چین کی صنعتی اور معاشی ترقی پوری دنیا کے لیے حیرانگی کا باعث ہے۔جائے نماز اور تسبیح سے لے کر کامن پن ، سوئی اور موٹرسائیکل اور کاروں سے لے کر جنگی طیاروں اور راکٹوں تک چینی دنیا کی ہرشے تیار کرتے ہیں۔ چینی ساختہ مصنوعات پوری دنیا میں چھائی ہوئی ہیں۔ ان کی کم قیمت اور بہتر معیار کی وجہ سے لوگ ان کو خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
امریکا جیسے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک میں بھی چینی مصنوعات چھائی ہوئی ہیں۔چین اپنی دولت کے ذریعے امریکا جیسے ملک کو اپنا مقروض بنا چکا ہے۔اس طرح چین اپنی دولت اور طاقت دونوں میں اضافہ کررہا ہے۔لیکن ان تمام کامیابیوں کے باوجود چین میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ کمی ہے جو اسے امریکا سے آگے نکلنے نہیں دے رہی۔یہی وہ کمی ہے جو اسے مغربی دنیا کے دیگر ممالک سے بھی کم تر بناتی ہے۔ وہ کمی کیا ہے؟ وہ کمی ہے ، ایجاد ، اختراع اور دریافت کرنے کی صلاحیت کی کمی۔
چین سب کچھ بناتا ہے لیکن کچھ ایجاد یا دریافت نہیں کرتا۔وہ اختراع میں بھی امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے پیچھے ہے۔آئی فون آج اسمبل تو چین میں ہوتا ہے لیکن ایجاد امریکا میں ہوا تھا۔جدید جنگی طیارے امریکا میں تخلیق ہوتے ہیں لیکن ان کی نقل چین میں بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔جدید ڈیزائن کی گاڑیاں اور نت نئے آلات بھی امریکا ، یورپ اور جاپان میں ایجاد اور تخلیق کیے جاتے ہیں لیکن چین ان کو بعد میں ہی نقل کرپاتا ہے۔چین آج دنیا بھر کی مصنوعات اپنے ملک میں تیار کرتا ہے لیکن یہ تمام مصنوعات امریکا یا یورپ میں ایجاد اور دریافت ہوتی ہیں۔ چین حقیقت میں محض ایک ’’عالمی ورکشاپ‘‘ بنا ہوا ہے جہاں ان چیزوں کی بڑے پیمانے پر یعنی ماس پروڈکشن ہوتی ہے جو دوسرے ممالک میں ایجاد ہوتی ہیں یا کبھی ایجاد ہوئی تھیں۔کیا چین نے جدید اشیاء میں سے کچھ ایجاد بھی کیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی یہ کمی اس کی پائیدار ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
پائیدار ترقی کیسے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کو اس وقت نہ صرف امریکا جیسے ممالک سے مقابلہ درپیش ہے بلکہ بھارت جیسی ابھرتی ہوئی معیشت بھی اس کے مقابلے پر موجود ہے۔چین کی معاشی ترقی کی کئی وجوہات ہیں جن میں حکومتی امداد ، سستی لیبر اور سٹیٹ ڈائریکٹڈ فنانس ہے جو اس کے کامیاب مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ چین دنیا بھر کی اشیاء تیار کرکے اپنا مسقبل محفوظ نہیں بنا سکتا۔ ایسا کرنے کے لیے چین کو ایجاد کرنے اور دریافت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی۔ اسے چیزیں ڈیزائن کرنا ہوں گی۔ برانڈ کرنا اور مارکیٹ کرنا ہوں گی۔عالمی صنعت کے لیڈروں کی پیروی کرنے کے بجائے چین کو اپنے لیڈر خود پیدا کرنا ہوں گے۔
لیکن ایسا کرنا اتنا آسان نہیں۔دنیا میں بہت کم ممالک پرزے جوڑنے سے آگے نکل کر موجد بن پائے ہیں۔بہت کم ملک نقلچی کے درجے سے آگے نکل کر تخلیقی اور اختراعی درجہ حاصل کر سکے ہیں۔ چین کو ایسا کرنے کے لیے اپنی پوری معیشت کو اوور ہال کرنا ہوگا۔چینی کمپنیوں کو دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے خالص اپنی اشیا تخلیق کرنا ہوں گی۔انہیں ایسی اشیاء تیار کرنا ہوں گی جو اسی طرح اعلیٰ معیار اور خصوصیات کی حامل ہوں جس طر ح امریکا ، یورپ اور جاپان کی تیارکردہ اشیا ہوتی ہیں۔ اس کیلئے چین کو ایسی ہنر مندی اور سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے جو فی الحال اس کے پاس نہیں۔ اس کیلئے چین کو جن انتظامی مہارتوں کی ضرورت ہے، وہ بھی اس کے پاس موجود نہیں۔معیشت دان ولیم جین وے کا کہنا ہے کہ چین نے اس وقت جو کچھ بھی حاصل کیا ، وہ اگلے مرحلے میں داخل ہونے کیلئے کافی نہیں۔وہ کہتے ہیں: ’’موجودہ پالیسیوں اور افعال کے ساتھ وہ سب کچھ حاصل کرنے کیلئے آغاز کرنا بہت مشکل ہے جن کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے۔یعنی دریافت اور ایجاد کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا۔‘‘
اصلاحات کی باتیں
چینی قیادت کو اس کا بھرپور احساس ہے۔بیجنگ میں چین کی نئی قیادت جس نے ایک سال قبل ہی کام شروع کیا تھا ، نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ فری مارکیٹ اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھائیں گے جس کے تحت فنانس کو لبرلائز کیا جائے گا ، پرائیویٹ کاروبار کی مدد کی جائے گی اور تحفظ شدہ سیکٹر کو اوپن کیا جائے گا۔چینی وزیراعظم نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ اصلاحات کے بغیر چین جدت یا ماڈرنائزیشن کی طرف نہیں بڑھ سکتا اور خود کو اوپن کیے بغیر بھی یہ ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔تاہم یہ عمل ابھی سست روی کا شکار ہے۔اس حوالے سے کچھ معنی خیز اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور کچھ اور اہم اقدامات بھی کیے گئے ہیں جیسے شنگھائی میں سرمایہ کی آزادانہ گردش والے سپیشل زون کا قیام ، تاہم یہ اقدامات بھی ابھی بہت چھوٹے ہیں۔چینی وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھنا ہوگا اور ضدی بیورو کریسی کو نکیل ڈالنا ہوگی اوراس کیلئے سیاسی عزم کی ضرورت ہوگی۔بینک آف امریکا کی معاشی ماہر میرل لائنچ نے خبردار کیا ہے کہ چینی قیادت تاحال واضح خصوصیات کی حامل اور نظام الاوقات کے مطابق اصلاحات کے لیے تیار نہیں۔ عالمی جریدے’’ٹائم‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مستقبل میں اپنی پائیدار ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے چین کو جن پانچ چیلنجز کا سامنا ہے (یعنی اس کی معیشت کی کمزوریاں)، وہ درج ذیل ہیں۔
1-چینی لیبر اخراجات میں اضافہ
اس سال جون میں میڈیکل آلات اور اشیاء بنانے والی امریکی کمپنی ’’ چپ سٹارنس‘‘ نے اپنی پلاسٹک مینوفیکچرنگ کا کام بیجنگ میں واقع فیکٹریوں سے بھارت منتقل کرنے کا اہم فیصلہ کیا۔اس فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جب کمپنی نے 34 ملازمین فارغ کیے تو باقی 110ملازمین نے بغاوت کردی۔پہلے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں ان کی مرضی کے معاوضے دیے جائیں اور پھر انہوں نے بھارت کے لیے آلات کی پیکنگ کو کھٹائی میں ڈال دیا ۔پھر جب یہ افواہ پھیلی کہ امریکی کمپنی چین میں اپنا آپریشن مکمل طور پر ختم کرکے بھارت جارہی ہے تو ملازمین نے کمپنی کے امریکی ایگزیکٹو کو چھ دن تک اس کے دفتر میں یرغمال بنائے رکھا۔
چینی ملازمین کا طبقہ شاید اس واقعے کو پسند نہ کرے لیکن سٹارنس میں ملازمین کو جس صورت حال کا سامنا ہوا وہ شاید مستقبل میں ایک معمول بن جائے۔چین کو اس کی وافر اور سستی لیبر کی وجہ سے ہمیشہ فائدہ پہنچا ہے لیکن جس طرح چین میں بوڑھوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور نوجوان لیبر کی تعداد میں کمی آرہی ہے، اس سے اس کی لیبر فورس بھی گھٹ رہی ہے ۔ اس کے علاوہ چین کی تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت میں بڑھتے ہوئے مواقع کی وجہ سے مزدوروں کے لیے محض پرزے جوڑنے والی فیکٹریوں میں ملازمت میں دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاوضے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ سٹارنس کے بقول گذشتہ دس سال کے دوران ملازمین پر اخراجات کئی گنا بڑھ کر پانچ سو ڈالر ماہانہ تک پہنچ گئے ہیں اوراس قدر اضافے کے باوجود انہیں ملازمین کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے مقابلے میں ممبئی پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں لیبر 75فیصد سستی ہے اور نہایت افراط میں ہے۔
چین میں ٹیلنٹ کے درمیان مسابقت اس قدر زیادہ ہے کہ ہر قسم کے ملازمین باقی ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کے ملازمین کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیسہ کما رہے ہیں۔ تنخواہوں کے حوالے سے مشاورتی فرم ’’مرسر‘‘ کی جانب سے جمع کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق چین میں ایک مشین آپریٹر سالانہ ساڑھے چھ ہزار ڈالر جبکہ ایک ہنر مند سیکریٹری سالانہ سوا گیارہ ہزار ڈالر تک کماتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں مشین آپریٹر سالانہ پونے پانچ ہزار ڈالر اور سیکریٹری لگ بھگ پونے نو ہزار ڈالر کماتا ہے۔دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس لیے چین کی راہ اختیار کی تھی کہ وہاں لیبر سستی ہے لیکن اب ایسا نہیں رہا۔اب یہ کمپنیاں دوسرے ممالک کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔
امریکا کے بعد اب چین میں بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث عالمی کمپنیوں کے لیے اس ملک میں دلچسپی کم ہورہی ہے۔ اس سے پہلے ہر امریکی ایگزیکٹو کے لیے پیداوار کا کام آف شور منتقل کرنے کے لئے چین پہلی چوائس تھا کیونکہ امریکا میں بہت زیادہ اخراجات کے باعث ان کیلئے اپنے ملک میں کام کرنا مشکل تھا تاہم اب چین میں بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث یہ امریکیوں کے لیے پسندیدہ چوائس نہیں رہا۔بوسٹن کنسلٹنگ گروپ (بی سی جی) کا کہنا ہے کہ چین میں بڑھتے ہوئے معاوضوں ، لیبر کی پیداواری صلاحیت اور دیگر اسباب کو مدنظر رکھا جائے تو 2015ء تک مینوفیکچررز کیلئے چین امریکا جتنا ہی مہنگا ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بی سی جی کے امریکا کے بڑے مینو فیکچررز سے کیے جانے سروے کے نتائج پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہئے جس کے مطابق 21فیصد امریکی مینوفیکچررز یاتو اپنے کاروبارچین سے واپس امریکا لارہے تھے یعنی آف شورنگ سے ری شورنگ کی طرف آرہے تھے یا اگلے دوسالوں کے دوران ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
کھلونے بنانے والی کمپنی knex کے صدر مائیکل آرٹن نے 2009ء میں چین سے مینوفیکچرنگ واپس امریکا لانے کا کام شروع کر دیا ۔ چین میں مینوفیکچرنگ کا جائزہ لیتے ہوئے knex اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ چین میں اب کام کرنا اتنا فائدے مند نہیں رہا۔چین کے حوالے سے اس صورتحال کو ماہرین ’’چائنہ ہینڈی کیپ‘‘ کہتے ہیں یعنی اب چین میں آف شور کام کرنا نقصان دہ ہوچکا ہے کیونکہ چین میں بڑی بڑی فیکٹریاں چلانا ، ان کو مسلسل سپلائی دینا اور طویل فاصلوں کی وجہ سے اب یہ کام منافع بخش نہیں یعنی امریکا سے مینوفیکچرنگ کا کام اٹھا کر چین لے جانا۔یہی وجہ ہے کہ knex اپنا زیادہ تر کام یعنی پرزوں کی تیاری اور تکمیل شدہ پروڈکٹس کی فائنل ٹچنگ وغیرہ پنیسلوینیا میں واقع اپنے مرکز میں واپس لا چکی ہے۔ ایسا کرنے کے بعد وہ اپنے منافع کو دوبارہ بحال کرچکی ہے۔
’’چین اب ہمارے لیے موزوں نہیں رہا۔‘‘مائیکل آرٹن کا کہنا تھا۔’’گذشتہ تیس سال کے دوران دنیا میں جوتجارتی تبدیلی آئی تھی، اس کا فائدہ چین کو ہوا تھا، لیکن دنیا میں دوبارہ تجارتی تبدیلی آرہی ہے اور اب اس کا فائدہ امریکا کو ہورہا ہے۔‘‘
دلچسپ امر یہ ہے کہ صرف غیرملکی کمپنیاں چین سے نہیں جا رہیں بلکہ چینی کمپنیاں بھی اپنے ملک کے بجائے دوسرے ممالک کا رستہ اختیار کررہی ہیں۔مثال کے طورپر جوتے بنانے والی ایک چینی کمپنی ’’ہوجیان‘‘ جو چین کے صنعتی قصبے ڈونگوان میں کام کرتی ہے ، نے افریقہ کے غریب ترین ملک ایتھیوپیا میں فیکٹری لگانے کے لیے پندرہ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے کیونکہ یہاں پر معاوضے چین کے مقابلے میں آٹھ گنا کم ہیں۔ ہوجیان کے افریقہ میں ملازمین کی تعداد اس وقت اٹھائیس سو ہے اور کمپنی اگلے پانچ سال کے دوران یہ تعداد تیس ہزار تک کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔
2-ٹیکنالوجی کی کمتری
چین کی بعض کمپنیاں، جن میں ٹیلی کام کے آلات بنانے والے’’ہواوی‘‘ زیادہ قابل ذکر ہے، لائق تحسین عالمی مسابقت میں شریک ہیں۔لیکن ایسی چینی کمپنیاں بہت کم ہیں۔زیادہ تر ٹیکنالوجی میں خاصی پیچھے ہیں۔ہانگ ژو کی کمپنی Geely ، جس کے بانی لی شوفو ہیں، اس کی ایک مثال ہیں۔ان کی کمپنی نے 2006ء میں پہلی چینی کمپنی بننے کا اعزاز حاصل کیا جس نے امریکا کے شہر ڈیٹرائٹ میں ہونے والے نارتھ امریکن انٹرنیشنل آٹو شو میں اپنی تیار کردہ کار کی نمائش کی۔اس کے بعد انہوں نے امریکا کے صارفین کے لیے اپنی چھوٹی سیڈان کاریں ایکسپورٹ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ تاہم اس منصوبے پر عمل نہ ہوسکا۔ شوفو نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ان کی کاریں ابھی اس قابل نہیں کہ امریکا کی ٹف مارکیٹ کا مقابلہ کرسکیں۔
یہی مثال چین کی تمام کار کمپنیوں پر صادق آتی ہے۔چین کاروں کی صنعت میں امریکا اور جاپان کا مقابلہ کرنے کے خواب دیکھتا ہے لیکن بے تحاشا سرمایہ کاری اور ریاستی سرپرستی کے باوجود چینی کار کمپنیاں دیگر غیرملکی کمپنیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ خود چین میں کاروں کی ستر فیصد مارکیٹ پر چیوی ، واکس ویگن اور ہنڈائی چھائی ہوئی ہیں۔چین کی کار کمپنیاں زیادہ تر غریب ملکوں میں ہی اپنی کاریں فروخت کرتی ہیں جہاں صارفین معیار کے مقابلے میں کم قیمت کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔گیلی سمیت چین کی کچھ کمپنیاں تو عالمی معیار کے مطابق کاریں تیار کرنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن اسی فیصد چینی ساختہ کاروں میں بہت سے نقائص ہوتے ہیں۔چین میں جنرل موٹرز کے سابق صدر کیون ویل کے بقول چین کی کار انڈسٹری تاحال سیکھنے کے مرحلے میں ہے۔یہی حال چین میں بحری جہاز اور کشتیاں تیار کرنے کی صنعت کا ہے۔اس میں چین جاپان اور امریکا تو کیا جنوبی کوریا سے بھی پیچھے ہے۔چین پرانے ڈیزائن اور کارکردگی کی حامل بحری کشتیاں اور کنٹینرشپس تیار کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جنوبی کوریا کی کشتیاں کہیں معیاری اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں۔
3-فن اختراع اتنا آسان نہیں
چین میں بھی ایسی کمپنیاں ہیں جن میں فن اختراع پایا جاتا ہے جیسا کہ شانزن سے تعلق رکھنے والی کمپنی Tencent جو انٹرنیٹ اور موبائل سروس میں اپنی تخلیق صلاحیتوں کی وجہ سے خاصی مشہور ہے۔اس کا پیغام رسانی کا سسٹم WeChat بہت مقبول ہے۔ اس طرح ایک اور کمپنی Xiaomi چین میں اپنے کم مہنگے سمارٹ فونز کی وجہ سے ایپل کو ٹکر دے رہی ہے حالانکہ اسے مارکیٹ میں آئے صرف تین سال ہوئے ہیں۔تاہم چین میں اختراع کا جو رجحان ہے وہ موجودہ ٹیکنالوجیز کی بنیاد پر ہی قائم ہے اور یہ نئے انقلابی آئیڈیاز پیدا نہیں کررہا۔اس طرح ٹیکنالوجی کی دوڑ میں چین امریکا سے کافی پیچھے ہے۔امریکی فرم جی جی وی کیپیٹل کے جیف رچرڈ کے بقول امریکا کی سلیکان ویلی کو چین پر واضح برتری حاصل ہے۔اس کو یہ برتری حاصل ہے کہ اس کے پاس ایک ایسا ایکوسسٹم ہے جو بڑے بڑے کارنامے انجام دیتا رہتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے سکول بچوں کو ہر قسم کے ہنر سکھا رہے ہیں لیکن چین کا ایجوکیشن سسٹم بھی روایتی امتحانوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور بچوں میں اختراعی اور تخلیقی صلاحیتیں بیدار کرنے میں سست روی کے باعث اس کے سسٹم کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔حتیٰ کہ سابق چینی وزیر اعظم وین جیابائو بھی ایک مرتبہ یہ کہنے پرمجبور ہوگئے تھے کہ طالب علموں کو صرف علم کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں یہ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اپنا دماغ کیسے استعمال کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کاپوریٹ مینیجرز چینی انجینئرز کو ان کے خول سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔رمیش بابو سونگوکرشنا سوامی جب ہنی ویل کے شنگھائی اور بیجنگ میں واقع آر اینڈ ڈی سنٹرزکے جنرل منیجر بنے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انجینئرز اپنے منصوبوں کے بارے میں بھی اپنے طورپر نہیں سوچ رہے تھے۔رمیش بابو کے بقول وہ وہی کچھ کرکے خوش تھے جس کا ان کو کہا جاتا تھا۔ رمیش بابو نے اس کا سبب یہ پایا کہ وہ ڈرتے تھے کہ اگر انہوں نے کوئی نیا تجربہ کیا اور وہ ناکام ہوگیا تو کمپنی ناراض ہوگی۔ناکامی کا خوف کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔
4-چین کے عالمی برینڈز کی کمی
چین بے شمار اشیا بناتا ہے لیکن سوائے لینووو(Lenovo) اور ہائر(Haier) کے اس کے عالمی سطح پر پہچان رکھنے والے دیگربرینڈ دکھائی نہیں دیتے۔کھیلوں کے لباس اور دیگر اشیا بنانے والا چینی برینڈ Li Ning عالمی سپورٹس برینڈز نائیکی اور ایڈیڈاس کے مقابلے میں اپنے برینڈ کی تشہیر کے لیے بے تحاشا پیسہ خرچ کرتا ہے حتیٰ کہ اس نے گذشتہ سال این بی اے کے سپرسٹار ڈیویان ویڈ کی خدمات بھی حاصل کیں تاکہ مصنوعات کی تشہیر کرسکے تاہم کمپنی عالمی صارفین کو لبھانے میں ناکام ہوگئی۔2013ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران اس کی سیلز کم ہوکر صرف پچیس فیصد رہ گئی۔ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ کمپنی صرف اپنی مدمقابل کمپنیوں کی پیروی کرتی ہے ۔ماہرین کے مطابق جب تک چینی کمپنیاں اپنے صارفین کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے نئے آئیڈیازکے ساتھ اشیاء نہیں بنائیں گی تب تک وہ عالمی معیار کے برینڈز تخلیق کرنے میں مشکل کا شکار رہیں گی۔
اسی طرح جینز اور شرٹس تیار کرنے والی کمپنی meters/bonwe کے بانی ژو چنگ جیان کی مثال ہے۔ان کی مصنوعات چین کے پانچ ہزار سٹورز پر بکتی ہیں۔ انہوں نے ہالی وڈ کی فلم ’’ٹرانسفارمرز‘‘ میں اس کے مرکزی کردار شیا لابوف کی شرٹ پر اپنی کمپنی کا لوگو استعمال کیا اور اس پر کثیر سرمایہ خرچ کیا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی مصنوعات کو چین سے باہر لانچ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ابھی ان کا برینڈ اس قدر طاقت ور نہیں۔ ماہرین کے مطابق چینی معیشت کی یہ کمزوریاں ہیں جس کی وجہ سے وہ امریکا سے آگے نہیں نکل پا رہی۔ چین مصنوعات کو عالمی معیار کا بنانے کے لیے انہیں اختراع اور تخلیق کے ساتھ ساتھ ایجاد اور دریافت کی راہوں پر چلنا پڑے گا لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔
5-اچھے منتظمین کی کمی
چینی معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے کاروباری انتظامی (management) معاملات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اگرچہ چین میں غیرمعمولی کارکردگی کے حامل کاروباری ادارے اور منتظم موجود ہیں لیکن جتنی ضرورت ہے، اس کے مطابق ایسے افراد اور ادارے تیار کرنا اچھا بھلا مشکل کام ہے۔چین میں یورپین چیمبر آف کامرس کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ سند یافتہ ہنر مند کارکنوں کی کمی چیمبر کے ارکان کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔جو قلیل تعداد میں ایسے کارکن ہیں وہ بھاری معاوضے مانگتے ہیں۔2012 کے دوران چین میں ایک اوسط درجے کے اپر مڈل منیجر کی تنخواہ ایک لاکھ پانچ ہزار ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو کہ امریکا سے بھی دو تہائی زیادہ ہے۔
بلیو ہورائزن ہاسپیٹیلیٹی گروپ کے سی ای او بوب بوئس کے مطابق باصلاحیت منیجر کے بے تحاشا معاوضے ہی اس وقت ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے ریستوران چین میں آٹھ سو ملازمین کام کرتے تھے اور ملازمت حاصل کرنے سے قبل کوئی بھی متعلقہ تجربہ نہیں رکھتا تھا۔ ان کو زبردست ٹریننگ کے بعد اپنی اپنی فیلڈ میں تربیت یافتہ بنایا جارہا ہے اوراس کے بعد انہیں عہدے دیے جائیں گے۔ان میں سے کچھ اب ٹاپ کے منیجر بن جائیں گے۔اس کے لیے انہیں جو اقدامات کرنا ہیں ، وہ شاید امریکا میں غیرضروری سمجھے جائیں لیکن چین میں ضروری ہیں۔مثال کے طور پر ان کی ذمہ داریوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جیسے ایک منیجر کچن کو دیکھے گا ۔ ایک منیجر ویٹرز کی نگرانی کرے گا جبکہ ایک مختلف سہولیات پر نظر رکھے گا۔ ان تینوں منیجرز کی نگرانی ایک جنرل منیجر کرے گا اور ریستوران کی تمام شاخوں میں کھانے اور سہولیات سے لیکر صفائی ستھرائی سمیت ہر چیز کو بہتر بنائے گا۔ بوئس نے اپنے چائنہ میں واقع ریسٹورینٹ چین میں جتنے ملازمین رکھے ہوئے ہیں وہ امریکا میں رکھے گئے ملازمین سے تیس فیصد زیادہ ہیں۔
ان تمام چیلنجز کے باوجود چین کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تواتر کے ساتھ تنقید کرنے والوں کے منہ بند کرچکا ہے اور مایوسی پھیلانے والے حلقوں کی پیشگوئیوں کو ناکام بنا چکا ہے۔ معاشی سست روی کے دنوں میں بھی ملکی معیشت کی شرح شاندار رہی ہے اور اس سال کی تیسری سہ ماہی میں یہ 7.8 تک افزائش حاصل کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ اس ماہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی اہم مجلس ہورہی ہے جس میں معاشی اصلاحات کے بارے میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔تاہم چین جیسے عظیم الشان حجم کے حامل ملک ، جس کی آبادی اور رقبہ دونوں بہت بڑے ہیں، اس کی معیشت کو جس طرح ترقی یافتہ بنایا گیا ہے ، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ماہرین کے مطابق امریکا کو اختراع اور ایجاد کی صلاحیت حاصل کرنے میں پچاس سال کا عرصہ لگا تھا جبکہ چین سے یہ کارنامہ دس سال کے عرصے میں دکھانے کی توقع کی جارہی ہے۔کسی بھی ملک ، چاہے یہ چین ہی کیوں نہ ہو، سے یہ توقع بہت زیادہ ہے۔
چین کی معیشت کے حوالے سے چند دلچسپ حقائق
٭ چین کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ سستی اور ہنر مند لیبر ہے تاہم لیبر اب چین میں بھی تیزی سے مہنگی ہورہی ہے۔مثال کے طورپر چین میں ایک فیکٹری ورکر ماہانہ 466 ڈالر تنخواہ لیتا ہے جبکہ ہنوئی میں ایک ویت نامی ورکر یہی کام 145 ڈالر ماہانہ میں کرتا ہے۔
٭ چین میں اس وقت جن برانڈز کی کاریں فروخت ہوتی ہیںان میں ٹاپ 10 برانڈ میں سے نو برانڈ امریکی ، جرمن ، جاپانی اور کورین ہیں جبکہ دسویں نمبر پر چینی برانڈ بائیڈ ہے۔
٭آئی فون چین میں بہت مقبول موبائل فون ہے۔آئی فون کا نیا ماڈل 5s چین میں اسمبل ہوتا ہے لیکن اس میں بہت کم حصہ چین کا ہوتا ہے۔آئی فون امریکا میں ڈیزائن ہوتا ہے اوراس کے تین چوتھائی پرزے بیرون ملک سے آتے ہیں۔
٭ جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے لیکن دنیا کے طاقتور ترین برانڈز کے حوالے سے فوربس میگزین میں اس کی آٹھ انٹریز ہیں جبکہ چین کی کوئی انٹری نہیں حالانکہ وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔
٭ بھارت میں ایک اپر مڈل منیجر ساٹھ ہزار ڈالر سے کم کماتا ہے جبکہ چین میں اس کی کمائی ایک لاکھ پانچ ہزار ڈالر ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ چین میں اب معاوضے کم نہیں رہے جبکہ کم معاوضے اس کی معیشت کی گروتھ کا ایک بڑا سبب سمجھے جاتے تھے۔
چین سب کچھ بناتا ہے لیکن کچھ ایجاد یا دریافت نہیں کرتا، وہ اختراع میں بھی امریکا اور مغربی ممالک سے پیچھے ہے، آئی فون آج اسمبل تو چین میں ہوتا ہے لیکن ایجاد امریکا میں ہوا تھا، جدید جنگی طیارے امریکا میں تخلیق ہوتے ہیں لیکن ان کی نقل چین میں بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، جدید ڈیزائن کی گاڑیاں اور نت نئے آلات بھی امریکا ، یورپ اور جاپان میں ایجاد اور تخلیق ہوتے ہیں لیکن چین ان کو بعد میں ہی نقل کرپاتا ہے، چین آج دنیا بھر کی مصنوعات اپنے ملک میں تیار کرتا ہے لیکن یہ تمام مصنوعات امریکا یا یورپ میں ایجاد اور دریافت ہوتی ہیں امریکا کے بعد اب چین میں بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث عالمی کمپنیوں کے لیے اس ملک میں دلچسپی کم ہورہی ہے، اس سے پہلے ہر امریکی ایگزیکٹو کے لیے پیداوار کا کام آف شور منتقل کرنے کے لیے چین پہلی چوائس تھا کیونکہ امریکا میں بہت زیادہ اخراجات کے باعث ان کے لیے اپنے ملک میں کام کرنا مشکل تھا تاہم اب چین میں بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث یہ امریکیوں کے لیے پسندیدہ چوائس نہیں رہا۔بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے مطابق 2015 تک مینوفیکچررز کے لیے چین امریکا جتنا ہی مہنگا ہوجائے گا۔