جاپان کے شہر ’’اوکی ناوا‘‘ میں پرفیکچوئل اگریکلچرل ریسرچ سینٹر کے زیراہتمام گنے کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل سوسائٹی آف شوگر کین ٹیکنالوجسٹ (ISSCT) کے تحت 6 روزہ ورکشاپ کا پہلا دن تھا، جہاں دنیا بھر سے آئے 113 گنے کے چوٹی کے ماہرین اور سائنس داں او کی ناوا انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (OIST) کے خوب صورت آڈیٹوریم میں بیٹھے افتتاحیہ سیشن میں پہلے اسپیکر کو سننے میں محو تھے جو دنیا میں گنے کی پیداوار کے ممکنہ مسائل اور ان کے حل کے موضوع پر حاضرین سے مخاطب تھا۔
چوںکہ یہ ورکشاپ کا پہلا دن تھا لہٰذا ہال میں بیٹھا ہر شخص ایک دوسرے سے بے خبر، ناآشنا اور اجنبی تھا اور سب ایک دوسرے سے لاتعلق اسپیکر کو سننے میں محو تھے۔ میں آڈیٹوریم کی پچھلی نشستوں پر تھا اور تمام شرکاء پر بہ آسانی میری نظر تھی جو جوش و خروش سے بیک وقت سننے اور لکھنے میں مصروف تھے۔ دیکھ تو میں بھی اسپیکر کو رہا تھا مگر میں اندر ہی اندر سے کسی ادھیڑبن میں مصروف تھا۔ اپنے آپ سے الجھ رہا تھا، کیوںکہ میرا پاکستان سے جاپان آنے کا و احد مقصد6روزہ مذکورہ بین الاقوامی ورکشاپ میں شرکت تھی اور بس ۔۔۔ اور یہی ایک بات میری الجھن کا سبب تھی۔
اس ورکشاپ میں شرکت کے لیے اجازت اور پروانۂ راہداری بھی محکمۂ زراعت حکومت پنجاب نے مجھے بخوشی تھما دیا تھا۔ فنڈز کا بھی کوئی مسئلہ نہ تھا جسے شوگر کین ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ، حکومت پنجاب نے بطور فنڈنگ ایجنسی کے اسپانسر کر رکھا تھا۔ لوگ تو خوشی خوشی بیرون ملک جاتے ہیں اور وہ بھی سرکار کے خرچے پر، تاکہ سیرسپاٹے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے مگر 23 گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو ، اور ٹوکیو سے پھر چار گھنٹے کے جیٹ طیارے کے سفر کے بعد جاپان کے انتہائی شمال کی جانب واقع جزیرے اوکی ناوا میں اترنے کی مجھے کوئی خاص خوشی محسوس نہ ہو رہی تھی۔
پہلا لیکچر جاری تھا مگر مجھے کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ میرا ذہن کہاں اٹک سا گیا ہے۔ مجھے اسپانسر کرنے والی ایجنسی کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر ڈاکٹر شاہد افغان میرے پہلو میں بیٹھے تھے جن کے ہمراہ فیصل آباد سے جاپان میں اس ورکشاپ میں شرکت کے لیے آیا تھا اور تقریباً ہم عصر ہونے کے ناتے جنہوں نے میرا اپنے سے بڑھ کر خیال رکھا تھا کہ اعجاز پہلی دفعہ جاپان جا رہا ہے اسے کوئی تکلیف نہ ہو، مگر نہ جانے کیوں ان کی موجودگی بھی میری پریشانی کم کرنے کا سبب نہ بن رہی تھی۔
چائے کے وقفے کے دوران کوئی 90 فے صد شرکاء ایک دوسرے سے لاتعلق نظر آئے، کیوںکہ افتتاحیہ تقریب میں باقاعد ہ تعارفی سیشن نہ ہونے کے سبب ہر کوئی ایک دوسرے سے نابلد اور سہماسہما سا تھا، حالانکہ اتنے بڑے عالمی فورم میں پہلا سیشن کون کس ملک سے ہے جیسے تعارف پر مبنی ہوا کرتا ہے، جو یہاں نہ ہوسکا۔ کوئی 20 منٹ کے بعد عالمی ورکشاپ دوبارہ شروع ہو گئی جو دوپہر کے کھانے تک جاری رہی۔ اس دوران میرے اپنے ادھیڑبن میں مبتلا ہونے کا عمل نہ صرف جاری رہا بلکہ بڑھتا بھی رہا۔ میں نے خود سے کہا، مسٹر اعجاز تبسم ۔۔۔ تم نے جاپان آکر بہت بڑی غلطی کی ہے ، اپنے بچوں سے دور بھی ہو، اپنے سرکاری امور بھی ادھورے چھوڑے اور خواہ مخواہ حکومت کا پیسہ بھی برباد کیا ۔۔۔۔ تم کوئی پتوکی تو نہیں آئے اور نہ ہی راولپنڈی کسی سرکاری میٹنگ میں شرکت کے لیے گئے ہو، تم تو آدھے جہان کا سفر طے کر کے جاپان آئے ہو، جہاں آنے کے لیے ڈھیر سارا روپیہ چاہیے ہوتا ہے، تب جاکر بندہ ٹوکیو پہنچتا ہے اور تم تو ٹوکیو سے بھی دور مستطیل نما جزیرے میں جاپان کے آخری سر ے پر ہو، جہاں تائیوان، فلپائن، انڈونیشیا، ہانگ کانگ، چین جیسے سب ممالک ادھر ادھر ہوجاتے ہیں، اور جہاں تک پہنچنے کے لیے کوریا بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔ تم نے اتنی دور آکر حکومت پنجاب کا پیسہ ضائع کردیا ہے جو غریبوں پر استعمال ہونا تھا، جس سے سڑک بننا تھی، جو بے گناہی میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین پر خرچ ہونا تھا۔ اور تم ہو کہ ڈھیر سارے سرکاری خرچے پر صرف ورکشاپ میں شرکت کے لیے جاپان آگئے ہو۔
اسی پشیمانی کے باعث میری آنکھوں کے کونے بھیگنے کو تھے۔ سنا ہے کہ ماں کی یاد میں یا دھرتی ماں کی یاد میں بہنے والے آنسوؤں کو پونچھنا نہیں چاہیے، انہیں گالوں میں اندر تک جذب ہوتے رہنے دینا چاہیے، کیوںکہ ان سے بڑھ کر آج تک کوئی عقیدت ایجاد نہ ہوسکی۔ لیکچر سننے کے دوران ڈاکٹر شاہد افغان لیکچر دینے والے پر اکا دکا سوالوں پر میری ہاں میں ہاں ملانے کی کوشش کرتے بھی تھے مگر ہال میں اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنا چہرہ ان کی جانب نہ کرتا تھا مبادیٰ کہیں میرے آنسوؤں کو دیکھ کر پریشان نہ ہو جائیں کہ تجھے پاکستان میں بچے تو یاد نہیں آرہے !
اس سمے سوچ اس جانب بھی رہی کہ سرکاری دفاتر میں10 دن کا عرصہ کتنا قلیل عرصہ ہو گا جب کسی کو کہا جائے کہ تمھیں بیرون ملک سفر پر روانہ ہونا ہے پاکستان کی نمائندگی کرنا ہے رخت سفر باندھ لو، چنانچہ سرکاری دستاویزات کی تیاری اور پھر اس کی منظوری میں ایک ڈیڑھ ماہ کا عرصہ بہ آسانی لگ جاتا ہے ویزہ پراسس الگ ایک مرحلہ ہوتا ہے کم از کم ایک ماہ اسے بھی درکار ہوتا ہے ، جب کہ ادھر جاپان جانے کے لیے۔
میرے پاس صرف 10/12 دن تھے ، پہلے میں نے سوچا کہ یہ سب مذاق ہے، میں بھلا کس کھیت کی مولی ہوں جو مجھے اتنی اہمیت دی جائے اور اوپر سے میرا کون سا چاچا ماما کسی سرکاری عہدے پر فائز ہے جس کی سفارش پر جاپان کے لیے میری نامزدگی ہو گئی ہے، اور دفتر میں تو پہلے ہی بے شمار لابیاں ہوتی ہیں، میں بذات خود کسی بھی لابی سے منسلک نہیں ہوں اور نہ ہی کسی برادری سے زندگی بھر مجھے کبھی کوئی شغف رہا ہے، میں تو فقط تحقیق سے منسلک ہوں اور یہی میری برادری ہے، اور ہاں اگر میں کسی برادری کی بیساکھی کا سہارا لیتا تو آج میں UNO کی کسی اہم سیٹ پر براجمان ہوتا اور اس سمے مجھے میرا حال واقعی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی دور میں معراج خالد یا غلام حیدر وائیں کا تھا، نہ تین میں اور نہ تیرا میں تھے اور نہ ہی کسی پارٹی کے سربراہ تھے مگر پھر بھی قدرت نے ان کو وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے سیٹ پر لابٹھایا تھا ۔۔۔میرا جاپان کے لئے منتخب ہونا اور پھر جاپان آجانا، اس لمحے مجھے کسی طور بھی قدرت کی خود پر نوازش سے کم نہیں لگ رہا تھا، ویسی ہی نوازش جیسی قدرت نے معراج خالد یا غلام حیدر وائیں پر کی تھی۔
آڈیٹوریم کے نیم تاریک ماحول میں سب کی طرح میری آنکھیں بھی مقالہ پڑھنے والوں پر تھیں مگر میرا ذہن سوچ رہا تھا کہ تجھے حکومت پنجاب محکمہ زراعت کا وقت اور پیسہ دونوں برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ سیکریٹریٹ محکمہ زراعت حکومت پنجاب لاہور کے بڑوں کی شفقت کا سبب تھا کہ میں جاپان میں پہلے دو دن مسلسل بے چین رہا، کیوںکہ گنے کی اس عالمی کانفرنس میں اپلائی کرنے کے مختصر سے وقت میں جاپان میں منعقدہ ISSCT کی سالانہ ورکشاپ میں نہ تو سرکاری طور پر میرا نام شامل ہو سکا تھا اور نہ ہی پروگرام کی فہرست میں نام درج تھا۔ لیکچر دینا تو دور کی بات ہے میرا تو نام بھی کسی abstract یا پوسٹر پریزینٹیشن میں درج نہیں تھا۔
جی میں آیا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ تم فیصل آباد میں ہی ٹیلی ویژن پر کسی CNN کا پروگرام دیکھ لیتے ۔۔۔ جہاں آئے دن جاپان کے بارے میں آڈیو وڈیوز چلتی رہتی ہیں۔ بہرحال اس لمحے خیال آیا کہ چلو کھانے کے وقفے میں انتظامیہ سے بات کرتا ہوں مگر ڈاکٹر شاہد افغان اس سے قبل مجھ سے کہہ چکے تھے کہ اس عالمی کانفرنس میں ہر چیز دو ماہ قبل فائنل ہو جاتی ہے، اب کچھ نہیں ہوسکتا، اور بات کرنے سے کہیں خواہ مخواہ کی سبکی ہی نہ ہو جائے ، اس لمحے سچی بات ہے کہ ڈاکٹر افغان کی بات نے مجھے تڑپا کر رکھ دیا تھا اور میں اپنے آپ میں بڑ بڑ کرتا رہا کہ کیا میں حکومت پنجاب کا پیسہ خرچ کر کے یہاں صرف سیر کرنے کے لیے آیا ہوں!
میں چاہتا تھا کہ پاکستان میں گنے کی اقسام کی تیاری کی تحقیق بارے میں گنے کے ماہرین کو علم ہو کہ پاکستان میں گنے کی نئی قسم کیسے تیار ہوتی ہے اور اگر کوئی کمی و بیشی ہو تو عالمی ماہرین کی مشاورت سے اس کی نوک پلک سنوار دی جائے۔ میری نظر میں پاکستانی گنے کی قسم کی تحقیق بارے مشاورت کا اس سے بہتر اور نادر موقع کہیں اور نہیں مل سکتا، اگر پاکستانی ماہرین گنا کسی دوسرے ملک میں جاکر بات چیت کریں تو وہاں صرف دو ممالک کے ماہرین ہی باہم مشاورت کریں گے اور اگر کسی دوسرے ملک کی گنے کی ٹیم پاکستان میں آئے تو تب بھی دو ممالک کے ماہرین ہی گنے کی ترقی و تحقیق بارے بات چیت کریں گے، مگر دنیا بھر کے ماہرین گنا کا ایک چھت تلے بیٹھنا اور پھر پاکستان میں زیادہ پیداوار کی حامل گنے کی اقسام کی تحقیق وتیاری پر عالمی ماہرین گنا کی بات چیت پاکستانی تحقیق کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔
میری خواہش تھی کہ گنے کے اس عالمی فورم میں میری موجودگی پاکستان کے وقار میں اضافے کا موجب بنے، گنے سے وابستہ نمائندہ ممالک کے ماہرین اس بات سے باخبر ہوںکہ قدرت نے گنے کے تناظر میں سورج کی روشنی، رات کی تاریکی، ہوا میں نمی اور گنے کی ضرورت کے مطابق مطلوبہ درجۂ حرارت کی جو نوازشیں آپ لوگوں پر کی ہیں ہم ان سے محروم تو ہیں مگر گنے کی زیادہ پیداوار کے حصول اور گنے کی فصل میں پیداواری تیکنیک سے متعلق کی جانے والی انسانی کاوشوں کے سبب پاکستانی قوم کسی سے پیچھے نہیں رہے گی۔
چائے کے وقفے میں ISSCT کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر غلام حسین بدالو کی جانب میرے قدم اٹھ گئے، جنہوں نے سب سے پہلے اسٹیج پر آکر اپنے خوب صورت الفاظ میں ورکشاپ کی افتتاحیہ تقریب کا آغاز کیا تھا، اگرچہ وہ انگریزی زبان میں بات کر رہے تھے ، مگر ان کے الفاظ کا چناؤ، طرز ادائیگی، باڈی لینگویج اور آنکھوں کی چمک و جھپکنے کے انداز میں ایک خاص آہنگ دکھائی دیا ، ان سے سلام و دعا کی وطن پاک کا بتایا تو مسکرا تے ہوئے “میں بھی مسلمان ہوں” کہہ کر انہوں نے بھرپور معانقہ کیا۔ ان کے گلے ملنے کے انداز سے کم از کم یہ ضرور ہوا کہ میری بے چینی قدرے کم ہوگئی۔
جب میں نے ان سے اجازت لی کہ میں گنے پر لکھی جانے والی اپنی کتاب پیش کروں تو ’’وائے ناٹ‘‘ کہتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھے۔ یہ کتاب پاکستان میں گنے کی تحقیق اور اس کی اقسام کی پیداوار کے تناظر میں کسان کی مالی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر مبنی ہے، جسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جب میں نے کہا کہ سر! میرا نام نہیں ہے پروگرام کی لسٹ میں، میں یہاں اپنا ریسرچ پیپر پڑھنا چاہتا ہوں، تو کہنے لگے، جی ہاں مجھے معلوم ہے۔ یہ لسٹ کوئی 2 ماہ قبل فائنل ہوجاتی ہے، جس میں Abstracts ، پروگرام، ہوٹل میں قیام اور ایجنڈا شامل ہوتا ہے، لہٰذا اب بہت مشکل ہے پھر اندر کی بات کہنے لگے کہ یہاں پر تو میں بھی آپ ہی کی طرح مہمان ہوں۔ میرا تعلق ماریشس سے ہے، مگر آپ ایسا کریں کہ یہاں کی مقامی قیادت سے بات کرلیں اور جاپان سوسائٹی آف شوگرکین ٹیکنالوجسٹس آپ کی اس سلسلے میں ضرور کوئی نہ کوئی راستہ نکال لے گی۔
ISSCT کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر غلام حسین بدالو نے عالمی فورم سے خطاب کے لیے اگرچہ انکار کردیا تھا، مگر گنجائش کا ایک راستہ بہرطور ضرور دکھایا تھا اور پھر ان کے انکار میں مجھے کسی قسم کی حوصلہ شکنی کا کوئی پہلو نظر نہیں آیا تھا، جس کو محسوس کر کے پاکستان کی طرف سے میں اس عالمی فورم میں مخاطب ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کا ارادہ چھوڑ دیتا مگر مجھے تحریک ضرور ملی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قدرت نے مجھے مقامی قیادت یعنی جاپانیوں کے ظرف کو براہ راست پرکھنے اور ایک مکالمے کا نادر موقع ضرور فراہم کردیا تھا۔
عالمی فورم سے خطاب کی نئی تحریک لیے کھانے کے وقفے ہی میں بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے جاپان سوسائٹی آف شوگرکین ٹیکنالوجسٹ ( JSSCT ) کے سربراہ کو ڈھونڈنا چاہا تو معلوم ہوا کہ ان کا نام ڈاکٹر شین ہے، جو ادارے کے سربراہ اور اس عالمی فورم کے انچارج بھی ہیں، ہیلو ہائے کے لیے لوگوں سے پوچھتا ہوا جب میں ڈاکٹر شین کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھ کر وہ مسکرا اٹھے۔ ڈاکٹر شین کو دیکھ کر سچی بات ہے حیرانی، تذبذب، اور پریشانی کی تمام کیفیات میرے چہر ے پر امڈ پڑیں، مجھے نہیں اندازہ تھا کہ ایک معمولی اور واجبی سا بندہ اس ادارے کا سربراہ بھی ہوسکتا ہے۔
جونہی میں جاپان کے نیہا ایئرپورٹ پر امیگریشن کے تمام مراحل طے کرکے ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو واجبی سے کپڑوں میں ملبوس ایک دھان پان سا اور مفلوک الحال چہرہ نظر آیا، جسے دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ایک طویل عرصہ سے بھوکا ہو اور ایک روٹی کے حصول میں کبھی کبھار ایئرپورٹ پر بطور پورٹر کے چند سکے کما کر گزر بسر کرتا ہو ، مگر اس وقت اس نے اپنے ہاتھ میں ایک کتبہ اٹھا رکھا تھا جس پر ISSCT/OKINAWA رقم تھا 23 گھنٹے کی مسافت کے بعد اپنی منزل ISSCT/OKINAWA کے الفاظ کی اپنائیت کے پیش نظر ہمارے قدم سیدھے اس کی جانب اٹھ گئے۔ سلام دعا کے بعد اس مفلوک الحال شخص نے ہمارے نہ نہ کرنے کے باوجود ہمارا سامان خود اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر گاڑی میں رکھا، گاڑی ایسی تھی کہ جیسے ابھی ابھی شو روم سے لائی گئی ہو، گاڑی میں بیٹھے تو وہی مفلوک الحال شخص ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔ گاڑی جاپان کی سڑکوں پر سبک رفتا ری سے ایسے چل رہی تھی کہ جیسے وہ سڑک پر نہیں بلکہ شیشے پر چل رہی ہو۔
شہر نیہا کی صاف ستھری سڑکیں، اور جن پر کوئی اسپیڈ بریکر بھی نظر نہ آیا۔ رات 10 بجے کا پہر تھا ٹریفک کا رش نہ ہونے کے باوجود ٹریفک سگنل پر گاڑی رک جاتی، حالاںکہ اردگرد کی سڑکوں پر کوئی بھی گاڑی نہ تھی، اس کے باوجود ٹریفک سگنل پر گاڑی کا رک جانا، مجھ میں اپنے پاکستان کے بارے میں کئی قسم کے سوالات جنم دینے کا سبب بن گیا، اور میں یہاں جاپان میں ڈرائیور کو بھی کہہ نہ سکا کہ بھائی صاحب! چوک میں کوئی بھی گاڑی نہیں ہے لہٰذا آپ چوک کراس کرلیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بحیثیت پاکستانی ہم سب قوانین پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں، مگر انتظامیہ اور عوام دونوں کی آپس میں ملی بھگت سے ایک کہتی ہے کہ تنخواہ تو مل ہی جانی ہے محنت کرنے کا کیا فائدہ، جبکہ دوسرے کا مؤقف ہے کہ ٹریفک سگنل کو چھوڑو یار، سنتری کی مٹھی گرم کردیں گے، وقت بچے گا چلو اشارہ کاٹ دو، مگر یہاں جاپان میں قوانین کی مضبوطی کو دیکھ کر میں خود اس ڈرائیور سے نہ کہہ سکا کہ اشارہ کاٹ دو۔
کوئی 20 منٹ کی مسافت کے بعد اوکی ناوا شہر کے بیچوں بیچ ایک خوب صورت ہوٹل پر گاڑی رک گئی، ڈرائیور جلدی سے گاڑی کی ڈگی کی جانب آیا اور جلدی سے میرے سامان کو تھاما، میرے پس و پیش کرنے کے باوجود ہوٹل کے اندر سامان اٹھا کر میرے کمرے تک لے آیا۔ مفلوک الحال شخص کو ٹپ کی صورت پیسے دینے چاہے مگر سوائے شرمندہ ہونے کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ دھان پان سا یہ مفلوک الحال شخص اب میرے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ یہ تھے ڈاکٹر شین، جن کی زیرنگرانی ISSCT کا سالانہ فنکشن انعقاد پذیر تھا اور جو جاپان سوسائٹی آف شوگر کین ٹیکنالوجسٹ( JSSCT) کے سربراہ بھی تھے۔
انہیں دیکھ کر سچی بات ہے میں چکرا سا گیا کہ اتنی بڑی شخصیت جو اس عالمی پروگرام کی منتظم بھی ہے، مجھ ناچیز کے استقبال کے لیے نہ صرف ایئرپورٹ تک آگئی تھی بلکہ ہوٹل میں میرے سامان تک کو بھی اٹھاتی رہی تھی۔ میں اند ر سے کچا سا ہو چلا تھا اور دل بھی پھیکا سا ہو گیا تھا کہ ہمارے پاکستان میں تو ایسا ہونا کسی عجوبے سے کم نہیں، بلکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی ادارے کا سربراہ کسی جونیئر کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ تک آ پہنچے گا، مگر یہاں جاپان میں ایک ادارہ کا سربراہ مجھ جیسے معمولی سے شخص کو لینے کے لیے ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ شاید یہ میرے ساتھ ایسا تھا یا سب کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی برتاؤ کیا ہوگا، کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بہرحال ڈاکٹر شین تقریباً واجبی سے کپڑے پہنے میرے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے، میں ابھی اپنی بات کا سرا پکڑنے ہی والا تھا کہ کہنے لگے ڈاکٹر اعجاز، کیسے ہیں، بور تونہیں ہو رہے، دل تو لگ گیا ہے ناں جاپان میں، کوئی مسئلہ تو نہیں ہے یہاں، اگر کوئی مسئلہ ہو تو ضرور شیئر کریں۔
’’سر!۔۔۔وہ وہ ۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں بولیں ۔۔۔۔ پاکستان تو یاد نہیں آرہا‘‘
’’نہیں سر‘‘
(میں ہچکچارہا تھا کہ یہ میرا لیکچر رکھنے اور اپنے پروگرام میں تبدیلی کرنے کا کہنے پر وہ کہیں برا نہ مان جائیں۔ دل نے حوصلہ دیا کہ ادھر ڈاکٹر شین کے پاس تو چار بندے کھڑے ہیں لہٰذا لیکچر کی اجازت نہ ملنے پر تو ان چار بندوں کے سامنے میری سبکی ہو گی جب کہ لیکچر کی اجازت ملنے پر پاکستان میں گنے کے تحقیقی پروگرام میں اگر کوئی کمی و بیشی ہوئی تو دنیا بھر کے عالمی ماہرین کی توجہ اور مشاورت سے میرے وطن میں گنے کے تحقیقی پروگرام کو چار چاند لگ سکتے ہیں)
’’پھر کیا بات ہے ‘‘
’’جی میں پاکستان سے ہوں‘‘ (میں نہیں چاہ رہا تھا کہ ان پر حقیقت بیان کردوں اور یہ کہہ دوں کہ میں اس پروگرام میں تاخیر سے شامل ہوا ہوں۔ اس سے بھی میرے وطن کی حرمت پر آنچ آسکتی ہے کہ دیر سے کیوں شامل ہوئے ہو، اس لیے فوراً بول اٹھا)
’’میرا نام پروگرام کی فہرست میں شامل ہو نے سے رہ گیا ہے۔ پاکستان میں گنے کے تحقیقی پروگرام کو اگر یہاں پیش نہ کیا گیا تو مجھے ایسا محسوس ہو گا کہ میں پاکستان سے جاپان گیا تھا اور فقط سیر کر کے واپس آگیا۔ ایسے میں میرا ضمیر ساری عمر ملامت کرتا رہے گا۔‘‘
ڈاکٹر شین نے مجھے حیرت سے دیکھا اور بولے، ’’مسٹر تبسم! مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ گنے کے تحقیقی پروگرام سے تو تم کو محبت ہوگی، مگر اپنے وطن پر عقیدت کا رنگ تم پر کچھ زیادہ غالب دکھائی دے رہا ہے۔ وطن سے تمھارے پیار کا یہ انداز ہمیں اچھا لگا ہے، چلو ہم دیکھتے ہیں۔‘‘
’’جی بہت شکریہ‘‘
ماہرین گنا کی عالمی ورکشاپ سے لیکچر کی صورت میرے مخاطب ہونے کی خواہش کے پیش نظر ڈاکٹر شین کی نیم رضا مندی میری سوچوں کو تقویت دینے کا سبب بن گئی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی روزشام 4 بجے ڈاکٹر شین کا پیغام موصول ہوگیا کہ کل بروز منگل 12بج کر 20 منٹ پر گنے کی بریڈنگ کے سیشن میں آپ کا لیکچر رکھ لیا گیا ہے۔ آپ کا موضوع ہو گا ’’پاکستان میں گنے کی نئی قسم کی تیاری کا تحقیقی پروگرام۔‘‘
پیغام سن کر مجھے ایسے لگا جیسے میرے تنِ مردہ میں جان ڈال دی گئی ہو، جیسے میں دوبارہ زندہ ہو گیا ہوں، جیسے مجھے جاپان آنے کا مقصد مل گیا ہو۔۔۔حکومت پاکستان کے مجھ پر پیسہ خرچ کرنے کا جیسے جواز مل گیا ہو۔ میں ساری رات سو نہ سکا اور اپنے لیکچرکے مواد کی کانٹ چھانٹ کرتارہا۔
اگلے دن دنیائے گنا کے سب سے بزرگ، زیرک سائنس داں اور ویسٹ انڈیز کے 75سالہ معروف پلانٹ بریڈر ڈاکٹر انتھونی کینڈی بریڈنگ سیشن کی صدارت فرما رہے تھے۔ کہنے لگے ۔۔۔ اب میں پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم کو دعوت اظہار دیتا ہوں کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور اپنا مقالہ پیش کریں۔ صدرنشیں کی جانب سے اپنے نام کی اناؤنسمنٹ پر میرے بدن کا رواں رواں رقص کرنے لگا جبکہ میری آنکھوں کے کونے خوشی سے بھیگنے کو تھے کہ آج تجھے کتنا بڑا اعزاز مل رہا ہے۔ میں اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے باوقار انداز سے چلتا ہوا اسٹیج پر آگیا اور حاضرین سے مخاطب ہوا۔
اللہ عز وجل کی حمد و ثناء کے دوران لوگوں پر نظر ڈالی تو تو ان کے چہروں پر یک دم حیرت طاری تھی کہ یہ کیا پڑھ رہا ہے، میں حیران تھا مقالہ پڑھنے والوں کے چند ابتدائی لمحوں کو حاضرین بطور خاص غور سے اور جوش و خروش سے سنتے ہیں، ان کی شستہ انگریزی، لب و لہجہ اور آواز کے زیر و بم کو دیکھتے ہیں۔ اس ورکشاپ میں یہ تقریب پچھلے دو روز سے جاری تھی مگر اس سمے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ موقع کی مناسبت سے میں نے تلاوت مختصر کردی اور انگریزی میں بولنے لگا۔
میں نے کہا، دوستو! اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں گنے کا تحقیقی پروگرام آپ لوگوں کے تحقیقی پروگرام کے سامنے ابھی طفل مکتب ہے یا ابھی ابتدائی اسٹیج پر ہے تو یہ بات بے جا نہ ہو گی۔ رات کی تاریکی، ہوا میں نمی اور درجۂ حرارت کی وہ مقدار جو گنے کے پودوں پر پھول لانے کا سبب بنتی ہے اور جو آپ لوگوں کے ہاں وافر مقدار میں موجود ہے، وہ مقدار پاکستان میں سرے سے دست یاب ہی نہیں ہے اور نئی قسم کی تیاری میں پھول ہی اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن اس وقت ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ محکمہ زراعت حکومت پنجاب اسی برس ایسا سسٹم بنا رہا ہے جس کے تحت روشنی، تاریکی، ہوا میں نمی اور درجۂ حرارت جیسے مصنوعی عوامل کے ذریعے گنے کے پودے پر پھول اگائے جا سکیں گے جس سے گنے کی نئی اقسام اپنی تیاری کے مراحل تیزی سے طے کرے گی اور اس وقت میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک وقت ضرور آئے گا کہ جب پاکستان گنے کی اقسام اور پیداوار کے تناظر میں آپ لوگوں کا سرخیل ہو گا۔
میں نے تیکنیکی تفصیلات بتائے ہوئے کہا، پاکستان میں اس وقت گنے کی اوسط پیداوار 560 من فی ایکڑ ہے، جب کہ ہمارے صوبہ پنجاب کی 630 من فی ایکڑ ہے، اور دنیا کی اوسط پیداوار 710من فی ایکڑ ہے، مگر آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ہمارے کسان اپنی استعداد سے بڑھ کے گنے کے کھیت میں کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مقابلے میں ہمارے کسان ضلع راجن پور سے گنے کی اوسط پیداوار930من فی ایکڑ حاصل کر چکے ہیں (ہال تالیوں سے گونج اٹھا) میں پھر گویا ہوا کہ وہ وقت دور نہیں جب ہم گنے کی فصل میں دنیا کے نمبر ون ملک کہلائیں گے۔ اس سمے لوگ مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ میرا لیکچر کوئی 20 منٹ جاری رہا۔ سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا، جس میں عالمی ماہرینِ گنا پاکستان میں جاری گنے کی تحقیق سے خاصے مطمئن دکھائی دیے اور مجھے اپنی تجاویز سے بھی نوازا۔
جاپان میں ابھی میرا پہلا ہی دن تھا کہ میں کمرے میں سامان رکھ کر استقبالیہ میں آگیا اور ہوٹل کے منیجر سے کہا کہ مجھے اپنے گھر ٹیلی فون پر بات کروادیں۔ اس نے ٹیلی فون کا رسیور اٹھایا اور کہا، کہاں بات کرنا ہے؟ میں نے کہا میری پاکستان بات کروا دیں ابھی میں فیصل آباد کا لفظ بولنے ہی والا تھا کہ اس نے رسیور فوراً کریڈل پر رکھ دیا اور بولا ہم پاکستان بات نہیں کروا سکتے۔میرا شش وپنج میں مبتلا ہونا فطری امر تھا۔ میں نے کہا کیوں جناب! کیا بات ہے ، مہنگی کال ہوگی؟ اسے آپ میرے بل میں نہ ڈالیں، میں ابھی پیسے دے دیتا ہوں۔ صرف آدھے منٹ کے لیے آپ میرے بچوں سے میری بات کروادیں ۔۔۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں خیریت سے جاپان پہنچ گیا ہوں۔ مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔ میرے گھر اینڈرائیڈ موبائل نہیں تھا جو میں واٹس اپ پر بات کرلیتا، لہٰذا مجبور تھا۔ پوچھ ہی لیا، جناب! کیا وجہ ہے، آپ میری بات کیوں نہیں کروانا چاہتے؟
منیجر کہنے لگا، کوئی اور ملک ہوتا تو بات کروا دینی تھی ، مگر پاکستان کے لیے سوری۔
میرے پاک وطن کی اتنی بڑی بے حرمتی۔ مجھ سے برداشت نہ ہو سکی۔ میں پھٹ پڑنے کو تھا۔ اس چیز کا بھی مجھے بخوبی ادراک تھا کہ میں دیارغیر میں ہوں، ایک ہلکی سی ناشائستہ حرکت مجھے میری خفت کا سبب بن سکتی تھی۔ میں نے کہا، ’’جناب! پاکستان کے لیے سوری کیوں؟ ذرا ہم پاکستانیوں کو بھی علم ہو کہ آپ کے ٹیلی فون کے ذریعے ہم پاکستان میں بات کیوں نہیں کرسکتے؟‘‘
’’آپ دہشت گرد ہیں۔ آپ مسلمان ہیں اور مسلمان قوم پچھلی دو دہائیوں سے دنیا بھر میں دہشت گرد کے طور پر متعارف ہوئی ہے۔ اچھی بھلی پُرامن دنیا کو مسلمانوں نے ہلاکر رکھ دیا اور پاکستان اس دہشت گردی کا سرخیل ہے۔‘‘ وہ ایک ہی سانس میں بولے جا رہا تھا۔ اپنے وطن کی بے عزتی پر آخر میں پھٹ پڑا۔
’’بھائی صاحب! آپ کی بات میں وزن نہیں، اگر کوئی ثبوت ہے تو ضرور شیئر کریں۔ ورنہ الزام تو ہر کسی پر لگایا جا سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستانی قوم تو خود دہشت گردی کی زد پر رہی ہے۔ کراچی ہو یا کوئٹہ، پاکستان کو پُرامن خطہ بنانے کے لیے ہمارے 80ہزار شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اور تو اور آرمی پبلک اسکول پشاور کے 125بچوں کو تو دنیا فراموش کر ہی نہیں سکتی، جنہیں پلک جھپکتے میں بارود کی نذر کر دیا گیا۔ ہاں انڈیا کا حاضر سروس آرمی آفیسر کلبھوشن یادیو کا جیتا جاگتا معاملہ تو اب دنیا کے سامنے ہے، جسے پاک آرمی نے کوئٹہ سے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور جس کا اعترافی بیان دنیا میں انڈیا کو منہ چھپائے پھرنے پر مجبور کررہا ہے۔‘‘
ہوٹل منیجر میرے قریب آیا اور دھیرے سے کہنے لگا،’’لوگ بعد از وقوعہ اثرات after effects کی طرف نہیں دیکھتے کہ بارش سے سارا شہر کیوں ڈوب گیا ہے۔ دنیا تو اس جانب آنکھیں کھولے کھڑی رہتی ہے کہ انہوں نے بارش کے پانی کو ڈرین آؤٹ کرنے کے لیے پیش بندی کیوں نہیں کی! ترقی یافتہ ممالک میں مریض اگر مرجائے تو ڈاکٹرز کا پینل مہینہ بھر نہیں سوتا کہ مریض کے علاج میں کہاں کمی رہ گئی تھی۔ اسی طرح پاکستانی قوم نے دہشت گردی پھیلانے میں خود پیش پیش رہی ہے مگر دہشت گردی کی پیش بندی نہیں کر سکی۔‘‘
’’مسٹر منیجر! میں تو حیران ہوں کہ آپ ہمیں ہی کہہ رہے ہیں کہ پیش بندی کیوں نہیں کی۔ ہم اس کی پیش بندی کیسے کرتے؟‘‘
’’بھئی میں کہہ رہا ہوں کہ دہشت گردی پھیلانے کا سبب تو آپ بنے ہیں ناں۔ آپ دہشت گردی کے بانی ہیں۔‘‘
میں تھوڑا سا درشت ہو گیا ’’وہ کیسے۔‘‘
’’ وہ ایسے کہ ساری دنیا جسے ڈھونڈ رہی تھی وہ بندہ نکلا تو پاکستان سے ہی ناں۔ ایبٹ آباد سے۔ اسامہ بن لادن کے سرچ آپریشن کا نظارہ اپنے ملک میں بیٹھ کر امریکا نے ایسے ہی کیا تھا جیسے چاند پر انسان کے پہلا قدم رکھنے پر امریکیوں نے کیا تھا۔‘‘
(جاری ہے)
drijaztabassum07@gmail.com
ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد سے وابستہ سنیئر سائنس داں ہیں۔ گندم، اور جو کی فصلوں پر تحقیق کرنے کے بعد ترقی ملنے پر اب ادارہ تحقیقات کماد، میں گنے کی نئی اقسام پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کے 4 ہزار آرٹیکلز اور 20 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ پچھلے دنوں جاپان میں گنے کے موضوع پر منعقدہ عالمی ورکشاپ میں ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم نے پاکستان کی طرف سے نمائندگی کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے سرکاری طور پر شرکت کی۔ انھوں نے اپنے اس دورے کے مشاہدات اور محسوسات کو مضمون میں صورت میں قلم بند کیا ہو، جو قارئین کی نذر ہے۔
The post ہوٹل کے منیجر نے کہا ’’آپ دہشت گرد ہیں‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.