انسان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ خلا کو تسخیر کرے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے دن رات محنت کی اور آج انسان اس قابل ہوچکا ہے کہ کائنات کی وسعتوں میں جھانک کر سیاہ مگر جگمگاتی کائنات کی گتھیاں سلجھا سکے۔
انسان کی اس کام یابی کے پیچھے جہاں لازوال محنت شامل ہے، تو دوسری طرف اس تحقیق اور جستجو کے سفر میں اس کے کچھ ایسے بھی ساتھی رہے ہیں، جن کی اہمیت اور خدمات سے سائنس داں تو واقف ہیں لیکن عام فرد ان جاں نثار ساتھیوں کے بارے میں نہیں جانتا۔ ہم میں سے بیشتر کو علم ہے کہ خلا میں پہنچنے والا پہلا انسان روس کا خلا باز یوری گاگرین تھا، چاند پر پہلا قدم امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرونگ نے رکھا، روس کا اسپوتنک اول پہلا مصنوعی سیارچہ تھا، اسی قسم کی دیگر اہم معلومات کا ہمیں علم ہے۔ تاہم یہ کام یابیاں حاصل کرنے سے قبل تجربات کی طویل داستان ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ان صبر آزما اور تحیر میں ڈوبی داستانوں میں انسانوں کے رفیق کچھ ایسے جانور تھے جو خلا کی ان دیکھی دنیا کی جانب کھلنے والے دروازے کی اولین سیڑھی بنے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
بحیثیت انسان اپنی تمام تر ذہانت، لیاقت، فراست اور تحقیق کے باوجود سائنس داں سمندر کی گہرائیوں اور کائنات کی وسعتوں میں داخل ہونے سے قبل نامعلوم خطرات اور غیریقینی حالات کا سامنا کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔ لاتعداد اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سلجھانے کے باوجود غیریقینی خطرات کی گھنٹیاں انہیں ہردم سنائی دیتی ہیں۔ ایسے مبہم اور غیرمتوقع حالات کا سامنا کرنے کے لیے سائنس دانوں کی پٹاری میں ہمیشہ جانوروں اور حشرات کی دنیا بسی رہتی ہے۔ زیرنظر مضمون میں ایسے ہی کچھ اہم اور زبردست جانوروں اور حشرات الارض کے بارے میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں جو خلا کی تسخیر میں انسانوں کے معاون اور مددگار رہے:
1940کی دہائی
جا بہ جا بھنبھناتی چھوٹی چھوٹی مکھیاں گذشتہ سو سال سے علم حیاتیات کی تحقیق کا اہم حصہ رہی ہیں اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انسانی جسم میں پائی جانے والی پچھتر فی صد بیماریوں کے جین مکھیوں کے جینیاتی نظام سے مشابہہ ہیں بالخصوص پھلوں پر منڈلاتی ان مکھیوں کے اعصابی نظام کے جین انسانی دماغ کے جینز سے بہت زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔ صرف تعداد کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے خلا میں بھیجنے کے لیے مکھی سے ابتدا کی اس حوالے سے امریکا نے بیس فروری انیس سو سینتالیس کو نیومیکسیکو سے ’’وی دوئم‘‘ نام کا راکٹ خلا میں بھیجا ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے تحقیقات کے لیے بھیجے جانے والے اس مشن میں راکٹ کے کیپسول نما مخصوص حصے میں زندہ مکھیاں رکھی گئیں۔ بنیادی طور پر اس تحقیق کا مدعا بلندی پر جاتے ہوئے تاب کاری کے اثرات کا جائزہ لینا تھا۔ یہ راکٹ ایک سو نوکلومیٹر کی بلندی پر محض تین منٹ اور دس سیکنڈ میں جاپہنچا۔ حیرت انگیز طور پر جب راکٹ سے جُڑا ہوا کیپسول پیرا شوٹ کی مدد سے واپس زمین پر آیا تو مکھیاں زندہ پائی گئیں اور اس طرح اس راکٹ میں بھیجی گئی مکھیاں ز مین کے ماحول سے باہر بیرونی فضا کے قریب باہر جاکر زندہ واپس آنے والی پہلی جان دار قرار پائیں۔
بعدازاں دو سال بعد چودہ جون انیس انچاس کو خلائی مشن البرٹ کے تحت ’’رہسیس‘‘ نسل کا بندر ’’البرٹ دوئم‘‘ کام یابی سے خلا میں داخل ہوا۔ اگرچہ اس تجربے سے ایک سال قبل البرٹ اول نامی بندر کو خلا کی جانب ’’وی دوئم‘‘ راکٹ کی مدد سے روانہ کیا گیا تھا، تاہم وہ تریسٹھ کلومیٹر کی بلندی پر دم گھٹنے کے باعث جاں بحق ہوگیا تھا۔ البتہ البرٹ دوئم ایک سو چونتیس کلومیٹر کی بلندی تک جانے والا پہلا جان دار تھا۔ تاہم بدقسمتی سے اپنے سفر کی واپسی کے دوران کیپسول کا پیراشوٹ درست طریقے سے نہ کھلنے کے باعث البرٹ دوئم بھی جاں بحق ہوگیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ مشن بھی خلا کی جانب سفر کے دوران تاب کاری کے اثرات جاننے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس مشن کے دوران البرٹ دوئم کے جسم میں لگائے گئے سینسر اور دیگر آلات نے انتہائی اہم اور مفید معلومات فراہم کی تھیں۔ واضح رہے کہ انیس سو چالیس سے انیس سو پچاس کے عشرے کے دوران متعدد بندر خلائی پروازوں کے ذریعے خلا میں روانہ کیے گئے۔ تاہم اس تعداد میں سے دو تہائی بندر خلائی تحقیق کی پُرخطر وادی میں موت کی نیند سوگئے۔
1950 کی دہائی
انیس سو چالیس کی دہائی میں کیے جانے تجربات کی روشنی میں خلائی سائنس دانوں نے خلا میں روانہ ہونے کے لیے مزید بہتر آلات بنانے اور سفری طریقے اپنانے شروع کردیے۔ تاہم ابھی بھی انسان اس قابل نہیں ہوا تھا کہ وہ خود کو خلا میں لے جانے کے تجربات کی بھٹی میں جھونک دے۔ چناں چہ جانوروں پر تجربات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سلسلے میں اکتیس اگست انیس سو پچاس کو امریکا نے ’’وی دوئم‘‘ راکٹ کے ذریعے ایک چوہے کو خلا میں بھیجا۔ اس تجربے کے نتائج کی روشنی میں اس دہائی میں کئی مرتبہ چوہوں کو خلا میں روانہ کیا گیا۔ اسی طر ح بائیس جولائی انیس سو اکیاون میں روس کے خلائی جہاز R-1 IIIA-1 میں کتوں کے ایک جوڑے ’’تیسیگن‘‘ اور ’’ڈیزک ‘‘ (Tsygan and Dezik) کو خلا میں بھیجا گیا۔ تاہم اس خلائی پرواز نے زمین کے مدار میں گردش نہیں کی البتہ ان دونوں کتوں کو کسی بھی جان دار کے خلا میں سب سے بلندی تک جانے کا اس وقت تک منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ دوران سفر اور تجربہ یہ دونوں کتے زندہ پائے گئے تھے۔ تاہم واپسی کے سفر میں ایک کتا جانبر نہ ہوسکا۔ اس دہائی کا سب سے اہم تجربہ تین نومبر انیس سو ستاون کو کیا گیا، جب روس کے مشہور خلائی مشن اسپوتنک دوئم کے ذریعے ’’لائیکا‘‘ (Laika) نام کی کتیا کو خلا میں بھیجا گیا۔ لائیکا کی خلا میں روانگی اس لحاظ سے یادگار ہے کہ وہ پہلا جان دار جسم تھا جو زمین کی فضائی حدود سے باہر نکل کر خلا میں زمین کے نچلے زمینی مدار میں پہنچا اور مدار میں بے وزنی کی حالت میں گردش کرتے ہوئے جان دار جسم پر پڑنے والے مختلف اثرات سے سائنس دانوں کو روشناس کرایا۔
بدقسمتی سے لائیکا مدار کے گرد چکر پورا کرنے سے قبل اس سفر کے دوران ہلاک ہوگئی تھی۔ تاہم بے وزنی کی کیفیت اور بے پناہ رفتار میں جان داروں کے جسم پر کائناتی شعاعیں، شمسی شعاعیں اور دیگر جسمانی ردعمل کے بارے میں جمع شدہ ڈیٹا سے سائنس دانوں کے لیے تجربات اور معلومات کی نئی دنیا وا کر گئی۔ یاد رہے کہ لائیکا سے منسوب ایک یادگار ماسکو کے خلائی تحقیقی مرکز میں قائم کی گئی ہے اور بہت سے ممالک نے اس سے منسوب یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیے ہیں، جب کہ ناسا کی جانب سے مریخ کی سطح پر موجود ایک حصے کو بھی لائیکا سے منسوب کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ماسکو کے گلی کوچوں میں پلنے والے تین کتوں کو اس مشن کے لئے چنا گیا تھا جن میں لائیکا کے علاوہ ’’ مشکا‘‘ اور ’’البینا ‘‘ شامل تھے بعدازاں دیگر خلائی مشنز پر مشکا اور البینا بھی خلا میں بھیجے گئے۔
تیرہ دسمبر انیس سو اٹھاون بھی خلائی تحقیق کا ایک اہم موڑ ہے، جب امریکی ریاست فلوریڈا میں واقع خلائی مرکز ’’کیپ کیناورل‘‘ سے ’’جیوپیٹرIRBM اے ایم تیرہ‘‘ نام کا درمیانے درجے کا بلاسٹک میزائل خلا میں روانہ کیا گیا۔ اس میزائل کی بالائی نوک میں بنے کیبن میں پچیس سے پینتیس سینٹی میٹر طویل مختصر جسامت کا ’’اسکوئرل نسل کا بندر‘‘ بھیجا گیا، جس کا نام ’’گورڈو ‘‘ تھا۔ یہ بندر دورانِ سفر حرارت کی شدت کے باعث جانبر نہ ہوسکا۔ تاہم اپنی موت سے قبل ٹیلی میٹری ڈیٹا سے پتا چلا کہ سفر کے دوران گورڈو نے نہ صرف دس درجے تک ثقلی کشش کو برداشت کیا، بل کہ وہ آٹھ منٹ تک بے وزنی کی کیفیت میں بھی زندہ رہا اور اپنے واپسی کے سفر میں اس نے دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار کو اپنے جسم پر برداشت کیا۔ اس دوران اس کے جسم پر زمین کی نسبت چالیس درجے ثقلی کشش کا دبائو بھی تھا۔ گورڈ کی خدمات بھی خلائی تسخیر کے عمل میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، کیوںکہ اس تجربے کے بعد ہی سائنس داں انسان کو خلا میں بھیجنے کے حوالے سے یکسو ہوئے۔
مذکورہ تجربے کے تناظر میں جیوپیٹر سلسلے کا دوسرا میزائل اے ایم اٹھارہ اٹھائیس مئی انیس سو انسٹھ کو فلوریڈا سے روانہ کیا گیا۔ اس بار مشن کے مسافر دو مادہ بندر ’’ایبل اور بیکر‘‘ (Able and Baker) تھے ’’مس ایبل‘‘ کا ’’رہسیس‘‘ نسل اور مس بیکر کا ’’اسکوئرل نسل‘‘ سے تعلق تھا۔ یہ دنوں بندر خلائی راکٹ کی ابتدائی نوک میں بنے کیبن میں بٹھائے گئے تھے۔ ان دونوں نے پانچ سو اناسی کلومیٹر کی بلندی تک فضا میں سفر کیا۔ اس دوران ان کے جسم پر زمین کی نسبت اڑتیس گنا زاید ثقلی کشش کا دبائو رہا نو منٹ تک وہ بے وزنی کی کیفیت میں رہے، جب کہ اپنی سولہ منٹ کی پرواز میں دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار تک جا پہنچے۔ اس تجربے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تمام تر ناقابل برداشت حالات کے باوجود یہ دونوں مادہ بندر کرۂ ارض پر زندہ پہنچے جو اپنی نوعیت کا اولین واقعہ تھا۔ اگر چہ بندریا مس ایبل چار دن بعد بیماری کے ہاتھوں مرگئی۔ تاہم مس بیکر اس واقعے کے تقریباً ستائیس سال بعد انتیس نومبر انیس چوراسی کو طبعی موت مری۔
اس واقعے کے فوری بعد جولائی انیس سو انسٹھ ہی کو روس نے اپنے ’’R2‘‘ مشن کو فضا میں روانہ کیا جس نے دوسوبارہ کلومیٹر بلندی تک فضا میں سفر کیا۔ اس سفر میں اس کے مسافر دو کتے اور ’’مارفیوزا‘‘ (Marfusa) نام کا خرگوش تھا۔ مارفیوزا فضا میں سفر کرنے والا پہلا خرگوش تھا۔ واضح رہے کہ چارہزار چارسو پونڈ وزن کا حامل یہ خلائی مشن اس وقت تک کا وزن کے لحاظ سے سب سے بھاری بھرکم مشن تھا، جس کے مسافر بہ حفاظت زمین پر پہنچے۔ اس تجربے کے بعد انیس ستمبر انیس انسٹھ کو جیوپیٹر خلائی مشن کے اے ایم تیئس خلائی پرواز پر دو مینڈک اور بارہ عدد مادہ چوہے روانہ کیے گئے۔ تاہم بدقسمتی سے یہ راکٹ فضا ہی میں پھٹ کر تباہ ہوگیا۔
1960 کی دہائی
خلائی سفر اور تجربات کی دنیا میں انیس سو ساٹھ کی دہائی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس دہائی کی ابتدا ہی میں بارہ اپریل انیس سو اکسٹھ کو سوویت یونین کا خلانورد ’’یوری گاگرین‘‘ وہ پہلا انسان قرار پایا جو خلا میں گیا اور اس نے پہلی مرتبہ خلا کے گر د زمین کے مدار کا چکر مکمل کیا۔ تاہم اس کام یابی سے قبل خلائی سائنس دانوں نے جانوروں پر خلا میں تجربات کرتے ہوئے انیس اگست انیس سو ساٹھ میں اسپوتنک پنجم کو خلا کی جانب روانہ کیا اس خلائی پرواز میں ’’بیلیکا ‘‘ اور ’’اسٹریلیکا‘‘ (Belka and Strelka) نام کے دو کتے عازم سفر ہوئے یہ دونوں کتے نہ صرف خلا میں گئے بلکہ انہوں نے زمین کے مدار کے گرد چکر لگایا اور سب سے اہم بات یہ ہے لائیکا نام کی کتیا کے برعکس یہ دونوں مدار میں چکر لگانے کے بعد زندہ زمین پر پہنچے۔ اس طرح ان دونوں کتوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے زمین کے مدارکا چکر پورا کیا اور زمین پر زندہ پہنچے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اسٹریلیکا نے اپنے مشن کے چار ماہ بعد بچے بھی جنے، جن میں سے ایک ’’پِلّا‘‘ روسی صدر نکتیا خروشیف نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی بیٹی کیرولین کینیڈی کو تحفے میں دیا اور آج اسٹریلیکا کتیا کی نسل کے متعدد کتے موجود ہیں۔
اکتیس جنوری انیس سو اکسٹھ خلائی تحقیق کا وہ اہم تاریخ ساز دن ہے جب انسان اس بات کو جاننے کے قابل ہوا کہ خلا میں بے وزنی کے دوران وہ مخصوص طریقے سے اپنے جسم اور اعضاء کو حرکت دے سکتا ہے۔ یہ زبردست جان کاری چپمینزی نسل کے ایک ذہین بندر ’’ہام ‘‘ (Ham) کے ذریعے حاصل ہوئی۔ ’’ہام‘‘ کو مرکزی خلائی مشن کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا اور یہ پہلا موقع تھا جب کسی جاندار نے خلائی کیپسول میں رہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے خلائی پرواز میں موجود ’’لیور‘‘ کو حرکت دی اس مقصد کے لیے ہام کو زمین پر خاص طریقے سے تربیت دی گئی تھی۔ ہام کے ٹرینر نے تیز چمکتی ہوئی سبز لائٹ روشن ہونے پر ہام کو لیور کو حرکت دینے کا پابند کیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہام کے پائوں کے تلوے میں ہلکی نوعیت کا کرنٹ لگایا جاتا تھا۔ یہ عمل متعدد بار کرنے کے بعد ہام نے کرنٹ کے خوف سے سبز لائٹ روشن ہوتے ہی لیور کو حرکت دینی شروع کردی۔ لیور کو کام یابی سے حرکت دینے پر ہام کو انعام کی صورت میں کیلا دیا جاتا تھا۔
بعدازاں جب ہام خلا میں پہنچا اور دوران تجربہ لیور دبانے کے لیے سبز لائٹ روشن کی گئی، تو ہام نے فوراً لیور کو حرکت دی۔ اس طرح پہلی مرتبہ انسان یہ بات جاننے کے قابل ہوا کہ خلائی سفر کے دوران جسمانی اعضاء کو حرکت دینا ممکن ہے اور انسان خلائی جہاز میں بے وزنی کی کیفیت میں مختلف کام سرانجام دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہام اس واقعے کے بعد مزید سترہ برس زندہ رہا۔ ’’چاپ چاپ چینگ‘‘ کی عرفیت سے معروف ہام نے مجموعی طور پر چھبیس برس عمر پائی۔ کیمرون کے جنگل سے پکڑے گئے دیگر چالیس چمپینزیوں میں شامل ہام کا نام ’’ہولو مین ایرواسپیس میڈیکل سینٹر‘‘ کے ابتدائی حروف سے اخذ کرکے رکھا گیا تھا۔ اس سینٹر میں ہام نے خلائی سفر کی تربیت حاصل کی تھی۔ یاد رہے کہ ہام کی زندگی پر متعدد فلمیں بنائی جاچکی ہیں اور ہولومین ایرواسپیس میڈیکل سینٹر میں ہام کی یادگار بھی قائم ہے۔
ہام کے اس یادگار کارنامے کے تین ماہ بعد پانچ مئی انیس سو اکسٹھ کو امریکا کے خلا نورد ’’ایلن شپارڈ‘‘ امریکا کے اولین اور مجموعی طور پر دوسرے شخص قرار پائے جنہوں نے خلا میں سفر کیا۔ واضح رہے کہ ہام نے زمین کے مدار کے گرد چکر نہیں لگایا تھا، بل کہ خلا میں رہتے ہوئے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ اس تجربے سے قبل جتنے بھی جان دار خلا یا مدار میں بھیجے جاتے تھے یا تو وہ بے ہوش ہوتے تھے یا پھر انہیں اس طرح باندھ دیا جاتا تھا کہ وہ حرکت نہ کرسکیں۔
ہام ہی کی طرح، مگر زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اپنے اعضاء کو حرکت د ے کر ہدایات پر عمل کرنے کا منفرد کارنامہ جس جانور نے پہلی مرتبہ انجام دیا وہ بھی ایک نہایت ذہین چمپینزی تھا، جس کا نام ’’اینوز ‘‘(Enos) تھا۔ اینوز نے یہ کارنامہ انتیس نومبر انیس سو اکسٹھ کو انجام دیا۔ اس سے قبل نومارچ انیس سواکسٹھ کو سوویت یونین نے اپنے خلائی مشن اسپوتنک نہم کے ذریعے ’’شیارانوشکا‘‘ نام کے کتے کے ساتھ پہلی مرتبہ مادہ چوہے، مینڈک اور حشرات کو خلا میں روانہ کیا اور ان پر متعدد تجربات کیے۔ اس سفر میں شیارانوشکا کتے کے ہم راہ پہلی مرتبہ ایک مصنوعی انسانی جسم کی نقل (مجسمہ) کی صورت میں نقلی خلانورد ’’ایوان آئیونچ‘‘ نے بھی سفر کیا تھا۔ اپنے اس سفر کے بعد بھی ایوان آئیونچ نے متعدد تجرباتی خلائی سفر کیے جن کے دوران اس کے ہم سفر ہمیشہ جانور ہی رہے۔
بائیس فروری انیس سو اکسٹھ کو خلائی تحقیق میں فرانس بھی اس طرح داخل ہوا کہ اس نے پہلی مرتبہ خلا میں ایک چوہا، جس کا نام ’’ہیکٹر‘‘ تھا خلا میں روانہ کیا، اس کے بعد اگلے برس اکتوبر میں مزید دو چوہے بھی روانہ کیے۔ اس تجربے کے بعد اٹھارہ اکتوبر انیس سو تریسٹھ کو فرانس نے خلا میں بِلّی بھیجنے کا پروگرام بنایا۔ اس مقصد کے لیے ’’فلیکس‘‘ نام کا ایک بِلّا منتخب کیا گیا۔ تاہم فلیکس کی قسمت میں خلا کا سفر نہیں تھا۔ وہ دوران تربیت فرار ہوگیا۔ فلیکس کے فرار کے بعد ’’فیلی کیٹی‘‘ (Felicette) نام کی ایک بلی منتخب کی گئی، جس نے خلا میں سفر کرنے والی پہلی بلی ہونیکا اعزاز حاصل کیا۔ اگرچہ فیلی کیٹی نے زمین کے مدار میں چکر نہیں لگائے تاہم اس نے زمین سے خلا کی جانب ایک سو تیس میل کی بلندی تک سفر کیا۔ یہ سفر پندرہ منٹ پر مشتمل تھا۔ اس دوران اس کے جسم سے منسلک مزید ترقی یافتہ آلات نے خلا میں سفر کے دوران جسم پر پڑنے والے مختلف اثرات کے بارے میں نہایت اہم معلومات جمع کی تھیں۔ فیلی کیٹی کو خلا میں لے جانے والا خلائی راکٹ الجزائر میں واقع صحرائے صحارا کے فرانسیسی خلائی مرکز سے مائل بہ پرواز ہوا تھا۔ اس خلائی سفر کے تناظر میں فیلی کیٹی کی تصویر والے ڈاک ٹکٹ بھی مختلف ممالک نے شائع کیے تھے۔
فرانس ہی کی جانب سے انیس سو چھیاسٹھ میں دو بندر بھی خلا میں بھیجے گئے تھے۔ اسی عرصے میں انیس سو چونسٹھ اور انیس سو پینسٹھ میں چین نے دو چوہے اور انیس سو چھیاسٹھ میں دو کتے خلا میں روانہ کیے تھے۔ چین کی جانب سے خلائی دوڑ میں داخل ہونے کی یہ پہلی منزل تھی۔ بائیس فروری انیس سو چھیاسٹھ ہی کو روس کے خلائی پروگرام ’’فوسخود‘‘ کے تحت خلائی مشن ’’کاسموس 110‘‘ روانہ کیا گیا۔ اس خلائی مشن کے مسافر دو کتے ’’وٹروک‘‘ اور ’’یوگوللاک‘‘ تھے۔ حیاتیاتی تحقیقات کے حوالے سے ترتیب دیے گئے اس مشن کے دوران ان دونوں خلاباز کتوں نے بائیس دن خلا میں گزارے، جو کہ آج بھی خلا باز کتوں کے حوالے سے خلا میں سب سے طویل قیام کا ریکارڈ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انسانوں کو بھی یہ ریکارڈ توڑنے میں سات سال کا عرصہ لگا، جب انیس سو تہتر میں ’’اسکائی لیب دوئم‘‘ کے تین خلا بازوں نے اٹھائیس یوم تک خلا میں قیام کیا۔
اسی نوعیت کا ایک حیاتیاتی خلائی تحقیق کا پروگرام (بائیوسٹلائٹ) امریکا نے انیس سو چھیاسٹھ اور انیس سو سڑسٹھ میں روانہ کیا۔ اس مشن میں مکھیاں، کیڑے، حشرات اور بیکٹریا کے علاوہ مینڈکوں کے انڈے شامل تھے۔ انیس سو سڑسٹھ ہی میں ارجنٹائن کے ’’کورڈوبا ملٹری بیس‘‘ سے ’’اورین دوئم‘‘ خلائی راکٹ روانہ کیا گیا۔ اس راکٹ کے مسافر بردار کیپسول کا مسافر ’’بیلی سائیرو‘‘ نام کا چوہا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ خلائی راکٹ اورین دوئم نے خلا میں کتنی بلندی تک سفر کیا۔ اگلے برس چودہ ستمبر انیس سو اڑسٹھ کو روس نے خلا میں اولین ’’کچھوا‘‘ عازم سفر کیا۔ ہارس فیلڈ نام اور نسل کے اس روسی کچھوے کے ہم راہ مکھیاں اور دیگر حشرات بھی تجربات کے لیے روا نہ کیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ انیس سو پچاس سے انیس سو ساٹھ کی دہائی تک سابق سوویت یونین نے مجموعی لحاظ سے ستاون کتے خلا یا مدار میں بھیجے، جس میں سے بیشتر نے دوبار سے زاید سفر کیا۔ انیس سو انہتر ہی میں امریکا نے ’’بونی‘‘ نام کا ایک بندر خلا میں بھیجا، جب کہ اسی سال تئیس دسمبر کو ارجنٹائن نے ’’آپریشن نویداد‘‘ کے ذریعے کائی نسل کے بندر ’’جان‘‘ کو خلا میں روانہ کیا۔ ’’کانوپس راکٹ دوئم‘‘ میں سوار اس بندر نے خلا میں بیاسی کلومیٹر کی بلندی تک سفر کیا اور بحفاظت واپس آیا۔
1970 کی دہائی
انیس سو ستر کی دہائی میں خلائی تحقیق میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ پہلی مرتبہ دوران خلا سفر میں بے وزنی کی کیفیت میں انسانی اعضاء کی حرکات و سکنات اور سننے کے عمل میں خلل پڑجانے والے بیماری یا رکاوٹ کو سمجھے کے لیے تجربات کیے گئے۔ اس مقصد کے لیے نو نومبرانیس سو ستر میں ناسا نے مشن روانہ کیا، جس میں دو مینڈکوں کو خلا میں بھیجا گیا ’’بل فراگ‘‘ نسل کے ان مینڈکوں پر کیے جانے والے تجربات کے نتائج نے انسانوں کے خلائی سفر میں سہولیات کا نیا باب کھولا۔ یہ مشن ’’آربٹنگ فراگ اوتولتھ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اگلے برس سولہ اپریل انیس سو بہتر کو اپالو سولہ خلائی مشن کے ذریعے ’’نیما ٹوڈ‘‘ (کیچوے اور اسی اصناف کے دیگر کیڑے) اور دیگر حشرات نے خلا کا سفر کیا۔ یاد رہے کہ نیماٹوڈ کیچوے میں موجود جینز کی تعداد انسان کے جینز (پچیس ہزار) سے تھوڑی ہے کم ہے، جب کہ اپالو سترہ کے ذریعے چھوٹی سے جسامت پر مشتمل پانچ ’’پاکٹ چوہوں‘‘ پر بھی کام یابی سے تجربات کیے گئے۔
انیس سو تہتر میں انسان بردار مشن اسکائی لیب سوئم میں دو مادہ گھریلو مکڑیاں بھی ہم سفر تھیں۔ ’’ارابیلا‘‘ اور ’’انیتا‘‘ نام کی ان مکڑیوں نے خلا میں بے وزنی کی کیفیت میں جالابن کر حیرت انگیز نتائج فراہم کیے۔ اسی مشن کے ساتھ خلا میں پہلی مرتبہ مچھلی بھی بھیجی گئی۔ یہ مچھلی چھوٹی مگر سخت جان نسل ’’ممی چوگ‘‘ سے تعلق رکھتی تھی۔ اس دوران سابق سوویت یونین کی جانب سے سترہ نومبر انیس سو پچھتر کو ’’سوئیز بیس مشن‘‘ کے ساتھ کچھوؤں کا ایک جوڑا خلا میں نوے دن بہ حفاظت گزار کر آیا، جب کہ اگلے برس بائیس جون کو ’’سالیوت خلائی مشن پنجم‘‘ کے ذریعے سوویت یونین نے مزید کچھوے اور پہلی مرتبہ ’’زیبرا ڈائنو‘‘ نسل کی مچھلی بھی خلا میں روانہ کی۔
1980 کی دہائی
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت یونین نے بائیون فلائٹ اسپیس مشن کے ذریعے آٹھ بندر خلا میں روانہ کئے جب کہ انیس سو پچاسی میں امریکہ نے اسپیس لیب سوئم مشن کی اسپیش شٹل کے ہمراہ چوبیس نر چوہوں کو خلا میں بھیجا اور نہایت فائدہ مند تجربات کئے اسی برس سوویت یونین کے بائیون ہفتم مشن کے ذریعے پہلی مرتبہ خلا میں ’’ریگ ماہی‘‘ نام کا سرد خون والا رینگنے والا جانور خلا میں بھیجا گیا۔ واضح رہے کہ ریگ ماہی بیک وقت پانی اور خشکی میں رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دیکھنے میں چھپکلی سے مماثلت رکھتا ہے اور ان رینگنے والے جانوروں میں شامل ہے جو اپنے اعضاء دوبارہ اُگانے ’’بازافزائش‘‘ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خلائی مشن کے دوران ریگ ماہی کی دونوں اگلی ٹانگیں کاٹ کر ان کے دوبارہ اُگنے کا تجربہ کیا گیا۔ اس تجربے نے خلا میں زخموں کے بھرنے کے حوالے سے نہایت سود مند نتائج فراہم کیے۔
1990 کی دہائی
یہ دہائی اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس دہائی میں جاپان نے اپنا اولین جانور بردار خلائی مشنز روانہ کیا۔ جاپان نے یہ کارنامہ انیس سو پچانوے میں انجام دیا۔ جاپان کے مشن کا نام اسپیس فلائر یونٹ تھا۔ اس مشن کے دوران جاپان نے ریگ ماہی کی مختلف قسمیں خلا میں بھیجی گئی تھیں۔ اس سے قبل انیس سو نوے کے دسمبر کے مہینے میں جاپان کے صحافی ’’تھوآریو اکیما‘‘ نے خلائی اسٹیشن میر کی جانب سفر کیا۔ اس سفر میں انہوں نے میر خلائی اسٹیشن کے حوالے درختوں پر رہنے والے جاپانی مینڈک حوالے کیے۔ انیس سو نوے کی دہائی ہی میں ناسا کے ماہرین نے اسپیس شٹل کے ذریعے خلائی مرکز میں بہت سے حشرات ٹڈے، جھینگر، گھونگے، پتنگے سمیت چاول کے دانے جتنی مچھلیاں’’مکاڈا‘‘، شریمپ فش، جیلی فش، سورڈ فش، سمندری خارپشت اور چھڑی جیسی شکل والے لمبوترے عصا حشرات و دیگر مختصر جسامت کے آبی جان داروں پر تجربات کیے۔
2000 تا حال
خلا میں متواترساٹھ سال تک کیے جانے والے ان تجربات کے باوجود سن دوہزار کی دہائی میں بھی جانوروں اور حشرات پر تجربات کا سلسلہ جاری رہا۔ سن دوہزار تین میں کولمبیا شٹل کے ذریعے پہلی مرتبہ ریشم کے کیڑوں کو خلا میں بھیجا گیا۔ اس کے علاوہ ایک مرتبہ پھر مکڑیوں کے ساتھ چیونٹیوں، لکڑی خور مکھی، پسو، چیچڑی اور دیگر حشرات خلا میں تجربات کی غرض سے بھیجے گئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جب اسپیس شٹل کولمبیا سن دوہزار تین میں اپنے واپسی کے سفر میں دھماکے سے تباہ ہوگئی اور اس کی تقریباً ہر شے جل کر خاکستر ہوگئی، تو اس کے باوجود آگ سے محفوظ ایک کنٹینر میں موجود ’’سی ایلی گنز‘‘ نامی ’’نیما ٹوڈ‘‘ (کیچوے اور اسی اصناف کے دیگر کیڑے) زندہ حالت میں پائے گئے۔ اس حیرت انگیز واقعے نے سائنس دانوں کو خلا بازوں کے لئے حفاظتی تدابیر کے حوالے سے نئے زاویے فراہم کیے۔
سن دو ہزار چھے میں امریکا کے ’’بگیلو ائیر اسپیس مشن‘‘ کے تحت جینیسس اول اور دوہزار سات میں جینیسس دوئم خلا میں تجربات کی غرض سے روانہ کیا گیا۔ ان دونوں مشنز میں بھی مختلف قسموں کے کیڑے مکوڑے سمیت مڈغاسکر کے شور مچانے والے لال بیگ اور جنوبی امریکا کے ہموار پشت والے بچھو بھی شامل تھے، جب کہ دو ہزار سات میں ستمبر کے مہینے میں یورپیئن اسپیس ایجنسی نے ’’فوٹون ایم تھری‘‘ کے نام سے خلا میں مشن روانہ کیا۔ اس مشن کی سب سے اہم کام یابی عام انسانی آنکھ سے نہ نظر آنے والے انتہائی مختصر جسامت مگر بلا کے سخت جان جاندار ’’واٹر بئیر‘‘ (ٹریڈیگیٹرز) پر تجربات تھے۔ واضح رہے کہ آٹھ ٹانگوں والا واٹر بیئر اپنے حیاتیاتی نظام کو مفلوج کرکے کئی سال تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتا ہے اور انتہائی سرد (منفی دوسو تہتر سینٹی گریڈ) اور انتہائی گرم (ایک سو اکیاون سینٹی گریڈ) دونوں حالتوں میں بھی زندہ رہتا ہے۔ تجربات کی غرض سے تین ہزار کی تعداد میں خلا میں جانے والے یہ واٹر بئیرز دس دن تک کھلی خلا میں بغیر کسی امداد ی سامان کے اپنے قدرتی نظام کی مدد سے زندہ رہے تھے، جسے ماہرین ایک انتہائی محیرالعقول واقعہ قرار دے رہے ہیں۔
اس کام یابی کے بعد 2009 میں ناسا کے ’’ایس ٹی ایس ایک سو انتیس مشن‘‘ کے ذریعے عالمی خلائی مرکز میں ’’مونارک‘‘ اور ’’لیڈی پینٹڈڈ‘‘ نسل کی تتلیوں پر بھی خلا میں تجربات کیے گئے ہیں۔ تین فروری دوہزار دس کو ایران وہ اب تک کا آخری ملک ہے جس نے خلا میں کوئی جانور روانہ کیا ہے۔ انقلاب ایران کی اکتیسویں سال گرہ کے موقع پرحکومت ایران نے ’’کاوشگر سوئم مشن‘‘ کے ہم راہ ایک چوہا دو کچھوے اور کچھ کیچوے خلا میں روانہ کیے، جو کام یاب تجربات کے بعد کام یابی سے زمین پر واپس آچکے ہیں۔ مئی دوہزار گیارہ میں خلائی شٹل ’’اینڈایور‘‘کے ذریعے دو مکڑیاں ’’گلیڈیز‘‘ اور ’’ایزمیرلڈا‘‘ اور کچھ مکھیوں کو بے وزنی کی حالت میں ان کے رویوں پر تجربات کی غرض سے خلا میں روانہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر دوہزار بارہ کو عالمی خلائی مرکز میں روسی خلائی مشن ’’سوئویز ٹی ایم اے‘‘ کے ذریعے بتیس کی تعداد میں میکاڈا مچھلیاں پہنچائی گئی ہیں، جن پر تجربات کیے جارہے ہیں۔ یہ اب تک کا آخری مشن ہے جس میں انسان کے علاوہ کسی جاندار کو خلا میں بھیجا گیا ہے۔ یاد رہے کہ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق اٹھائیس جنوری دوہزار تیرہ کو ایران نے ’’پیش گام راکٹ‘‘ کے ذریعے ستر میل کی بلندی پر خلا میں رہسیس نسل کے بندر روانہ کیے ہیں۔ تاہم ایران کی جانب سے ایسے کسی مشن کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔
خلائی مدار کیا ہیں؟
دنیا میں سات ممالک ایسے ہیں جنہوں نے خلا ئی تحقیق اور تسخیر کے عمل میں جانوروں کو بھیج کر مفید تجربات کیے ہیں۔ ان ممالک میں سابق سوویت یونین، امریکا، فرانس، چین، جاپان، ارجنٹائن اور ایران شامل ہیں۔ ان ممالک کے خلائی مشن یا تجربہ گاہیں۔ زمین کے گرد خلا میں قائم تین مداروں میں سرگرم عمل رہی ہیں۔ ان مداروں یا آربٹس میں زمین سے قریب ترین مدار کو ’’نچلا زمینی مدار‘‘ یا ’’لو ارتھ آربٹ‘‘ (LOW) کہا جاتا ہے۔ اس کی اونچائی سطح سمندر سے دوہزار کلومیٹر بلندی تک ہوتی ہے۔ دوسرا مدار ’’وسط زمینی مدار‘‘ ہے جسے ’’میڈیم ارتھ آربٹ ‘‘ (MEO) کہتے ہیں اور اس کا دائرہ عمل خلا میں دوہزار کلومیٹر بلندی سے شروع ہو کر پینتیس ہزار سات سو چھیاسی کلومیٹر بلندی تک ہوتا ہے اور بیشتر گلوبل پوز یشننگ سسٹم سے لیس مصنوعی سیارچے اس مدار میں گردش کرتے ہیں۔ تیسرا مدار ’’ارض جامد مدار‘‘ یا ’’جیو اسٹیشنری آربٹ‘‘(GEO) کہلاتا ہے۔ اس کی گردش اور زمین کی محوری گردش یکساں ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے بیشتر نشریاتی آلات سے لیس مصنوعی سیارچے ارض جامد مدار میں گردش کرتے ہیں۔