ہم نے جب بھی پڑھایا سُنا کہ ’’برصغیر کا فلاں شہر بڑا مردم خیز ہے یا فلاں صاحب مردم خیز قصبے میں پیدا ہوئے‘‘ اپنے بھولپن کی وجہ سے ہم یہی سمجھے کہ مذکورہ شہر یا قصبے میں مرد کثرت سے پیدا ہوتے ہیں اور دل میں عورت کو دیکھنے کی حسرت لیے دنیا سے گزر جاتے ہیں۔
چناں چہ ہمیں مردم خیز خطے والی ہر ولادت پر افسوس ہوا۔ یہ امر اور بھی حیرت انگیز تھا کہ گڑگاؤں سے گورکھ پور تک برصغیر کا ہر علاقہ مردم خیز ہے کوئی ایک بھی ’’خانم خیز‘‘ نہیں تو آخر یہ اتنی ساری خواتین کہاں سے آگئیں؟
آخر عرصے بعد یہ عقدہ کُھلا کہ مردم خیز خطہ وہ ہوتا ہے جہاں نام ور اور نابغۂ روزگار لوگ پیدا ہوں۔ اس اعتبار سے ’’چنیوٹ‘‘ اپنے بس ایک مرد کی وجہ سے ’’دنیا کا مردم خیز ترین‘‘ شہر کہلانے کا حق دار ہوگیا ہے۔ اصولاً تو چنیوٹ کا یہ اعزاز گنیزبُک آف ورلڈ ریکارڈ والوں کو نوٹ کرنا چاہے تھا اور اہل چنیوٹ کو خوشی سے لوٹ پوٹ ہوجانا چاہیے تھا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ جن صاحب کی بدولت یہ اعزاز ملنا تھا انھیں جعل ساز قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا۔ اسے کہتے ہیں ناقدری۔
یہ صاحب ہیں ’’پروفیسر ڈاکٹر آر یو عمران احمد سائنس داں۔‘‘ یوں تو ان کی علمیت اور صلاحیتوں کے اظہار کے لیے نام ہی کافی تھا، لیکن موصوف نے سوچا عوام میں اتنا شعور کہاں کہ وہ صرف نام سے ان کے فیوض وبرکات کا ادراک کرلیں سو انھوں نے کمپنی کی مشہوری کے لیے نہیں بلکہ عوام کو اپنی ذات سے فیض یاب کرنے کی خاطر چرچا کیا کہ وہ ڈاکٹر ہیں، سائنس داں ہیں، 10بار کے نوبیل انعام یافتہ ہیں، 40 شاہ فیصل ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں، ’’اصلی ڈاکٹری کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ڈاکٹر‘‘ ہیں، دنیا کی ہر بیماری کا علاج کرسکتے ہیں، 100 سائنسی کارنامے انجام دے چکے ہیں، 361 قوانین بنا چکے ہیں، اور ’’میڈیکل عدلیہ‘‘ کے موجد ہیں۔ وہ صرف ساڑھے پانچ ہزار روپے ایڈوانس لے کر دس روز میں دنیا کی ہر پیچیدہ اور لاعلاج بیماری کا علاج کرسکتے ہیں۔
کہنے والے کہیں گے کہ ’’نام عمران ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بڑے بڑے دعوے بھی کیے جائیں۔‘‘ مگر ہم ایسا کچھ نہیں کہیں گے، ہمیں تو ڈاکٹر آریو عمران احمد کے ہر دعوے پر یقین ہے۔
یقین کی وجہ یہ ہے کہ ایسے نابغۂ روزگار پاکستان میں پیدا ہوتے رہے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ایک ایسے ہی ’’سائنس داں‘‘ نے پانی سے کار چلانے کا دعویٰ کیا تھا، اور اس دعوے کے ساتھ ایک چینل کی فخریہ پیشکش بنے سامنے آئے تھے، قریب تھا کہ پاکستان پانی والی کاریں بنانے اور برآمد کرنے لگتا، پیٹرول پمپ اکھاڑ پھینکے جاتے اور ان کی جگہ پانی کی ٹنکیاں رکھ دی جاتیں اور پانی کا استعمال اتنا بڑھ جاتا کہ سعودی عرب سے تیل اُدھار مانگنے کے بہ جائے ہم بنگلادیش سے پانی مستعار لینے کی کوششیں کر رہے ہوتے۔۔۔۔کہ یکایک آبی کار کے موجد خود آب گُم ہوگئے، نہ جانے شرم سے پانی پانی ہوگئے یا چُلّو بھر پانی میں غوطہ زن ہوگئے، بہ ہر حال ان کا کچھ پتا نہیں چلا۔
جہاں تک تعلق ہے ان چنیوٹ والے صاحب کا تو ہم سمجھتے ہیں کسی عالمی سازش کے تحت موصوف کو بڑھاپے کے گناہ یا دوسرے نکاح کی طرح چھپا کر رکھا گیا۔ انھیں دھڑدھڑا دھڑ نوبیل انعام اور شاہ فیصل ایوارڈ ملتے رہے لیکن عالمی اور پاکستانی میڈیا نے طے کرلیا تھا کہ ’’آر یو عمران احمد‘‘ کو مشہور نہیں ہونے دینا ورنہ لڑکا مغرور ہوجائے گا۔ اسی لیے ان کے سو سائنسی کارنامے بھی مخصوص امراض کی طرح پوشیدہ رہے، اس سازش کے پیچھے یقیناً اسٹیفن ہاکنگ کا ہاتھ ہوگا، اور ان کے ’’اصلی ڈاکٹری کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ڈاکٹر‘‘ ہونے کا اعزاز اور ہر لاعلاج مرض کا علاج کرنے کی صلاحیت کے دنیا کے سامنے نہ آنے کے پیچھے دنیا بھر کے ڈاکٹروں کی جلن کارفرما ہے۔
ہمارے خیال میں ان کی گرفتاری کی خبر غلط ہے، انھیں قومی اثاثہ سمجھتے ہوئے تحویل لے لیا گیا اور سرکاری ملکیت بنا لیا گیا ہے۔ ہم پولیس سے گزارش کریں گے کہ اس اثاثے کی پوری حفاظت کی جائے اور اسے ہرگز ہرگز کُھلا نہ چھوڑا جائے۔
The post ’’دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر‘‘۔۔۔ قومی اثاثہ appeared first on ایکسپریس اردو.