بہ حیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اسلام دینِ کامل ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات وہ نسخۂ کیمیا ہیں، جن سے مردہ دلوں کو حیات ِجاوداں نصیب ہوئی اور پستیوں میں گری ہوئی انسانیت کو جینے کا شعور اور عروج ملا۔ رسول اﷲ ﷺ کا خطبۂ حجۃ الوداع یقینا منشور انسانیت ہے جس میں آپؐ نے ظلم کے تمام ضابطے، رسومات اور طبقاتی تفریق کو ختم کرکے عدل و انصاف، مساوات، امن اور انسانیت کو بنیادی حقوق عطا فرمائے۔ اسی موقع پر آپ ﷺ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ’’ جاہلیت کی تمام اقدار آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔‘‘
آپ ﷺ نے ایمان کی بنیاد پر سب مسلمانوں کو جسد واحد قرار دیا اور تاریخ انسانی میں منفرد مواخات مدینہ قائم فرما کر ایثار اور قربانی کی لازوال داستانیں رقم فرمائیں۔ قرآن پاک میں اﷲ کریم نے آپ ﷺ کو نعمت قرار دیتے ہوئے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے اور تفرقے سے بچنے کا حکم دیا ہے، مفہوم: ’’اور اﷲ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اﷲ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اﷲ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اﷲ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اﷲ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔‘‘ (سورہ العمران )
فرقہ واریت زمانۂ جاہلیت کی ہو یا موجودہ دور کی، اﷲ کریم نے امام الانبیاء ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں اس سے نجات کا سامان رکھا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے اہل ایمان کی اس انداز سے تربیت فرمائی تھی کہ وہ آپس میں ریشم کی طرح نرم اور دشمن کے مقابلے میں فولادی تھے، اس صفت کو قرآن پاک میں بھی اﷲ کریم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں، (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ ‘‘ گویا پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، ان کے دکھ درد سانجھے ہیں۔
نعمان بن بشیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایمان والوں کو باہم ایک دوسرے پر رحم کھانے، محبت کرنے اور شفقت و مہربانی کرنے میں تم ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب اس کے کسی ایک عضو میں بھی تکلیف ہوتی ہے تو جسم کے باقی سارے اعضاء بھی بخار اور بے خوابی میں اس کے شریک حال ہو جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری، مسلم ) گویا مشرق و مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے فاصلوں کو یکسر ختم کرکے امت واحدہ کے تصور میں سب کو یک جان کردیا۔
اسی کی عملی صورت خلفائے راشدین کے ادوار میں بہ درجہ اتم نظر آتی ہے۔ ال غرض رسول اﷲ ﷺ نے 23 سال محنت کے بعد معاشرے میں پھیلی طبقاتی تفریق، ذہنی انحطاط اور فکری جمود کو یکسر ختم کرکے ایک خوب صورت معاشرے، عالم گیر برادری اور ہمہ گیر اخوت کو تشکیل فرمایا۔ احترام انسانیت، امن و امان اور قوانین کی پاس داری کو رواج دے کر انسانی مال، جان، عزت اور آبرو کو تحفظ فراہم کیا۔ جس کے حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’جو کسی کو قتل کرے، جب کہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا، اور جو شخص کسی کی جان بچا لے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچا لی۔‘‘ (المائدہ) جب کہ ایک دوسری آیت میں ارشاد باری کا مفہوم ہے: ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘ (النساء)
ہر انسان کو جینے کا حق حاصل ہے۔ معاشرے میں بڑا مرتبہ اسے حاصل ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’ تم میں سب سے زیادہ اﷲ کا وہ شخص محبوب ہے جو سب سے زیادہ متقی، پرہیزگار اور محتاط ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے معاشرتی برائیوں زنا، چوری، عصمت دری، جھوٹ، غیبت، بغض و عداوت کی بیخ کنی فرما کر پاکیزگی کو رواج عطا فرمایا۔ جب کہ سود، قمار، جوا اور سٹے بازی کا خاتمہ کرکے انسانیت کو پاکیزہ ذرائع آمدن اور نظام معیشت عطا کیا۔ تعلیم کو فروغ دے کر جہالت کے اندھیروں کو رفع کیا۔ انسانوں کے مختلف طبقات کے حقوق اور فرائض سے آگاہی دے کر جہاں بانی عطا فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرہ عفت و عصمت میں اس انتہا کو پہنچا ہوا تھا کہ اﷲ کریم نے قرآن پاک میں ان کے کردار اور اعزاز کو ہمیشہ کے لیے محفوظ اور معیار بنایا۔
رسول امین، خاتم المرسلین اور پیغمبر اسلام ﷺ کا اسوۂ حسنہ زندگی کے تمام شعبوں کو جامع ہے اور مزید یہ کہ اﷲ کریم نے اسے محفوظ بنانے کے علاوہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ آپؐ کے ذریعے دین اسلام اپنے کمال، انسانی ضروریات کی تکمیل اور قیامت تک راہ نمائی کی صلاحیت قرآن پاک کے اس ارشاد کی روشنی میں حاصل کر چکا ہے، مفہوم: ’’آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لیے اسلام کو پسند کردیا۔‘‘ (المائدہ) جب تک مسلمانوں نے اﷲ کے فرمان کے مطابق: ’’اور رسول ﷺ تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اُس سے رُک جاؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، بے شک اﷲ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ (الحشر) جب تک امت مسلمہ اس اصول پر قائم رہی، غلبہ اور استحکام اس کا مقدر رہا لیکن جب سے اسوۂ رسول اﷲ ﷺ کو ہم نے پس پشت ڈالا اس وقت سے مغلوبیت، محکومیت اور غلامی نے ہمارے در پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
زوال اور پستی کے موجودہ دور میں مسلم حکم ران اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے مغرب اور اغیار کی طرف دیکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے مسائل حل ہونے کے بہ جائے ان مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب کہ آسمانی حقائق اس سے یک سر مختلف ہیں۔ وحی الہی ہمیں گنبد خضریٰ کے مکین کی طرف راہ نمائی کرتی ہے، حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا رشتہ پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات سے جتنا مضبوط ہوگا، ہمارے لیے زندگی میں اسی قدر آسانیاں پیدا ہوں گی۔ ہمارے مسائل حل ہوں گے اور غلبہ و استحکام اور فتح ہمارا مقدر ہوگی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اجتماعی اور انفرادی طور پر صرف اور صرف رسول اﷲ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو مشعل راہ بنا کر اس دنیا میں اپنا مقام پیدا کریں۔
The post امّت ِ مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل appeared first on ایکسپریس اردو.