ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو لوگ زیادہ پیدل چلتے ہیں وہ ان لوگوں کی نسبت زیادہ لمبی زندگی پاتے ہیں جو کم پیدل چلتے ہیں۔
دل کے امراض سے متعلق ایک امریکی ادارہ تجویز کرتا ہے کہ ہفتے میں کم از کم ڈھائی گھنٹے پیدل چلنا چاہیئے۔ اس سے قبل کی جانے والی تحقیقوں میں یہ امر سامنے آیا تھا کہ ہفتے میں ڈھائی گھنٹے سے زیادہ پیدل چل کر یا مختلف ورزشوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر مزید فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ پال ولیمز اس تحقیق کی سربراہی کر رہے تھے جو ریاست کیلی فورنیا میں لورنس برکلے نیشنل لیبارٹری سے منسلک ہیں اور کہتے ہیں’ایک اہم سوال یہ ہے کہ کتنا پیدل چلنا صحت کے لیے فائدہ مند ہے؟‘ اس جواب کے لیے پال ولیمز نے 1998 سے لے کر 2001 تک 35 سے 55 برس کی عمر کے 42,000 افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ ان تمام افراد نے پیدل چلنے کو اپنے روزمرہ معمول کا حصہ بنایا ہوا تھا۔ پیدل چلنے والے ان افراد نے اپنی روز مرہ زندگی، صحت اور خوراک کی عادتوں کے بارے میں سوالات کے جوابات دئیے۔
ان سوالات کے جوابات کی روشنی میں 23 فیصد افراد نے روزانہ پیدل چلنے کی روٹین کو نہیں اپنایا جبکہ 16فیصد نے ہفتے میں ڈھائی گھنٹے پیدل چلنے کی روٹین کو اپنایا جبکہ بقیہ افراد نے اس سے بھی زیادہ جسمانی ورزش کی۔ تحقیق کے مطابق ساڑھے نو سالوں میں تحقیق میں حصہ لینے والے 2,448 لوگ ہلاک ہوئے جو کہ کل تعداد کا 6 فیصد بنتا ہے۔ تحقیق میں شامل ان افراد میں جنہوں نے ہفتے میں ڈھائی گھنٹے تک پیدل چلنے کی روٹین کو اپنایا، موت کی شرح 30 فیصد کم تھی۔
تحقیق میں شامل جن لوگوں نے زیادہ پیدل چلنے کی روٹین اپنائی، ان میں فالج، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے امکانات کئی گنا کم ہو گئے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پیدل چلنے کے بہت فوائد ہیں اور انسان روزانہ پیدل چلنے کی عادت اپنا کر صحت کے بہت سے مسائل کو درست کر سکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پیدل چلنے والے نہ صرف زیادہ صحتمند رہتے ہیں بلکہ زیادہ چست بھی رہتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ایسے معمر حضرات جو اپنے روز مرہ معمول میں روزانہ کئی گھنٹے پیدل چلتے ہیں، اْن میں فالج کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں جبکہ ان کے ایسے ساتھی جنہوں نے پیدل چلنے کو اپنے معمول کا حصہ نہیں بنایا، اْن میں فالج کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ماہرین کے مطابق بہت سے تحقیق کرنے والوں نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ فالج اور پیدل چلنے کی رفتار اور فاصلے کے درمیان کیا ربط ہے۔ انگلستان کی یونیورسٹی کالج، لندن سے تعلق رکھنے والی باربرا جے جیفریز نے بتایا کہ، ’فالج ایک خطرناک مرض ہے اور موت یا انسان کے معذور ہو جانے کا ایک بڑا سبب ہے۔ لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے طریقے ڈھونڈے جائیں جن سے فالج کو دور رکھا جائے۔ خاص طور پر ان بڑی عمر کے افراد کے لیے جن کا فالج میں مبتلا ہونے کا امکان ہے‘۔
باربرا جے جیفریز اور ان کے ساتھیوں نے ان تحقیقی جائزوں کے ڈیٹا کا مطالعہ کیا جو کئی دہائیاں قبل شروع کی گئی تھی۔ اس تحقیق کا آغاز 1978ء میں کیا گیا اور یہ 1980ء تک جاری رہی۔ جبکہ 1998ء سے 2000ء تک جب یہ حضرات اپنی عمر میں 60ء اور 70 کے پیٹے میں تھے، ایک بار پھر ان کی صحت کا جائزہ لیا گیا اور اس بات کا تعین کیا گیا کہ انہوں نے اپنے روزانہ کے معمول میں ورزش کو کتنی جگہ دی ہے۔
اس تحقیق میں 2,995 مردوں نے حصہ لیا جنہیں اْس وقت (جب سروے کیا گیا) تک دل کی کوئی بیماری یا فالج کا حملہ نہیں ہوا تھا جبکہ تحقیق کرنے والوںنے11 سال بعد دوبارہ ان سے رابطہ کرکے ان کی صحت کا حال نوٹ کیا۔جب 11 سال بعد فالو اپ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جو مرد زیادہ دیر تک پیدل چلتے ہیں، ان میں فالج کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
ایک اورِحیرت انگیز بات یہ سامنے آئی کہ وہ مرد جو روزانہ تین گھنٹے یا اس سے زیادہ دیر تک پیدل چلتے ہیں ان میں فالج میں مبتلا ہونے کا رسک ان لوگوں کی نسبت دو تہائی کم تھا جو بہت کم پیدل چلتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انسان جوانی میں متحرک رہے تو بڑھاپے میں بھی چاق و چوبند اور صحتمند رہتا ہے اور اس پر زیادہ بیماریاں حملہ آور نہیں ہوتیں۔ سٹاک ہوم میں 60 برس سے زیادہ عمر کے تقریباً 3,900 مردوں اور عورتوں پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جوانی میں متحرک رہنے والے لوگ بڑھاپے میں بھی چاق و چوبند رہتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ صحت کے لیے جتنا اچھا متحرک رہنا ہے اتنا ہی بیٹھے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ تحقیق کی سربراہی کرنے والے ایلن ایکبوم بیک کہتی ہیں کہ یہ بات تو ہمیں 60 برس سے معلوم ہے کہ ورزش کرنا یا پیدل چلنا اور دوڑنا ہمارے دل کے لیے بہت مفید ہے۔ لیکن ایلن یہ بھی کہتی ہیں کہ ماضی میں کی جانے والی تحقیقوں میں صرف ورزش کرنے کی ہی بات کی جاتی تھی اور اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاتا تھا کہ روزمرہ امور میں دیگر سرگرمیوں سے بھی دل کو مضبوط و توانا رکھا جا سکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اگر انسان روزانہ ورزش کرے بھی تو باقی کے پورے دن کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا وہ پورا دن کرسی پر بیٹھا رہا یا پھر کسی ایسی سرگرمی کا حصہ لیا جس میں انسانی جسم کو کچھ کرنے کا موقع ملے۔ جیسا کہ باغبانی، گاڑی کی صفائی ستھرائی، مچھلی کا شکار وغیرہ وغیرہ۔
تحقیق میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ وہ افراد جو روزمرہ کی بنیاد پر زیادہ متحرک تھے اور اس بات کے قطع ِ نظر کہ وہ ورزش کرتے تھے یا نہیں، ان کا وزن نارمل تھا اور ان کا کولیسٹرول لیول بھی ٹھیک تھا۔تحقیق کا حصہ بننے والے افراد کی روزمرہ زندگی کا جائزہ ساڑھے بارہ سال تک لیا گیا۔ اس دوران تقریباً 500 افراد کو زندگی میں پہلی مرتبہ دل کا دورہ یا فالج کا حملہ ہوا۔ ان میں سے 400 لوگ ایسی کسی بیماری کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے ورزش نہیں کی، ان میں دل کی بیماریوں کے زیادہ امکانات پائے گئے۔
ماہرین کے مطابق جب انسان بیٹھا ہوتا ہے تو اس کے مسلز سکڑتے نہیں جس کی وجہ سے خون کا دباؤ کم ہو جاتا ہے اور انسانی جسم بہت سے افعال درست طور پر انجام نہیں دے پاتا جس میں خون سے گلوکوز جذب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق انسانی جسم اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ متحرک رہے اور بڑی عمر میں صحت کا دارومدار بہت حد تک ان عوامل میں ہے کہ انسان اپنی جوانی میں کتنا سرگرم اور متحرک رہتا ہے۔
The post زیادہ پیدل چلنے والے تادیر زندہ رہتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.