یہ ایک قدامت پرست معاشرے کی ایسی عورت کی کہانی ہے جس نے اپنے نظریے اور فکر سے اپنے ملک کے لوگوں کی حالت بدلنے کی ٹھانی اور اس کے لیے اپنے عزم و ارادے اور جدوجہد سے دنیا کو متأثر کیا۔ یہ کینیا جیسے ترقی پزیر ملک میں پیدا ہونے والی عورت کی کہانی ہے جس کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کا نام Wangari maathai ہے جو پہلی افریقی خاتون ہیں جنھیں کینیا میں جمہوریت، قیامِ امن اور ماحولیات کے شعبے میں کوششیں کرنے پر نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
Wangari maathai نے شعور کی حدوں کو چھوا تو دیکھا کہ غربت عوام کو بدحال اور مقروض کیے جارہی ہے۔ بھوک طرح طرح کے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ اکثریت زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولیات سے بھی محروم ہے۔ جب لوگ اپنا پیٹ ہی نہ بھر سکیں تو وہ کس طرح سیاسی نظام کی خرابیوں اور ماحولیات کے حوالے سے سنگین مسائل کی طرف توجہ دے سکیں گے یا اس سلسلے میں شعور اور آگاہی رکھیں گے۔ کینیا خشک سالی اور قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ حال تھا۔ Wangari maathai نے 1970میں ماحولیات کو تحفظ دینے اور اس حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے گرین بیلٹ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور ملک میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔
وہ یکم اپریل 1940 کو پیدا ہوئیں۔ وہ کم سن تھیں جب ان کے والد ایک سفید فام کی زرعی زمین پر کام کرنے لگے اور ان کی وجہ سے انھیں مختلف حیات اور قدرتی مناظر کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور یوں ان کی دل چسپی فطرت میں بڑھتی چلی گئی۔ یہی نہیں بلکہ ان میں قدرتی ماحول کے تحفظ کا شعور بھی پیدا ہوا۔
گیارہ سال کی عمر میں انھیں کیتھولک بورڈنگ اسکول بھیج دیا گیا۔ اس دور میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کینیا میں جدوجہد جاری تھی۔ اس عرصے میں نوعمر لڑکی نے بہت کچھ دیکھا۔ لڑائیاں، جھڑپیں اور فساد کے دوران وہ بورڈنگ اسکول میں ہونے کی وجہ سے وہ محفوظ رہیں۔ وہ بہت ذہین تھیں۔ ان کا تعلیمی کیریر شان دار رہا۔ 1960میں انھیں اسکالر شپ مل گئی اور یوں امریکا جانے کا موقع ملا جہاں سے انھوں نے بائیولوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ چوں کہ حیات اور زندگی کی مختلف شکلیں ان کا پسندیدہ موضوع رہا، اسی لیے انھوں نے تعلیمی میدان میں بائیولوجی کا انتخاب کیا۔ بعد میں یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کر کے نیروبی(کینیا) لوٹ آئیں۔ یہ 1969کی بات ہے اور یوں وہ مشرقی افریقا کی پہلی پی ایچ ڈی خاتون کے طور پر بھی پہچانی گئیں۔
شان دار تعلیمی ریکارڈ اور باصلاحیت ہونے کی وجہ سے نیروبی یونیورسٹی میں انھیں سینیر پوزیشن پر تقرری دی گئی اور یہاں انھوں نے خواتین اسٹاف کے حقوق کے لیے مہم چلا کر خود کو منوایا۔ امریکا میں قیام اور تعلیم کے دوران ان کی فکری اور نظریاتی تربیت بھی ہوئی اور وہ عورتوں سے متعلق مختلف تحریکوں سے متأثر ہوئیں۔ 1970کی دہائی کے وسط میں کینیا میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے تباہ کن اثرات (خشک سالی اور زلزلے) نے انھیں تشویش میں مبتلا کردیا۔ ان کا خیال تھاکہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پا کر ملک کے بہت سے سماجی اور اقتصادی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
والدین نے ان کی شادی کردی اور 1974 میں ان کے شوہر سیاسی میدان میں کام یاب ہو کر ایم پی بنے۔ Wangari maathai نے اپنے شوہر کی مدد سے عوام کی حالت بدلنے اور اپنے شریکِ حیات کے سیاسی وعدوں کو حقیقت کا روپ دینے کا فیصلہ کیا اور میدانِ عمل میں اتریں۔ اسی عرصے میں انھوں نے پہلی مرتبہ ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کی غرض سے پودے لگانے کی تحریک چلائی، لیکن مالی دشواریوں نے راستہ روک لیا۔ تاہم ان کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں اور 1976میں یو این کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا تو انھوں نے ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کو اٹھایا اور شجر کاری کے لیے آواز بلند کی۔ اس کے بعد انھیں کینیا بھر میں پودے لگانے کی مہم کی سربراہی کا موقع ملا جو ان کی بڑی کام یابی تھی۔ اس مہم کے بعد ان کی تنظیم افریقا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ایک توانا اور مؤثر آواز بن گئی۔
1980 کے اوائل میں وہ نیشنل کونسل آف وویمن (کینیا) کی چیئر پرسن منتخب ہوئیں اور 1987 تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔ ان کی سرپرستی میں کونسل نے ماحولیاتی مسائل پر خوب کام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانوں کی فلاح و بہبود اور کینیا کے باشندوں کے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہیں۔ اس حوالے سے اس خاتون کی شہرت اب افریقا بھر میں پھیل چکی تھی۔ ایک موقع پر ان کا کہنا تھا، ’’میں خود نہیں جانتی کہ میں سب کا اتنا زیادہ خیال کیوں رکھتی ہوں، مجھے لگتا ہے میرے اندر کوئی ہے جو مجھے بتاتا ہے کہ وہاں مسئلہ ہے اور میں اس کے حل کے لیے کوشش کرتی ہوں۔‘‘
1990اور 1992میں وہ کینیا کی سیاسی صورتِ حال میں دل چسپی لیتی نظر آئیں۔ انھوں نے حکومت کی پالیسیوں اور حکمت عملی کے خلاف احتجاج کیا اور ملک میں حقیقی جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہو گئیں۔ اس محاذ پر انھیں کئی تکالیف اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ بھوک ہرتال پر بھی رہیں اور ہر غلط فیصلے اور ناجائز کام پر احتجاج ریکارڈ کروایا۔ وہ عوام اور ملک کے بنیادی مسائل کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے افریقا میں پہچانی جارہی تھیں اور ان کی کوششوں نے انھیں بڑی تعداد میں لوگوں کی حمایت فراہم کر دی تھی۔ 2002 میں وہ ایک جماعت کی امیدوار کے طور پر کھڑی ہوئیں اور اگلے برس یعنی 2003 میں قدرتی وسائل اور ماحولیات کے حوالے سے اہم ترین عہدے پر فائز ہوئیں۔ 2004 میں Wangari maathai کو ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے سلسلے میں کاوشوں اور کینیا میں ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جمہوریت کی حمایت اور اس کے لیے عملی طور پر کوششیں کرنے پر نوبیل پرائز سے نوازا گیا۔ ہر محاذ پر ڈٹ جانے اور بے خوفی سے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی یہ باہمت خاتون کینسر جیسی مہلک بیماری کے آگے ہار گئی۔2011 ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔
The post نوبیل انعام یافتہ سیاہ فام خاتون appeared first on ایکسپریس اردو.