موسم بدلتے ہی ڈینگی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے یعنی جب سردی گرمی میں بدلتی ہے اور گرمی سردی میں تبدیل ہوتی ہے تو یہی درمیانی موسم مچھروں کی افزائش کے لئے ایک بہترین ماحول مہیا کرتا ہے۔
اسی موسم میں مچھروں کی افزائش بھی دیگر موسموں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جبکہ زیادہ سردی اور زیادہ گرمی کا موسم مچھروں کے لئے قاتل ہوتا ہے۔ یقینا آپ نے بھی محسوس کیا ہو گا کہ سخت سردی یا سخت گرمی کے موسم میں مچھر غائب ہو جاتے ہیں جبکہ میانہ موسم کے دروان یہ بہتات میں نظر آتے ہیں اور یہی موسم ہے کہ جب یہ سوتے جاگتے ہمارے کانوں میں بین بجاتے اور ہمارا خون چوستے ہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ نر مچھر انسانوں کو نہیں کاٹتے۔ یہ اپنی خوراک پودوں اور جھاڑیوں وغیرہ سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ مادہ مچھر ہے کہ جو انسانی خون سے اپنا شکم بھرتی ہے مگر صرف مادہ مچھر ہی ایسا کیوں کرتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے مادہ مچھروں کو اپنے انڈوں کی افزائش کے لئے جس پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے انسانی خون سے مہیا ہوتی ہے۔ ایک وقت میں ایک مادہ مچھر ایک قطرہ سے بھی کم انسانی خون پیتی ہے اور اس کے بعد یہ مادہ کسی بھی جگہ پر 100سے لے کر 400 تک انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
دنیا میں مچھروں کی 3000 سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ مچھر زیادہ سے زیادہ 1.5 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتے ہیں جبکہ ایک خاص قسم کے مچھر جن کو (Salt-Marsh mosquitos) کہا جاتا ہے خوراک کے حصول کی خاطر 40 میل تک کا سفر بھی طے کرسکتے ہیں۔
عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ مچھر انسانی خون کی بو پا کر انسان پر حملہ کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک غلط تصور بھی رائج ہے کہ اگر کسی کو زیادہ مچھر کاٹتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ’’اس کا خون میٹھا ہے اس لئے اسے زیادہ مچھر کاٹتے ہیں‘‘ مگر یہ ایک جاہلانہ سوچ ہے۔ مچھروں کو صرف خون پینے سے غرض ہوتی ہے نہ کہ خون کے ذائقے سے۔ مندرجہ بالا دونوں مفروضے غلط ہیں۔ مچھر انسانی خون کی بو سے نہیں بلکہ سانس لینے کے دوران انسانوں کے منہ سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بو کی لپٹ پر لپکتے ہیں۔ اس لئے ہماری سانس جتنی غلیظ ہو گی یا ہم جتنی زور سے سانس لیں گے مچھر اتنے ہی زیادہ ہم پر حملہ آور ہوں گے۔ یعنی جو انسان ٹوتھ برش نہیں کرتے یا اپنے منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے وہ مچھروں کا زیادہ شکار بنتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم جاگنگ یا ورزش سے فارغ ہوتے ہیں تو ہمارا سانس دھونکی کی طرح چل رہا ہوتا ہے اور لامحالہ ہمارے منہ سے کابن ڈائی آکسائیڈ بھی زیادہ خارج ہوتی ہے تو اس وقت مچھروں کے حملہ آور ہونے کے امکانات بھی دو گنا ہو جاتے ہیں اس لئے ورزش کے بعد خاص احتیاط کرنا چا ہئے۔ شراب اور بیئر پینے والے افراد بھی مچھروں کیلئے خاص کشش رکھتے ہیں کیونکہ نشہ کرنے کے بعد انسانوں کے جسم اور جلد کی کیمسٹری بدل جاتی ہے اور یہ بدلی ہوئی حالت ہی مچھروں کو اپنی طرف زیادہ راغب کرتی ہے۔
حاملہ خواتین کو خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایک تو حاملہ خاتین کے جسم اور خاص طور پر پیٹ کا درجہ حرارت نارمل خواتین کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور پھر حمل کی حالت میں خواتین کا سانس بھی عام حالات کی نسبت زیادہ تیزی سے چلتا ہے جو مچھروں کو کشش کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اب سردیوں کی ابتدا ہو چکی ہے اور یہ بند جوتے پہننے کا موسم ہے۔ زیادہ دیر جرابیں اور بند جوتے پہننے سے پاؤں میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے اور پاؤں سے اٹھنے والی بو مچھروں کو انتہائی مرغوب ہوتی ہے اس لئے بند جوتے اور موزے اتارنے کے فوراً بعد انہیں کسی خوشبودار صابن سے دھو کر صاف کر لینا چاہئے تاکہ مچھروں سے محفوظ رہا جا سکے۔ چونکہ مچھر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بو کی جانب راغب ہوتے اس لئے جہاں پر زیادہ لوگوں کا اکٹھ ہو گا تو یقینا وہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بھی زیادہ ہو گی جو مچھروں کے لئے دعوت کا درجہ رکھتی ہے اس لئے شادی بیاہ‘ سالگرہ اور اسی طرح کے دیگر مواقع پر احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھا چاہئیں۔
جہاں پر زیادہ گھاس پھونس اور سبزہ ہو وہاں پر مچھر بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر کا باغیچہ انٹ شنٹ پودوں‘ جھاڑیوں وغیرہ سے اٹا ہوا ہے‘ پودوں اور درختوں کی کانٹ چھانٹ نہیں کی گئی اور جگہ جگہ پانی کھڑا ہے تو سمجھ جائیں کہ آپ کا باغیچہ مچھروں کا مسکن ہے۔ ہاں اگر پودوں، درختوں اور باڑ وغیرہ کی تراش خراش کی جاتی ہے اور پانی بھی کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا اور صفائی کا باقاعدگی سے خیال رکھا جاتا ہے تو پھر یہ باغیچہ مچھروں کے لئے زیادہ کشش انگیز نہیں ہوتا۔
کچھ گھرانے اور خاص طور پر متمول گھرانے مچھروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے گیراج یا عقبی دروازوں کے قریب ایسی برقی آلات نصب کرتے ہیں کہ جن میں سے کاربن ڈائیا ٓکسائیڈ اور ایک خاص قسم کی روشنی خارج ہوتی ہے جو مچھروں کو اپنی طرف راغب کر کے جلا دیتی ہے یا مار دیتی ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان آلات کی وجہ سے مچھر آپ کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتے تو آپ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں کیونکہ ان آلات کی وجہ سے مچھر دگنا‘ تین گنا بلکہ کئی گنا زیادہ تعداد میں راغب ہوتے ہیں۔ بلاشک ان میں سے کئی آلات کی نذر ہو کر مر جاتے ہیں مگر ایک غالب تعداد ان سے بچ کر آپ کے گھروں میں داخل ہو جاتی ہے اور پھر آپ مزید مشکل میں پھنس جاتے ہیں اس لئے ایسے آلات سے پرہیز ہی برتیں کہ جن سے پیسے کا زیاں بھی ہو اور مطلوبہ مقصد بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔