’’سورہا تھا کہ خواب میں دیکھا، زندگی بڑی خوبصورت ہے۔بیدار ہوا تو پایا ،زندگی ذمے داری(ڈیوٹی) ہے۔‘‘
(چینی فلسفی،کنفیوشس)
٭٭
مشرقی چین کے صوبے انہوئی میں شیاؤ گانگ (Xiaogang) نامی گاؤں واقع ہے۔ وہاں چاروں طرف سرسبز ،لہلہاتے گھیت دکھائی دیتے ہیں جن کے درمیان مرغی و بطخ خانے بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہ گاؤں چین کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے۔آج سے ٹھیک چالیس سال قبل اسی گاؤں کے دیہاتیوں نے ایسے انقلابی منصوبے پر عمل کرنا شروع کیا جو چین میں غربت کے خاتمے کی قومی تحریک جنم دینے کا سبب بن گیا۔ اس منصوبے کی داستان دلچسپ، حیرت انگیز اور خاص طور پہ پاکستانی حکمرانوںکے لیے سبق آموز ہے جو چینی ماڈل کا مطالعہ کر کے وطن عزیز سے بھی غربت کا عفریت ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
شیاؤ گانگ میں اٹھارہ گھرانے آباد تھے۔ ان گھرانوں کے سربراہ کھیتوں میں کام کرتے۔ یہ کھیت چینی حکومت کی ملکیت تھے۔ جب بھی فصل تیار ہوتی، چینی حکومت کے کارندے اسے لینے پہنچ جاتے۔ وہی کارندے ہر گھر میں افراد خانہ کی تعداد کے لحاظ سے ہر دوسرے تیسرے ماہ خوراک بھی تقسیم کرتے۔ اجتماعی کاشت کاری کے اس معاشی نظام میں خرابی یہ تھی کہ اگر کوئی کسان کام چور اور مکار ہوتا، تو اسے بھی اتنی ہی خوراک ملتی جو محنتی اور دیانت داری سے کام کرنے والے کاشتکار کو ملتی۔ یہی وجہ ہے، سبھی کسان طوعاً کراہاً ہی سرکاری کھیتوں میں کام کرتے، ان میں زیادہ سے زیادہ اناج اگانے اور ترقی کرنے کا کوئی جوش و جذبہ جنم نہ لیتا۔
نئے منصوبے کی تلاش
بدقسمتی سے 1958ء کے بعد صوبہ انہوئی قحط کا نشانہ بن گیا۔ اس قدرتی آفت نے کھیتی باڑی کرنا بہت مشکل بنا دیا۔ اب فصل بہت کم مقدار میں تیار ہوتی۔ نتیجتاً حکومتی کارندے بھی انہیں کم خوراک دینے لگے۔ یہ خوراک بس اتنی ہوتی کہ جسم اور جاں کا رشتہ برقرار رہ سکے۔شیاؤ گانگ میں کاشت کاروں کا سربراہ یان جنگ چانگ(Yen Jingchang) نامی کسان تھا۔ وہ گاؤں پر مسلط غربت سے بہت تنگ آگیا۔ عموماً مہینے کے آخری ہفتے ہر گھر میں سرکار کی دی گئی خوراک ختم ہوجاتی۔ تب وہ جڑی بوٹیاں، پودے، حتیٰ کے مینڈک اور چھپکلیاں ابال کر کھاتے اور پیٹ بھرتے۔ یان جنگ سوچنے لگا کہ اس غربت سے کیونکر چھٹکارا پایا جائے؟ وہ ایسی تدبیر کی تلاش میں تھا جو انہیں کم از کم بھوک سے تو نجات دلا دے۔سوچ بچار کے بعد آخر یان جنگ چانگ ایک منصوبہ تیار کرنے میں کامیاب رہا۔ منصوبہ یہ تھا کہ سرکاری کھیتوں کی زمین کا رقبہ اٹھارہ کسانوں میں برابر تقسیم کردیا جائے۔ وہ کسان پھر اپنے اپنے کھیت میں محنت کریں اور اپنی فصل اگائیں۔ جب فصل تیار ہو، تو وہ حکومت کو مقرر کردہ حصہ دے دیں۔ اگر فصل بچ گئی، تو وہ اس کے مالک تصّور کیے جائیں گے۔ گویا یان جنگ چانگ نے ایک نیا معاشی پروگرام تخلیق کرلیا۔
چین پر کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ اسی کے احکامات پر پورے ملک میں کسان سرکاری کھیتوں میں کام کرتے۔ وہ کہیں بھی ایک انچ زمین کے مالک نہ تھے۔ کھیتوں کی ساری پیداوار حکومت لے لیتی، کسانوں کو مقرر کردہ غذا فراہم کی جاتی۔ گزر بسر میں مدد دینے والا یہ اجتماعی کاشکاری کا نظام خوبیاں رکھتا تھا اور خامیاں بھی! بڑی خامی یہی تھی کہ اگر کوئی کسان ناکام و نکمّا ہوتا اور بہت کم کام کاج کرتا تب بھی وہ اپنا حصّہِ خوراک پانے میں کامیاب رہتا۔ یوں بغیر محنت کیے اسے کرنی کا پھل مل جاتا۔
شیاؤ گانگ کے اٹھارہ کسان تو پھر بھوک و ناتوانی کا بھی شکار تھے۔ ان میں کھیتی باڑی کرنے کی ہمت پیدا کرنے کے لیے ایسے تحرک کی ضرورت تھی جو انھیں خوب فائدہ پہنچاسکے۔ یان جنگ کا منصوبہ اسی قسم کا تحرک رکھتا تھا۔اگر وہ خوب محنت کرتے ،زیادہ فصل اگاتے تو زائد پیداوار کے مالک بن سکتے تھے۔ لہٰذا اواخر 1977ء میں اس نے اپنا منصوبہ سترہ کسانوں کے سامنے رکھ دیا۔شروع میں انہوں نے اپنے لیڈر کو دیوانہ قرار دیا کیونکہ منصوبہ کمیونسٹ پارٹی کے نظریہ اجتماعی کاشت کاری کی نفی کرتا تھا۔ کسانوں کو یقین تھا کہ اگر مقامی رہنماؤںکو اسی کی بھنک بھی پڑی، تو انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ بعید نہیں تھا کہ منصوبے کے خالق (یان جنگ چانک) کو پھانسی دے دی جاتی۔
محنت رنگ لائی
یان جنگ کا مگر اصرار تھا کہ اگر اہل گاؤں بھوک اور غربت سے نجات چاہتے ہیں تو یہ منصوبہ اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ کارنہیں۔ آخر سترہ کسان غور و فکر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انہیں احساس ہوا کہ اگر وہ محنت کرکے اپنی زمین پر زیادہ فصل اگالیں تو ان کو زیادہ خوراک میسّر آئے گی۔ اس طرح نہ صرف بھوک کا خاتمہ ہوگا بلکہ فصل بیچ کر وہ زائد رقم بھی کماسکتے تھے۔منصوبے کے فوائد دیکھ کر سترہ کسانوں نے اسے اپنالینے کی ہامی بھرلی۔ گاؤں کے سب سے بڑے مکان میں سبھی چینی کاشت کار جمع ہوئے۔ وہاں یان جنگ چنگ نے منصوبے سے متعلق معاہدہ لکھا جس پر سبھی نے دستخط کیے۔ ایک شق یہ تھی کہ اگر حکومت کو معاہدے کا علم ہوا اور کسی کسان کو گرفتار کرلیا گیا، تو سبھی گاؤں والے اس کے اہل خانہ کی خبر گیری کریں گے۔
اس طرح گاؤں میں واقع سرکاری کھیتوں کی زمین اٹھارہ کسانوں کے مابین تقسیم ہوگئی۔ اب چشم فلک نے عجیب منظر دیکھا۔ بعض کسان چھ سات بجے کام پر آتے تھے، اب وہ چار بجے ہی اپنے کھیت میں پہنچ کر بڑی تندہی و لگن سے کام کرنے لگتے۔ اب زیادہ فصل اگانا ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔یہ منصوبہ واقعی انقلاب انگیز ثابت ہوا۔ پچھلے پانچ برس سے گاؤں میں سالانہ پندرہ ہزار کلو اجناس پیدا ہورہی تھیں۔ اس سال کاشت کاروں نے نوے ہزار کلو اجناس پیدا کر ڈالیں۔ سبھی کسانوں نے مقررہ وزن کی اجناس حکومت کو دیں اور باقی فصل اپنے پاس رکھ لی۔ یوں یان جنگ چانگ کے منصوبے نے نہ صرف انہیں بھوک سے نجات دلائی بلکہ وافر اجناس کا مالک بھی بنادیا۔
یہ تو مثبت تبدیلی ہے
تاہم 1978ء کے موسم بہار میں اردگرد کے دیہات والے جان گئے کہ شیاؤ گانگ والوں نے اس بار اپنے اپنے کھیت میں فصل اگائی ہے۔ اس طریق کار کو کئی لوگوں نے ’’سوشلزم کا قتل‘‘ قرار دیا۔بعض دیہاتی ان سے حسد بھی کرنے لگے کیونکہ اہل گاؤں کے پاس اب وافر اجناس موجود تھیں۔ حاسدوں نے کمیونسٹ پارٹی کے علاقائی ناظم، وانگ یزہاؤ کو ساری داستان سنائی اور اسے شیاؤ گانگ والوں کے خلاف خوب بھڑکایا۔
گاؤں کے اٹھارہ کسانوں کی خوش قسمتی کہ وانگ یزہاؤ ایک ہمدرد اور مدبر رہنما تھا۔ اس نے کوئی ناروا قدم اٹھانے سے پہلے یان جانگ چنگ کو بلوا لیا۔ یان نے اسے ساری داستان سنائی اور اپنے منصوبے کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ وانگ یزہاؤ کو احساس ہوا کہ منصوبے کی بدولت اہل زیاؤ گینگ فائدے میں رہے اور انہیں بھوک و غربت سے نجات مل گئی۔ یہ تو ایک مثبت اور خوشگوار تبدیلی تھی۔ وانگ نے پھر یان جنگ کو تین سال تک منصوبہ اپنانے کی اجازت دے دی۔ شرط یہ تھی کہ گاؤں والے منصوبے کی تفصیل دوسروں سے خفیہ رکھیں۔
1978ء تک چین میں قومی سطح پر بھی انقلابی تبدیلی آچکی تھی۔ اب ایک زمانے میں ماؤ حکومت کا معتوب رہنما، ڈینگ زیاؤ پنگ چین میں سب سے طاقتور لیڈر بن کر ابھر رہا تھا۔ یہ نیا لیڈر چین میں معاشی اصلاحات چاہتا تھا تاکہ ملک و قوم ترقی کے سفر پر گامزن ہوسکے۔وانگ یزہاؤ بھی اپنے نئے لیڈر کی طرح معاشرے میں تبدیلی لانے کا خواہاں تھا۔ اسے یان جنگ چنگ کا منصوبہ پسند آیا کیونکہ اس کی بدولت گاؤں والے کئی گنا زیادہ فصل اگانے میں کامیاب رہے تھے۔ اپنی ملکیتی فصل زیادہ سے زیادہ کرنے کی چاہ نے انہیں خوب محنت کرنے پر اکسا دیا اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہ تھا۔
وانگ نے منصوبے کی تفصیل کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر بھجوا دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے کا ڈینگ زیاؤ پنگ نے بھی مطالعہ کیا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ یہی منصوبہ دیکھ کر نئے چینی صدر کو خیال آیا کہ چین میں سب سے پہلے زرعی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا جائے۔اس کے پہلے مرحلے میں بتدریج اجتماعی کاشت کاری کا نظام ختم کردیا گیا۔ چینی حکومت نے لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین کسانوں کو مناسب دام پر فروخت کردی۔ مزید براں بہت سے بڑے جاگیرداروں کی زمینیں بھی کسانوں میں بانٹ دی گئیں۔ اس طرح چند ہی برس میں چین میں اجناس ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ پیدا ہونے لگیں اور وہاں زرعی انقلاب آگیا۔
بارش کا پہلا قطرہ
زمین کا مالک بننے کے بعد پورے چین میں کسانوں نے محنت مشقت کی، زیادہ فصل اگائی اوریوں بھوک و غربت سے نجات دلانے والے راستے پر قدم رکھ دیئے۔ اس سہانے و دلربا سفر میں قدرتی طور پر شیاؤ گانگ کے دلیر کسان سب سے آگے تھے۔ ایک انقلابی منصوبہ اپنا کر وہ خوشحال ہونے لگے۔ ایک ہی سال میں ان کی فی کس آمدن 22 یو آن سے بڑھ کر 400 یو آن تک پہنچ گئی۔آنے والے برسوں میں شیاؤگانگ سمیت کئی دیہات کے باشندوں نے پختہ گھر تعمیر کرلیے۔ ٹی وی اور فریج کی سہولیات سے بھی وہ مستفید ہونے لگے۔ کئی کسانوں نے اپنی غیر مزروعہ زمین پر بطخ خانے کھول لیے۔ یوں آمدن بڑھانے کا ایک اور ذریعہ سامنے آگیا۔ آج کئی دیہی علاقوں میں فیکٹریاں بھی کھل چکیں جو نوجوان چینیوں کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کررہی ہیں۔
شیاؤ گانگ میں آج ایک عجائب گھر تعمیر ہوچکا ہے۔ اس میں وہ معاہدہ نمایاں جگہ رکھا ہے جو یان جنگ چنگ نے سترہ کسانوں کی معیت میں چوری چھپے لکھا تھا۔ یہ معاہدہ پھر ایک جگہ چھپا دیا گیا تھا تاکہ وہ حکومتی کارندوں کے ہاتھ نہ لگ سکے۔ مگر اپنی جانیں تک خطرے میں ڈال کر چینی کسانوں نے جس منصوبے کو اپنایا وہ چین میں زرعی اصلاحات نافذ کرنے کا سبب بن گیا۔یہ زرعی اصلاحات دراصل چین کو مستقبل میں معاشی و سیاسی سپرپاور بنانے کی خاطر بارش کے پہلے قطرے کے مانند ثابت ہوئیں۔ ان کے بعد حکومت چین نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اصلاحات کا مربوط و منضبط پروگرام متعارف کرایا۔ ان وسیع و عریض اور جامع اصلاحی پروگراموں کے سبب چین خصوصاً معاشی و معاشرتی طور پر تیزی سے ترقی کرنے لگا۔
انسانی عزم کی شاندار مثال
اصلاحات کے زبردست پھیلاؤ کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چالیس برس میں تقریباً ’’اسّی کروڑ‘‘ چینی غربت سے نجات پاچکے ۔ یہ انسانی تاریخ کا نہایت حیران کن اور ڈرامائی واقعہ ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ میں چالیس برس بہت کم مدت ہوتی ہے۔ مگر چینی حکمران اسی مختصر عرصے میں اپنے اسّی کروڑ باشندوں کو غربت و بھوک کے بھیانک چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب رہے۔ یہ انسانی عزم و ہمت کی شاندار مثال ہے جس نے کئی وجوہ کی بنا پر جنم لیا…کسی ایک وجہ کو اس شاندار کامیابی کا ذمے دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ان وجوہات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جا ئے تو چند نمایاں وجوہ ضرور سامنے آتی ہیں۔ اول یہ کہ نئی چینی حکومت نے صحیح معنوں میں خواص نہیں عوام کی خواہشات اور امنگوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا ۔1978ء میں ڈینگ زیاؤ پنک نے اپنی ایک عوامی تقریر میں عوام کو مخاطب کر کے کہا تھا:
’’میں دریا میں راستہ ڈھونڈ رہا ہوں… مجھے پتھروں کی تلاش ہے جن پہ پاؤں رکھ سکوں۔‘‘
چینی صدر نے یہ کہہ کر عوام کو ابھارا کہ وہ آگے آئیں اور ایسی تجاویز ومشورے دیں جو مملکت کو نہ صرف معاشی بحران سے نکالیں بلکہ اسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر دیں۔یہی وجہ ہے جب شیاؤ گانگ اور دیگر دیہات کے باشندوں نے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اپنے کھیت میں کام کرنا چاہتے ہیں‘ تو نئی حکومت نے ان کا مطالبہ قبول کر لیا… حالانکہ یہ خواہش سوشلزم کے نظریات سے متصادم تھی۔ تاہم حکمرانوں نے نظریاتی شدت پسندی ترک کر کے عوامی خواہشات و امیدوں کو پورا کرنا اپنا وتیرہ بنا لیا۔ممتاز چینی فلسفی کنفیوشس نے کیا خوب کہا ہے:’’جس ملک میں حکمران اہل وایماندار ہوں،وہاں غربت ہونا ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔جس ملک کے حکمران نااہل اور کرپٹ ہوں،وہاں دولت کی فراوانی شرمندگی و ذلت ہے۔‘‘
دوم چینی حکمرانوں نے یہ ’’عزم‘‘ کرلیا کہ وہ اپنے عوام کو غربت و بھوک سے نجات دلائیں گے۔ وہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے تھے تاکہ اقوام عالم میں فخر کے ساتھ رہ سکیں۔ اسی لیے وہ ’’مستقل مزاجی‘‘ سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی خاطر توانائیاں صرف کرتے رہے۔ انہوں نے افسر شاہی کو بھی سیدھا کردیا اور اسے ابھارا کہ وہ بھی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہوجائے۔ اس طرح محض چالیس برس میں وہ چینی دنیا کی سپرپاور بن گئے جنہیں دنیا والے حقارت و نفرت سے افیونچی کہتے تھے۔ چین میں ترقی و خوشحالی کا انقلاب عوام دوست،دیانت دار،محنتی حکمرانوں، خاتمہِ غربت کے مصمم عزم اور حکومت کی مستقل مزاجی کے باعث رونما ہوا۔
ماضی کے آئینے میں
چین کی تاریخ بڑی رنگا رنگ اور دلچسپ ہے۔ ماضی میں وہ تہذیبی ‘ ثقافتی اور سائنسی سرگرمیوں کا بین الاقوامی مرکز رہا۔ چینی ماہرین نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے علم و فن کے نقوش ثبت کیے۔ تاہم مختلف ادوار میں یہ ملک شدید خانہ جنگیوں کا نشانہ بھی بنا رہا۔ ان کی وجہ سے چینی معیشت و معاشرے کو سخت نقصان پہنچتا ۔آخری خانہ جنگی 1937ء تا1949ء قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کے مابین ہوئی جس نے چین کو تباہ کر دیا۔ یہ لڑائی ماؤزے تنگ کی زیر قیادت کمیونسٹ جیت گئے اور انہوں نے اقتدار سنبھال لیا۔ تب چین میں غربت کا دور دورہ تھا اور بیشتر چینی کاشت کاری سے روزگار کماتے۔ تجارت و صنعت محدود پیمانے پر جاری تھی۔ماؤ حکومت نے مملکت کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے بھاری صنعتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ توانائی‘ ایوی ایشن‘ ٹیلی کام ‘ تعمیرات وغیرہ کے شعبوں میں نئے کارخانے قائم ہوئے۔ یہ بھی حکومت کی ملکیت تھے۔ یہ کارخانے کھلنے سے ہزار ہا چینیوںکو روز گار ملا۔ اسی دوران اجتماعی کاشت کاری کا نظام بھی نافذ کر دیا گیا ۔ یوں معیشت کا پہیہ چل پڑا۔اس زرعی و صنعتی نظام کا حصہ بن کر لاکھوں چینیوں کو ملازمتیں ملیں اور ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونے لگیں۔
تاہم نظام کی ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ اس میں ترقی کے مواقع کم تھے۔ ایک نکمے اور کام چور کو بھی اتنی ہی تنخواہ ملتی جو ایک لائق فائق اور باصلاحیت ملازم پاتا تھا۔ کوئی مادی فائدہ نہ ہونے سے کسی انسان کو یہ تحریک نہ ملتی کہ وہ اپنی صلاحیتیں استعمال کر کے کچھ انوکھا اور منفرد کارنامہ انجام دے ۔ استثنیٰ کو چھوڑ کر بیشتر چینی ملازمین بس اپنی ڈیوٹی پوری کر دینے کو کافی سمجھتے ۔ زراعت ‘ صنعت اور تجارت کو سو فیصد سرکاری کنٹرول میں رکھنے سے عمدہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور چینی حکومت اپنے بیشتر شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنے میں ناکام رہی۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں غربت اور بھوک کا دور دورہ رہا۔ اسی ناکامی نے حکمران کمیونسٹ پارٹی میں شامل رہنماؤں کے ایک دھڑے کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ سوشلزم اور سرمایہ داری کے امتزاج سے چین میں ایک نیا معاشی نظام رائج کیا جائے۔ ڈینگ زیاؤ پنگ انہی رہنماؤں کے قائدتھے۔
نظریاتی جنگ کا آغاز
ڈینگ زیاؤ پنگ کی زیر قیادت نیا معاشی نظام رائج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اسے کمیونسٹ پارٹی میں شامل قدامت پسند لیڈروں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان لیڈروں کا استدلال تھا کہ سرمایہ دارانہ اصول و نظریے اپنا لینے سے چینی معاشرہ مادہ پرستی کا شکار ہو سکتا ہے۔ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے کا مقابلہ جنم لے گا۔ اور یہ صورت حال انہیں ناجائز عمل اپنا لینے پر اکسا سکتی ہے۔ مسابقت کے اس ماحول میں کمزور اور کم صلاحیتوں والے انسان ترقی نہیں کر پائیں گے اور ان کا کوئی پُرسان حال نہ ہو گا۔ غرض رہنماؤں نے مادہ پرستی کے نظریات کو اخلاقیات کی تباہی کا نسخہ قرار دیا۔
ڈینگ زیاؤ پنگ اور ان کے حامی رہنماؤں کا کہنا تھا ’’کوئی بھی نظریہ… چاہے وہ سیاسی ‘ معاشی‘ معاشرتی‘ ثقافتی اور عمرانی ہو‘ سو فیصد حد تک خوبیاں نہیں رکھتا۔ ہمارا مطمع نظر یہ ہے کہ چینی عوام غربت جہالت‘ بھوک اور بیماری سے نجات پالیں ۔ چونکہ پچھلے تیس سال سے چین میں رائج سیاسی و معاشی نظام چینی عوام کی امنگوں پر پورا نہیں اتر سکا‘ ان کی حالت زار تبدیل نہیں کر سکا لہٰذا اسے اوور ہالنگ اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین میں تبدیلی کی خواہش مند نئی حکومت معاشرے میں سست رفتاری سے سیاسی ،معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں لائی۔ اس نے یہ کوشش نہیں کی کہ یک لخت اور فوری طور پر تبدیلیوں کا اپنا پروگرام عوام و خواص پر ٹھونس دیا جا ئے۔ یہ ایک مثبت اقدام تھا۔ بتدریج تبدیلیاں متعارف کروانے سے عوام کو خود یہ سوچنے سمجھنے کا موقع ملا کہ نظام میں کسی قسم کی خرابیوں سے چھٹکارا پانے کا موقع آ پہنچا ہے۔زراعت کے بعد چینی حکومت نے صنعت و تجارت کے شعبوں میں بھی اصلاحات متعارف کرائیں۔ ملکی و غیر ملکی باشندوں کو سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دی۔ کاروبار کرنا آسان بنایا اور معیشت پر عائد بے جا سرکاری پابندیاں ختم کر دیں۔ قیمتوں پر کنٹرول بھی کم کر دیا تاکہ مارکیٹ میں ہر شے کی قیمت رسد و طلب کے حساب سے خود بخود طے ہو سکے۔(تاہم ذخیرہ اندوزی کا سختی سے سدباب کیا گیا)۔
نئے ماڈل کی تشکیل
چینی نئے معاشی ماڈل کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس پر نیچے سے اوپر کی جانب عمل درآمد ہوا۔ یعنی پہلے یونین کونسلوں کی سطح پر اسے عمل میں لایا گیا۔اس طرح حکومت عوام سے فیڈ بیک لے کر معاشی نظام میں تبدیلیاں لاتی رہی۔ اس عملی نمونے سے افسر شاہی سے لے کمیونسٹ پارٹی تک میں جو خرابیاں درآئی تھیں‘ انہیں دور کرنے میں مدد ملی۔چین کا یہ معاشی ماڈل عیاں کرتا ہے کہ پہلے نئی حکومت نے ترقی و خوشحالی کی راہ میں حائل سرکاری پابندیاں ہٹا لیں اور معیشت کو اپنی گرفت سے آزاد کر دیا۔ معیشت آزاد کرنے کے بعد پھر گڈ گورننس (یا اچھا انتظام ) قائم کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ گویا نئے چینی معاشی ماڈل میں گڈ گورننس کے باعث مملکت میں ترقی وخوشحالی نے جنم نہیں لیا۔ بلکہ پہلے معیشت کو آزادی دی گئی‘ اسے مارکیٹ کی قوتوں کے مطابق چلنے دیا۔ پھر اس کو اصول و قانون کے دائرہ کار میں لانے کی سعی ہونے لگی تاکہ ترقی و خوشحالی مربوط طریقے سے انجام پا سکے۔ یہ چینی معاشی ماڈل کی نمایاں خصوصیت ہے۔
چین میں غربت ختم کرنے والا یہ معاشی ماڈل اسی لیے بھی کامیاب ہوا کہ وہاں یک جماعتی طرز حکومت رائج ہے۔ یہ سیاسی نظام بھی خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ خصوصاً ایک ترقی پذیر مملکت میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی کثرت سے اقتدار پانے کی خاطر آپس میں جو کھینچا تانی ہوئی ہے‘ وہ یک جماعتی طرز حکومت میں عنقا دکھائی دیتی ہے۔ اس کھینچا تانی کے باعث عموماً برسراقتدار سیاسی پارٹی کی بیشتر توانائی اپنی حکومت بچانے پر مرکوز رہتی ہے اور وہ خصوصاً معیشت سدھارنے کے لیے طویل المعیاد پالیسیاں اور منصوبے نہیں بنا پاتی۔ اسی اعجوبے کی ایک مثال ہمارا ملک پاکستان بھی ہے۔
مملکت میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہو‘ تو اس کے قائدین نہ صرف پوری توجہ سے معاشی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں بلکہ ان پر عمل بھی ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے‘ ڈینگ زیاؤپنگ کی حکومت نے نیا معاشی ماڈل بناتے وقت جو قومی پالیسیاں وضع کیں‘ ان پر کم و بیش آ ج بھی اسی طرح عمل ہو رہاہے۔ ڈینگ زیاؤ پنگ کے بعد چین میں صرف تین حکمران(جیانگ زیمن‘ ہوجنتاؤ اور شی جن پنگ) برسراقتدار آئے۔ ان تینوں نے نہ صرف نئے معاشی ماڈل کی پالیسیاں برقرار رکھیں بلکہ انہیں بہتر بھی بنایا۔ یہی وجہ ہے‘ چین میں معاشی ترقی و خوشحالی کا سفر آب و تاب سے جاری رہا۔
ایک انوکھا عمل
اصلاحات انجام دیتے ہوئے چینی حکومت نے ایک انوکھا عمل بھی متعارف کرایا۔ اس نمونے کے تحت نچلی سطح پر جب بھی کوئی ذہین‘ با صلاحیت اور ہوشیار نوجوان دکھائی دیتا‘ تو اس کی خصوصی تربیت ہونے لگی۔ ایسے نوجوانوں کو مختلف سرکاری محکموں میں عہدے دیئے جاتے اور کمیونسٹ پارٹی کے متفرق شعبوں میں بھی کام کرایا جاتا۔مقصود یہ تھا کہ نوجوان ہر قسم کے انتظامی کام انجام دینے میں طاق ہو جائیں۔
اس عمل کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چالیس برس کے دوران چین کی افسر شاہی (بیورو کریسی) اور کمیونسٹ پارٹی کے عہدوں پر باصلاحیت‘ تجربے کار اور اہل افسر تعینات ہو چکے۔ یہ ان تمام انتظامی و سیاسی خوبیوں سے لیس ہیں جو ایک قوم کو ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن رکھتی ہیں۔ چین کے موجودہ صدر‘ شی جن پنگ بھی اسی انوکھے عمل کی پیداوار ہیں۔ چینی حکومت نے ان کی مخفی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو ابھارا ‘ انہیں نظام چلانے کی خصوصی تربیت دی اور شی جن پنگ مختلف عہدوں پر کام کرتے اور تجربہ پاتے آخر صدر بن گئے۔
ڈینگ زیاؤ پینگ نے مختلف صوبوں میں ’’اسپیشل اکنامک زون‘‘ بنائے جہاں سرمایہ کار افسر شاہی کے سرخ فیتے اور ناروا قانونی پابندیوں سے آزاد ہوکر کاروبار کرسکتے تھے۔ ان علاقوں میں تیزی سے نئے کارخانے کھلے اور کمپنیاں وجود میں آئیں۔ یہ علاقے معاشی ترقی کا انجن بن گئے۔رفتہ رفتہ سرکاری کمپنیاں نجی سرمایہ کاروں کو فروخت کی جانے لگیں۔ حکومت نے تحصیل کی سطح تک حکومتی نمائندوں اور کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے مقامی طور پر تجربات کرسکتے ہیں۔ ملک میں نئی سٹاک مارکیٹیں کھولی گئیں۔ آنے والے برسوں میں ٹیرف کم کیے گئے۔ صنعت و تجارت پر عائد کئی پابندیاں ختم کی گئیں۔ کاروبار کرنا آسان بنانے کی خاطر نئے قوانین تشکیل پائے۔ اصلاحات کے عمل کی وجہ سے مسائل بھی سامنے آئے مگر وہ حکمرانوں کی مستقل مزاجی اور خاتمہ غربت کی نیک نیتی کے باعث آہستہ آہستہ حل ہوتے چلے گئے۔
غربت کے خلاف آخری محاذ
2005ء میں جاپان کو پیچھے چھوڑ کر چین ایشیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔ آج وہ امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ 1950ء میں ایک چینی شہری کی فی کس آمدن چھ سو چودہ ڈالر تھی۔ آج وہ سولہ ہزار ڈالر سے زائد ہوچکی۔2015ء میں موجود چینی صدر، شی پنگ نے اعلان کیا کہ 2020ء تک چین میں غربت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2021ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھے ایک سو سال پورے ہوجائیں گے۔ اس صدسالہ سالگرہ کے موقع پر کمیونسٹ لیڈر فخروانبساط سے یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی مملکت سے غربت کا خاتمہ کردیا۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی جولائی 1921ء میں دو ماہرین تعلیم اور دانش وروں، چن ڈوشیو (Chen Duxiu) اور لی زراؤ( Li Dazhao) نے قائم کی تھی۔ یہ دونوں رہنما اپنے ساتھیوں کی معیت میں چینی عوام کو شاہی حکومت اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے والی مراعات یافتہ اشرافیہ سے نجات دلانا چاہتے تھے۔ چناں چہ غریب عوام کی حالت بہتر بنانا چینی کمیونسٹ پارٹی کا سب سے پہلا نصب العین قرار پایا۔ اسی لیے موجودہ چینی حکومت بھر پور کوشش کررہی ہے کہ وہ 2020ء تک مملکت سے غربت ختم کردے تاکہ اندرون و بیرون ملک لوگوں کی نظروں میں سرخرو ہوسکے۔
اعدادو شمار کے مطابق اب بھی چین میں تین کروڑ شہری غربت کی گرفت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تاہم ان چینیوں کا معیار زندگی بلند کرنا غربت کے خلاف جنگ میں سب سے مشکل اور دشوار گزار محاذ ہے۔ وجہ یہ کہ ان چینیوں کی اکثریت ذہنی یا جسمانی طور پر معذور، بیمار یا بڑھاپے میں مبتلا ہے۔ یہ چینی ملازمت کرکے خود کما نہیں سکتے لہٰذا ان کی دیکھ بھال حکومت کو کرنا ہوگی۔
غربت کے خلاف جنگ کے اس آخری مگر کٹھن مرحلے میں چینی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک خصوصی رجسٹر میں تمام غریبوں کا اندراج کیا جائے۔ پھر حکومت ہر غریب کے مسائل انفرادی طور پر حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ گویا صدیوں قبل آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ میں جس سماجی اور غریب دوست حکومتی نظام کی بنیاد رکھی تھی، چین میں حکومت اسی پر عمل پیرا ہے۔ چینی حکومت کو امید ہے کہ حکومتی مدد سے ہر غریب اپنی غربت سے نجات پالے گا۔
2015ء سے چین کی سالانہ شرح معاشی ترقی کم ہوچکی۔ وہ پھر مختلف معاشی مسائل میں گھر گیا ۔ امریکی صدر ٹرمپ برسراقتدار آیا، تو اس نے چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑ دی۔ ان مصائب کے باوجود چینی حکومت کی مدد و کوشش سے ہر سال ایک کروڑ چینی غربت کے چنگل سے نکل رہے ہیں جو امید افزا اور خوش کن تبدیلی ہے۔یہ پیش رفت دیکھتے ہوئے یقینی ہے کہ چینی حکومت 2020ء تک اپنے دیس سے غربت کا عفریت ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
انسانی تاریخ کے منفرد لیڈر، نیلسن منڈیلا نے ایک بار کہا تھا ’’کوئی انسان خود بخود غربت میں مبتلا نہیں ہوتا ،اسے بھی دوسرے لوگ غلامی اور اپارتھیڈ کی طرح انسانوں پر مسلط کرتے ہیں۔ انسان دوست لوگوں کے عمل غریبوں کو غربت کی قید سے رہائی دلاسکتے ہیں۔‘‘ پچھلے چالیس برس میں چین کے حکمران طبقے نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ انسان دوست ہے۔ اسی لیے چینی حکمرانوں نے عوام کی بھلائی و ترقی کے لیے پالیسیاں بنائیں اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ حقیقی حکمرانی وہی ہے جو عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرے۔ حکمرانی کا جو بھی ماڈل یہ نصب العین حاصل نہ کرپائے ،وہ ناکام تصور ہوگا۔
The post انسانی تاریخ میں پہلی بار 80 کروڑ انسان غربت کے چنگل سے آزاد appeared first on ایکسپریس اردو.