دور جدید میں امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ معاشی یا عسکری طور پر طاقتور ممالک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ملکوں کو انگریز (English people) نے آباد کیا جو بڑی مغربی نسلوں میں شمار ہونے والی نسل ہے۔
آج یہ انگریز اور دیگر مغربی نسلیں جمہوریت، سچائی اور انسانی حقوق کی چیمپئن بنی ہوئی ہیں۔ مگر ان کا ماضی داغ دار بلکہ چشم کشا ہے۔ یہ ماضی آشکارا کرتا ہے کہ انگریز اور دوسری مغربی اقوام مثلاً جرمن، ولندیزی، ہسپانوی، فرانسیسی، پرتگالی وغیرہ، ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکا کے ممالک کے وسائل لوٹ کر ہی امیر ہوئیں۔ اسی دولت کی مدد سے یورپی ممالک میں ترقی ہوئی اور وہاں خوشحالی کا دور شروع ہوا۔
کل کے چورآج ہیرو بن گئے
گویا آج یورپی اقوام ہر لحاظ سے ترقی کی معراج پر ہیں، تو اس کا باعث غریب ممالک سے لوٹا گیا مال و دولت بھی ہے۔ حقیقت میں مغربی ممالک چور ڈاکو ہیں جنہوں نے غریب ملکوں کے وسائل پر ڈاکا مارا اور خود کو امیر کبیر بنالیا۔اب امریکا، برطانیہ اور دیگر امیر مغربی ممالک غریب ایشیائی و افریقی ملکوں کو اس طرح امداد دیتے ہیں جیسے ان پر کوئی احسان کررہے ہوں۔ سچ یہ ہے کہ مغربی ملکوں نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک سے کئی ’’ہزار کھرب روپے‘‘ مالیت کا مال و سامان لوٹا۔ ان کی امداد تو لوٹے گئے مال کا عشر عشیر بھی نہیں۔حیرت انگیز بات یہ کہ آج پاکستان، بھارت اور دیگر ایشیائی و افریقی ممالک میں بہت سے لوگ انگریزوں، جرمنوں، فرانسیسیوں وغیرہ سے ذہنی طور پر مرعوب ہیں۔ وہ اپنی تہذیب و ثقافت تج کر ان کی زبان بولنے اور طور طریقے اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ایسے افراد کو خصوصاً مغربی اقوام کی تاریخ کا آئینہ دکھانا چاہیے تاکہ ان پر اپنے آقاؤں کی اصلیت کھل سکے۔اُدھر بھارت میں مودی سرکار مملکت کے چپے چپے سے اسلامی دور حکمرانی کے آثار مٹانے پر کمربستہ ہے۔ شہروں سے لے کر عام بس سٹاپوں تک، جس جگہ کا نام اسلامی ہے اسے تبدیل کیا جارہا ہے۔ نصاب سے مسلم حکمرانوں کا تذکرہ ختم ہوچکا اور انہیں ’’لٹیرا‘‘ اور ’’ڈاکو‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ گویا قدامت پسند ہندو حکومت نے آن واحد میں ہندوستان میں مسلمانوں کے آٹھ سو سال دور حکومت کو بدی وشر کا منبع قرار دے ڈالا۔ دوسری طرف نریندر مودی امریکا و برطانیہ سے دوستی کرنے کی لیے ان کے قدموں میں بچھے بچھے جاتے ہیں۔
وہ ذہنی طور پر گوروں سے اتنے زیادہ مرعوب ہیں کہ انہیں دیوتا سمان سمجھ بیٹھے۔بھارت میں مگر ایسے غیر جانبدار اور سنجیدہ و متین دانشور و مورخ موجود ہیں جو دنیا کے حاکم بنے بیٹھے گوروں کی تلخ اصلیت اور داغ دار ماضی سے واقف ہیں۔ کہتے ہیں کہ سچ کو سات پردوں کے پیچھے بھی چھپایا جائے تو وہ سدا چھپا نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے انگریزوں نے ہندوستانیوں، ولندیزیوں نے انڈونیشی قوم، ہسپانیوں نے باشندگان لاطینی امریکا اور امریکیوں نے ریڈ انڈینوں کے ساتھ جو ظالمانہ اور سنگدلانہ سلوک کیا، اس پر مورخین کئی کتب لکھ چکے۔ چونکہ بین الاقوامی میڈیا انہی مغربی اقوام کے قبضے میں ہے، لہٰذا یہ چشم کشا کتب زیادہ نمایاں نہیں ہوپاتیں۔ یوں عام لوگ مغربی اقوام کا بھیانک ماضی نہیں دیکھ پاتے اور اس پر پردہ پڑا رہتا ہے۔
سچائی سامنے آ گئی
2015ء میں بھارت کے دانشور اور سیاست داں، ششی تھرور نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھارتی طلباء و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے ان پر افشا کیا کہ درست آج مغربی اقوام علم (سائنس و ٹیکنالوجی) میں زبردست ترقی کرنے سے دنیا کی حکمران بن گئی ہیں، لیکن ان کا ماضی کچھ شاندار، تابناک اور قابل مثال نہیں۔ انہوں نے پھر آشکارا کیا کہ انگریز تقریباً دو سو برس تک ہندوستان کے حکمران رہے۔ اس دوران وہ ہندوستان سے کھربوں روپے لوٹ کر برطانیہ لے گئے۔
اسی سرمائے کے ذریعے برطانیہ میں صنعتی دور کا آغاز ہوا۔ہندوستان کی دولت استعمال کرتے ہوئے گوروں کا پسماندہ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے ششی تھرور کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر کو بہت شہرت ملی۔ یوں بھارت کی نئی نسل آگاہ ہوئی کہ دور حاضر میں ترقی یافتہ اور مہذب بنے بیٹھے انگریزوں کے اجداد لٹیرے تھے جنہوں نے بیرون ممالک ڈاکے ڈالے، مال و سامان سمیٹ کر اپنے وطن لائے اور امیر کبیر بن گئے۔ گویا آج مغربی اقوام دنیاوی لحاظ سے ترقی کی جس معراج پر ہیں، یہ اعلیٰ مقام انہیں محنت و جانفشانی نہیں دوسرے ممالک میں لوٹ مار کرنے سے ملا۔ انہوں نے ذہانت و فراست کو نیکی نہیں بدی کے کام کرتے ہوئے استعمال کیا۔
یہ واضح رہے کہ علمی تخلیق کے لحاظ سے بھی دور جدید کی مغربی اقوام کا کوئی خاص کردار نہیں۔ ماضی میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد یونان، چین، مصر اور ہندوستان میں رکھی گئی۔ ان ممالک میں جن علوم نے جنم لیا، مسلمان عرب سائنس دانوں اور فلاسفہ نے انہیں سنوارا اور بہتر بنایا۔ بارہویں صدی عیسوی کے بعد عربوں کے وضع کردہ علوم یورپ پہنچے اور یورپی سائنس داں ان سے استفادہ کرنے لگے۔ اس طرح مغربی اقوام قدیم تہذیبوں اور عربوں کے تخلیق کردہ علوم کی خوشہ چیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مختلف علوم کو مزید بہتر بنایا اور یوں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوگیا۔قوم پرست ہندو مورخین اپنی کتب میں مسلم حکمرانوں کے کارنامے بیان نہیں کرتے جو انہوں نے ہندوستان میں انجام دیئے۔
مثال کے طور پر شیرشاہ سوری نے اس مملکت میں سڑکوں کا جال بچھایا، مالیہ نظام تشکیل دیا اور سکہ رائج کیا۔ مغلوں نے ہندوستان کو اپنے زمانے کی سپرپاور بنادیا۔ مغل حکمران بے تعصب تھے اور انہوں نے بت پرستوں (ہندوؤں) کو بھی اپنی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے جو کچھ کمایا، وہ اسی مملکت کی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا۔ قطب الدین ایبک (دور حکومت 1206ء تا 1210ء) کے بعد ہندوستان میں جتنے بھی مسلم حکمران آئے، ان کی ساری زندگی اسی ملک میں گزری۔ وہ جیسے تیسے ہندوستان کو ترقی دینے اور عوام کو خوشحال بنانے کی تدابیر اختیار کرتے رہے۔
ہر برائی کا سہارا
انگریز پہلے پہل تجارت کی غرض سے ہندوستان پہنچے۔ 1612ء میں مغل بادشاہ، شہنشاہ جہانگیر نے انگریزوں کو سورت بندرگاہ (ریاست گجرات) میں تجارتی مرکز قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ 1647ء تک انگریز ہندوستانی ساحلوں کے مختلف مقامات پر ’’تئیس‘‘ تجارتی مراکز قائم کرچکے تھے۔ وہ ہندوستان سے سوت، نیل، پوٹاشیم نائٹریٹ اور چائے خریدتے، بیرون ممالک مہنگے داموں فروخت کرتے اور خوب منافع کماتے۔ تب ہندوستان اور برطانیہ کے مابین ساری تجارت پر برطانوی کمپنی، ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ تھا۔1670ء میں برطانوی بادشاہ چارلس دوم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بیرون ممالک جنگ کرکے نو آبادیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ گویا برطانوی حکومت کے لیے یہ کمپنی کرائے کا فوجی بن گئی۔
کمپنی کی فوج نے سب سے پہلے ہندوستان میں پرتگالی، ولندیزی اور فرانسیسی حریفوں سے مقابلہ کیا۔ تب تک برطانوی موجد جدید اسلحہ تیار کرنے لگے تھے۔ جدید اسلحے کے باعث ہی کمپنی کی فوج بیشتر جنگوں میں فتح یاب رہی۔ رفتہ رفتہ اس نے بنگال کے ساحلی علاقوں پر قدم جمالیے۔اب ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں نے ہندوستان میں یہ وتیرہ اپنایا کہ وہ مختلف والیان ریاستوں کو سازش کے ذریعے ایک دوسرے سے لڑانے لگے۔ طریق واردات یہ تھا کہ انگریز ریاستی حکومت کے کسی وزیر، مشیر یا درباری کو خرید لیتے۔ یوں وہ ان کا تنخواہ دار ایجنٹ بن جاتا۔ یہ کارندہ پھر دربار میں دشمن کے خلاف پروپیگنڈا کرتا اور جھوٹی خبریں پھیلاتا۔ اس طرح ریاستی نواب یا راجا بدظن ہوکر دشمن پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیتا۔ اُدھر دشمن راجا کے دربار میں بھی انگریزوں کے کارندے شرانگیزی کررہے ہوتے۔ یوں معاملات اتنے بگڑتے کہ آخر کار جنگ کی نوبت پہنچ جاتی۔
اسی طریقہ واردات سے انگریزوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ دونوں ریاستی حکومتوں کی افواج آپس میں لڑمر کر کمزور ہوجاتیں۔ تب انگریز فوج زیادہ کمزور ریاست پر حملہ کرتی اور اس کے علاقے پر آسانی سے قبضہ کرلیتی۔ یوں انگریز آہستہ آہستہ سرزمین ہندوستان پر قبضہ کرتے چلے گئے۔ کامیابی پانے کی خاطر انگریزوں نے جھوٹ، مکاری، دھوکے بازی… غرض ہر برائی کا سہارا لیا اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ انتہائی حیرت ہے کہ آج وہ خود کو کیونکر دیانت دار اور اصول پسند قرار دیتے ہیں؟
انگریز کو غدار مل گئے
ہندوستان میں زر اور زمین ہتھیانے کے لیے انگریزوں نے جو چالیں چلی، وہ ان کا شرمناک کردار آشکارا کرتی ہیں۔ صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔ 1756ء میں نواب سراج الدولہ نیم خود مختار ریاست بنگال کا حکمران بن گئے۔ تب بنگال ہندوستان کی امیر ترین ریاست تھی۔ مغل حکومت کو پچاس فیصد آمدن اسی ریاست سے ہوتی تھی۔ بنگال ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں ٹیکسٹائل اور جہاز سازی کا بہت بڑا مرکز تھا۔ علاقے کے لوگ ریشم، سوتی ملبوسات، اسٹیل، پوٹاشیم نائٹیریٹ اور زرعی و صنعتی سامان برآمد کرکے خوب کماتے تھے۔
بنگال میں مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر انگریزوں کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ اس علاقے پر قبضے کے خواب دیکھنے لگے۔ چناں چہ انہوں نے کلکتہ میں اپنے قلعوں کی توسیع شروع کردی اور اپنی سپاہ کی تعداد بھی بڑھا دی۔ نواب سراج الدولہ انگریزوں کو خود غرض اور مطلب پرست سمجھتے تھے۔ انھیں انگریزوں کی ناجائز توسیعات پسند نہ آئیں۔ انھوں نے کمپنی کے کارپردازوں کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنی سرگرمیوں کے دائرہ کار میں اضافہ نہ کریں۔ لیکن انگریز تو بنگال پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے وہ کیوں اپنے مراکز تک محدود رہتے؟
جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، تو نواب سراج الدولہ نے کلکتہ پہ حملہ کیا اور انگریزوں کے قلعے اپنے قبضے میں لے لیے۔ نواب کے افسروں نے قیدی انگریزوں کو قلعہ فورٹ ولیم کے تہہ خانے میں قید کردیا۔ وہاں دم گھٹ جانے سے کئی انگریز مرگئے۔
یہ ایک غلط اقدام تھا جو نواب سراج الدولہ کو بے خبر رکھ کر اٹھایا گیا۔ تاہم اسی سانحے کو بنیاد بناکر ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضے کا پلان بنالیا۔کلکتہ میں امیر چند نامی ایک بااثر بنیا مقیم تھا۔ وہ نہایت چالاک اور چرب زبان تھا۔ انگریزوں نے اسے اپنا کارندہ بنایا اور یہ ذمے داری سونپی کہ وہ ترغیب و تحریض کی مدد سے نواب بنگال کے کسی طاقتور درباری کو ان کا ایجنٹ بنادے۔ امیر چند اپنے تعلقات کی وجہ سے جانتا تھا کہ نواب کی فوج کا ایک کمانڈر، میر جعفر حکمران بننے کی تمنا دل میں چھپائے ہوئے ہے۔ امیر چند نے میر جعفر سے ملاقاتیں کیں اور اسے انگریزوں کا ایجنٹ بننے پر راضی کرلیا۔
جب نواب کی فوج کا اہم کمانڈر انگریزوں سے آملا، تو وہ جنگ کی تیاری کرنے لگے۔ منصوبہ یہ تھا کہ دوران جنگ میر جعفر اپنی سپاہ کے ساتھ علیحدہ ہوجائے گا۔ چناں چہ 23 جون 1757ء کو پلاسی کے مقام پر کمپنی اور نواب بنگال کی افواج کے مابین مقابلہ ہوا۔ توپوں کی کثرت اور میر جعفر کی غداری کے باعث انگریز فتح یاب ہوئے۔ انہوں نے پھر اپنی کٹھ پتلی، میر جعفر کو تخت بنگال پر بٹھادیا۔جنگ پلاسی کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ جنگ سے تھوڑی دیر قبل امیر چند کمپنی کی فوج کے کمانڈر، کرنل رابرٹ کلائیو سے ملا۔ اس نے کلائیو سے کہا ’’میں یہ تحریری معاہدہ کرنا چاہتا ہوں کہ بعد از جنگ نواب کے خزانے سے مجھے تیس لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ یہ میری خدمات کا نذرانہ ہوگا۔
اگر یہ تحریری معاہدہ نہیں ہوا تو میں ابھی جاکر نواب سراج الدولہ کو خبر دیتا ہوں کہ میر جعفر کمپنی سے ساز باز کرچکا۔‘‘چالاک بنیے نے اپنی طرف سے شہ چال چلی تھی مگر اسے علم نہ تھا کہ عیاری و مکاری میں انگریز اس کے باپ ہیں۔ رابرٹ کلائیو نے تحریری معاہدہ کرنے کی ہامی بھرلی۔ مگر اس نے دو معاہدے تیار کرائے… نقلی معاہدے میں تو اس بات کا ذکر تھا کہ بعداز جنگ امیر چند کو تیس لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ لیکن اصل معاہدے میں یہ بات گول کردی گئی۔جب جنگ ختم ہوئی اور میر جعفر تخت نشین ہوچکا، تو امیر چند معاہدہ لیے خوشی خوشی رابرٹ کلائیو کے پاس پہنچا۔ تب انگریز کرنل نے بنیے پر افشا کیا کہ اس کے ساتھ کیسا دھوکا ہوا ہے۔ کلائیو نے امیرچند سے کہا کہ وہ یہاں سے نو دو گیارہ ہوجائے اور پھر اپنی شکل نہ دکھائے۔ بنگالیوں کا یہ غدار غربت و عسرت کی حالت میں کسمپرسی کی موت مرا۔ اسی طرح دوسرے مہا غدار، میر جعفر کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ جب وہ فوت ہوا، تو جنازے میں قریبی رشتے داروں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ آج بھی مرشد آباد میں میر جعفر کے محل کا بچا کھچا دروازہ ’’نمک حرام کی ڈیوڑھی‘‘ کہلاتا ہے۔
ٹیکسوں کا بوجھ ہندوستانیوں پر
انگریز اب میر جعفر سے ’’خراج‘‘ وصول کرنے لگے۔ یوں ہندوستان میں گوروں کی لوٹ مار کے دور کا آغاز ہوگیا۔ میر جعفر اپنے آقاؤں کی مانگیں پوری کرتا رہا۔ جب خزانہ خالی ہوگیا، تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو انگریز کمپنی کا غلام بن چکا۔ اس نے پھر انگریزوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے ولندیزی فوج سے مدد لی۔ 1759ء میں لڑائی ہوئی جو انگریز فوج نے جیت لی۔انگریزوں نے اب میرجعفر کے داماد میر قاسم کو تخت بنگال پر بٹھایا۔ لیکن وہ بھی جلد لالچی آقاؤں سے تنگ آگیا۔ اس نے پھر مغل بادشاہ، شاہ عالم دوم اور تاجدار اودھ، شجاع الدولہ سے مدد مانگی۔ 1764ء میں تینوں مسلم حکمرانوں کی افواج نے بکسر (بہار) کے مقام پر کمپنی کی فوج سے مقابلہ کیا۔ تاہم اتحاد و یک جہتی کے فقدان کی وجہ سے شکست کھائی۔
اس فتح کے بعد انگریزوں نے بنگال کا نظم و نسق سنبھال لیا۔باشندگان بنگال پر یہ نئے ولایتی حاکم عذاب بن کر نازل ہوئے۔ انہوں نے غریب عوام کے ناتواں کاندھوں پر بھی نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا۔ یہی نہیں، وہ بنگال کی اشیا سستے داموں خرید لیتے اور پھر بیرون ملک لے کر انہیں مہنگے دام فروخت کرتے۔ اس طرح بنگال کی تجارت پر انگریز اجارہ دار بن بیٹھے۔جنگ بکسر کے بعد کمپنی کی فوج نے اگلے پچاس برس میں ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ ان علاقوں میں کمپنی کے باج گزار مقامی حکمران حکومت کرنے لگے۔ بظاہر اقتدار مقامی حکمرانوں کے ہاتھ میں تھا، مگر ہر ریاست کی معیشت کے مالک انگریز ہی تھے۔ ریاست کی بیشتر آمدن انگریزوں کی تجوریوں میں پہنچ جاتی اور ریاستی حکمران کے پاس بس اتنی رقم بچتی کہ وہ اپنے آرام و آسائش کے مصارف برداشت کرلے۔ بیچارے عوام مجبور تھے کہ انہیں جو روکھی سوکھی میسر ہے، اسی سے پیٹ بھریں۔یہ درست ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان کا نظم و نسق سنبھال کر سڑکیں، پل اور نہریں بنائیں۔
ہسپتال و سکول کھولے۔ بیورو کریسی کی بنیاد رکھی۔ لیکن بظاہر یہ تمام ترقیاتی منصوبے اس لیے انجام پائے تاکہ انگریز اپنے کام پورے کرسکیں یعنی ان کے مفادات کی تکمیل ہوسکے۔ مثال کے طور پر سڑکیں اسی واسطے بنائیں تاکہ مال ایک سے دوسری جگہ پہنچانا آسان ہوجائے۔ بیورو کریسی اس لیے قائم کی گئی تاکہ انگریز کو احکامات پر من و عن عمل کرنے والے دیسی ملازم مل جائیں۔ غرض یہ جو ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ انگریز شاہی میں ہندوستان نے ترقی کی، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ برطانوی حکومت ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود چاہتی تھی۔ اصل مطمع نظر یہ تھا کہ ہندوستان میں آسانی سے لوٹ مار کے لیے وسائل میسر آجائیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس طریقے سے ہندوستانی عوام کا بھی کچھ بھلا ہوگیا۔نواب سراج الدولہ ایک نوجوان اور عوام دوست حکمران تھے۔
انہوں نے اپنے عوام پر بس اتنے ہی ٹیکس لگائے تھے کہ وہ بہ سہولت کسی تکلیف کے بغیر ادا کرسکیں۔ مگر انگریزوں نے ہندوستان کے امیر ترین صوبے کی حکومت سنبھال کر عوام پر تین گنا زیادہ ٹیکس ٹھونس دیئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بنگالی عوام کے لیے کھانے پینے کی خاطر بھی کچھ نہ رہا۔اس دوران بنگال میں قحط پڑگیا۔ اجناس کی قیمتیں کئی گنا زیادہ بڑھ گئیں۔ اب غریب عوام کب تک پانی اور جڑی بوٹیوں پر گزارا کرتے؟ رفتہ رفتہ وہ دم توڑنے لگے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ 1770ء تک بنگال میں بھوک و پیاس کی وجہ سے تیس لاکھ باشندے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی موت کے ذمے دار انگریز بھی ہیں۔ انہوں نے غریب بنگالی عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرکے نہیں ادھ موا کر ڈالا اور جب قحط کی قدرتی آفت آئی تو وہ اسے سہہ نہ پائے۔
لوٹ مار کا طریقہ ٔ واردات
1770ء کے بعد ہی برطانیہ میں صنعتی دور کا آغاز ہوا۔ اس زمانے میں انگریز سیاہ فام غلاموں کی تجارت میں بھی بہت متحرک تھے۔ اس تجارت کے دوران بھی ظالم انگریزوں نے افریقی باشندوں پر جو بھیانک ظلم و ستم توڑے، ان کی بابت پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔انگریز سیر الیون،گھانا، آئیوری کوسٹ اور دیگر افریقی نو آبادیوں سے سیاہ فام باشندے بطور غلام بحری جہازوں میں برطانیہ، امریکا اور مغربی ممالک تک لاتے تھے۔ (تب تک امریکا انگریزوں کی کالونی بن چکا تھا) بحری جہازوں میں غلاموں کے بازوؤں اور ٹانگوں کو زنجیروں سے باندھا جاتا۔ اکثر غلام ایک دوسرے پر لاد دیئے جاتے۔ سمندری سفر کے دوران مصائب کی وجہ سے اکثر سیاہ فام چل بستے۔ ان کی لاشیں سمندر برد کردی جاتیں۔اب انگریزوں کو ہندوستان سے سرمایہ اور خام مال ملنے لگا۔ یوں انگریز حکومت کے لیے ممکن ہوگیا کہ صنعتی دور کو بھر پور طریقے سے شروع کرسکے۔ ہندوستان میں عیار و مکار انگریزوں نے انوکھا طریقہ واردات اختیار کیا۔
وہ پہلے عوام پر بھاری ٹیکس لگا کر ان سے روپیہ وصول کرتے۔ اس روپے سے پھر ہندوستانی عوام سے ان کا مال اونے پونے داموں پر خریدا جاتا۔ انگریز یہ مال پھر مغربی ممالک تک لے جاکر منہ مانگی قیمتوں پر فروخت کرتے۔ اس طرح انگریز ہندوستانی عوام کو ٹھگ کر ان سے نقدی وصول کرتے، پھر اسی رقم سے ان کا مال خریدتے اور وہ بیرون ممالک کی منڈیوں میں فروخت کردیتے۔ گویا انگریز کسی قسم کی سرمایہ کاری کیے بغیر، ایک پائی بھی لگائے بنا بھاری منافع کمانے لگے۔ اسی منافع کی بدولت انگریز اس قابل ہوئے کہ برطانیہ میں صنعتی دور کو بھرپور طور پر جاری رکھ سکیں۔
اس صنعتی دور نے پھر برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو تو ترقی یافتہ بنادیا لیکن انگریزوں نے ہندوستان اور دیگر ایشیائی و افریقی ممالک کو لوٹ کر اپنے آپ کو خوشحال بنایا، وہ غربت جہالت اور پسماندگی کا نشانہ بن گئے۔ انگریز قوم نے ہندوستان اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں جو ڈاکا ڈالا اور جو لوٹ مار کی، اس کی نظیر انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔انگریزوں نے ہندوستانی عوام سے لوٹ مار کا اپنا مکارانہ نظام 1947ء تک جاری رکھا۔ انگریز جانتے تھے کہ اگر ہندوستانی عوام کو علم ہوا کہ ان کا پیسا انہی سے خام مال خریدنے میں استعمال ہورہا ہے، تو وہ بغاوت کرسکتے ہیں۔ اسی لیے انگریزوں نے اپنی ٹھگی کا نظام ہندوستانیوں سے پوشیدہ رکھنے کی خاطر ایک اور حیلہ اختیار کرلیا۔وہ یہ تھا کہ انگریز حکومت ہندوستانی عوام سے ٹیکسوں کا روپیہ وصول کرتی۔ یہ روپیہ پھر اپنے ایجنٹوں کو دے دیا جاتا۔ یہ انگریز ایجنٹ پھر تاجر کا بہروپ بدل کر ہندوستانی باشندوں سے مختلف مال خریدتے۔ اس مال میں اسٹیل، مصالحہ جات، ملبوسات، اجناس وغیرہ غرض ہر شے شامل تھی۔
بھارتی ماہرین میدان میں
گویا مکار انگریزوں نے ٹیکس لینے والے اور ہندوستانیوں سے مال خریدنے والے ہم وطنوں کو بظاہر ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ رکھا۔ لیکن اندر سے سرکاری انگریز اور تاجر انگریز لوٹ مار کے ایک ہی نظام کا حصہ تھے۔ ان دونوں اداروں کو اس لیے الگ الگ رکھا گیا تاکہ ہندوستانی عوام کبھی نہ جان سکیں کہ انہیں کس طرح لوٹا جارہا ہے۔ انگریز حکمران کیونکر ان سے فراڈ کررہے ہیں۔2015ء میں ششی تھرور نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں جو تقریر کی تھی، بعدازاں اس کی بنیاد پر ایک انگریزی کتاب’’An Era of Darkness: The British Empire in India. ‘‘ بھی تحریر کی۔ کتاب میں انہوں نے تفصیل سے ہندوستان میں انگریزوں کی دھوکہ بازی اور فراڈ کا ذکر کیا۔ ششی تھرور مگر ماہر معاشیات نہیں تھے۔
اس لیے گورا شاہی کی لوٹ مار کے اعدادو شمار بیان نہیں کرسکے۔ البتہ انہوں نے یہ ضرور لکھا کہ انگریز جتنا روپیہ اور خام مال ہندوستان سے لوٹ کر لے گئے، اس کی مالیت کئی ہزار ارب روپے بنتی ہے۔حال ہی میں بھارت کی مشہور معاہر معاشیات، پروفیسر اتسا پٹنائاک کی کتاب’’Dispossession, Deprivation, and Development ‘‘شائع ہوئی ہے۔ اس میں انہوں نے پہلی بار اعدادو شمار دے کر منکشف کیا کہ انگریز ہندوستان میں اپنے تقریباً دو سو سالہ اقتدار میں کتنی مالیت کی دولت لے اڑے اور ہندوستانیوں کے حق پر ڈاکا ڈال دیا۔پروفیسر اتسا پٹنائک کی تحقیق کے مطابق پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی حکومت سے منسلک انگریز کم از کم 9.2 ٹریلین پونڈ مالیت کا سرمایہ اور خام مال ہندوستان سے اپنے دیس میں لے گئے۔ چونکہ دو سوسالہ اقتدار کے دوران پونڈ اور ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 4.8 ڈالر فی پونڈ تھا لہٰذا امریکی ڈالر میں یہ 9.2 ٹریلین پونڈ 44.6 ٹریلین ڈالر بنتے ہیں۔ یقیناً یہ محیر العقول اور دماغ گھما دینے والی رقم ہے۔44.6 ٹریلین ڈالر کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ ماہ جون 2018ء میں ن لیگی حکومت نے پاکستان کا جو بجٹ کیا تھا، اس کی کل مالیت امریکی ڈالر کے حساب سے 55 ارب ڈالر تھی۔ جبکہ ایک ٹریلین ڈالر ایک ہزار ارب ڈالر پر مشتمل ہوتے ہیں۔
برطانیہ آج ایک بڑی معاشی قوت ہے۔ وہ ہر سال تین ٹریلین ڈالر کا قومی بجٹ پیش کرتا ہے۔گویا انگریزوں نے ہندوستان پر اپنے دو سو سالہ اقتدار کے دوران یہاں کے عوام کو تقریباً 45 ٹریلین ڈالر کے سرمائے سے محروم کردیا۔ اسی محرومی کے باعث ہندوستان میں غربت کا دور دورہ ہوگیا۔ مگر انگریز کئی ٹریلین ڈالر پاکر دولت مند اور باثروت بن گئے۔کچھ عرصہ قبل پروفیسر اتسا پٹنائک نے ایک تقریب میں حاضرین کے مختلف سوالات کے جواب دیئے۔ ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
سوال: آپ نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ انگریز یہاں سے تقریباً 45 ٹریلین ڈالر لے اڑے۔ اگر اس رقم کا بیشتر حصہ ہندوستان پر خرچ ہوتا، تو یہاں معاشی و معاشرتی طور پر کیا فرق پڑتا؟
جواب: تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ پورے نو آبادیاتی دور کے دوران ہندوستان سے ہر سال کثیر سرمایہ براہ راست لندن جاتا رہا۔ اس باعث ہندوستان اپنی ترقی کے لیے درکار مشینری اور ٹیکنالوجی درآمد نہیں کرسکا کیونکہ بیشتر ملکی آمدن تو انگریز آقا ہڑپ کرجاتے تھے۔ یہی وجہ ہے، جن ایشیائی ممالک پر انگریز یا کسی مغربی قوم کا قبضہ نہیں تھا، مثلاً جاپان وہ تو ترقی کرگئے لیکن مغربی اقوام کے زیر اثر ممالک پس ماندہ رہے۔ظاہر ہے، اگر ہندوستان کی آمدن اسی ملک کا انفراسٹرکچر اور یہاں کے باشندوں کی حالت بہتر بنانے پر خرچ ہوتی، تو برصغیر پاک و ہند آج کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال خطّہ ہوتا۔ ہندوستانیوں کی فی کس آمدن بڑھ جاتی۔ یوں انہیں تعلیم اور صحت کی سہولیات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا۔ ان کا معیار زندگی بلند ہوجاتا۔ہندوستان سے مگر دولت انگریز لوٹ کر اپنے وطن پہنچاتے رہے۔ اس باعث انگریز دور حکومت میں عام لوگوں کی حالت بدتر رہی۔ وہ بھوک اور بیماریوں کے ہاتھوں کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے رہے۔ آپ کو یہ جان کرصدمہ پہنچے گا کہ 1911ء میں ہر ہندوستانی کی متوقع عمر صرف ’’بائیس سال‘‘ تھی۔
جب انگریزوں کے قدم ہندوستان میں پہنچے تو عام ہندوستانی کو اجناس آسانی سے دستیاب تھیں۔ پھل اور سبزیاں بھی زیادہ مہنگی نہیں تھیں۔ گویا عوام کو خوراک کی خاطر زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی تھی۔ لیکن انگریز شاہی نے اجناس پر بھاری ٹیکس لگادیئے۔ نیز اجناس برآمد بھی کرنے لگے۔ اسی لیے ہندوستان میں اجناس قلت کے باعث مہنگی ہوگئیں۔اعدادو شمار کے مطابق جب مغل بادشاہ ہندوستان پر حکومت کررہے تھے، تو ہر ہندوستانی دو تا ڈھائی سو کلو کے مابین اجناس استعمال کرتا تھا۔ لیکن جب انگریز 1947ء میں ہندوستان سے رخصت ہوئے، تو یہ عدد ’’137 کلو‘‘ تک پہنچ چکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہندوستان آزاد ہوا، تو انگریز اسے بری طرح نچوڑ کر نیم مردہ بناچکے تھے۔ انسانی تاریخ میں کسی اور ملک کا ایسا خوفناک استحصال نہیں کیا گیا۔
سوال: ہندوستان کو مال و دولت سے محروم کرنے کی خاطر کیسا نظام وضع کیا گیا؟ یہ بھی بتائیے کہ ہندوستانی عوام نے اس کی مخالفت کیوں نہ کی؟
جواب: جب بھی کوئی غیر ملکی طاقت ایک ملک پر قبضہ کرے، تو وہ وہاں کے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ تھوپ دیتی ہے۔ یہ دیکھیے کہ ہندوستان کا اقتدار سنبھال کر ہر ضلع پر انگریزوں نے جو حاکم مقرر کیا، اس کا نام ہی ’’کلکٹر‘‘ (جمع کنندہ) تھا۔ یہ کلکٹر اپنے ضلع میں کارندوں کی مدد سے ہر ہندوستانی سے مختلف ٹیکس وصول کرتا۔اگر کلکٹر اور اس کے کارندے ہی ہندوستانی عوام سے ان کا مال خریدنے لگتے تو عام آدمی یقیناً سوچتا ’’دال میں کچھ کالا ہے۔‘‘ اسی لیے انگریز حکومت نے یہ خاص اہتمام کیا کہ ٹیکس اکٹھے کرنے والے کارندے ہندوستانی عوام سے کوئی مال نہ خریدیں۔ یہ کام انگریز تاجروں کے بھیس میں مختلف ایجنٹ انجام دیتے۔ چناں چہ عام ہندوستانی انگریز کی چالاکی جان نہ سکا اور اپنی معصومیت کے باعث دو سو سال تک گوروں کے ہاتھوں لٹتا رہا۔
معاشیات داں ہونے کی حیثیت سے میں جانتی ہوں کہ منڈی بڑی پُراسرار جگہ ہے۔ وہاں اصل رشتے کبھی منظر عام پر نہیں آپاتے۔ انگریز ہندوستانی عوام سے جو رقم بطور ٹیکس لیتے اسی سے ان کا خام مال خرید لیتے۔ یوں انگریزوں کو مال مفت مل جاتا۔ اس ظالمانہ اور نامنصفانہ نظام سے صرف انگریزوں کے بعض مقامی ایجنٹوں یعنی دلالوں نے فائدہ اٹھایا۔ یہ دلال مقامی افراد سے مال خرید کر انگریزوں کو فراہم کرتے تھے۔ ہندوستان کے اولیّں کاروباری گروپوں کی بنیاد انہی مقامی لوگوں نے رکھی جو انگریزوں کے لیے دلالی کرتے تھے۔ ان کی آمدن پر کوئی انکم ٹیکس بھی نہ تھا۔ یہ ٹیکس تو دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں ان پر لگا۔
سوال: ہندوستان سے جو دولت لوٹی گئی، اس کا کیا بنا؟
جواب: نو آبادیوں میں لوٹ مار ہی سے تو مغرب میں سرمایہ دار و جود میں آئے۔ اگر مغربی استعمار جنم نہ لیتا تو آج سرمایہ داری بھی عنقا ہوتی۔ انگریزوں نے ہندوستان سے جو دولت لوٹی، اسی کے ذریعے برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا میں ریلوے، سڑکیں اور کارخانے تعمیر کیے گئے۔ یہی نہیں، برطانیہ نے جب بھی جنگ کی، تو جنگی اخراجات کا بار بھی ہندوستانی معیشت پر ڈال دیا گیا۔ اس چلن نے ہندوستان کو مقروض مملکت بنا ڈالا۔
سوال: اٹھارہویں صدی کے مقابلے میں اب دنیا بہت تبدیل ہوچکی۔ اب چین ایشیا اور افریقا میں جارہا ہے۔ بعض اوقات اسے چینی استعمار کہا جاتا ہے۔ کیا یہ درست اصطلاح ہے؟
جواب: ایشیائی اور افریقی ممالک میں جانے والے چینی یا بھارتی باشندوں کو استعماری ایجنٹ کہنا درست نہیں۔ یہ مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ماضی میں مغربی طاقتوں نے ایشیائی اور افریقی ممالک میں جو ظلم و ستم کیے ہیں، انہیں پوشیدہ رکھا جاسکے۔چینی اور بھارتی بیرون ممالک جا کر صرف کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی ضمن میں وہ مقامی افراد اور حکومتوں سے باقاعدہ معاہدے کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ کاروباری سرگرمیاں سے یہ ممالک ترقی کریں اور وہاں کے باشندے غربت، جہالت اور بیماری سے نجات پالیں۔حیرت انگیز بات یہ کہ ہندوستان میں انگریزوں نے لوٹ مار کا جو نظام رائج کیے رکھا،آج بھارتی اور پاکستانی نصابی کتب میں بھی ان کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انگریز نے برصغیر پاک وہند کو جس بے دردی سے لوٹا ،اس کے طریقۂ واردات سے نوجوان بھارتی اور پاکستانی نسلیں ضرور آگاہ ہونی چاہیں۔
سوال:بھارتی حکومت کے برطانیہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔مگر مودی سرکار خصوصاً مغل حکمرانوں کو بدنام کر رہی ہے۔آپ اس سلسلے میں کیا کہتی ہیں؟
جواب:مغل بھی بیرون ملک سے آئے تھے۔لیکن یہ تاریخی سچائی ہے کہ افغانوں اور مغلوں کی اولاد ہندوستان میں رچ بس گئی۔انھوں نے ہندوستانی عوام پر ٹیکس لگائے مگر وہ قابل برداشت تھے۔پھر ٹیکسوں سے انھیں جو رقم ملی،وہ ہندوستان کی تعمیر وترقی پر ہی صرف ہوئی۔چناں چہ مغل حکمرانوں اور برطانوی استعمار کو ایک صف میں برابر کھڑا نہیں کرنا چاہیے۔مغلوں نے انگریز کی طرح ہندوستان کی دولت نہیں لوٹی،مقامی لوگوں کو دھوکا دے کر خام مال نہیں خریدا اور یہ مال بیرون ممالک نہیں بھجوایا۔
سوال:آپ معاشیات داں ہوتے ہوئے تاریخ سے دلچسپی رکھتی ہیں۔آپ کے خیال میں موجودہ برطانوی حکومت کو ہندوستان سے لوٹی گئی واپس کرنی چاہیے؟
جواب:برطانیہ ہی نہیں جس مغربی قوت نے جن جن غریب ملکوں میں رقم یا خام مال کی صورت ڈاکا ڈالا ،ان سب کو حساب دینا چاہیے۔آج کی بیشتر سپر پاورز غریب ممالک میں لوٹ مار کے ذریعے ہی طاقتور بنیں۔نوآبادیوں کے وسائل ہتھیا کر ہی آسٹریلیا سے لے کر امریکا تک جدید سرمایہ دارانہ دنیا وجود میں آئی۔یہ ضروری ہے کہ مغربی ممالک غریب ملکوں کی ترقی وخوشحالی کے لیے ان کو ہر سال معقول رقم فراہم کریں تاکہ ماضی میں انھوں نے جو خوفناک جرائم کیے ہیں،ان کا کچھ تو ازالہ ہو سکے۔
مغرب کے راز فاش کرتی مورخ
پروفیسر اتسا پٹنائک بھارت میں پیدا ہوئیں۔آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سمرویل کالج سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔اعلی تعلیم مکمل کر کے 1973 ء میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی سے منسلک ہو گئیں۔وہاں 2010 ء تک ہزارہا طلباء وطالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔آپ کئی کتب اور مقالہ جات کی مصنفہ ہیں۔ان تحریروں کا موضوع معاشیات،زراعت،تاریخ اور معاشرتی علوم ہیں۔آپ مارکسی تاریخ وفلسفہ کی ممتاز ماہر معاشیات سمجھی جاتی ہیں۔
The post انگریزوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب appeared first on ایکسپریس اردو.