سن 2010 ء میں شائع ہونے والے امریکی رسالے’’ٹائم میگزین‘‘ میں دنیا بھرکو متاثر کرنے والے جن 100 لوگوں کی فہرست شائع ہوئی، اس میں ٹیمپل گرینڈن کا نام بھی شامل تھا۔
آپ کسی بھی سرچ انجن پر کوئی ایک لفظ لکھتے ہیں تو ایک سیکنڈ میں اس لفظ سے متعلق ساری معلومات سامنے آجاتی ہیں، ٹیمپل گرینڈن کا دماغ بالکل اِسی طرح کام کرتا ہے۔ تکلیفوں بھرے بچپن اور مصائب سے پُر نوجوانی کے بعد کالج جا کر ایک دن ٹیمپل کو پتا چلا کہ اس کا دماغ دوسروں سے مختلف ہے۔ سب لوگ لفظوں سے سیکھتے ہیں لیکن ٹیمپل تصویروں سے سیکھتی تھی۔ اسی حیران کن دماغ نے اس کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھا، اسے لوگوں کے مذاق کا نشانہ بننا پڑا اور اسی دماغ کے مثبت استعمال کی وجہ سے اس کانام 100 بہترین لوگوں میں آیا ہے۔
دنیا میں جب بھی آٹزم کی بات ہوگی ٹیمپل گرینڈن کا نام ضرور لیا جائے گا۔ ٹیمپل ایک انسائیکلو پیڈیا کے طور پر صدیوں تک زندہ رہے گی۔ وہ بچی جو منہ سے لفظ نہیں نکال سکتی تھی آج وہ دنیا کی مصروف ترین سپیکر ہے۔ ٹیمپل کالریڈو یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں، جانوروں پر اور آٹزم پر دنیا بھر میں لیکچر دیتی ہیں۔ اس دنیا میں زیادہ تر معلومات کتابی ہیں۔ زندہ ، عملی تجرباتی علم جو سامنے ثبوت بن کر کھڑا ہو وہ بہت کم یاب ہے۔
عصر حاضر میں ٹیمپل گرینڈن ایسے ہی علم کی ایک مثال ہیں۔ ٹیمپل ایک ایسا پارس ہیں جو ہزاروں، لاکھوں والدین،بچوں کے لئے مشعل راہ اور جانوروں کے لئے نجات دہندہ بنیں۔ ان کے ایک لیکچر کو سننے کے لئے لوگوں کا جم غفیر ہوتا ہے، لوگ اپنے بچوں کے مسائل کا حل اُن سے پوچھنے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود ان سب مسائل سے لڑ کر یہاں تک پہنچی ہیں۔ ٹیمپل کو سننا ،اُن سے ملنا، اُن کے ساتھ کام کرنا لوگوں کے لئے ایک یاد گار تجربہ بن جاتا ہے۔ اگرچہ ٹیمپل کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے اس کے باوجود ان کا علم کتابی نہیں بلکہ الہامی ہے۔ ان کے پاس لوگوں کے ان سوالوں کے جواب ہوتے ہیں جو کسی کتاب میں ڈھونڈے سے نہیں مل سکتے خواہ وہ بچوں سے متعلق ہوں یا جانوروں سے متعلق۔
متعدد والدین نے کہا کہ ہمارے لئے ٹیمپل سے بات کرنے کے بعد اُن کی زندگی کو جاننے کے بعد، اپنے ذہنی معذور بچوں کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ سن2010ء میں HBO ٹی وی چینل نے ٹیمپل گرینڈن کی زندگی پر ایک فلم بنائی جو حقائق پر مبنی تھی۔ اگر ہر معاشرہ ایسی فلمیں ہر ذہنی معذوری پر بنائے تو بہت آسانی ہوجائے اور مختلف دماغ کے لوگ بھی ایسے ہی قبولیت حاصل کرلیں گے جیسے وھیل چئیر، سفید چھڑی، آلہ سماعت یا بیساکھی استعمال کرنے والے لوگوں کو حاصل ہے۔
اس فلم کے بارے میں ٹیمپل کا کہنا تھا کہ فلم دیکھتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے میرا ماضی گھومتا رہا۔ٹیمپل پر بننے والی فلم اس کی حقیقی زندگی کی کہانی ہے۔ اس کا ہرسین اور ہر ڈائیلاگ بہت جاندار اور بامعنی ہے۔ یہ فلم دیکھ کر نارمل لوگوں کے ابنارمل اور ڈس ایبل لوگوں کے ایبل ہونے کا احساس ہوتا ہے۔اس میں ٹیمپل کے الفاظ کی کمی اور دماغی بصارت کو بہت خوبصورتی سے اجاگر کیاگیا ہے۔ کیسے اس کا ذہن ’’سوکا لڈ‘‘ نارمل لوگوں سے کہیں زیادہ گہرائی میں جا کر جانوروں کی نفسیات اور تکلیف کو سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ کی لائیو سٹاک انڈسٹری میں ٹیمپل کے ایجاد کردہ کنوئیر بہت کامیاب ہیں۔ یہ ایک قسم کی گولائی میں چلنے والے دوہرے ٹریک ہیں جن پر جانور آسانی سے چلتے ہوئے بغیر دھکم پیل کے ذبیحہ خانے تک جاتے ہیں۔ اپنی اس ایجاد پر ٹیمپل کو ان گنت ایوارڈ مل چکے ہیں۔
فلم میںحواس خمسہ کے تکلیف دہ مسائل کی عکاسی بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ عوام الناس کو آٹزم کا شکارلوگوں کے حواس خمسہ کی حساسیت اس موضوع پر لکھے ہوئے مضامین پڑھ کر اتنی اچھی طرح سے سمجھ نہیں آسکتی جو اس فلم کو دیکھ کر آتی ہے۔ فلم کے پہلے منظر ہی میں جہاز سے اترنے والے مسافرآرام سے اتر رہے ہیں لیکن ٹیمپل کے لئے جہاز کے پنکھے کی آواز ناقابل برداشت ہے۔
گھر میں کمرے کے پنکھے کی آواز،کھانے کی میز پر برتنوں کی اور سامنے پڑے ایکویرئیم میں پانی گرنے کی بے ضرر آوازوں کو وہ لاشعوری طورپرمحسوس کرتی دکھائی جاتی ہے، پھر اس کی آنٹی این جب کاغذ پر لکھتی ہے کہ ’’یہ ٹیمپل کا کمرہ ہے‘‘ تو پنسل سے کاغذ پر لکھے جانے کی آواز اس کی سماعت کو بہت چیختی ہوئی محسوس ہوتی ہے جب اس کی ماں فون پر اس کی آنٹی کو بتاتی ہیں کہ وہ اس کی کاٹن کی پرانی فراک استری کرکے صبح پارسل کررہی ہیں تو یہ ٹیمپل کی دوسرے آٹسٹک لوگوں کی طرح جلد کی حساسیت کی طرف اشارہ ہے کہ اکثر وہ اپنے پرانے حتیٰ کہ گھسے پٹے کپڑوں کو نئے کپڑوں پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے جسم کے لیے ہر کپڑا آرام دہ نہیں ہوتا اور شاید وہ لاشعوری طورپر جس طرح نئے ماحول ،نئے لوگوں سے ڈرتے ہیں اسی طرح نئے کپڑوں سے بھی ڈرتے ہیں۔
یہی ڈر اس فلم کے اکثر مناظر میں ٹیمپل کی آنکھوں میں دکھایا گیا ہے ، فارم ہاؤس میں پہلی رات آنٹی ’’ این‘‘ جب ٹیمپل کو ’گڈنائٹ ‘ کہنے کے لئے گلے لگانے لگتی ہیں تو ٹیمپل ایک دم دفاع کرتی ہیں تب آنٹی این کو یاد آتا ہے کہ نہیں! ٹیمپل کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہے۔ فلم میں شروع سے آخر تک ٹیمپل ایک ہی قسم کا کھانا( جیلی،پڈنگ) کھاتی ہے جو آٹسٹک لوگوں کے ذائقے کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔
آٹزم کا شکار لوگ کس طرح کے ذہنی عذاب سے گزرتے ہیں یہ وہ اور ان کے اہل خانہ تو جانتے ہیں لیکن معاشرہ نہیں جان پاتا، چونکہ انہیں معاشرے میں رہنا پڑتا ہے اس لئے وہ بہت تکلیف سہتے ہیں۔ٹیمپل گرینڈن اپنے انٹرویوز میں بارہا بتاچکی ہیں کہ سکول کے بچے ان کا مذاق اڑاتے تھے، برآمدے میں اس کے پیچھے ’’ٹیپ ریکارڈر‘‘ کی آوازیں لگاتے تھے کیونکہ ٹیمپل کو ایک ہی طرح کے فقرات بار بار دہرانے کی عادت تھی۔ اس لئے اس کا نام لینے کی بجائے اسے ٹیپ ریکارڈر کہا جاتا تھا اور ٹیمپل کو ایک لڑکے کے منہ پر کتاب مارنے کی وجہ سے سکول سے نکال دیا گیا تھا۔
یہی سب نئے سکول میں داخلے کے وقت ٹیمپل کی ماں دہراتی ہیں کہ کس طرح بچے ٹیمپل کا مذاق اڑاتے تھے جب اسے ان کے لطیفے اور دیگر گفتگو سمجھ نہیں آتی تھی اوروہ ٹیمپل کے تیز بولنے کی وجہ اس پر ہنستے، جب ٹیمپل اپ سیٹ ہوتی وہ اسے مزید تنگ کرتے۔ ان سب باتوں پر اس نے اپنے دفاع میں کتاب ماری اور سکول سے نکال دی گئی۔ یہ سب بتاتے ہوئے ٹیمپل کی ماںایک روایتی دکھی ماں تھی۔اس کا سنہری ڈائیلاگ’’ مختلف ہوں لیکن کمتر نہیں‘‘ آٹزم کے شکارلوگوں کے لیے ایک سلوگن بن چکا ہے۔
اس ذہنی ٹارچر کی عکاسی فلم میں جگہ جگہ کی گئی ہے کہ نا صرف بچے بلکہ استاد بھی اس کے مسائل کو سمجھنے اور اسے موقع دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ صرف ایک سائنس ٹیچر مسٹر کارلاک ٹیمپل کو سمجھ پاتا ہے اور بھر پور تعاون کرتا ہے۔ فلم میں سکول چھوڑنے کے بعد بھی وہ ٹیمپل کو اچھے مشورے دیتا رہتا ہے۔ ہر استاد کے لئے یہ فلم دیکھنا ضروری ہے کیونکہ اس میں ایک ایسا استاد دکھایا گیا ہے جس کی اندرونی بصارت کی وجہ سے ایک عام طالبہ اس طرح چمکی کہ استاد بھی ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگیا۔ ٹیمپل نے اپنے لیکچرز میں اچھے استاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بارہا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگر سائنس ٹیچر مسٹر کارلاک اس کی زندگی میں نہ آتے تو وہ آج اس مقام پر نہ ہوتی۔
ان گنت ٹی وی انٹرویوز میں ٹیمپل سے اس کی ایجاد کردہ’’سکویز مشین‘‘ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جو اس نے اپنے کالج کے زمانے میں بنائی تھی۔ فلم میں ٹیمپل کی شہرہ آفاق سکویزمشین کا بھی کافی ذکر ہے۔ جب وہ اپنی پھوپھی کے فارم پر چھٹیاں گزارنے جاتی ہی تو وہاں انھیں فرسٹریشن کا دورہ پڑتا ہے۔ انھوں نے دیکھا تھا کہ گائیوں کو فارم پر ایک خاص قسم کے لکڑی کے شکنجے میں سکون پہنچانے کے لیے تھوڑی دیر کے لئے کھڑا کیا جاتا تھا، ٹیمپل کو یہ آئیڈیا اپنے آٹسٹک دماغ کے اضطراب اور بے سکونی کو سکون پہنچانے کے لئے بہت پسند آیا۔ وہ اپنے تخلیقی ذہن کی بدولت اپنے لئے ویسی ہی مشین بناتی ہے، جو ہمیشہ اس کے اضطرابی دوروں میں اسے سکون پہنچاتی ہے۔
فلم کے آخر میں وہ وضاحت کرتی ہیں کہ جب بچے جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو مائیں انہیں ساتھ چمٹا کر تسلی دیتی ہیں لیکن آٹزم کا شکار بچے چھوئے جانا پسند نہیں کرتے لیکن انہیں اس ساتھ اور تسلی کی بہرحال ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر آٹزم کے شکار بچوں کے والدین کو یہ بتاتی ہیں کہ بچوں کا بے تجاشا آگے پیچھے جھولنا، کھڑے ہوکر گھومتے جانا یا زمین پر لیٹ کر گھومنا ان کے نروس سسٹم کو وہی ٹھہراؤ اور سکون پہنچاتا ہے جو ماں کے ساتھ چمٹنے سے دوسرے بچے حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب بتاتے ہوئے ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے بچپن کے ایسے سارے مواقع آجاتے ہیں، یہ بات اتنے بہتر طریقے سے کوئی ایسا شخص نہیں بتاسکتا تھا جوخود اس ساری اعصابی توڑ پھوڑ سے نا گزرا ہو۔
ٹیمپل گرینڈن کی فلم آٹزم کے شکار بچوں کے والدین ،ٹیچرز اور ارد گرد کے سب لوگوں کو دیکھنی چاہیے۔اس فلم کو دیکھ کر آٹزم کی جس انداز میں سمجھ آتی ہے وہ ہزار کتابیں پڑھ کر بھی نہیں آسکتی۔ فلم میں جزیات نگاری بہت کمال کی ہے، کو ئی ایک سین بھی ایسا نہیں جسے بے مقصد کہا جائے، ہر منظر اور ہر ڈائیلاگ آٹزم کے شکار لوگوں کے دماغ کا بہترین عکاس ہے۔ فلم میں ماں کا کردار بہت کم لیکن اتنا جاندار ہے کہ رلا دیتا ہے، ایک دم جذباتی لیکن مضبوط عقل مندانہ فیصلے کرنے والی ماں حقیقی زندگی میں بھی ’’مسزیوس ٹس‘‘ ایسی ہی متاثر کن خاتون ہیں۔
فلم کا ایک بہت اہم پہلو جانوروں کے لئے ٹیمپل کی سمجھ،علم،محبت اور احساس ہے۔ ٹیمپل حیران کن حد تک جانوروں کی نفسیات کو سمجھتی ہے وہ ان کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اینیمل ہسبینڈری میںڈاکٹریٹ کی اور جانوروں کے لے بہت انقلابی اقدامات کیے۔
اس فلم میں ایک نابینا لڑکی کا کردار دیکھنے والوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ جب کوئی بھی نارمل لڑکی کالج میں ٹیمپل کی روم میٹ نہیں بننا چاہتی تو ایک نابینا لڑکی اس کے ساتھ ٹھہرائی جاتی ہے۔ ان دونوں کی ذہنی کیمسٹری خوب ملتی ہے اور وہ نابینا لڑکی ایک سین میں ٹیمپل کی آواز سن کر کہتی ہے کہ اب تم پر سکون ہو ، ٹیمپل حیران ہوکر کہتی ہے کہ تمہیں کیسے پتا چلا اس نے کہا کہ ’’تمہاری آواز سے پتا چلتا ہے ، کیونکہ میں تمہیں آواز کے ذریعے دیکھتی ہوں‘‘۔ یہ ڈائیلاگ بیک وقت نابینا افراد کی محرومی اور بصیرت دونوں پر روشنی ڈالتا ہے۔آخری سین سے پہلے ٹیمپل دوبارہ نابینا دوست سے ملتی ہے اور اپنے جانوروں کے پراجیکٹ کا بتا کر کہتی ہے کہ ’’ صرف ایک تم اتنی صلاحیت رکھتی ہو کہ میری بات سمجھ سکو۔‘‘ یہ ایک طنز ہے ہما رے معاشرے کے کرتا دھرتا لوگوں کی بصارت و بصیرت پر۔
فلم کے آخر میں ٹیمپل کو آٹزم سوسائٹی کے لوگ تقریر کرنے کا کہتے ہیں ، اور پوچھتے ہیں کہ تمہارا علاج کیسے ہوا ؟ تو ٹیمپل بڑے آرام سے کہتی ہیں کہ ’’میرا علاج نہیں ہوا ،میں بس مختلف ہوں اور دنیا کو اتنی تفصیل سے دیکھتی ہوں جو تم نارمل لوگ نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
حقیقت میں ٹیمپل گرینڈن کئی دفعہ یہ کہہ چکی ہیں کہ ’’ دنیا کو مختلف دماغوں کی ضرورت ہے،اگر سارے آٹسٹک لوگ ٹھیک ہوگئے تو سلی کون ویلی(سلی کون ویلی میں دنیا کی بڑی کمپیوٹر کمپنیاں ہیں) کو لوگ کہاں سے ملیں گے۔‘‘
اس فلم کو دیکھنا اور ٹیمپل گرینڈن کوجاننا ہر نارمل اور ابنارمل دماغ کے لئے ضروری ہے تاکہ نارمل دماغ کو اپنے نارمل ہونے کے باعث بہت کچھ نہ جاننے کا علم ہوسکے اور ابنارمل لوگ خود کو کھوج سکیں کہ وہ کن بلندیوں کو چھوسکتے ہیں۔ کاش! پاکستان میں بھی کچھ ایسے دماغ ہوتے جوڈس ایبلٹیزیا مختلف ذہنی مسائل پر بامقصد فلمیں بناتے۔ ایسے اعلیٰ موضوعات پر فلمیں عوام کو جو شعور دے سکتی ہیں وہ کتابوں سے ممکن نہیں اور ویسے بھی ہمارے ملک میں ذہنی امرا ض پر کتابیں عام نہیں ہیں، انگریزی میں ایسی کتابوں کی بہتات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ انگریزی زبان کتنے فیصد عوام سمجھ سکتے ہیں؟
The post جانوروں کی طرح سوچنے والی خاتون appeared first on ایکسپریس اردو.