شاعر نے کہا تھا
مسکراہٹ ہے حُسن کا زیور
مسکرانا نہ بھول جایا کرو
مگر بھارت میں ایئرپورٹ کے سیکیوریٹی اہل کاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ مسافروں کو دیکھ کر مسکرانا بھول جایا کریں۔ ایک خبر کے مطابق:
’’بھارت میں ایئرپورٹ سیکیورٹی حکام نے نائن الیون حملے میں مسکراہٹ کو اصل وجہ قرار دیتے ہوئے سیکیوریٹی اہل کاروں کو مسافروں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرنے اور انھیں دیکھ کر مسکرانے سے منع کردیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سول ایوی ایشن سیکیوریٹی کے ادارے سینٹرل انڈسٹری سیکیوریٹی فورس (سی آئی ایس ایف) نے مسافروں کو دیکھ کر ’غیرمعمولی مسکراہٹ‘ سے روکتے ہوئے ’محدود مسکراہٹ‘ کا طریقۂ کار وضع کیا ہے۔
اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ مذکورہ اقدام کا مقصد سی آئی ایس ایف کو زیادہ دوستانہ ہونے کے بجائے چوکس رکھنا ہے۔ سی آئی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل راجیش رنجن نے بتایا کہ ہم مسافروں کے ساتھ زیادہ دوستانہ رویہ اختیار نہیں کر سکتے کیوںکہ امریکا میں نائن الیون حملے میں سیکیوریٹی اہل کار مسافر کے دوستانہ رویے سے متاثر ہوکر اُس پر اعتماد کر بیٹھا تھا۔‘‘
عوام سے براہ راست رابطہ رکھنے والے سرکاری ملازمین کو لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنے اور دوستانہ انداز اپنانے کی ہدایت کی جاتی ہے، اس مقصد کے لیے بعض ادارے ہفتۂ خوش اخلاقی مناتے رہے ہیں، لیکن بھارت میں ہر معاملہ اُلٹ ہے، جس دیش میں گائے کی خاطر انسان کاٹ ڈالے جاتے ہوں، وہاں جو نہ ہو وہ کم ہے۔
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ یہ’’محدود مسکراہٹ‘‘ کیا ہوتی ہے؟ خود متعلقہ اہل کار بھی یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں گے کہ مسکراہٹ کو سرکاری حدود میں رکھنے کے لیے ہونٹ کہاں تک پھیلائے جائیں اور دانت کس حد تک نکالے جائیں۔ اس کوشش میں یقیناً چہروں پر ایسی مسکراہٹ نمودار ہوگی جسے دیکھ کر ہر مسافر بھارتی سیکیوریٹی اہل کاروں سے پوری دردمندی کے ساتھ پوچھے گا:
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو۔۔۔کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
اہل کاروں کو مسافروں سے ’’زیادہ دوستانہ رویہ‘‘ اختیار کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ بھارتی ادارے کا حکم نامہ نہیں بلکہ کوئی کھڑوس خاوند اپنی خوب صورت بیوی کو خاندان کی کسی تقریب میں لے جاتے ہوئے پابند کر رہا ہے،’’سُن ری! زیادہ بتیسی مت نکالیو، اور خالو جمیل کو تو دیکھیو بھی مت، مَردوں کا سامنا ہو تو بس سلام علیکم سلام علیکم کہہ کر نکل لیجو۔‘‘
اس ہدایت کا جواز بتایا گیا ہے کہ ’’امریکا میں نائن الیون حملے میں سیکیوریٹی اہل کار مسافر کے دوستانہ رویے سے متاثر ہوکر اُس پر اعتماد کر بیٹھا تھا۔‘‘ پھر تو سیکیوریٹی اہل کاروں سے زیادہ مسافروں کو رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔
اگر کسی مسافر نے بھارتی ایئرپورٹ پر دوستانہ رویے کا مظاہرہ کردیا تو ممکن ہے مشکوک قرار دے کر اسے ’’دھڑدبوچا‘‘ جائے، چناں چہ ہم بھارتی ہوائی اڈوں کا رُخ کرنے والے مسافروں کو مشورہ دیں گے کہ وہ ہوائی اڈے کی حدود میں قدم رکھتے ہی اپنے چہرے پر کرختگی اور درشتی لے آئیں، یعنی بالکل ایسی شکل بنالیں جیسی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے نریندری مودی کی ہوجاتی ہے، اپنی شکل کے ساتھ یہ سلوک دل گوارا تو نہیں کرے گا، لیکن مجبوری میں دل پر پتھر رکھ کر ایسا کرنا پڑے گا۔
مسافر رویہ بھی دوستانہ کے بہ جائے معاندانہ رکھیں، اپنی اور اپنے سامان کی چیکنگ کے دوران جس حد تک ممکن ہو بدتمیزی کا مظاہرہ کریں، سوٹ کیس کاؤنٹر پر رکھنے کے بہ جائے سیکیوریٹی اہل کار کے سر پر ٹکا دیں، وہ اعتراض کرے تو ایک دو ٹکا دیں، ساری تمیز تہذیب ایک طرف رکھ کر ممبئی کی ٹپوری بولی میں بات کریں، جیسے ’’اپُن کو جلدی جانے کا، زیادہ ٹائم نئیں لگانے کا، کیا بولا‘‘،’’کیا بکسے میں گھس رے لائے ماموں۔‘‘ اگر اس رویے اور لب و لہجے پر سیکیوریٹی اہل کار اعتراض کریں تو مسافر کو انھیں تُرنت جواب دینا چاہیے،’’بھیا! دوستانہ رویہ آپ کو شک میں ڈال دیتا، اس لیے ستانے اور تپانے والا رویہ اپنایا۔‘‘
The post مُسکرانا بھول جایا کرو! appeared first on ایکسپریس اردو.