بدقسمتی سے جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست ڈوگرا حکمران خاندان اور اِن کے قرابت داروں کے ظلم و استبداد کا شکار چلی آرہی تھی۔
16 مارچ 1846ء کو انگریزوں نے یہ ریاست لوگوں سمیت ہندو ڈوگرا گلاب سنگھ کو فروخت کر دی تھی۔ حکمران ہندو خاندان نے ریاست کا انتظام سنبھالتے ہی اپنی مسلمان دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے ریاست پر ہندوؤں کی اجارہ داری قائم کرنے کے اقدامات شروع کر دیئے۔
مسلمانوں پر سرکاری ملازمت کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس پابندی کی خلاف ورزی پر سزائے موت کا قانون نافذ کر دیا گیا۔ مسلمانوں پر ظالمانہ ٹیکس عائد کر دیئے گئے جس کے باعث ان کی معاشی حالت دگرگوں ہو گئی۔ ان حالات میں قدرتی طور پر ریاست کے عوام نے اپنی امیدیں برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے رہنماؤں سے وابستہ کر لیں۔
1931ء میں مسجد شہید کرنے اور ہندو سپاہی کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی پر حریت پسند عبدالقدیر کی دلیرانہ تقریریں اور ان تقریروں کی پاداش میں ان کی گرفتاری نے کشمیر کی سیاسی سمت کا تعین کر دیا تھا۔ 13 جولائی 1931ء کو ڈوگرا فوج نے اُن مسلم نوجوانوں پر گولی چلا دی جو جیل کے سامنے اس لیے مظاہرہ کر رہے تھے کہ عبدالقدیر پر مقدمہ جیل کی بجائے کھلی عدالت میں چلایا جائے۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں 27 نوجوان شہید ہو گئے اور یوں کشمیر میں ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا جو آج بھی جاری ہے۔
جب برصغیر کی تقسیم کے اصول طے کیے گئے تو کشمیر کے مسلمان اس بات پر مطمئن تھے کہ مسلم اکثریت کے باعث کشمیر لازماً پاکستان ہی کا حصہ بنے گا لیکن جب بھارت کی کانگریسی قیادت اور انگریز حکام کی ملی بھگت سے کشمیر میں سازشوں کا بازار گرم ہوا تو کشمیر کے طول و عرض میں مایوسی پھیل گئی۔
کشمیر کے بھارت کے ساتھ جعلی الحاق کا ڈرامہ رچائے جانے کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے مسلمان، ڈوگرا راج کے جبر سے نکل کر بھارتی فوج کے استبداد کا شکار ہو گئے۔ اُن کی آزمائش ختم ہونے کے بجائے بڑھ گئی اور تب سے اب تک کشمیری نسل در نسل اپنی آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں۔
ان صفحات کے ذریعے ہم اپنے قارئین کے لیے کچھ ایسی نایاب تصاویر پیش کر رہے ہیں جن کا تعلق جدوجہد آزادیٔ کشمیر کے ابتدائی دنوں کے ساتھ ہے۔ یہ تصاویر لاہور کے فوٹوگرافر میاں عزیز احمد ایزنک مرحوم نے بنائی تھیں۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کو ٹریور جانز کولیکشن، انڈیا آفس لائبریری اور برٹش میوزیم کے لیے منتخب کیا گیا۔ انہیں ان خدمات پر گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔ ادارہ ایکسپریس ان تصاویر کی فراہمی کے لیے مرحوم کے بیٹے میاں رفیق احمد ایزنک کا شکر گزار ہے۔
بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ آزادیٔ کشمیر کے اولین مجاہدوں میں ایک خاتون زونا بی بی مجاہدبھی شامل ہیں جنہوں نے درگاہ حضرت بلؒ کے سبزہ زار سے نعرہ حریت بلند کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا ’’کشمیر کے عوام چاہتے ہیں کہ ڈوگرا راج کا خاتمہ ہو۔‘‘ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈوگرا راج کے خلاف ’’کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک جاری تھی اور سری نگر کے طول و عرض میں ایک خاموش، پرامن انقلاب انگڑائی لے رہا تھا۔ زونا بی بی کشمیر میں استصواب رائے کی جدوجہد میں خواتین کی قیادت کر رہی تھیں۔
زونا بی بی مجاہد کا گھرانہ سری نگر میں پتھر مسجد کے علاقہ میں آباد تھا۔ یہیں پر نیشنل کانفرنس کا ہیڈ کوارٹر مجاہد منزل بھی واقع ہے۔ ’’گو ڈوگرا گو‘‘ تحریک کے دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
کہتے ہیں کہ جب زونا بی بی درگاہ میں خواتین سے خطاب کیا کرتی تھیں تو کہا کرتیں ’’اپنی عصمت اور شرافت پر سمجھوتے کیے بغیر ریاستی جبر کا مقابلہ کرو۔‘‘ اس عظیم خاتون کو جدوجہد کے راستے میں ایسے مصائب جھیلنا پڑے جن کا تصور ہی انسان کو دہلا کر رکھ دیتا ہے۔
ریاستی جبر سے مجبور ہو کر زونا بی بی کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی جبکہ ان کے اپنے خاندان والوں نے بھی ان سے قطع تعلق کر لیا اور سب بڑا دُکھ یہ کہ ان کا اکلوتا بیٹا بھارتی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ یہاں زونا بی بی مجاہد کی زندگی کی چند جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں۔
The post جب جدوجہد آزادی ٔ کشمیر کا آغاز ہوا appeared first on ایکسپریس اردو.