اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف الخلوقات بنایا اسے اعلیٰ دماغ اور گویائی عطا کی اور اسے کتاب اور قلم کے ذریعے علم سکھایا، اس کے بعد زمین پر اسی انسان کو نائب اللہ قرار دیا اور آزمائش یہ رکھی کہ بہت سے معاملات میں خودمختار بنا کر ابلیس کے حوالے سے نفس پر قابو رکھنے اور اللہ تعالیٰ کے حکامات پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیا اور ان تمام امور کو سمجھنے کے لیئے انبیا کرام کو کتابوں اور صحیفوں کے ساتھ بھیجا۔ اللہ نے ان کتابوں اور صحیفوں میں یہ بھی واضح کردیا کہ یہ دنیا فانی ہے اور قیامت کے بعد یوم حساب ہوگا۔
مذہبی اور دینی حوالوں کے علاوہ جب ہم مورخین اور سماجی علوم کے ماہرین کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ انسان کو ایک سماجی جانور قررا دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ رہتا ہے جسے معاشرہ یا سماج کہتے ہیں یعنی انسان تنہا نہیں رہ سکتا۔
بہتر اور شفاف معاشرے کے لیے ہمیشہ سے عدل وانصاف کو لازمی عنصر قرار دیا جا تا ۔ ہماری اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ ظلم کی بنیاد پر تو کوئی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ناانصافی اور بددیا نتی کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک روایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرعون کو کافی وقت ملا اور حضرت موسیٰؑ نے بارہا اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اوراس دوران یہ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ فرعون کو کیوں جلد سزا نہیں دیتا تو روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کہا کہ فرعون اپنے لوگوں سے انصاف کرتا ہے۔
یوں یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی بھی قوم کی مضبوطی اور کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اس قوم اور معاشرے کی اخلاقی روایات اور سماجی اقدار عدل و انصاف اور دیا نتد اری کی بنیاد پر مضبوط مستحکم اور پائیدار ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تم کو آزمائیں گے اولاد اور مال سے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اولاد اور مال فتنہ ہے اور اس کے ساتھ ہی بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تم سے پہلے بہت سی قومیں اسی بنیاد پر تبا ہ ہوگئیں کہ انہوں نے بے ایمانی، بد دیانتی اور دھوکہ دہی کے کام کئے۔ عدل وانصاف،دیانتد اری، ایمانداری اور نیکی کا تصور برصغیر کے اسلامی معاشرے میں سماجی ،اخلاقی ،اقدار اور روایات سے مضبوطی سے جڑا ہوا اور بہت مستحکم رہا جس کو انگریزوں نے آتے ہی توڑنے کی کوشش کی اور اقتدار کے ایوانوں کی سازشوں میں اس لحاظ سے کامیاب بھی رہے بلکہ آنے والے دنوں میں لارڈ مکالے کی تجاویز اور ہدایات کی بنیاد پر متوسط اور تعلیم یافتہ طبقے میں داخل کرنے کی کوشش بھی کی، جب کہ خود ِان کے ہاں یہ کوشش شروع سے رہی کہ اپنے معاشرے ، اداروں اور نظام کو کرپشن کے ناسور سے ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے۔
اس کا سب سے بڑا اور تاریخی ثبوت بنگال کا تاریخی معرکہ تھا۔ واضح رہے کہ انگریزوں نے سب سے پہلے یہاں پر قدم جمائے اور جب ذرا مضبوط ہوئے تو ان کی پہلی بڑی جنگ جو پہلی جنگ پلاسی کے نام سے مشہور ہے، انگریز جنرل اور حاکم لارڈ کلائیو اور نواب سراج الدولہ کی فوجوں کے درمیان ہوئی جس میں پہلے لارڈ کلائیو کو شکست ہوئی تو اس وقت لندن کی اسٹاک ایکسچینج میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصص کی قیمتیں خطرناک حد تک گر گئیں۔
اس کے بعد لارڈ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کے وزیر غدار وطن میرجعفر سے ساز باز کرکے اسے نوابی کا لالچ دیکر رشوت دیکر نواب سراج الدولہ سے غداری کرنے پر راضی کر لیا اور پھر 1757 کوجب پلاسی کی دوسری جنگ لڑی گئی تو نواب سراج الدولہ شہید ہوگئے اور لارڈ کلائیو کو فتح ہوئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصص کی قیمتوں میں نہ صرف لندن کی اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ میں بہت اضافہ ہوا بلکہ انگریزوں کے عروج کا دور یہیں سے شروع ہوا۔ کچھ عرصے بعد برطانیہ کی عدالت نے لارڈ کلائیو کو برطانیہ طلب کرلیا کہ ان پر مقامی نوابوں اور امراء سے رشوت کے طور پر بڑے قیمتی تحائف وصول کرنے کے الزامات عائد ہوئے۔
جب برطانوی ہند کا یہ تاریخی ہیرو برطانیہ پہنچا اور جیوری میں مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی تو اس پر یہ واضح ہوگیا کہ یہ الزمات ثابت ہوجائیں گے اور اس پر بددیانتی اور بے ایمانی پر چند ماہ یا ایک دو سال کی قید ہو جائے گی تو قاعد ے کی رو سے اسے تو یہ فیصلہ کرنا چاہئے تھا کہ یہ تھوڑی سی سزا بھگت لیتا اور باقی زندگی عیش و عشرت سے گزار دیتا، لیکن برطانیہ کی معاشرتی اخلاقی اقدار اس اعتبار سے بہت مضبوط تھیں، لارڈ کلا ئیو اس الزام کے بعد معاشر ے میں بے عزتی کی زندگی نہیں گزار سکتا تھا اس لیے اس نے عدالت کے ممکنہ فیصلے سے قبل ہی اپنے پستول سے خودکشی کرلی۔
یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہند وستان کی مقامی اشرافیہ میں بھی سماجی اور اخلاقی اقدارایسی ہی راسخ ہوتیں جیسی اس وقت برطانیہ میں تھیں تو برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم نہ ہوتی۔ یہ کرپشن اور غداری کا پہلا زخم ہماری تاریخ کے سینے پر نمودار نہ ہوتا کیونکہ اس سے پہلے ہماری تاریخ میں کردار کی پختگی شخصیات کی پہچان سمجھی جاتی تھی۔ اگرچہ اعلیٰ کردار کی مثالوں سے ہندوستان کی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن بہتر ہوگا کہ مثال بلوچستان سے دی جائے۔
بلوچستان میں محمد نصیر خان احمد زئی بلوچ کی شخصیت اس اعتبار سے اہم ہے کہ طویل عرصے بعد انہوں نے بلوچستان کو آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کروایا۔ وہ 1749 میں پیدا ہوئے اور1794 میں وفات پائی۔ محمد نصیر خان نے احمد شاہ ابدالی کی فوج میں بلوچستان سے اپنے لشکر کے ہمراہ شامل ہو کر ہندوستان میں مرہٹوں کے خلاف جنگ کی اور ان کا زور ہمیشہ کے لیے توڑدیا۔
کہتے ہیں کہ کسی لڑائی کے دوران کسی بد خواہ نے نصیر خان کی ماں سے کہا کہ نصیر خان نے جنگ میں پیٹھ دکھائی اس پر نصیرخان کی ماں نے جواب دیا، یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ میں نے اپنے بیٹے کو کبھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا، اور تاریخ نے ثابت کر دیا کہ پاکیزہ مائوں کے بیٹے تاریخ میں نام پیدا کرتے ہیں۔ نصیر خان کے بعد 1794 سے 1817 تک ان کے جانشین محمود خان احمد زئی بلوچ قلات کے خان رہے اور ان کے بعد شہید محراب خان احمد زئی بلوچ 1817 سے قلات کے خان بنے اور 1839 میں شہادت پائی۔
بلوچستان کے معروف محقق ،دانشور اور مورخ پروفیسر عز یر محمد بگٹی نے اپنی کتاب ’’بلوچستان شخصیات کے آئینے میں،، میر محراب خان شہید کے بارے میں ان کی بہادری و شجاعت کے اعتبار سے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ 1839 میں جب انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہاں درہ بولان سے انگریزوں کے لشکر گزرے، یہاں ان پر گوریلا حملے ہوئے۔ جب انگریز فوجیں افغانستان سے فارغ ہوئیں تو اسی دوران انگریز فوج کے گورنر جنرل ہند، لارڈ آک لینڈ نے کہا کہ قلات پر حملہ کیا جائے۔
اس موقع پربریگیڈیئر ولشائر نے حملے سے پہلے میر محراب خان سے رابطہ کرتے ہوئے شرائط اور مراعات پیش کیں کہ اگر وہ بھی انگریزو ں کی اطاعت قبول کر لیں گے تو وہ بدستور نہ صرف قلات کے خان رہیں گے بلکہ ان کے تحفظ کی ذمہ داری بھی انگریز سرکارلے گی۔ اس کا جواب تقریباً وہی تھا جو سلطان فتح علی ٹیپو نے دیا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ میرمحراب خان نے بھی کہا کہ میر ے اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کا حکم یہی ہے کہ غلامی کو قبول نہ کیا جائے۔ پھر وقت نے دیکھا کہ انہوں نے اور ان کے تمام جانبازوں نے جام شہادت نوش کیا۔
اس وقت اگرچہ غداران وطن بھی موجود تھے اور آزادی کے متوالے بھی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عام سطح پر یعنی عام لوگوں میں ایمانداری ، دیانتداری، پاکیزگی، سماجی اور اخلاقی اقدار کی بنیادیں پر بہت ہی مضبوط تھیں۔ انگریزوں نے عام لوگوں اور پورے معاشرے کو کرپٹ کرنے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم بحیثیت قوم تو انگریزوں کے غلام تھے لیکن ذہنی اور جذ باتی طور پر غلام نہیں تھے اس لیے آزاد ہوگئے۔ اس آزادی کے لیے علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسے رہنمائوں کی قیادت ہمیں میسر تھی۔ اعلیٰ کردار کے لحاظ سے علامہ اقبال کے بہت سے مشہور اشعار ہیں مگر ایک شعر ایسا ہے جس میں اعلیٰ کردارکے اعتبار سے غالباً دنیا بھر میں اس سے اچھی تعریف ناممکن ہے علا مہ اقبال کا کہنا ہے کہ
قبائے پاک طینت سے ہے گوہر کا وضو
صدف میں آب گہر کے سوا کچھ اورنہیں
وہ کہتے ہیں کہ گہر یعنی موتی اس طرح بنتا ہے کہ جب بارش پڑتی ہے تو سمندر کی تہہ سے لاکھوں کروڑوں سیپیاں ’’صدف ‘‘ سطحِ سمندر پر آجاتے ہیں اور جب میٹھے پانی کی بارش کا کوئی قطرہ کسی صدف میں گرتا ہے تو وہ بارش کے پانی کے اس قطرے کومضبوطی سے بند کرلیتی ہے اور پھر نمکین پانی کے سمندر کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے اور ایک طویل عرصے تک یہاں سمندر کی تہہ میں رہنے کے بعد یہی میٹھے پانی کا قطرہ موتی بن جاتا ہے۔
انسانی کردار کے لیے بھی علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اعلیٰ کردارکی صورت بھی ایسی ہی ہے کہ انسان کا کردار اس دنیا کے برے ماحول کے اندر رہتے ہوئے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے اور پھر ایک ریاضت کے بعد اس کا کردار موتی بن جا تا ہے۔ اسی طرح قائد اعظم نے اپنی پوری زندگی کو اعلیٰ کردار کا نمونہ بنایا۔ قدرت اللہ شہاب اپنی مشہور کتاب ’’شہاب نامہ ،، میں لکھتے ہیں کہ 1937 میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں کانگریس کو کامیابی ہوئی تو انہوں نے مسلم مخالف پالیسی اپنائی خصوصاً یو پی اور سی پی ایسے صوبے تھے جہاںہندو اکثریت 85% اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب15% تھا مگر یہاں کے مسلمان برصغیر کے اعلیٰ تہذ یبی و ثقافتی ورثے کی علامت سمجھے جاتے تھے۔
یوں اس وقت بھی ان صوبوں کی اعلیٰ اور متوسط سطح کی ملازمتو ں میں ان کا تنا سب تقریبا 50% تھا کانگریس نے ان وزار توں کے قیام کے ساتھ ہی سرکاری سطح پر یہ خفیہ کاروائی شروع کی کہ مسلمانوں کو کسی طرح ان اہم سرکاری ملازمتوں سے الگ کیا جائے اوران کی جگہ ہندوں کوتعینات کیا جائے۔
قدرت اللہ شہاب جو اس وقت انڈین سول سروس کا مقابلے کا امتحان دے کر نوجوان سول افسر کی حیثیت سے تعینا ت تھے انہوں نے کانگریس کا وہ پالیسی لیٹر دیکھ لیا اور کسی طرح وہ اس خط کو باہر لے آئے اور پھر قائد اعظم سے وقت لے کربہت فخریہ انداز سے کہا کہ میں آپ کے لیے کانگریس کی مسلمانوں کے خلاف سازش کا منصوبہ لایا ہوں اور وہ خط ان کے سامنے رکھا۔ قائد اعظم نے وہ خط دیکھا اور خاموشی سے اسے قدرت اللہ شہاب کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو شہاب تم نے ملازمت شروع کرتے ہوئے یہ عہد کیا تھا کہ تم حکومت کا کوئی راز عیاں نہیں کرو گے اس لیے آئندہ اپنی جانب سے ایمانداری اور دیانتداری کا خیال رکھو جب بھی کوئی بے ایمانی کرتا ہے اور دیانتداری نہیں کرتا تو آخر اس کا انجام برا ہوتا ہے۔
پھر یہی ہوا کانگریس نے جو 1937 کے انتخابات میں مسلم نشستوں پر بھی بھرپور اندازمیں کامیاب ہوئی تھی اپنی اسی بے ایمانی کی وجہ سے 1945-46 کے موسم سرما میں مرکزی اسمبلی کی ایک مسلم نشست بھی حاصل نہ کر سکی اور صوبوں کی سطح پر بھی مشکل سے دس فیصد سے بھی کم نشستیں لے سکی۔ انہی انتخابات کے نتائج کی بنیادوں پر پاکستان کا قیام عمل میں آسکا۔ اس اسلامی ریاست کے ناکام ہونے کی پیش گوئیاں کردی گئیں اور ساتھ ہی کا نگریس اور برطانوی مشترکہ سازشیں سامنے آگئیں۔
پہلے برصغیر کی تقسیم میں ناانصافی کی گئی پھر اثاثوں اور فوجی سازوسامان کی تقسیم کے علاوہ ہندوستان کے مرکزی بنک جس میں کل سرمایہ چار ارب روپے تھا اس کو بھی بھارتی حکومت نے دینے سے انکار کردیا اور جب مہاتما گاندھی نے نہرو سرکار پر زور دیا کہ پاکستان کا حصہ جو اصول کے مطابق ایک ارب روپے بنتا تھا اسے دے دیا جائے، یوں آخر بہت تاخیر سے ان چار ارب روپے میں سے صرف 20 کروڑ روپے دئیے اور قرضوں کا بوجھ بھی پاکستان پر ڈال دیا۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان دشمنوں کی پیش گوئیوں کے مطابق ناکام نہیں ہوا بلکہ بہت ہی کامیاب ہوا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی بجٹ مالی سال 1948-49 جس کا مجموعی حجم 89 کروڑ 57 لاکھ تھا جس کا خسارہ 10 لاکھ تھا یہ بجٹ خود وزیراعظم نے پیش کیا تھا۔ اس کے بعد دوسرا قومی بجٹ مالی سالی 1949-50 بھی لیاقت علی خان نے پیش کیا جس کا حجم ایک ارب11 کروڑ اٹھائس لاکھ ر وپے تھا اور یہ بجٹ خسارے کا نہیں تھا بلکہ اس میں چھ لاکھ روپے کی بچت تھی، تیسرا بجٹ بھی لیاقت علی کا تھا جس کا حجم ایک ارب 59 کروڑ 85 لاکھ روپے تھا اور خسارے کی بجائے بچت 10 لاکھ روپے تھی۔ مالی سال 1951-52 کے بجٹ کا حجم ایک ارب 58 کروڑ 42 لاکھ تھا اور بچت20 کروڑ 74 لاکھ روپے تھی۔
یہ لیاقت علی خان کی حکومت کا آخر ی قومی بجٹ تھا اس وقت سونے کی قیمت سو روپے تولہ سے کم اور ڈالر دو روپے کا تھا۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی سطح پر قومی کردار بہت مضبوط تھا اور یہ حقیقت ہے کہ اب اگرچہ عوامی سطح پر کردار کی مضبوطی میں بھی قدرے کمی آئی ہے لیکن اس وقت حلال، حرام کا فرق جذبہ حب الوطنی،خوف خدا اور نبی کریمﷺکی محبت سے بہت زیادہ مضبوطی سے مربوط تھا۔ میں نے اپنے بچپن میں عوامی سطح پر کردار کی پختگی کو دیکھا، میرے والد مرحوم ریلو ے گارڈ تھے، ہم کوئٹہ میں جوائنٹ روڈگارڈ کالونی میں رہتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ سفر اور ٹرانسپورٹیشن کے لیے 90% انحصار ریلوے پر کیا جاتا تھا، اس وقت ریلوے میں کرپشن کے بیج بوئے جانے لگے تھے لیکن ابتدائی مراحل میں ماحول عمومی طور پر کرپشن کے لیے سازگار نہیں تھا۔ گارڈ کالونی ہی میں ریلوے کے دوگڈز کلرک قریبی بنگلہ نما مکانوں رہتے تھے۔ اُس وقت اکثر گھرانے کثیر الاولادہوا کرتے تھے ان دونوں میں سے ایک کلرک بہت دیانتدار اور ایماندار تھا اور دوسرا کرپٹ تھا، جو کرپٹ تھا اس کے بھی آٹھ بچے تھے اوران کی ایک بوڑھی بہن تھی جسے ہم سب بچے بلکہ ہم سے بڑے بھی پھوپھی کہتے تھے یعنی وہ جگ پھوپھی تھیں، وہ محلے بھر کے تقریباً پچیس بچے بچیوں کو قرآن پڑھاتی تھیں اور فی بچہ تین روپے ماہانہ معاوضہ لیتی تھیں، بنگلہ نما مکان میں برآمدے کے کونے میں اُن کا ایک الگ کمرہ تھا ۔
وہ رہتی تو اپنے بھائی کے ساتھ تھیں مگر کھانا پینا اور یہاں تک کہ لباس بھی وہ خود اپنی کمائی کا پہنتی تھیں، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کا گڈز کلرک بھائی رشوت لیتا تھا اور وہ حرام کی اس کمائی کو کھانا تو درکنار چکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھیں، بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب اس کرپٹ گڈز کلرک کے گھر سے کوئی پکوان آتا تو گھر والے لے تو لیتے مگر اس پلائو،زردے وغیرہ کو پھینک دیتے یا کسی بھکاری کو دے دیتے۔ ان دنوں ایک حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ ایک مشہور صابن بنانے کی کمپنی نے مشہوری کے لیے کسی صابن میں کار کی چابی رکھی اور ان کی انعام میں کار نکلی، پھر جب دس روپے کے پرائز بانڈ حکومت نے جاری کئے تو ان کا بانڈ بھی نکلا تھا جو چند ہزار کا تھا۔ اس وقت ریلوے کالونی کے تمام لوگوں کو بہت حیرت ہوئی مگر اب مجھے اس شخص کی عیاری اور مکاری کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے گھرانے کا انداز شاہانہ تھا جب کہ دوسرے نیک سیرت گڈز کلرک کا خاندان روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتا تھا۔
یہ نیک سیرت کلرک کسی قسم کا لین دین کئے بغیر ایمانداری سے جس کا حق ہوتا اسے سامان کیلئے ویگن دیتا یا اس کا سامان بک کرتا، اس لیے اس نیک کلرک سے بڑے بڑے سیٹھ اور کاروباری حضرات جھگڑتے، اسے دھمکیاں دیتے لیکن یہ باکردار شخص کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا اور شائد یہی دبائو تھا کہ وہ گھر میں اور محلے میں بھی عموماً ہر کسی سے غصے سے بات کرتا تھا۔ پھر ایک دن ایک ایسی خبر آئی کہ پورا محلہ ہی سکتے میں آگیا اور وہ اس طرح کہ ریلوے افسر نے اس کے دفتر میں چھاپہ مارا اور گواہوں کے سامنے اس کے میز کی دراز سے 75 روپے اصل رقم سے زیادہ نکلے اور اس پر اس کے سامنے دو صورتیں رکھیں کہ یاتو فوراً استعفیٰ دے دیں ورنہ کیس پولیس کے حوالے کردیا جائے گا۔
اس زمانے میں عزت دار آدمی موت کو پولیس کیس پر ترجیح دیتا تھا، بدنامی اور سزا کے ڈر سے اس نے استعفیٰ دے دیا۔ پورا محلہ جانتا تھا کہ ایمانداری کا انجام بہت ہی غلط ہوا ہے ۔ محلے داروں نے حوصلہ دیا کہ رزق کا وعدہ اللہ پاک نے کیا ہے۔ اس گارڈ کالونی میںآج بھی اِن بنگلہ نما مکانات کے ساتھ ایک کمرے کا سرونٹ کوارٹر بھی ملتا ہے کسی نے انہیں اپنا سرونٹ کوارٹر پیش کیا، کسی نے کہا کہ محلے میںپرچون کی دکان کھول لیں اسی روز شہر کا سب سے بڑا ہندو سیٹھ اس سے ملنے آیا تو وہ نہایت گندی گالیاں دیتے ہوئے اس سیٹھ کی جانب بڑھا، لوگوں نے اسے پکڑا، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اب تم لوگوں کے دل ٹھنڈے ہوگئے۔
بہت چیخنے کے بعد تھک گئے تو وہ ہندو سیٹھ بولا، ہم کو معلوم ہے کہ کن لوگوں نے تمارے خلاف سازش کی ہے ان کو تو بھگوان دیکھے گا مگر میں تم کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ریلوے تم کو ڈھائی سو روپے تنخواہ دیتا تھا ہم تم کو سات سو روپے مہینہ تنخواہ دے گا اور شہر کے درمیان مکان بھی دے گا ہم کو ایماندار آدمی کی ضرورت ہے۔ تین چار سال بعد جب ہم غالبا آٹھویںجماعت میں پڑھ رہے تھے تو ایک ریلوے ایس ٹی عبدالوحید سکھر ریلوے ڈویژن سے تبادلے پر کوئٹہ آئے ان کو تمام لوگ آلو گوشت پکار پکار کرچھیڑتے تھے۔
اس زمانے تک ریلوے میں کرپشن اس حد تک عام ہونے لگی تھی کی ایس ٹی بلا ٹکٹ سفر کرنے والوں پکڑتے تو اکثر رشوت لیکر چھوڑ دیتے تھے لیکن یہ وحید ایس ٹی اتنے ایماندار تھے کہ ایک بار انہوں اپنی والدہ اور بھائی کو بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے پکڑا اور اپنی جیب سے جرمانہ بھرا۔ اگرچہ کرپشن عوامی سطح پر آہستہ آہستہ یوں بڑھی کہ 90% عوام تو کرپٹ نہیں ہیں مگرتلخ حقیقت یہ ہے اب عمومی طور پرکرپشن کو معاشرتی سطح پر برا نہیں سمجھا جاتا۔
غالبا 1996 کی بات ہے کہ میں کوئٹہ کے ایک معروف روزنامے میں اہم حیثیت میں کام کر رہا تھا اس اخبار نے عوامی سطح پر سماجی خدمات کے لیے ایک سروس شروع کر رکھی تھی کہ اگر کسی کا کوئی گم شدہ سامان کوئی چیز کسی کو ملے تو وہ اس اخبار کے دفتر میں جمع کروا دیتا اور اخبار اس سے متعلق مفت اشتہار دیتا اور جس شخص کی گمشدہ چیز ہوتی وہ نشانی بتا کر لے جاتا، ایک روز ایک غریب بلوچ نوجوان ایک موٹا پھولا سا بیگ لایا جس میں ایک چھوٹا سا تا لا لگا ہوا تھا، میں نے بیگ کو دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے اندازہ کر لیا کہ اس میں کرنسی نوٹ بھرے ہوئے ہیں۔
میرے ساتھ اخبار کے مینجر کرم حسین جامی تھے، انہوں نے پوچھا کہ آپ کہاں اور کیا کام کرتے ہیں تو اس نے بتا یا کہ وہ سنڈ ے من سول ہسپتال میںکام کرتا ہے، میں نے کہا کہ اس میں کرنسی نوٹ معلوم ہوتے تو وہ بولا لیکن یہ میرے نہیں ہیں، میں لاجواب ہوگیا، دوسرے دن اس گمشدہ بیگ کا اشتہار پڑھ کراُس وقت معروف پارلیمینٹرین ہزار خان بجرانی مرحوم کے بھائی تشریف لائے، بیگ کی نشانیاں بھی بتائیں اور یہ بھی کہا کہ نہ صرف اس بیگ میں لگے تالے کی چابی ان کے پاس ہے بلکہ اِ ن کا شناختی کارڈ بھی اس بیگ میں ہے، جب بیگ کھولا گیا تو اس میں کو یتی ریال، ڈالر اور پاکستانی کرنسی تھی جو اس وقت تین چار لاکھ روپے سے کسی طرح کم نہیں تھی۔
عرصہ گزر گیا ایک دن باتوں باتوں میں میں نے اس واقعہ کا ذکر اپنے تعمیر نو کالج کے پرنسپل فضل حق میر مرحوم سے کیا تو انہوں نے ایک اور واقعہ برصغیر کی تاریخ کے حوالے سے سنایا کہ انگریزوں کے دور میں وائس رائے کی بیگم پہلی بار جب دہلی آئیں تو دہلی کی جامع مسجد دیکھنے گئیں تو ان کے اردگرد اعلیٰ حکام کی ایک فوج تھی اور اس بھیڑ میں وہ اپنا بیگ مسجد کے طاق میں رکھ کر بھول گئیں اور پھر ہجوم میں مسجد سے نکل گئیں۔ جب یہ شاہانہ جلوس تقریبا ایک میل دور گیا ہوگا تو انہیں یاد آیا۔ ادھر جب ملکہ مسجد سے نکلی تھیں تو مسجد کی صفائی کے لئے بہشتی آیا۔اس نے ملکہ کا بیگ دیکھ لیا اور فوراً ہیرے جواہرات سے بھرا بیگ اٹھایا اور اس جلوس کے پیچھے بھاگا۔ بہشتی نے ہجوم کے پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بیگ ملکہ کو دکھایا۔
انہوں نے اسے بلوایا، بیگ لیا، تمام زیورات دیکھے اورحیرت سے پوچھا کہ تم نے یہ قیمتی زیورات کیوں واپس کردیے، اس پر اس بہشتی نے جواب دیا کہ میں قیامت کے دن تمارے نبی ؑ کے سامنے اپنے نبیﷺ کو افسردہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ سبحان اللہ یہ تھا کردار، یہ تھی حق و صداقت کی وہ معرفت جو عشق نبیﷺ سے ہم آہنگ تھی اور کسی نہ کسی انداز سے ہماری معاشرتی،اخلاقی اقدارکی پہچان تھی ۔آج جب میں ساٹھ برس کی عمر کو پہنچ گیا ہوں تو یہ تو ہے کہ ایماندار اب بھی معاشرے میں موجود ہیں مگر اب ان کا تنا سب بہت کم ہو رہا ہے اور ایمانداری،دیانتداری کے اعتبار سے سماجی بنت میں یہ تار بہت کم اور کمزور ہوتے جا رہے ہیں لیکن جن ایماندار لوگو ںکو میں جانتا ہوں وہ غالباً یہ نہیں چاہیں گے کہ میں ان کی ایمانداری بیان کروں مگر میں ان کی دوستی کی سعادت کی بنیاد پر یہ حق رکھتا ہوں۔
ان دوستوں میں ایک پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز ’’ تمغہ امتیاز‘‘ جواب ریٹائرمنٹ کی زندگی لاہور میں گزار رہے ہیں، یہ گورنمٹ سائنس کالج اور بیلہ ڈگری کالج میں ساتھ کام کرتے رہے سائنس کالج کا زمانہ سیاسی بحرانی دور تھا، اکثر طلبہ کلاسو ں کا با ئیکاٹ کرتے لیکن ڈاکٹر نواز پیریڈ لگتے ہی کلاس میں جاتے اور پورا پیریڈ کلاس میں بیٹھتے چاہے کوئی طالب علم آتا یا نہیں، یہ بھی مشہور تھا کہ وہ جو ٹیوشن پڑھاتے تھے اس کی رقم پر بھی انکم ٹیکس جمع کرواتے تھے، ایک ایماندار شخصیت سابق صوبائی سیکرٹری خزانہ محفوظ علی خان ہیں جواب ریٹائر ہوچکے ہیں ۔
وہ جب جہاں جس پوزیشن پر رہے ان کی ایمانداری سے عوام خوش اور کرپٹ افراد بہت ناراض رہے جب وہ صوبائی سیکرٹری خزانہ تھے تو انہوں نے صوبائی حکومت کے ملازمین کو خصوصاً پینشنروں کو ان کی پینشوں میں بہت فائدہ پہنچایا انہوں نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بنک سے صوبے کے اربوں روپے دلوائے، ایک اور نیک اور ایماندار شخصیت ماسٹرمحمد حسن تھے یہ پہلے سنڈیمن ہائی اسکول میں ہمارے ٹیچر تھے بعد میں جب وہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈ ری ایجوکیشن کوئٹہ میں سیکرٹری تعینات ہوئے،اب پروفیسر فضل حق میر مرحوم ستارہ امتیاز کا ذکر ہے کہ ان کی تعلیمی خدمات کا اعتراف دوست دشمن سبھی کرتے ہیںان کی ایماندری کی برکتوں کا ایک یہ ثبوت ہے کہ انہوں نے تعمیرنو ٹرسٹ جیسے تعلیمی ادارے کی جو عمارتیں تعمیر کروائیں وہ سرکاری عمارتوں کے مقابلے میں دس گنا کم لاگت پر تعمیر ہوئیں اور مضبوطی کے لحاظ سے کئی گنا مضبوط ہیں۔
یہ حوالے اس لیے دیئے کہ عمارت جہاں یاد گار ہوتی ہیں اور وہاں ہمارے ہاں ماضی کے کارناموں کا منہ بولتا ثبوت بھی ہوتی ہیں، میرے والد مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص آپ کی پُر تکلف دعوت کرتا ہے زبردست قسم کے پکوان سامنے رکھتا ہے اور ساتھ ہی یہ کہہ دیتا کہ کھانا تو لاجواب ہے مگر اس میں تھوڑا سا زہر غلطی سے گر گیا ہے تو کیا آپ ایسا کھا نا کھا لیں گے؟ یوں جس طرح زہر ملا کھانا کھانے سے انسان مر جاتا ہے اسی طرح حرام کھانے سے روح مر جاتی ہے۔
ایمان ، توحید دلوں سے کوچ کر جا تا ہے، حلال وحرام کے اعتبار سے ہمارا دین ہماری رہنمائی کرتا ہے وہ شراب اور بعض جانوروں کے گوشت اور یہاں تک کہ اللہ اکبر کہے بغیر ذبحہ کئے ہوئے گوشت کا کھانا بھی حرام قرار دیتا ہے مگر اس طرح کے حرام سے فرد یا چند افراد متاثر ہوتے ہیں لیکن کسی منصب پر فائز کوئی شخص اگر کرپشن کرتا ہے تو اس سے پورا معاشرہ اور بعض اوقات پورا ملک بھی متا ثر ہو سکتا ہے۔ اس وقت قومی اور صوبوں کی سطح پر کرپشن خطرے کے سرخ نشان سے آگے بڑھ رہی ہے جس کا واضح ثبوت ہمارے داخلی و خارجی قرضے ہیں جو ماضی قریب کے مقابلے میں دگنے تگنے ہو رہے ہیں۔
سماجی اور اقتصادی تحقیق کے کئی ادارے یہ بتا چکے ہیں کہ ہمارے ہاں یومیہ کرپشن بھی اب اربوں روپوں میں پہنچ چکی ہے۔ جب ہم سب یہ جانتے ہیں کہ موجودہ دور عالمی و قومی اعتبار سے اقتصادی و معاشی مسابقت کا ہے یہاں اب سرمایہ کی حیثیت قومی معاشیات کی رگوں میںخون کی طرح ہے اور اگر یہ خون کرپشن کی وجہ سے تیزی سے ضائع ہوتا ہے تو ہم اور ہمارا ملک ہر طرح سے کمزور ہو جائے گا، اگر چہ اس وقت نیب سمیت کچھ ادارے ملک میں کرپشن کے خلاف کا م کر رہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب تک ماضی کی طرح ہمارے معاشرے میں رشوت اور کرپشن کو برا نہیں سمجھا جائے گا اس وقت تک کوئی ایک ادارہ کوئی حکومت اس کا خاتمہ نہیں کر سکے گی۔
آج ایک تلخ حقیقت سہی مگر حقیقت ہے کہ اب ہم سب کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اگر آئندہ چند برسوں میں کرپشن کے رجحان کو نہیں روکا گیا تو بقول شاعر ’’ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں،، ہم معاشر ے میں کرپشن کی دیمک کی مثال ماحولیاتی آلود گی،کلائمیٹ چینچ اور گلوبل وارمنگ کے فطری قوانین سے بھی دے سکتے ہیں۔
انسانی معاشرے میں چیک اینڈ بیلنس کی بنیاد پر مالیاتی نظام کو متوازن اور مستحکم رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی سے دوسرے مسائل اور جرائم معاشرے میں جنم لیتے ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے سب سے موثر اعلیٰ اخلاقی اور سماجی قوانین کا استحکام بہت ضروری ہے ہمار ے ہاں اب تک خوش قستمی سے بہت سے علاقوں میں اعلیٰ روایات اور اخلاقی اقدار بہت مضبوط ہیں، مثلًا بلوچستان کے تین ڈسٹرکٹ ایسے ہیں جہاں چوری اور بددیانتی کو معاشرے میں باعث شرم سمجھا جاتا ہے ان اضلاع میں چاغی، زیارت اور گوادر شامل ہیں، یہاں کوئی بھی چوری نہیں کرتا، یوں اور ویسے بھی ہمارے بیس کروڑ عوام میں سے 90% اس پوزیشن ہی میں نہیں ہیں کہ وہ کرپشن کریں اس لیے ہمارے معاشرے کی ساخت اب بھی اتنی بہتر ہے کہ ہم اس میں اپنی ماضی قریب کی ایمانداری اور دیانتداری کی اقدار کو دوبارہ فروغ دے سکتے ہیں۔
The post ’کرپشن‘ ملک کی معاشی زبوں حالی کی اصل وجہ appeared first on ایکسپریس اردو.