آج سے ہزاروں سال قبل کسی زمانہ میں قبیلہ بنو جرہم کے کچھ لوگ عرب کے مشہور شہر ’’مکہ مکرمہ‘‘ میں آباد ہوگئے تھے، جن کی اولاد سے آگے چل کر فہر یا نضر بن کنانہ نے جنم لیا ، ان کی اولاد کو ’’قریش‘‘ کہاجاتا ہے ۔
ہمارے نبی حضرت محمدمصطفیﷺ کا تعلق اسی قریش کے قبیلہ سے تھا ۔آپؐ 12؍ربیع الاوّل (20؍ اپریل 571 ء) بمطابق یکم جیٹھ 628 بکرمی ٗپیر کے دن صبح صادق کے بعد آفتاب نکلنے سے پہلے صبح کی نماز کے وقت اس دنیا میں تشریف لائے ۔ساتویں دن قربانی ہوئی ، جس میں تمام قریش کو دعوت دی گئی ۔ لوگوں نے پوچھا بچے کا نام کیا رکھا ہے ؟ حضرت عبد المطلب نے جواب دیا ’’محمدؐ!‘‘ کہا گیا کہ آپ نے اپنے خاندان کے سب مروجہ ناموں کو چھوڑ کر یہ نام اختیار کیوںکیا؟ آپ نے جواب دیا کہ : ’’ میں چاہتا ہوں کہ میرا یہ بچہؐ دنیا بھر کی ستائش اور تعریف کا شایاں قرار پائے۔‘‘
یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلَّمْ دَائِماً أَبَداً
عَليٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلَّھِمٖ
آئیے !اپنے پیارے نبیؐ پاک کی طیب وطاہر زندگی کے مبارک گوشوں پر نظر ڈالنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
٭٭٭
حضورِاقدسﷺ کے
زیر استعمال رہنے والی اشیاء
ہمارے پیارے آقا و سردار حضور نبی اکرمﷺ نے اپنی تریسٹھ سالہ درخشاں حیات طیبہ کے زمانہ میں جن جانوروں ، ہتھیاروں اور خانگی ساز و سامان کو اپنے استعمال میں لایا ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ:
گھوڑے:
آپؐ کے زیر استعمال رہنے والے دس یا پندرہ گھوڑے تھے جن کے نام یہ ہیں: (۱)’’سکب‘‘یہ وہ گھوڑا ہے جس پر ’’جنگ احد‘‘ میں آپؐ سوار تھے ۔اس گھوڑے کی پیشانی اور تین پاؤں (دو پچھلے اور ایک اگلا بایاں ) سفید تھے ۔ بدن کا رنگ کمیت (عنابی) تھا ،اور اگلے دائیں پاؤں کا رنگ بھی بدن کے رنگ کے مشابہ تھا۔ گھوڑ دوڑ میں آنحضرت ؐ اس پر سوار ہوئے اور یہ آگے نکلا ۔ یہ پہلا گھوڑا تھا جس کے حضورؐ مالک ہوئے تھے۔(۲) ’’مرتجز‘‘اشہب یعنی سفید مائل بہ سیاہی۔ (۳) ’’لحیف‘‘ ربیعہ نے ہدیہ میں بھیجا تھا۔
(۴)’’لزاز‘‘مقوقس نے ہدیہ میں بھیجا تھا۔ (۵) ’’ظرب ‘‘ یا ’’طرب‘‘ فردہ جذامی نے ہدیہ میں بھیجا تھا۔ (۶)’’سبحہ‘‘ یہ گھوڑا آپؐ نے یمن کے سودا گروں سے خریدا تھا ۔ گھوڑ دوڑ میں تین بار اس پر سوار ہوئے اور آگے بڑھے ۔ اس کو دست مبارک سے تھپکتے ہوئے فرمایا: ’’یہ تیز رفتار اور لمبے قد والا گھوڑا ہے ، سمندر کی طرح بہتا ( چلتا)ہے ۔‘‘ (۷)’’ ورد‘‘ یہ گھوڑا حضرت تمیم داریؓ نے ہدیہ میں بھیجا تھا۔ (۸)’’ ضریس ‘‘ (۹)’’ملاوح ‘‘ (۰۱) ’’…‘‘ دسویں گھوڑے کا نام معلوم نہیں ہوسکا اور اس سے زائد پندرہ تک کی بھی روایتیں ملتی ہیں۔(زاد المعاد : ۱/۱۳۳۱، ۴۳۱)
خچر:
چارخچر تھے ، جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’دُلدُل‘‘مقوقس نے ہدیہ میں بھیجا تھا ، سفید مائل بہ سیاہی رنگ کا تھا ۔اسلام کے زمانہ میں سب سے پہلے اس خچر پر سواری ہوئی تھی۔ (۲)’’فضہ‘‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ یا فروہ جذامی نے پیش کیا تھا۔ (۳)’’اَیلیّہ‘‘ مقام ’’ایلہ‘‘ کے بادشاہ نے ہدیہ میں دیا تھا ۔ (۴)’’…‘‘ اس کا نام معلوم نہ ہوسکا ۔ علامہ ابن قیم ؒنے صرف اس کا ذکر کیا ہے اور نام بیان نہیں کیا’’دومۃ الجندل‘‘ کے بادشاہ کا ہدیہ تھا ۔(زاد المعاد :جلد اوّل ص ۴۳۱،سیرۃ الحلبیۃ:جلد ۱/۲۳۴)
گدھے:
دو گدھے تھے ، جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’یعفور‘‘ یا ’’عفیر‘‘ مقوقس نے ہدیہ کیا تھا ، اس کا رنگ سفید مائل بہ سیاہی تھا ۔ (۲)’’…‘‘ علامہ ابن قیمؒ نے اس کا ذکر کیا ہے لیکن نام بیان نہیں فرمایا ، فروہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا۔(زاد المعاد : جلد اوّل ص۴۳۱، سیرۃ الحلبیۃ :جلد ۳ ص۸۹۲ )
اُونٹ:
ایک (۱) اونٹ تھا ، جس پر آپؐ سواری فرمایا کرتے تھے ۔ یہ اونٹ اصل میں ابو جہل کا تھا جو جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا تھا ، اس کی ناک میں چاندی کا کڑا تھا ۔ حضور پاکؐ نے ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے دن مکہ والوں کے پاس یہ اونٹ بطور ہدیہ کے بھیج دیا تھا۔( زاد المعاد : جلد اوّل ص۴۳۱، ۵۳۱)
اُونٹنیاں:
بیس یا پینتالیس دودھ دینے والی اور ساز و سامان لے کر چلنے والی اونٹنیاں تھیں ، جو ’’غابہ‘‘ مقام پر چرا کرتی تھیں۔ پینتالیس کی روایت علامہ ابن قیم ؒ کی ہے اور بیس کی روایت صاحب ایام النظرۃ کی ہے۔( ایام النظرۃ و السیرۃ المعطرۃ : جلد اوّل ص۲۱۱، زاد المعاد : جلد اوّل ص۴۳۱)
سانڈنیاں:
تین سانڈنیاں تھیں ، جن کے نام یہ ہیں : (۱) ’’قصواء‘‘ جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ہجرت کے وقت یہ آپ کی سواری میں تھی۔ (۲) عضباء (۳)’’ جدعاء ‘‘ بعض علماء نے یہ دونوں نام ایک ہی قرار دیئے ہیں ، جب کہ بعض دوسرے علماء نے یہ تینوں نام ایک ہی سانڈنی کے قرار دیئے ہیں۔( دلائل النبوۃ : ۸/ ۵۵۴)
بکریاں، مرغ اور بلی:
بکرے اور بکریاں ایک سو تھے ۔ ان میں سے (جب کسی کا کوئی بچہ پیدا ہوتا تو)ایک کو ذبح فرمالیتے اور سو سے زائد نہ ہونے دیتے ۔ ان میں سے ایک خاص بکری آپؐ کے دودھ کے لئے مخصوص تھی۔ایک مرغ تھا جس کا رنگ سفید تھا ۔گائے وغیرہ نہیں تھیں ، ایک بلی تھی جو گھر میں رہتی تھی۔( غایۃ السؤل فی سیرۃ الرسول : ۱/۶۵)
تلواریں:
نو یا گیارہ تلواریں تھیں ، جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’ماثور‘‘ یہ سب سے پہلی تلوار ہے جو والد ماجد کے ترکہ میں بطور وراثت کے آپ ؐ کو ملی تھی ۔ (۲) ’’ذوالفقار‘‘ بنی الحجاج کی تھی جو جنگ بدر میں ہاتھ لگی تھی ۔ اس تلوار کے متعلق حضور نبی پاکؐ نے ’’جنگ احد‘‘ سے پہلے ایک خواب دیکھا تھا ، جس کی تعبیر یہ نکالی تھی کہ اس جنگ میں ہمیں ’’شکست‘‘ ہوگی چنانچہ آپؐ کی یہ تعبیر ’’جنگ احد‘‘ میں ہاتھ کے ہاتھ پوری ہوئی ۔
(۳) ’’قلعی‘‘ (۴) ’’تبار‘‘(۵) ’’حتف‘‘ یہ تینوں تلواریں بنی قینقاع کے مال میں سے ملی تھیں (۶) ’’قضیب‘‘ یہ سب سے پہلی تلوار ہے جس کو ’’حمائل‘‘ کے طور پر حضور اکرمؐ نے پہنا تھا ۔ (۷) ’’عضب‘‘ حضرت سعد بن عبادۃؓ نے پیش کی تھی۔ (۸) ’’رسوب‘‘ (۹) ’’مجذم‘‘۔ علامہ ابن قیمؒ نے نو (۹) ذکر کی ہیں جب کہ صاحب سبل الہدیٰ و الرشاد نے گیارہ (۱۱) ذکر کی ہیں۔( زار د المعاد: ۱/۰۳۱ ، سبل الہدیٰ والرشادفی سیرۃ خیرالعباد : ۷/۴۶۳)
نیزے:
پانچ نیزے تھے ، جن کے نام یہ ہیں: (۱)’’ مثویٰ‘‘ (۲)’’ مثنیٰ‘‘(۳) ’’حربہ‘‘ایک قسم کا چھوٹا نیزہ جس کو ’’نیعہ‘‘ کہا جاتا تھا۔(۴)’’بیضاء‘‘ ایک قسم کا بڑا نیزہ۔(۵) ’’عنزہ‘‘ ایک قسم کا چھوٹا سا نیزہ جسے بقرہ عید میں آگے لے جایا جاتا اور نماز کے وقت سامنے گاڑ کر سترہ بنایا جاتا تھا ، اور کبھی کبھی اس کو لے کر حضور اقدسؐ چلتے بھی تھے۔( زاد المعاد فی ہدی خیر العباد : ۱/۱۳۱)
عصاء(لاٹھیاں):
تین لاٹھیاں مبارک تھیں ، جن کے نام یہ ہیں : (۱) ’’محجن‘‘ موٹھ مڑی ہوئی یہ ایک چھوٹی سی چھڑی جو تقریباً ایک ہاتھ لمبی تھی ٗ اونٹ کی سواری کے وقت نبی پاک ؐ کے پاس رہتی تھی، چلنے اور سوار ہونے میں آپؐ اس سے سہارا لیا کرتے تھے۔(۲) ’’عرجون‘‘ پوری لاٹھی کا آدھا۔ (۳) ’’ممشوق‘‘ شوحط نامی درخت سے بنی ایک پتلی چھڑی۔( المختصر الکبیر فی سیرۃ الرسول : ۱/ ۱۸)
کمانیں، خودیںاور زرہیں:
چھ کمانیں تھیں ، جن کے نام یہ ہیں : (۱) شداد‘‘(۲) ’’زدراء‘‘ (۳) روحاء (۴) صفراء ‘‘ (۵) ’’بیضاء‘‘ (۶) کتوم جو جنگ احد میں ٹوٹ گئی تھی۔دو (۲) ترکش تھے ، جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’جمع‘‘ (۲) کافور‘‘۔دو خودیں تھیں جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’موشح ‘‘ اور (۲) ’’ذوالسبوع‘‘ ۔ سات (۷) زرہیں تھیں ، جن کے نام یہ ہیں : (۱) ’’ذات الفضول‘‘ یہ وہی زرہ ہے جو گھر والوں کے کھانے کے لئے تیس (۰۳) صاع یعنی تقریباً اڑھائی من غلہ کے عوض ابو شحم یہودی کے پاس ایک سال رہن رکھی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ ’’جنگ حنین‘‘ میں آنحضرتؐ نے اسے اپنے زیب تن فرمایا تھا۔(۲) ’’ذات الوشاح‘‘ (۳) ’’ذات الحواشی‘‘ (۴) ’’سعدیہ‘‘ (۵) فضّہ‘‘ یہ دونوں زرہیں بنی قینقاع کے مال میں سے ملی تھیں۔(۶) ’’تبرا‘‘ (۷) خریق‘‘۔(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد : ۱/۱۳۱)
کپڑے اور پوشاک وغیرہ:
تین جبے ، دو حبری جامے ، ایک صحاری کرتہ دو صحاری جامے ، ایک یمنی جامہ ، ایک سحول کرتا ، ایک پھول دار یا دھاری دار چادر ، ایک سفید کمبل ،ایک کالا کمبل، ایک لحاف ، تین یا چار عدد ٹوپیاں ، ایک عدد عمامہ اور ایک عددچمڑے کا بستر مبارک تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔دو کپڑے جمعہ کی نماز کے لئے مخصوص رہا کرتے تھے ۔ ان کے علاوہ ایک عدد رومال ، دو عددسادہ موزے تھے جن کو نجاشی بادشاہ نے ہدیہ میں پیش کیا تھا۔
برتن وغیرہ:
لکڑی کا ایک بڑا ’’بادیہ‘‘ تھا جس میں تین جگہ چاندی کی پتریاں لگاکر مضبوط جوڑا گیا تھا۔ ایک پتھر کا ’’بادیہ‘‘ تھا جس سے آپؐ وضوء فرمایا کرتے تھے ۔ پیتل یا کانسی کا ایک ’’کونڈا‘‘ تھا جس میں ’’حنا‘‘ اور ’’وسمہ‘‘ گھولا جاتا ۔ ’’حنا ‘‘کو گرمی کے وقت آپ ؐ اپنے سر مبارک پر لگاتے تھے ۔ ایک شیشہ کا ’’پیالہ‘‘ تھا ۔ ایک پیتل کا بڑا ’’کونڈا‘‘ تھا ۔ ایک اور’’اعزاء‘‘ نامی بڑا کونڈا تھا،جس میں چار کڑے لگے ہوئے تھے ، اس کو چار آدمی اٹھایا کرتے تھے ۔ ایک اور لکڑی کا ’’بادیہ‘‘ تھا جو اندر رکھا رہتا تھا اور ضرورت کے وقت آپؐ اس میں پیشاب فرمالیا کرتے تھے ۔ ایک’’ تھیلہ ‘‘ تھا جس میں آئینہ ، کنگھا ، سرمہ دانی ، قینچی اور مسواک رہتی تھی۔ ایک’’ چارپائی‘‘ تھی جس کے پائے ’’سال ‘‘ (ساکھو) کی لکڑی کے تھے ، اس کو حضرت ا سعدبن زرارۃؓ نے ہدیہ میں پیش کیا تھا۔ایک چاندی کی انگوٹھی تھی جس پر نقش تھا ’’محمدؐ رسول اللہ ‘‘۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا حلیہ مبارک
امام الانبیاء ،خاتم المرسلین، رحمت کائنات، فخر موجودات،پیارے آقا حضور نبی اکرم ﷺ کی بے مثال حسن صورت ا ور باکمال حلیہ مبارک کچھ اس طرح سے تھا کہ آپؐ کا:
قد مبارک:
’’ قد مبارک‘‘ دیکھنے میں درمیانہ اور نہایت مناسب قسم کا تھا، مگر یہ معجزہ تھا کہ جب آپؐ چند آدمیوں کے ساتھ چلتے تو سب سے اُونچے معلوم ہوتے تھے ۔
سر مبارک:
’’سرمبارک‘‘ کلاں و بزرگ ، سرداری کا تاج اور عقل و تدبر کا حسین پیکر تھا ۔بدن مبارک گٹھا ہوا ،خوب صورت ، سجاوٹ کے ساتھ بھرا ہوا اور خوب صورتی کھپی ہوئی تھی، چنانچہ جتنا کوئی غور کرتا خوب صورتی زیادہ معلوم ہوتی تھی ۔
بدن مبارک:
’’بدن مبارک‘‘ پر بال بہت کم اور چمک بہت زیادہ تھی ۔ سر مبارک کے بال سیاہ ، چمک دار اور کسی قدر گھنگھریالے تھے ، بالوں میں تیل یا مشک جیسی چیزوں کا بھی استعمال فرمایا کرتے تھے ۔ کچھ عمر کی رسیدگی اور کچھ خوش بو وغیرہ کے استعمال سے بالوں میں کسی قدر ہموار پن سا آگیا تھا ۔
ریش مبارک:
’’ریش مبارک‘‘ گھنی اور بھر پور خوب صورتی لیے ہوئے تھی۔ ریش اور سر مبارک میں گنتی کے چند بال سفید بھی ہوگئے تھے ۔ بعض علماء نے ان کی تعداد بھی بتلائی ہے کہ سر مبارک اور ریش مبارک میں کل 20 بال سفید تھے۔
پیشانی مبارک:
’’پیشانی مبارک‘‘ مقدس، کشادہ اور روشن ، گویا آفتاب کا کنارہ بلکہ حسن و جمال کی سجدہ گاہ تھی۔
بھوئیں مبارک:
’’ بھوئیں مبارک‘‘ گنجان ، دراز اور باریک تھیں، ان کی نازک خمیدگی ’’قوسِ قزح‘‘ کے لئے باعث صد رشک وقابل صد افتخار تھی ، ان دونوں کے درمیان کشیدگی تھی یعنی اقبال اور برکتوں کی کھلی ہوئی دلیل تھی ، نیز ان دونوں بھوؤں کے بیچ میں ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر جاتی اور پھڑکتی تھی۔
آنکھیں مبارک:
’’آنکھیں مبارک‘‘بڑی بڑی تھیں ’’موتی چور‘‘ (چمکیلی) جن کے سرخ ڈورے جمال کے ساتھ ساتھ جلال کی شان بھی دوبالا کردیتے تھے ۔ ’’پتلی مبارک‘‘ سیاہ ’’بُھرّہ مبارک‘‘گویا نور کے آبگینے پر ’’سیاہ مخمل‘‘ کی بندگی یا موتی کی آب دار سطح پر’’ رُخِ حور‘‘ کا ’’کالا تل ‘‘۔ ’’پلکیں مبارک‘‘ گنجان ، سیاہ اور تلوار جیسے خُم کے ساتھ دراز تھیں۔
رنگ مبارک:
’’رنگ مبارک ‘‘ سفید تھا ،جس میں سرخی گھپی ہوئی رونق اور چمک تھی ، اس سے آپؐ کا حسن و جمال مزید نکھرجاتا تھا۔(گویا گلابی رنگ کے مالک تھے۔)
رخسار مبارک:
’’رخسار مبارک‘‘ نرم ، ہموار ، پرگوشت اور سرخی مائل تھے۔ایسے معلوم ہوتے تھے گویاچاند پر گلاب کی سرخی چمک رہی ہے۔
ناک مبارک:
’’ناک مبارک‘‘ بلندی مائل مگر زیادہ اُونچا نہ تھا کہ بد نما معلوم ہوتا ہو ، اس پر چمک اور نور کی عجیب اُٹھان تھی کہ پہلے پہل دیکھنے والا اسے اُونچا سمجھتا تھا مگر جب غور سے دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ نور اور چمک کے باعث بلند معلوم ہورہا ہے، ناک مبارک کا بانسا خوب صورتی کے ساتھ اُوپر کی طرف اٹھا ہوا تھا۔
دہن مبارک:
’’دہن (منہ) مبارک‘‘ مناسب طور پر وسیع اور کشادہ ٗ گویا نظافت و نقاطت اور فصاحت و بلاغت کا حسین دیباچہ تھا ۔
دندان مبارک:
’’دندان مبارک‘‘ باریک ، آب دار ،روشن ا و رچمک دار تھے ۔سامنے کے دانت ایک دوسرے سے کسی قدر چھیدے ہوئے تھے ۔ مسکراہٹ کے وقت ایسا معلوم ہوتا کہ اُولوں کی لڑی سے نازک نقاب سرک گیا ہے ۔ گفتگو کے وقت معلوم ہوتا کہ تاروں کی کرنیں ’’دندان مبارک‘‘ سے پھوٹ پھوٹ کر شوخیاں بکھیر رہی ہیں ۔
چہرۂ انور:
’’چہرۂ انور‘‘ چودھویں رات کا چاند ٗ نہیں بلکہ چاند بھی اس سے شرمندہ ۔ اللہ کی قسم ! چاند سے بھی زیادہ پیارہ ’’کتابی‘‘ چہرہ جو کسی قدر گولائی لیے ہوئے عظمت و وجاہت سے بھرا ہوا تھا ۔ خاموشی کے وقت ایسی ہیبت اور عظمت اس سے ٹپکتی تھی کہ دیکھنے والا مرعوب ہوجاتا تھا ۔ گفتگو کے وقت موتی برستے ، نرم دم گفتگو دل میں گھر کرجاتی اور محبت کا بیج بو دیتی اور یوں محسوس ہونے لگتا جیسے عقیدت و محبت کے آنگن میں موتیوں کی بارش ہورہی ہو۔
گردن مبارک:
’’گردن مبارک‘‘ سانچے میں دھلی ہوئی ایسی صاف اور شفاف کہ مرمر کی صفائی بھی اس کے سامنے شرمانے لگے ایسی سفید کہ چاندی کی سفیدی بھی اس کے سامنے عرق عرق ہونے لگے۔دونوں شانوں کے درمیان ’’مہر نبوت‘‘ جڑی ہوئی تھی۔
سینہ اور شکم مبارک:
’’سینہ مبارک‘‘ یعنی معرفت کا خزانہ چوڑا اور بھرا ہوا تھا ۔ ’’شکم مبارک ٗسینہ مبارک‘‘کے بالکل برابر تھا ،نہ اندر کی طرف کم تھا اور نہ ہی آگے کی طرف بڑھا ہوا تھا ۔ ’’سینہ مبارک‘‘ کے بالائی حصہ (چھاتی) پر کسی قدر بال تھے، باقی سینہ اور شکم بالوں سے بالکل صاف تھے ، البتہ سینہ مبارک سے ناف مبارک تک بالوں کی باریک سی ایک دھاری تھی ۔
شانے مبارک:
’’شانے مبارک‘‘ پر گوشت ، بھاری اور ایک دورسرے سے فاصلے پر تھے ۔
کلائیاں مبارک:
’’کلائیاں مبارک‘‘ ایسی دراز اور چوڑی تھیں کہ جیسے شیر کی ہوتی ہیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ قوی اور مضبوط تھی۔
ہتھیلیاں مبارک:
’’ہتھیلیاں مبارک‘‘ گداز ، پر گوشت ، چوڑی اور ایسی نرم تھیں کہ ریشم اور حریر بھی ان کے سامنے مات کھا جائیں، ان میں ایسی خوش بو مہکتی تھی کہ عطر بھی ان کے سامنے شرمندہ ہوجائے۔
اعضاکے جوڑ:
’’اعضاء کے جوڑ‘‘ اور ان کی ہڈیاں ٗ بڑی ، چوڑی اور انتہائی مضبوط تھیں۔
پاؤں مبارک:
’’پاؤں مبارک‘‘ پر گوشت ، زیبائش کے ساتھ ہموار اور ایسے صاف کہ پانی کے قطرے بھی ان پر ٹھہرنے سے لرزاں تھے۔ ایسے ستھرے تھے کہ اگر بلور کی ان پر نظر پڑجائے تو وہ بھی ان پر سو جان سے قربان ہوجائے ۔ جو مناسب موقع، محل اور وقت پر تیزی سے اٹھتے اور کشادگی و پھرتی اور سنجیدگی و متانت کے ساتھ رکھے جاتے تھے۔
ایڑیاں مبارک:
’’ایڑیوں مبارک‘‘ پر گوشت کم تھا ۔
انگلیاں مبارک:
’’انگلیاں مبارک‘‘ مناسبت کے ساتھ درازی کی خوب صورتی سے آراستہ اور پسندیدگی کا مظہر تھیں۔
مبارک چال:
چلنے میں آپؐ کی رفتار تیز ہوتی ، ’’قدم مبارک‘‘ کسی قدر کشادہ زمین پر آہستہ سے پڑتا ، مگر اس کا اُٹھنا قوت کے ساتھ ہوتا ۔ نہ متکبروں کی سی اکڑ اور نہ ہی پوستیوں جیسی بے جان چال ۔ نگاہ مبارک‘‘ ہمیشہ نیچے زمین کی طرف رہتی ، ایسا معلوم ہوتا گویا ڈھلوان میں اُتر رہے ہیں، یعنی کسی قدر آگے کو جھکے ہوئے چلتے تھے۔
شاعر اسلام حضرت حسان بن ثابتؓ نے آپؐ کے حلیہ مبارک کی تصویر یوں کھینچی ہے ؎
وَأَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنٌ
وَأَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَائٗ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَائٗ
ترجمہ:آپؐ سے زیادہ حسین نہ کبھی میری آنکھ نے دیکھااور نہ کسی عورت نے جنا۔ آپؐ جملہ عیوب سے پاک وصاف، گویا اپنی منشاء کے مطابق پیدا کئے گئے۔
حضورِ اقدسﷺ کی مرغوب غذائیں
حضرت ابو عبیدۃ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہانڈی پکائی ، چوں کہ آقا ﷺکو ’’دستی‘‘ کا گوشت بہت ز یادہ پسند تھا ، اس لئے میں نے ایک ’’ دستی‘‘ پیش کی ، پھر حضورصلیﷺ نے دوسری طلب فرمائی ، میں نے دوسری پیش کردی ، پھر حضورﷺنے اور طلب فرمائی ، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! بکری کی دو ہی’’ دستیاں‘‘ ہوتی ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم چپ رہتے تو میں جب تک مانگتا رہتا اس دیگچی سے دستیاں نکلتی رہتیں ۔‘‘ (شمائل ترمذی)
حضرت ابو ہریرۃ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺکی خدمت میں کہیں سے ’’ گوشت‘‘ آیا ، اس میں سے’’ دستی‘‘ کا گوشت آپﷺکے سامنے پیش ہوا ، حضور ﷺکو’’ دستی‘‘ کا گوشت بہت مرغوب تھا ، اس لئے آپ ﷺنے اسے دانتوں سے کاٹ کر تناول فرمایا۔ایک اور حدیث میں آپﷺکا ارشاد مروی ہے کہ: ’’ گوشت کو دانتوں سے کاٹ کر کھایا کروکہ اس سے ہضم بھی خوب ہوتا ہے اور بدن کو بھی زیادہ موافق آتا ہے۔
حضرت ام سلمہاؓ فرماتی ہیں کہ میں نے پہلو کا بھنا ہوا گوشت حضور ﷺکی خدمت پیش کیا ، جسے آپ ﷺنے تناول فرمایا ۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن حارث ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے حضور اقدس ﷺکے ساتھ بھنا ہوا گوشت مسجد میں کھایا۔
گوشت کے بارے میں آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ : ’’ گوشت‘‘ اہل دنیا و اہل جنت کی سب غذاؤں کا سردارہے ۔ نیز آپﷺنے فرمایا کہ : ’’ پشت کا گوشت عمدہ گوشت ہوتا ہے۔ ( ابن ماجہ)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے حضور اقدسﷺکی ایک مرتبہ دعوت کی ، میں بھی حضور ﷺکے ساتھ حاضر ہوا ، اس نے حضور ﷺکی خدمت میں’’جو‘‘ کی روٹی اور’’ کدو گوشت ‘‘کا شوربہ پیش کیا ، میں نے حضورﷺ کو دیکھا کہ آپؐ پلیٹ کے سب اطراف سے’’ کدو‘‘ کے ٹکڑے تلاش فرماکر نوش فرمارہے تھے ، چنانچہ اس وقت سے مجھے بھی ’’کدو‘‘ مرغوب ہوگیا ۔
حضرت جابر بن طارق ؓ کہتے ہیں کہ میں حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو ’’کدو ‘‘کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے جارہے تھے ، میں نے عرض کیا : ’’ اس کا کیا بنے گا، یارسول اللہﷺ ؟ آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ : ’’ اس سے سالن میں اضافہ کیا جائے گا۔‘‘
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺکو ’’کدو ‘‘ (بہت زیادہ) مرغوب تھا ۔ ( چنانچہ) ایک مرتبہ حضورﷺکے پاس کھانا آیا یا حضور ﷺکسی دعوت میں تشریف لے گئے (راوی کو اس میں شک ہے) جس میں کدو تھا ، چوں کہ مجھے معلوم تھا کہ حضور ﷺکو یہ مرغوب ہے اس لئے اس کے قتلے ڈھونڈ کر میں حضور ﷺکے سامنے کردیتا تھا۔(شمائل ترمذی)
حضرت عائشہ ؓ ا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺنے ایک مرتبہ فرمایا کہ : ’’سرکہ‘‘ (Vinegar)بھی کیا ہی اچھا سالن ہے۔ (مسلم)نیز مرفوعاً مروی ہے کہ : ’’اے اللہ! ’’سرکہ‘‘ میں برکت ڈال کہ وہ مجھ سے پہلے انبیاء کا سالن تھا۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ : ’’جس گھر میں ’’سرکہ‘‘ ہو وہ گھر محتاج نہیں ہے۔‘‘(طب نبوی علامہ ذہبیؒ)
آنحضرتﷺکو ’’ثرید‘‘ (یعنی شوربے میں توڑی ہوئی روٹی ) بہت زیادہ پسند تھی (سنن ابو داؤد) اسے آپؐ تمام کھانوں پر فضیلت دیتے تھے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺنے ارشاد فرمایا کہ عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے کہ ’’ ثرید‘‘ کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے ۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابو اسید ؓ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺنے ارشاد فرمایا کہ’’ زیتون‘‘ کا تیل کھانے میں بھی استعمال کرو اور مالش میں بھی ، اس لئے کہ یہ ایک بابرکت درخت کا تیل ہے۔حضرت عمر ؓ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’ زیتون‘‘ کا تیل کھاؤ اور مالش میں استعمال کرو ، اس لئے کہ وہ مبارک درخت سے پیدا ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن جعفر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی پاک ﷺ’’ ککڑی‘‘(ترsnake cucumber,) تازہ پکی ہوئی کھجوروں کے ساتھ تناول فرمارہے تھے ۔ (بخاری و مسلم)حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ ’’تربوز‘‘ کو تازہ کھجوروں کے ساتھ نوش فرماتے تھے۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورِ اقدس ﷺکو ’’خربوزہ‘‘ اور ’’ کھجور‘‘ اکٹھے کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔(شمائل ترمذی)
حضورِ ﷺ مغرب کی نماز سے پہلے تر کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے ، اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے افطار فرما لیتے تھے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پھر پانی سے روزہ افطار فرمالیا کرتے تھے۔( ابو داؤد)
ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر ؓ کو ایک ’’ سیب‘‘ عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: ’’ یہ قلب کو تقویت دیتا ہے ، طبیعت کو خوش کرتا ہے اور سینہ کی کرب کو دور کرتا ہے۔‘‘( نسائی)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضورِ اقدسﷺکو پینے کی سب چیزوں میں میٹھی اور ٹھنڈی چیز مرغوب تھی۔ بظاہر تو اس حدیث سے ٹھنڈا اور میٹھا پانی مراد ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے شہد کا شربت اور کھجوروںکا نبیذ مراد ہو ۔( خصائل نبوی ترجمہ شمائل ترمذی)
حضرت ابن عباس ؓ ما فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت خالد بن ولید ؓ دونوں حضورِ اقدسﷺکے ساتھ (اپنی خالہ) حضرت میمونہ ؓ کے گھر گئے ، حضرت میمونہ ؓ ایک برتن میں دودھ لے کر آئیں ، حضور ﷺنے اس میں سے نوش فرمایا، میں دائیں جانب تھا اور حضرت خالد بن ولید بائیں جانب ، آپ ؐنے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اب پینے کا حق تمہارا ہے ( کہ تم دائیں جانب ہو) اگر تم اپنی خوشی سے حضرت خالد بن ولید کو ترجیح دینا چاہو تو دے سکتے ہو ، میں نے عرض کیا کہ آپ ؐکے جھوٹے پر میں کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔حضور ﷺ نے دودھ کی بہت تعریف فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ دودھ کے علاوہ مجھے کوئی ایسی چیز معلوم نہیں جو کھانے اور پینے دونوں کی طرف سے کافی ہوجائے ۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) ایک روایت میں آتاہے رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’گائے کا دودھ شفاء ہے اور اس کا گھی دوا ہے۔‘‘(طب نبوی للذہبی)
حضرت ابو ہریرۃ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو ’’پنیر‘‘ کا ٹکڑا نوش فرماتے دیکھا ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ تبوک کے سفر میں آپ ؐکی خدمت میں پنیر لایا گیا آپ نے چاقو منگوایا اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر اس کا ٹکڑا کاٹا۔ (ابوداؤد)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺنے حضرت صفیہ ؓ کا ولیمہ ’’کھجور‘‘ اور ’’ستو‘‘ سے فرمایا تھا ۔ایک روایت میں’’ حیس‘‘ نامی حلوہ کا ذکر آیا ہے جب کہ ایک دوسری روایت میں ’’پنیر‘‘ کا نام آیا ہے۔(خصائل نبوی )۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ’’حلوہ‘‘ اور ’’شہد‘‘ پسند فرماتے تھے۔‘‘(بخاری)۔ ایک روایت میں آیا ہے رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایاکہ : ’’تم پر لازم ہے کہ دو شفاء دینے والی چیزوں کو استعمال کرو ایک ’’شہد‘‘ اور دوسرا ’’قرآن‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ : ’’اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی چیز میں خیر ہوتی تو’’سینگی‘‘ لگوانے اور ’’شہد‘‘ پینے میں ہوتی۔‘‘ (بخاری ومسلم)۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺکو ’’مکھن‘‘ اور’’چھوہارہ‘‘ مرغوب تھا۔ایک اور جگہ مروی ہے کہ آنحضرت ﷺکو انگور اور تربوز پسند تھے۔(طب نبوی علامہ ذہبیؒ)
صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’کلونجی‘‘ کا استعمال کیا کروکہ اس میں سوائے موت کے باقی تمام بیماریوں سے شفاء ہے۔‘‘ ایک مرتبہ شاہِ روم نے زنجبیل (ادرک ، سونٹھ) کا ایک بھرا ہوا گھڑا آپ ؐکی خدمت میں ہدیۃً بھیجا ، آپ ؐنے اس کا ایک ایک ٹکڑا سب کو کھانے کے لئے عطاء فرمایا۔( طب نبوی علامہ ذہبیؒؒ)۔ حضرت طلحہ ؓ فرماتے ہیں کہ : ’’ رسول اللہ ﷺنے مجھے ’’بہی‘ ‘ (Quince) کا ایک دانہ عنایت فرمایا اورارشاد فرمایا کہ : ’’اسے لے لو ! کیوں کہ یہ دل کو راحت پہنچاتا ہے۔‘‘(ابن ماجہ)
The post امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے مقدس گوشے appeared first on ایکسپریس اردو.