ویسے تو بعض اوقات بھولنا اتنا مشکل ہوتا ہے اور یادیں اس قیامت کی کہ شاعر کو کہنا پڑتا ہے، یادِ ماضی عذاب ہے یارب۔۔۔
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا، لیکن یہ معاملہ کوئی اور ہے، جہاں تک عام معاملات کا تعلق ہے تو کہنا پڑتا ہے ’’یاد رکھنا عذاب ہے یارب۔۔۔کردے تو تیز حافظہ میرا۔‘‘ ہم میں سے اکثر لوگوں کو کم زوریادداشت کا مسئلہ درپیش ہے، یہ مسئلہ سنگین تر تب ہوجاتا ہے جب بیگم دھنیا منگائیں اور آپ پودینہ لے آئیں، پھر دماغ کی وہ دُھنائی ہوتی ہے کہ ذرا سا پودینا مشکل کردیتا ہے جینا۔ شادی شدہ حضرات کے لیے اپنی شادی کی تاریخ اور بیگم کا یوم ولادت بہ سعادت یاد رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا نیکی کے راستے پر چلنے کے لیے موت کو یاد رکھنا، اگر یہ تاریخیں موقع پر یاد نہ رہیں تو موت سر پر منڈلانے اور خود کو یاد دلانے لگتی ہے اور بندہ کہہ اٹھتا ہے۔۔۔یادِ ’’شادی‘‘ عذاب ہے یارب۔‘‘
کم زور یادداشت کے ہاتھوں زِچ افراد کے لیے اب ماہرین نے ایک ایسا نسخہ پیش کیا ہے جس سے انھیں یقیناً افاقہ ہوگا۔ ایک خبر کے مطابق کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بھولنے کے مسئلے کا یہ حل نکالا ہے کہ اس عارضے کا شکار اس بات، سبق یا شئے کی تصویر بنائیں جسے بھول جاتے ہیں یا بھولنے کا اندیشہ ہے۔ گویا یہ تصویر آپ کے دماغ سے یاد بن کر چپک جائے گی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی مصور تو نہیں ہوتا، جیسے ہم۔۔۔ہم نے جب بھی اپنی تصویر بنائی دیکھنے والوں نے یہ کہہ کر داد دی ’’کارٹون بنانے کی اچھی کوشش ہے، محنت کرکے آپ اچھے کارٹونسٹ بن سکتے ہیں۔‘‘ ایک بار ہم نے مونالیزا کو تصویر کرنا چاہا تو وہ موئے غلیظہ وجود میں آیا ہم کسی کو منہہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اب ہم جیسے لوگوں نے اس نسخے پر عمل کیا تو ہوگا یوں کہ بیگم کہیں گی’’سُنیے! ذرا ایک کلو آلو اور ایک پاؤ دہی لے آئیں، مُنے کے پیمپر ختم ہوگئے ہیں، لیتے آئیے گا، اور ہاں، فرخندہ باجی کے گھر چلے جائیے گا، ان سے کہیے گا وہ والا جوڑا دے دیں جو انھوں نے سلیم بھائی کی سالی کی نند کی مایوں میں پہنا تھا۔ ان سے کہیے گا کچھ دن بعد واپس کردوں گی۔ گلی کے کونے پر جو موچی بیٹھا ہے ناں اسے میں نے سینڈل بننے کو دیے تھے، وہ بھی لیتے آئیے گا۔ جلدی آئیے گا، مجھے کھانا پکانا ہے۔‘‘
اب بتائیے، کوئی موپساں، لیونارڈو، صادقین، عبدالرحمٰن چغتائی بھی یاد رکھنے کے لیے اتنے کم وقت میں آلو، دہی، پیپمر، فرخندہ باجی، سلیم بھائی، ان کی سالی، سالی کی نند، جوڑے، موچی اور سینڈل کی تصویریں بناسکتا ہے۔ ہمارے جیسا ’’چترکار‘‘ جو آرٹ کے نمونے بنائے گا ان میں فرخندہ باجی آلو ہوجائیں گی، سلیم بھائی سینڈل کی صورت لے لیں گے، پیمپر کی عکس دہی کی تصویر ہوگا، دہی موچی کی شکل میں نمودار ہوگا اور موچی کا چہرہ قرطاس پر پیمپر بن کر اُبھرے گا۔ یہ تصویریں ذہن میں چسپاں ہوکر مزید ستم ڈھائیں گی۔ سبزی کی دکان پر جاکر پیمپر مانگے جائیں گے، میڈیکل اسٹور سے دہی طلب کیا جائے گا، فرخندہ باجی سے مخاطب ہوکر کہا جائے گا،’’سلیم بھائی! سینڈل کی مرمت ہوگئی ہے تو دے دو‘‘ اور سینڈل ’’سے‘‘ مرمت کے بعد دماغ میں بنی ساری تصویریں یوں گُڈمُڈ ہوجائیں گی کہ موچی کے پاس جاکر فرمائش ہوگی،’’فرخندہ باجی دے دو، کچھ دن بعد واپس کردیں گے۔‘‘
ہم جیسے عام بھلکڑوں کے لیے یہ نسخہ کارآمد ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے، مگر سیاست دانوں نے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی تو بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے۔ انھیں اپنے وعدے یاد رکھنے کے لیے سب سے پہلے تو عوام کی تصویر بنانا ہوگی، کاغذ پر غربت کا نقشہ کھینچنا ہوگا، منہگائی کو تصویر کرنا ہوگا۔ اصل دشواری تب پیش آئے گی جب وہ غیرت، خودداری، دیانت اور جرأت کے وعدے یاد رکھنے کے لیے تصویر بنانے بیٹھیں گے، بہت سوچنے کے بعد بھی جب تصویر نہیں بن پائے گی تو کاغذ پر کچھ لکیریں کھینچیں گے، اور پھر کاغذ پر دو ہی تصویریں نظر آئیں گے کوڑے کے ڈبے اور یوٹرن کی۔
The post یہ نسخہ نہیں چلنے کا appeared first on ایکسپریس اردو.