شمالی کوریا کانام سنتے ہی ایک ایسی قوم کا تصور ابھرتا ہے جو عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث ِاس بھری پُری دنیا میں تنہا شب و روز گزار رہی ہے، اگرچہ شمالی کوریا کی معیشت دنیا کی کمزورترین معیشتوں میں شمار ہوتی ہے تاہم حیرت انگیزطور پر اُسے ان پابندیوں کی چنداں فکر بھی نہیں ہے، حالانکہ روز بہ روز پابندیوں کا شکنجہ سخت سے سخت تر ہورہاہے۔
اقوام متحدہ کے بعض ماہرین کا کہناہے کہ شمالی کوریا کے معاشی اطمینان کا راز اسلحہ اور قدرتی معدنیات کی خفیہ تجارت ہے، اس اعتبار سے پابندیاں لاحاصل ثابت ہورہی ہیں بلکہ اُلٹ نتائج دے رہی ہیں، اس لئے شمالی کوریا کو نیوکلئیرپروگرام آگے بڑھانے سے روکنا ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا شمالی کوریا اسلحہ اور قدرتی معدنیات ہی کی تجارت کرکے اپنی ضروریات کی رقم جمع کررہاہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرا خفیہ راستہ اختیار کرکے نہ صرف اپنی بنیادی ضروریات پوری کررہاہے بلکہ اپنے ملک کے نیوکلیائی پروگرام، سائنس اور تعلیم سمیت دیگرکئی شعبوں کے اخراجات پورے کررہاہے۔
یہ خفیہ راستہ کون سا ہے؟ آئیے! تین افراد کے کام اور باتوں سے اس کا پتہ چلاتے ہیں۔ یہ تینوں افراد جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں رہتے ہیں، یہ شہر شمالی کوریا کی سرحد سے 50کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔گزشتہ چند برسوں سے سیول کا شمار دنیا کے امیرترین شہروں میں ہونے لگاہے، یہ شمالی کوریائی حکومت کے باغیوں کی جائے پناہ بھی ہے۔ ان تین افراد میں سے ایک فرد کو کچھ عرصہ پہلے چین میں بھیجا گیا، دوسرے کو کویت کی ایک کنسٹرکشن سائٹ پر کام کرنیکے لئے جبکہ تیسریکو سنگاپور کے ایک بنک میں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران میں ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کے ڈیڑھ لاکھ افراد کو بیرون ملک بھیجاگیا تاکہ وہ حکمران کِم خاندان کے لئے رقم کمائیں۔
معروف ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ نے ایک اسی موضوع پر ایک ڈاکومنٹری فلم جاری کی جس میں ایسے مرد و خواتین کو دکھایاگیا جو اربوں ڈالرز شمالی کوریا بھجواتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ سطح کے سابق افسر بھی شامل ہیں اور عام کارکن بھی، وہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کی فیکٹریوں اور کنسٹرکشن سائٹس پر بے پناہ مشقت کررہے ہیں، وہ اپنی تنخواہوں کا بیشتر حصہ شمالی کوریا براہ راست بھجواتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو مزید رقم بھیجنے سے انکارکرچکے یعنی غدار بن چکے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہ بیرون ملک کام کرنے والے شمالی کورین کی رقوم براہ راست کِم خاندان کے بنک اکاؤنٹ میں بھیجی جاتی ہے، جہاں سے یہ رقم نیوکلئیر میزائل پروگرام سمیت دیگرشعبوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس ساری خفیہ دولت کی آمدورفت کا حساب کتاب کرنے کے لئے ایک الگ دفترقائم کیاگیا جسے’’ آفس39 ‘‘کہاجاتاہے۔ شمالی کوریا کے سابق سربراہ کم جانگ دوم نے آفس 39 قائم کیا جو بیرونی دنیا میں ہزاروں کمپنیوں اور فیکٹریوں کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے، ملک کے جی ڈی پی کا آدھا حصہ یہی آفس فراہم کرتاہے۔
آئیے! سب سے پہلے شمالی کوریا کے ایک سابق اعلیٰ افسر کا تذکرہ کرتے ہیں جسے شمالی کوریا سے چین بھیجا گیا لیکن وہ وہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر بھاگا اور ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے سیول میں ایک نئی شناخت اور نئے نام سے میونسپل میوزیم میں جزوقتی ملازمت کرنے لگا۔ اس میوزیم میںایک سیکشن ایسا بھی ہے جہاں شمالی کوریا کے رہنے والوں کی زندگی کو دکھایاجاتاہے۔ اس نے بتایا کہ میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ریاست کی ایک سیکورٹی ایجنسی میں ملازمت سے کیا۔آپ اس ایجنسی کو شمالی کوریا کی ’سی آئی اے‘ کہہ سکتے ہیں۔میں اس کے فنانشل ڈیپارٹمنٹ میں تھا، جلد ہی حکام کی نظروں میں آگیا۔ وہ میری صلاحیت اور اہلیت کی تعریف کرتے تھے،چنانچہ مجھے’آفس 39‘ میں بھرتی کرلیاگیا۔
یہ ایک غیرمعمولی اقدام تھا۔ میں نئے آفس میں سب سے کم عمرتھا یعنی صرف25 برس عمر کا۔ آفس39ہزاروں کمپنیوں اور فیکٹریوں کی تمام تر معاشی سرگرمیوں کا اہتمام کرتاتھا، اس کا ایک ہی مقصدتھا کہ بیرون ملک سے زیادہ سے زیادہ دولت شمالی کوریا میں لائی جائے۔ اس آفس میں کسی کو خبرنہیں کہ بیرون ملک مقیم کسی ورکر کو کتنی تنخواہ ملتی ہے، اس طرح کے سوالات کے جوابات اس لئے نہیں مل سکتے کہ ایک خاص طریقے سے باقاعدگی سے ریکارڈ ضائع کردیاجاتاہے۔ اس آفس میں کام کرنے والے ان امور پر کسی سے بات نہیں کرسکتے، اگر وہ اس ’جرم‘ کے مرتکب ہوئے تو انھیں پھانسی دیدی جاتی ہے۔
حکمران خاندان کو جو رقم دی جاتی ہے وہ ’ لم ٹو‘ جیسے مزدور فراہم کرتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ گزشتہ پانچ ماہ سے کویت کی ایک کنسٹرکشن سائٹ پر کیسے دن رات کام کررہا ہے تاہم اسے کئی ماہ تک ایک پیسہ معاوضہ نہیں ملا۔ اس کی تنخواہ براہ راست پیانگ یانگ(شمالی کوریا کا دارالحکومت) بھیجی جاتی ہے۔ ’لم ٹو‘ نے ان دنوں کا ذکر کیا جب اسے کویت بھیجاجارہاتھا: ’’میں وہاں جانا چاہتاتھا یا نہیں، ایسا کوئی سوال ہی نہیں تھا، مجھے بہرصورت وہاںجاناتھا۔ احکامات آنے کے بعد مجھے تیاری کے لئے اتنی ہی مہلت ملی جتنا وقت میں کھانا کھانے میں لگاتاہوں۔
ہمارا لیڈر کم ال سنگ1994ء میں انتقال کرگیا، ایک سال بعد، مئی 1995ء میں ، پیانگ یانگ میں عام لوگوں کو فوڈ راشن کارڈ ملنا بند ہوگئے۔ لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ دراصل یہ پہلا موقع تھا جب راشن کارڈ جاری ہونابندہوئے تھے۔ اس وقت میری دوسال کی بیٹی تھی، وطن سے باہر جانے کے لئے آپ کا شادی شدہ ہوناضروری ہے اور بچے بھی۔ اگرآپ کے بچے نہیں ہیں تو آپ بیرون ملک نہیں جاسکتے۔(کویت میں)میری تنخواہ 120امریکی ڈالر(ساڑھے سولہ ہزار روپے پاکستانی سے کچھ زائد) مقرر کی گئی ، مجھے چھ ماہ تک اسی تنخواہ کے ساتھ گزارا کرنا تھا۔ دوماہ گزرگئے لیکن مجھے کوئی تنخواہ نہ ملی، میں نے انتظامیہ سے پوچھا کہ مجھے تنخواہ کیوں نہیں مل رہی؟ انھوں نے مجھے بتایا کہ ابھی تک ہمیں پارٹی کی طرف سے آپ کو تنخواہ دینے کا نہیں کہاگیا۔ شمالی کوریا میں پارٹی کا مطلب ہوتاہے: کم جانگ ال یعنی ہمارا کمانڈران چیف۔ جب ہم یہ بات سنتے تھے تو کوئیفرد احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔ یہاں سینکڑوں ملازمین تھے لیکن سب کے سب خاموش۔ بس! ہمیں اپنے نیندوں سے لڑتے بھڑتے دن رات کام کرناتھا۔ میں نے پانچ ماہ تک اسی اندازمیں بغیر تنخواہ کے کام کیا۔ تب میرے اندر باغیانہ سوچ پنپنے لگی‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرگئیں۔
کِم خاندان کے ایک تیسرے باغی ’کم کوانگ جن‘ کو2000ء کے اوائل میں سنگاپور بھیجاگیا، اس نے’نارتھ ایسٹ ایشیا بنک‘ میں ملازمت کرکے ملک کے لئے کروڑوں ڈالرز کمائے۔سن2003ء میں شمالی کوریائی حکومت کو شک ہوا کہ کم کوانگ جن نے ملک کے معاشی راز کسی کے سامنے افشا کردئیے ہیں نتیجتاً وہ بھاگ کر ’سیول‘ پہنچ گیا، آج کل وہ جنوبی کوریا کی ایک سیکورٹی ایجنسی میں کام کررہاہے۔ اس کا کہناہے کہ ہمارا اصل مقصد بیرون ملک رہ کر دولت اکٹھی کرناتھا اور یہ غیرملکی دولت کا کاروبار مکمل طور پرخفیہ ہوتاہے، یہ سب نقدی کی صورت میں ملک کے سربراہ کے حوالے کی جاتی ہے۔ اس دولت کو کہاں خرچ کرناہے، اس کا فیصلہ وہی کرتاہے۔
غیرملکی دولت کمانے والے ورکرز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے،50ہزار روس میں کام کررہے ہیں اور پچاس ہزار ہی چین میں جبکہ باقی دنیا کے باقی ممالک میں مزدوری کررہے ہیں۔ ان کی تنخواہ کے 70 فیصد سے 80فیصد حصے کی کٹوتی ہوجاتی ہے جو براہ راست شمالی کوریا میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کو بھیجی جاتی ہے۔ یہ رقم ماہانہ 15ملین ڈالرز بنتی ہے۔ شمالی کوریا کے سربراہ (چاہے باپ ہو یا بیٹا) کے ملنے والی دولت میں گزشتہ بیس برسوں کے دوران میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا بیرون ملک اپنے ورکرز کے خون پسینے کی کمائی سے 500ملین ڈالرز سالانہ حاصل کرتاہے۔اگرکسی ملک میں شمالی کوریائی لڑکیاں رقص و موسیقی اور گانے کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں تو اس کی آمدن بھی شمالی کوریا کے خفیہ فنڈ میں جمع ہوتی ہے، اسی طرح کئی ممالک میں شمالی کوریائی لڑکیاں زیورات اور پینٹنگزبھی فروخت کرکے خفیہ فنڈ میں اضافہ کرتی ہیں۔ شمالی کوریائی ورکروں کو پوری تنخواہ اس لئے نہیں دی جاتی کہ وہ واپس اپنے ملک میں جانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ ظاہر ہے کہ انھیں ملنے والی انتہائی قلیل تنخواہ کا کچھ حصہ شمالی کوریا میں اپنے گھر والوں کے لئے بھی بھیجنا ہوتا ہے جبکہ اپنے ذاتی اخراجات بھی پورے کرنا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد شمالی کوریا تک سفر کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے۔
آفس 39کی کہانی کا آغاز 1974ء میں ہوا جب شمالی کوریا نے اپنے ورکرز کو بیرون ملک بھیجنا شروع کیاتھا، آہستہ آہستہ خفیہ طور پر فنانشل کمپنیاں قائم ہونے لگیں۔ یہ سب کمپنیاں دولت آفس39 کی طرف بھیجتی ہیں۔ مشرقی یورپ، جنوبی ایشیا اور افریقہ کے جن ممالک میں شمالی کوریا نے دوطرفہ معاہدے کئے ہوئے ہیں، میں پولینڈ، یوکرائن ، ازبکستان اور منگولیا بھی شامل ہیں۔ یہاں بڑے پیمانے پر شمالی کوریائی ورکرز موجود ہیں۔ منگولیا 70برس سے زائد عرصہ تک کمیونسٹ ملک رہاہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہاں سرمایہ دارانہ نظام پنپنے لگا اورمنگولیائی دارالحکومت’ اولان باتور‘ میں بلندوبالا عمارتیں سراٹھانے لگیں، ان کے ٹھیکے چینی کمپنیوں نے حاصل کئے جنھوں نے یہاں کام کرنے کے لئے منگولیائی مزدوروں کے بجائے شمالی کوریا کے لوگوں کو بلایا۔
پیانگ یانگ والے دن رات یہاں کے کام کی نگرانی کرتے ہیں۔ شمالی کوریائی ورکرز راتیں بھی یہاں پر گزارتے ہیں، یہاں پر ہی کھاتے، پیتے اور سوتے ہیں۔ انھیں سائٹ سے اِدھر اُدھر جانے کی اجازت نہیں۔ صرف ذاتی خریداری کے لئے بازار تک جاسکتے ہیں۔ وہ بازار اکیلے نہیں جاسکتے بلکہ گروہوں کی صورت میں جاتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی نگرانی کرسکیں۔ ورکرز کو بیماری کی صورت میں مخصوص طبی مرکز میں جانا ہوتاہے جہاں موجود ڈاکٹرز کو کسی صحافی سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب ان سے کچھ پوچھا جائے تو وہ ہاتھ کے اشارے سے سوال نہ پوچھنے کو کہتے ہیں یا پھر ان کے اشارے کے مطلب ہوتاہے کہ وہ کچھ نہیں جانتے۔
شمالی کوریا کی حکومت یہ سب جبری اقدامات اپنے ملک کے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لئے اس لئے مجبور ہے کہ ملک کو ایک طویل عرصہ سے معاشی پابندیوں کا سامنا ہے، عمومی طور پر سمجھاجاتاہے کہ یہ پابندیاں نیوکلیائی ہتھیار بنانے کی پاداش میں عائد کی گئی ہیں۔ سیاسی امور کے ماہر پروفیسر رے کے سانگ سے پوچھا گیا کہ کیا اقوام متحدہ کی پابندیوں سے جان چھڑانے کے لئے نیوکلیائی پروگرام ترک کردینا بہتر نہیں ہے؟ اس نے کہا کہ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے تاریخ کا جائزہ لیناضروری ہوگا۔28جون1950ء کو امریکا نے ہم پر جنگ مسلط کی، تین دن بعد اس نے شمالی کوریا سے تمام تر برآمدات پر پابندی عائد کردی۔ اسی سال دسمبر میں امریکا نے ہمیں ایک ایسا دشمن قراردیدیا جس سے کسی قسم کی تجارت نہیں کی جاسکتی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے پاس نیوکلیائی ہتھیارنہیں تھے۔ امریکا ہمیں اقتصادی طور پر محبوس کرناچاہتاتھا۔ جب ہم نیوکلیائی ہتھیاروں سے امریکا پر دباؤ ڈالنے کے قابل ہوں گے، تب ہم اقتصادی طور پرآزادی حاصل کریں گے۔ اب امریکا ہمیں اپنے نیوکلیائی ہتھیاروں سے خوفزدہ نہیں کرسکتا، اب تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
دنیا بھر سے نہایت چالاکی سے دولت اکٹھی کرکے جہاں شمالی کوریا میں بلندوبالا عمارتوں کا سٹرکچر کھڑا ہورہاہے، تعلیم اور سائنس کے میدانوں میں ترقی کا پہیہ زیادہ تیز رفتاری سے چلایاجارہاہے، اس کے علاوہ صنعتیں پہلے سے زیادہ تیزی سے پیداوار دے رہی ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کے لئے خام مال بھی درآمد کرنے کے بجائے ازخود تیار کیاجارہاہے، ملک میں عوام کی تفریح کے لئے بھی مختلف تدابیر وضع کی جارہی ہیں، مقصود جبر کا تاثر ختم کرنا اور ایک کھلے معاشرے کی تصویر پیش کرنا ہے۔
The post شمالی کوریا کی خفیہ دولت کا راز آشکار ہوگیا appeared first on ایکسپریس اردو.