کسی بھی معاشرے کی بقا اور ترقی کے لیے مرد اور عورت دونوں کا کردار اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر مرد کی کام یابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ عورت کو مرد کا نصف بہتر بتایا جاتا ہے اور کوئی بھی معاشرہ تبھی ترقی کر سکتا ہے جب اس نصف بہتر کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکے اور انفرادی اور اجتماعی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
تعلیم و تربیت کا فقدان ہو تو سماج کا یہ نصف بہتر فکر اور شعور سے محروم رہ جائے گا، اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔ اگر ہم زندگی کے مختلف شعبوں پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ خواتین بعض شعبوں پر اس قدر حاوی ہیں کہ ان کی اہمیت کو کسی شکل میں بھی کم کرنے سے عورت کی گود میں پروان چڑھنے والی نسل تدبیر اور خود اعتمادی سے محروم ہو جائے گی۔ اسی لیے اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ایک عورت کو تعلیم دینا خاندان سنوارنے کے مترادف ہے۔ عورت ایک فرد نہیں بلکہ ایک مکتب ہے جو دراصل معاشرہ کو ابتدائی تنظیمی جوہر سے روشناس کرتا ہے۔
عورت ناظم بھی ہے اور مجاہد بھی ہو سکتی ہے اور اسلامی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح دنیا کی مختلف اقوام میں ترقی اور اجتماعی سطح پر انقلابی تبدیلیوں کے پیچھے نہ صرف عورت کسی نہ کسی طرح موجود رہی ہے بلکہ اس نے کئی محاذوں پر قائدانہ صلاحیتوں کو بھی منوایا ہے۔ گھر گرہستی سے جنگ کے میدان تک، تعلیم سے عدالت تک، شفا خانوں میں مسیحائی سے لے کر سائنس کے میدان میں ایجادات تک تاریخ اس کے کردار اور کارناموں سے مزین ہے۔ آج بھی اگر ایک پڑھی لکھی اور باشعور ماں کے ہاتھوں اس کی اولاد خصوصاً لڑکی کی تعلیم اور تربیت ہو تو وہ آگے چل کر ایک کارآمد اور مہذب شہری بننے کے ساتھ ساتھ قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔
حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، ضروری نہیں کہ بہت اونچے، کھاتے پیتے گھرانے میں بیاہنے سے لڑکی کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔ یہ ایک عمومی سوچ ہے، لیکن اگر حالات پلٹا کھائیں تو عرش سے فرش پر آنے میں دیر ہی کہاں لگتی ہے۔ ایسے میں ایک پڑھی لکھی لڑکی اور پُراعتماد لڑکی یقیناً حالات کا مقابلہ کرسکتی ہے اور اپنا اور اپنے کنبے کو سہارا دے سکتی ہے۔ وہ اپنی ڈگریوں اور اہلیت کی بنیاد پر باعزت نوکری حاصل کرسکتی ہے جب کہ ماں کی جانب سے اچھی تربیت اور تعلیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اعتماد اسے مضبوط اور توانا رکھے گا۔ اس کے برعکس ایک ان پڑھ لڑکی ایسی افتاد سے گھبرا جائے گی اور اپنے کنبے کو سنبھالنے سے قاصر ہو گی۔
عورت کی تعلیم کا یہ سلسلہ صرف چند روایتی مضامین میں ڈگریوں کے حصول تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ کوئی ہنر بھی سیکھ سکتی ہیں اور گھروں میں رہ کر بھی اپنی مالی ضروریات پوری کرسکتی ہیں۔
ہمارے سماج میں کچھ پڑھے لکھے گھرانوں کی سوچ بھی اب تک نہیں بدلی ہے اور وہ لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لڑکیوں سے نہ تو نوکری کروانی ہے نہ ہی ان کی کمائی کھانی ہے، کیوں کہ وہ ’غیرت مند‘ ہیں۔ اس دور میں یہ باتیں عجیب یہ نہیں بلکہ افسوس ناک بھی ہیں۔ کیا آپ یہی چاہتے ہیں کہ بیٹی آپ کے گھر میں رہے تو ہمیشہ آپ کے آگے اپنی ضروریات کے لیے ہاتھ پھیلاتی رہے اور باقی زندگی اپنے خاوند کے آگے؟
سوال کمائی یا نوکری کا نہیں یہاں! سوال انھیں مکمل اعتماد کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا ہے۔
کیا خواتین صرف ہانڈی چولھا کرنے اور ہر ایک کی خدمت کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہیں؟ یہ درست ہے کہ گھر اور ہانڈی چولھا عورت سنبھالتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی زندگی کا صرف یہی ایک مقصد ہے اور وہ اس کے سوا کچھ نہ کرے۔ وہ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے اگر اس قابل ہے کہ اپنی خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ساتھ اپنی ضرورت کے لیے، اپنے رجحان اور تعلیمی قابلیت کے مطابق کوئی کام کرسکے تو اسے پابند کرنا کہاں کی دانش ہے۔ ہمارے ملک میں اکثریت مڈل کلاس یا غریب لوگوں کی ہے اور یہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے جب کہ منہگائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اس پہلو کو بھی مدنظر رکھیں کہ کسی وجہ سے عورت اپنے باپ کے سائے یا شوہر کی رفاقت سے محروم ہو جاتی ہے تو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتی ہے۔ اگر وہ سمجھ دار اور تعلیم یافتہ ہو گی تو اپنے بھائیوں یا سسرالی عزیزوں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود ہمّت کرکے اپنی ضروریات پوری کرسکے گی۔
یاد رکھیے! جس قوم کی بیٹی علم کے زیور سے آراستہ ہو گی وہ کبھی کشکول لے کر اغیار کے در پر نہیں جائے گی۔
The post تعلیم یافتہ اور باشعور عورت appeared first on ایکسپریس اردو.