میر تقی میر فرماتے ہیں کہ
خام رہتا ہے آدمی گھر میں، پختہ کاری کے تئیں سفر ہے شرط
آج میر زندہ ہوتے تو انہیں اپنے شعر پر ضرور نظرِثانی کرنی پڑتی کیوں کہ اب سفر نہ تو جھمیلوں سے عبارت ہے اور نہ ایسا دشوار کہ اس سے خام آدمی پختہ ہوسکے۔ اب چین کو ہی دیکھ لیجیے، جہاں تعمیر ہونے والے دنیا کے سب سے طویل پُل کے بعد اب گھنٹوں کا راستہ سمٹ کر منٹوں کا رہ گیا ہے۔
گویا جدید دور میں سفر کی وہ مدت ہی باقی نہ رہی جو بقول میر پختہ کاری کا ایک بڑا سبب تھی۔ خیر دل کے ایک تنہا گوشے میں تصور کی دنیا آباد کیے ان شاعروں کی تو بات چھوڑیے، بات کرتے ہیں چین کی جو حقیقت میں دنیا کی بڑی طاقتوں کو مات دینے کے لیے بے چین ہے۔ پوری دنیا میں بڑے بڑے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کے ذریعے اگر کوئی نہایت سرعت سے اپنے خوابوں کی تعبیر پارہا ہے تو وہ چین ہے۔ اکتوبر میں یہاں پچپن کلومیٹر طویل پُل افتتاح کے بعد باقاعدہ ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ اس پُل کی تعمیر سے ہانگ کانگ اور زوہائی کا درمیانی راستہ تین گھنٹوں سے سمٹ کر تیس منٹ کا رہ گیا ہے۔
چین نے اس پُل کی تعمیر سے خطے میں اپنی طاقت میں مزید اضافہ کرلیا ہے۔ 1.4بلین آبادی کا حامل چین اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ زوہائی چین کے ان نو بڑے شہروں میں سے ہے جن کی صنعتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ چین کے صوبے گوانگ ڈونگ میں واقع ہے، جس کی آبادی 68ملین ہے اور جی ڈی پی 1.69ٹریلین ڈالر ہے جو چین کے کُل جی ڈی پی کا چودہ فی صد بنتا ہے۔ گوانگ ڈوانگ صوبے سے ہانگ کانگ اور مکاؤ تک اشیاء کی ترسیل اور آمدورفت کے لیے زوہائی ایک گیٹ وے ہے۔
چینی باشندوں کی ایک بڑی تعداد کا بزنس ٹرپ ، عزیز و اقارب سے ملاقات ، شاپنگ اور جوا کھیلنے کے لیے ہانگ کانگ کثرت سے آنا جانا لگا رہتا ہے۔ مکاؤ میں بھی بڑے پیمانے پر کیسینو ہیں جہاں پورے چین سے لوگ جوا کھیلنے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ٹیکسوں کی انتہائی کم شرح اور سرحدی نرم پابندیوں کی وجہ سے چینی باشندے ہامگ کانگ سے غیر ملکی سامان خرید کر چین لے آتے ہیں۔ اس پوری صورت حال میں دیکھا جائے تو زوہائی، مکاؤ اور ہانگ کانگ پُل چینیوں کے لیے ایک بڑا تحفہ ہے۔ اس کا افتتاح چینی صدر ژی جن پنگ نے کیا اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے والے تمام انجنیئزز کو سراہا۔
اس پُل کی سب سے پہلی تجویز 1980میں ہانگ کانگ کے ایک بزنس مینGorden wu Ying Sheung نے دی تھی جو پرل ڈیلٹا پر جدید ٹرانسپورٹ سسٹم کا حامی تھا، لیکن اس تجویز کو ہانگ کانگ میں اس وقت کی برطانوی حکومت نے رد کردیا ۔ ان کو اندیشہ تھا کہ اس طرح ہانگ کانگ کمیونسٹ چین سے قریب ہو جائے گا ، یوں یہ منصوبہ سیاسی خدشات کی نذر ہوگیا۔2003میں اس منصوبے کے لیے دوبارہ آواز چین سے بلند ہوئی اور اپنے مضبوط ارادوں کی تکمیل کرتے ہوئے چین نے2009میں اس پُل کی تعمیر شروع کردی۔ اس کی تعمیر کا ابتدائی تخمینہ9.7بلین امریکی ڈالر لگایا گیا تھا لیکن اختتام تک آتے آتے اس منصوبے پر بیس بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہو چکی تھی۔
گہرے نیلے سمندر کے اوپر پوری شان سے ایستادہ پچپن کلومیٹر طویل اس پُل کی طوالت سنگاپور کے مشرق اور مغرب کے درمیانی فاصلے کے برابر ہے۔ یہ سان فرانسسکو کے گولڈن گیٹ برج کی نسبت بیس گنا زیادہ طویل ہے۔ اس پُل کی تعمیر میں چار لاکھ بیس ہزار ٹن اسٹیل استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اسٹیل کی اتنی بڑی مقدار ہے کہ اس سے ساٹھ ایفل ٹاورز تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ یہ پُل زلزلوں اور طوفانوں کو برداشت کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے اوپری ٹاورز ڈولفن کی شکل کے بنائے گئے ہیں کیوں کہ یہ دریا کا وہ مقام تھا جہاں بڑی تعداد میں سفید ڈولفن موجود تھیں جو اس پُل کی تعمیر کے بعد اپنا علاقہ چھوڑ کر ہجرت اختیار کرگئیں۔ ماحولیاتی سائنس دانوں کے خیال میں سفید ڈولفن کی یہ ہجرت ان کی بقا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
ہانگ کانگ کے باشندوں کو اس پُل پر سے گزرنے کے لیے خصوصی اجازت نامے کی ضرورت ہے جس کو فراہم کرنے کا چینی معیار بہت کڑا ہے۔ وہ معیار یہ ہے کہ اس پُل کو گزرگاہ بنانے والوں کے لیے لازمی ہے کہ یا تو وہ سیاسی قبیلے سے تعلق رکتے ہوں یا چینی صوبے گوانگ ڈونگ میں رفاہِ عامہ کی کسی سرگرمی سے منسلک ہوں۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور پیدل چلنے والوں کو اس پُل پر سے گزرنے کی اجازت نہیں۔ سب سے قابلِ ذکر بات یہ کہ یہاں ہر چند گز کے فاصلے پر لگے کیمرے نہ صرف گاڑیوں کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کرتے ہیں بلکہ حادثات سے تحفظ کے لیے ایسا جدید مانیٹرنگ سسٹم بھی موجود ہے جس میں ڈرائیورز کا بلڈ پریشر مستقل چیک کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ایسی گاڑیوں کی نشان دہی بھی کی جاتی ہے جن کے ڈرائیورز تین بار سے زائد جماہی لے چکے ہوں۔
اس انوکھے اور خوب صورت پُل کی تیاری کے تمام مراحل نہایت صبرآزما اور مشکل ترین تھے۔ چینی میڈیا کے مطابق پُل کی تعمیر کے دوران نو مزدور جاں بحق ہوئے جب کہ کنکریٹ ٹیسٹ کی رپورٹ میں دھاندلی کے جرم میں تین ٹیکنیشینز جیل بھیج دیے گئے۔ ہانگ کانگ میڈیا کا کہنا ہے کہ نو مزدور تو پُل کے اس حصے کی تعمیر میں ہلاک ہوئے جو چین کی طرف تھا جب کہ ہانگ کانگ کی طرف پُل کے حصے کی تعمیر کے دوران اٹھارہ مزدور ہلاک اور چھے سو زخمی ہوئے۔
اس پُل کی تعمیر سے جہاں چینی باشندے بے حد خوش ہیں وہیں ہانگ کانگ میں اس حوالے سے شدید تحفظات اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ نقاد کہتے ہیں یہ پُل چین کے لیے ایک سفید ہاتھی ہے اور ان منصوبوں میں سے ایک ہے جن کے ذریعے چین دنیا پر حکم رانی کرنا چاہتا ہے۔ ہانگ کانگ کے رہائیشیوں کے خیال میں چین اس پُل کے ذریعے ہانگ کانگ کی خودمختاری خطرے میں ڈال چکا ہے اور جلد ہی اسے بہ آسانی کنٹرول کرلے گا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پُل ان کے ادا کیے گئے ٹیکسوں کا بدترین استعمال ہے اور اس کا ہانگ کانگ کے عام باشندوں کو کوئی فائدہ بھی نہیں۔ گویا ہانگ کانگ کے عوام کے لیے یہ ایک سیاسی پُل اور ایک ایسا منصوبہ ہے جس کی لوگوں کو قطعاً ضرورت ہی نہ تھی۔
چین کو ان باتوں کی ہر گز کوئی پروا نہیں بلکہ اس وقت اس کی توجہ دریائے یانگز پر نئے تعمیر ہونے والے ڈبل ڈیکر برج پر ہے۔ یہ بھی دنیا کا سب سے طویل ڈبل ڈیکر پُل ہو گا۔ جس کا ابتدائی تخمینہ آٹھ بلین یان لگایا گیا ہے۔ اس پُل کی چوڑائی دو سو اکیس میٹر ہے۔ جس کے دونوں حصوں میں 49اسٹیل کے بیم استعمال کیے جارہے ہیں جن کا وزن ایک ہزار ٹن ہے۔ یہ بھی بلاشبہہ چین کا ایک شاہ کار کارنامہ ثابت ہوگا اور اگلے سال اکتوبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔
بظاہر تو چین کی برج پالیسی سے اس کے معاشی مفادات وابستہ ہیں لیکن ان پلوں کے نیچے جنم لیتے خدشات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پلوں کی سیاست میں چین دنیا میں تنہا نہیں بلکہ روس بھی آگے آگے ہے۔ رواں سال روس نے کریمیا تک انیس ہزار میٹر طویل پُل کا افتتاح کیا جس پر یوکرین میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اگر یہ پل دوستی اور محبت کا پیام لائیں تو ان سے اچھا منصوبہ اور کیا ہو سکتا ہے ورنہ ہونی کو آج تک بھلا کون روک سکا ہے؟
The post چین کے بڑے خوابوں کے بڑے پُل appeared first on ایکسپریس اردو.