ہم بہت پریشان ہیں، فکرمند ہیں، تشویش میں مبتلا ہیں، بات ہی ایسی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے،’’پانچ سال میں پاکستان یورپ سے زیادہ صاف نظر آئے گا۔‘‘
ہم نے اتنی تبدیلی کب چاہی تھی بھیا! پاکستان اتنا صاف ہوگیا تو ہمیں لگے گا ہی نہیں کہ ہم پاکستان میں رہ رہے ہیں، زمین فضا، اردگرد سب اجنبی لگیں گے۔
ہماری فکر کا محور یہ ہے کہ اگر پاکستان اتنا صاف سُتھرا ہوگیا تو ہم اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے گھر کیسے پہنچ پائیں گے۔ ہم نے ان سب کے گھروں کے لیے نشانیاں طے کی ہوئی ہیں، وہ ختم ہوگئیں تو سمجھو آنے جانے ملنے ملانے کے سارے سلسلے ختم۔ بھائی اچھن کی گلی کے نکڑ پر پڑا کوڑے کا ڈھیر دور سے نظر آکر بتادیتا ہے کہ آجائیے! آپ کے بھائی اچھن اسی گلی میں مقیم ہیں۔ بابو بھائی کا ایک سو بیس گز کے پلاٹ پر بنا دولت کدہ اپنے عین سامنے منُہ پھاڑے گٹر سے پہچانا جاتا ہے۔ گٹر کا منہہ تو چھوٹا ہے لیکن اس سے بڑی بات کی طرح نکلتی گندگی بابو بھائی کے گھر کی چوکھٹ چومتی اور پوری گلی میں گھومتی ہے۔
ہمیں پھپھو تَمیزُن کے فلیٹ کا نمبر یاد ہے نہ منزل، شناخت بس یہ ہے کہ فلیٹ کی دیوار عمارت کے دوسرے فلیٹوں کی دیواروں کے مقابلے میں پیکوں سے کہیں زیادہ رنگی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ دوسری دیواروں پر پیک پڑی ہے، اور یہ دیوار پیکوں کے پیچھے کھڑی ہے۔ دراصل پھوپھو تمیزن اپنے شوہر پھوپھا اخلاق کے مسلسل کان کھاتی ہیں، پھوپھا اخلاق اسی تناسب سے کچھ انتقاماً اور کچھ منہہ بند رکھنے کے لیے انتظاماً پان کھاتے ہیں اور گھر سے باہر نکلتے ہوئے ہی پیک تھوکتے ہیں۔ اس کارن یہ جوڑا بدتمیزن اور بداخلاق کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح نفاست میاں کے مکان کی نشانی کوڑے سے بھرا نالہ ہے، یہ نالہ ایسا حوالہ بنا ہے کہ لوگ نفاست میاں کو غلاظت میاں کہنے لگے ہیں۔
ہم پاکستانی تو اپنی اپنی بستیوں اور اپنے اپنے محلوں کو مخصوص بدبوؤں سے پہچانتے ہیں، کسی کو گوبر کی بو آتی ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ بس گھر قریب آگیا، کوئی مرے ہوئے چوہے کی مہکار سونگھتا اپنی بستی میں وارد ہوتا ہے، کسی کے نتھنوں کو مُردار کُتے کی خوشبو چھوتی ہے تو آنکھیں بند ہوں تب بھی وہ اپنے محلے کا سُراغ پالیتا ہے۔ کسی اور دیار میں بھی یہ بوئیں ناک سے ٹکرا جائیں تو دل جھوم کے کہہ اُٹھتا ہے۔۔۔یہ تو وہیں جگہ ہے رہتے ہیں ہم جہاں پہ۔
وزیراعظم کو پتا ہونا چاہیے کہ ہم ان قوموں کی طرح نہیں جو اپنے گھر کو ہی اپنا سمجھتی ہیں، ہم تو پورے وطن کو اپنا گھر سمجھتے ہیں، اسی لیے کوئی بھی دیوار ہماری ’’دھار‘‘ سے دُھل جاتی ہے، کسی بھی ویرانے کو ہم اپنی ’’خوشبو‘‘ سے آباد کرجاتے ہیں۔ اسی اپنائیت کو دیکھ ہوئے پورے ملک اور ہر شہر میں چند مقامات مختص کردیے گئے ہیں کہ ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ یعنی صرف یہیں منع ہے۔ گھر کا کوڑا گھر میں رکھنا ہم خودغرضی سمجھتے ہیں اور اسے گلی میں لُٹادیتے ہیں، ہماری حسِ جمالیات کالی سڑک کی سیاہی کو برداشت نہیں کرپاتی، چناں چہ پچکاری مار کر اسے رنگین کرنا فرض سمجھتے ہیں۔
خان صاحب کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ پاکستانی آزادی کی متوالی قوم ہے۔ ہم خاندان کی پابندیاں تو جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں لیکن کچرا دان کی پابندی ہمیں گوارا نہیں، ہم اپنا سارا کچرا سڑکوں، گلیوں، پارکوں، دریا اور سمندر کے ساحلوں کو دان کردیتے ہیں۔
تو جناب وزیراعظم! آپ تحریک انصاف کو تحریک صاف نہ بنائیے، ہم جانے کب سے کوڑا جمع کر رہے ہیں، گندگی ذخیرہ کر رہے ہیں، اور آپ اس محنت کو مٹانے چلے ہیں، کمال کرتے ہیں۔
The post جناب وزیراعظم! یہ ظلم تو نہ کریں appeared first on ایکسپریس اردو.