اگر آئینہ ایسی جگہ لگا بھی ہو تو رات کو اسے کسی کپڑے وغیرہ سے ڈھانپ دینا چاہیے۔
آئینے کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں فوت ہو جائے تو اس گھر کے آئینے کسی کپڑے وغیرہ سے اس وقت تک کے لیے ڈھانپ دینے چاہئیں جب تک کہ اس شخص کی میت تدفین کے لیے نا لے جائی جا ئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا جائے؟ گو اس روایت کی بنیاد ابھی نامعلوم ہی ہے، تاہم اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ یہودیوں کے مذہب میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اگر اس موقع پر آئینوں کو نہ ڈھانپا جائے تو مرنے والے شخص کی روح ان میں قید ہو جاتی ہے اور دوسری دنیا کے سفر پر روانہ نہیں ہو پاتی۔ یہ روایت رومنوں نے شروع کی تھی جو سمجھتے تھے کہ انسانی روح آئینوں میں قید ہو کر رہ جاتی ہے اور اسے اگلے جہان تک جانے کا موقع نصیب نہیں ہوتا۔
کچھ لوگ مرے ہوئے افراد کی ارواح کو حاضر کرنے کے لیے ’’اویجا‘‘ (Ouija) نامی ایک کھیل یا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں چند لوگ ایک لکڑی کی تختی کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی انگلیاں اس تختی پر رکھے ایک اور لکڑی کے ٹکڑے پر رکھ دیتے ہیں، جس کے درمیان میں شیشے کا ایک ٹکڑا لگا ہوتا ہے۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ عالم ارواح سے روحیں اس شیشے کے ذریعے اس دنیا میں آجاتی ہیں اور یوں ان سے رابطہ ہو سکتا ہے۔ اس تختی پر مختلف حروف اور ہندسے لکھے ہوتے ہیں اور اس کو ’’موت کی تختی‘‘ (Board of Death) کہتے ہیں۔ روحیں تختی پر دھرے شیشہ لگے لکڑی کے ٹکڑے میں سے ہماری دنیا میں آکر کمرے میں لگے آئینے میں اپنے آپ کو ظاہر کر دیتی ہیں۔
آئینے کے سامنے عبادت کرنا بھی کچھ لوگوں کے عقائد کا حصہ ہے۔ دنیا کے بیشتر مذاہب میں آئینے کے سامنے عبادت کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ جیسے انسان خود اپنے عکس کی پرستش کر رہا ہو۔
انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد سے آئینوں کے عنوان کے حوالے سے بہت سی گیمز انٹرنیٹ پر کھیلی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک گیم میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اندھیرے میں نو بار ایک مخصوص لفظ دہرانا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شیطان آپ کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے اور اگر آپ بھاگنے کی کوشش کریں تو شیطان آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہ سارا منظر انٹرنیٹ پر موجود اس گیم میں حصہ لینے والے دوسرے کھلاڑی براہء راست دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اکثر لوگوں نے اس گیم کو احمقانہ تصور کرتے ہوئے تفریحاً اس کو کھیلا لیکن وہ شیطان کے جال میں پھنس کر مصائب و آلام کا شکار ہو گئے۔ اس بات کے دستاویز ثبوت بھی موجود ہیں کہ کئی افراد اس چکر میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا دماغی توازن خراب ہو جانے پر پاگل ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس کے بداثرات ان کے خاندانوں پر بھی پڑے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس طرح کی گیمز سے اجتناب کیا جائے، چاہے آپ ان کو احمقانہ تصور کریں یا ایڈونچر کے شوقین ہی کیوں نا ہوں کیونکہ مذاق مذاق میں بھی اپنی زندگیوں سے کھلواڑ کرنا بہرحال کوئی عقل مندانہ کام نہیں۔
zeeshan.baig@express.com.pk
The post آئینہ، پُراسرار روایتوں کے آئینے میں appeared first on ایکسپریس اردو.