تجاوزات کے باعث شہر قائد کی شاہ راہیں، سڑکیں تنگ، بازار اور گلیاں چلنے اور چھوٹی گاڑیوں تک کے گزرنے کے قابل نہ رہی تھیں۔ فٹ پاتھ پر پتھارے اور بعض جگہ پختہ دکانیں تعمیر کر دی گئیں جس سے ایک طرف شہریوں کو پیدل چلنے میں دشواری کا سامنا تھا اور دوسری جانب یہ غیر قانونی اور ناجائز تعمیرات ٹریفک جام کا سبب بن رہی تھیں۔
شہری تنظیموں اور میڈیا نے بارہا متعلقہ اداروں کو اس طرف متوجہ کیا، مگر کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ یہ تجاوزات جہاں شہریوں کے لیے وبال اور مسئلہ بنی ہوئی تھیں، وہیں کراچی کی تاریخی حیثیت پر بدنما دھبا اور اس اہم تجارتی مرکز کی قابلِ ذکر عمارات اور مقامات کے لیے شدید خطرہ بن چکی تھیں۔
سپریم کورٹ کے حکم پر آج شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے اور اس کا آغاز شہر کے مرکزی اور پُرہجوم علاقے صدر میں واقع ایمپریس مارکیٹ سے ہوا ہے۔ یہ تاریخی عمارت 1899ء میں قائم ہوئی اور شہرِ قائد کا ایک خوب صورت نقش، تاریخی حوالہ اور یادگار ہے جس کے اطراف موجود تجاوزات کو مسمار کر کے گویا اس عمارت کو وا گزار کرا لیا گیا۔
انتظامیہ نے سیکیورٹی اہل کاروں کی موجودگی میں ایمپریس مارکیٹ کے اطراف اور اندر موجود سیکڑوں غیرقانونی دکانوں اور تعمیرات کو ڈھا دیا۔ اگرچہ یہ عمارت متعلقہ اداروں کی غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے نہایت مخدوش ہوچکی ہے، مگر ’گوتھک‘ طرزِ تعمیر کا یہ دل کش نمونہ آج بھی اپنی جگہ موجود ہے اور ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتی ہے۔ برطانوی دور کی اس عمارت کے لیے جگہ کا چناؤ اس دور میں برطانوی افسروں کی سہولت کے پیشِ نظر کیا گیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس عمارت سے سندھ کلب، کراچی جم خانہ، فیریئر ہال، فلیگ اسٹاف ہاؤس اور دیگر اہم سرکاری عمارتیں بہت قریب ہیں اور اکثر عمارتوں کے درمیان فاصلہ چند قدم کا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کا سنگِ بنیاد 1884میں اس وقت کے بمبئی کے گورنر جیمز فرگوسن نے رکھا تھا۔ اس کی تعمیر میں جودھ پوری لال پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ 1857کی جنگ آزادی کے بعد اسی مقام پر بغاوت کرنے کے جُرم میں کئی ہندوستانی سپاہیوں کو توپ سے اڑایا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ چند باغیوں کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس میدان (جہاں اب ایمپریس مارکیٹ واقع ہے) میں گڑھا کھود کر پھینک دی گئی تھیں۔ اس وقت یہ علاقہ فوجیوں کی پریڈ کے لیے مختص تھا، لیکن جب لوگوں نے اس مقام پر برطانوی راج کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی یاد میں اس جگہ اکٹھے ہوکر پھولوںکی پتیاں نچھاور کرنا شروع کیا تو انتظامیہ نے اس جگہ پر شہدا کی یادگارِ بننے کے خوف سے یہاں کوئن وکٹوریہ، ایمپریس آف انڈیا کے نام پر مارکیٹ کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں صرف انگریزوں کو ہی اس عمارت میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔
تاہم بعد میں اس پابندی کو ختم کردیا گیا۔ ایمپریس مارکیٹ کا ڈیزائن برطانوی ماہر تعمیرات جیمز اسٹراچین نے بنایا تھا، جو بنیادی طور پر ریلوے انجینیئر تھے۔ ایمپریس مارکیٹ کی عمارت کے وسط میں ایک بڑا صحن رکھا گیا جس کا رقبہ 100 فٹ ضرب 130 فٹ تھا۔ اس کے چاروں طرف چار گیلریاں تھیں جن میں سے ہر ایک 46 فٹ چوڑی تھی۔ تکمیل کے وقت اس مارکیٹ میں کل 280 دکانوں کی گنجائش تھی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دکانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ تجاوزات کے خاتمے کے بعد کراچی کے اولڈ ایریا میں قائم کئی دوسری عمارتیں بھی اب نمایاں ہو گئی ہیں اور اگر انتظامیہ ملبہ ہٹانے کے بعد ان عمارتوں کی صفائی ستھرائی، اور تزئین و آرائش کی طرف توجہ دے گی تو یقینا وہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ دوبارہ اس شہر کی شناخت بنیں گی۔
قیام پاکستان سے قبل کی ان عمارتوں میں سے کئی ایک سے ڈیڑھ صدی پُرانی ہیں۔ شہر کا مرکز کہلائے جانے والے علاقے ایم اے جناح روڈ سے ٹاور تک کی اہم شاہراہ اور اس سے متصل علاقوں میں زیادہ تر عمارتیں قدیم اور برطانوی دور کی یادگار ہیں اور تعمیر کا شاہکار بھی۔ اس زمانے کی عمارتوں کی وجہ سے ہی یہ علاقہ اولڈ ایریا کہلاتا ہے۔ تقسیم سے قبل کی ان عمارتوں کی خوب صورتی کو دیوہیکل سائن بورڈوں اور غیرقانونی تعمیرات نے ماند کردیا تھا، لیکن آپریشن کے بعد ہر عمارت اپنے قیام اور وجود کی داستان اور بیتے ہوئے برسوں کی کہانی سنا رہی ہے۔
برنس روڈ پر 1942سے قائم ایک عمارت کتنے ہی سانحات، واقعات کی شاہد رہی، لیکن پھر اسے کسی کباب فروش نے اپنے سائن بورڈ تلے دبا دیا۔ برطانوی دور کی یادگار اس عمارت کو زمانے کے سرد و گرم نے نقصان تو پہنچایا لیکن اس کا فن تعمیر آج بھی اپنی کہانی سناتا ہے۔ کراچی کی مشہور فوڈ اسٹریٹ پر واقع سائن بورڈ ہٹنے کے بعد ایک اور قدیم عمارت ظاہر ہوئی۔
اس علاقے میں مبارک منزل کے نام سے موجود ایک عمارت 1950 کی یادگار ہے۔ تاہم اس کا سنِ تعمیر اب دھندلا چکا ہے۔ اس عمارت کا نام بھی طویل عرصے تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ گرچہ یہ عمارت کافی مخدوش ہوچکی ہے لیکن ایک پتھر پر کندہ اس کا نام اب تک اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ صدر کے علاقے میں بھگوان نیوا کے نام سے قائم اس عمارت کو 1941 میں تعمیر کیا گیا تھا، اس عمارت کے صدر دروازے پر موجود نام کئی دہائیوں تک ایک سائن بورڈ کے پیچھے چھپا رہا جو آپریشن کے بعد سامنے آیا۔ بوسیدہ اور خستہ حال یہ عمارتیں آج بھی اپنے طرزِ تعمیر کا منفرد نمونہ اور ہنرمندوں کے کمال و اختراع کا ثبوت ہیں۔
ایک نظر ادھر بھی
کراچی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی سے جہاں ایک طرف شہر اپنی حقیقی خوب صورتی کی طرف واپس لوٹا ہے تو دوسری جانب خصوصاً ایمپریس مارکیٹ، برنس روڈ، ایم اے جناح روڈ اور لائٹ ہاؤس پر کئی دکانوں کو مسمار کیے جانے سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ بعض حلقوں نے اس آپریشن پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ برنس روڈ، صدر اور دیگر کئی علاقوں میں رہائشی عمارتوں میں قائم دکانوں، تجاوازت کو کسی حکمت عملی کے بغیر گرایا اور مسمار کیا جارہا ہے۔
اگر آپریشن کسی موثر حکمت عملی کے تحت کیا جاتا تو شاید ان ہزاروں لوگوں کا روزگار ختم نہ ہوتا۔ اسی طرح کراچی کا اولڈ سٹی ایریا شہریوں کی ضروریات اور کاروباری افراد کے معاش کے حوالے سے بہت اہم خیال کیا جاتا ہے جہاں اب ملبے تلے کئی گھرانوں کا روزگار بھی دب کر دم توڑ گیا ہے۔
The post تجاوزات کے پیچھے چپھی کراچی کی تاریخ appeared first on ایکسپریس اردو.