وجودِ کائنات کی تفہیم کو عقلِ انسانی کے احاطے میں لانے کے لئے اسے دو حصوں یعنی جان دار اور بے جان میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور پانی خدائے بزرگ و برتر کی وہ عظیم نعمت ہے، جو اس تقسیم کی لکیر کھینچتا ہے۔ کائنات میں زمین وہ واحد سیارہ ہے، جہاں زندگی پائی جاتی ہے اور اس کا سبب صرف پانی ہے۔ زمین کے علاوہ آج تک دریافت شدہ کروڑوں سیارے اور ستارے بے آب و گیاہ پا گئے ہیں۔
خالقِ کائنات نے زمین پر زندگی پروان چڑھائی تھی تو اس کے وسیع حصے پر پانی پھیلا دیا۔ زمین کا 70 فیصد حصہ پانی اور صرف 30 فیصد خشکی پر مشتمل ہے، تقریباً یہی حال ہمارے جسم کا بھی ہے، ہمارا دو تہائی جسم پانی پر مشتمل ہے، ایک عام انسان کے جسم میں 35 سے 50 لیٹر تک پانی ہوتا ہے۔ مردوں میں کل وزن کا 65 تا 70 فیصد حصہ پانی ہے جبکہ خواتین میں 65 فیصد پانی ملتا ہے۔ صرف دماغ کو ہی لیں تو اس کا 85 فیصد حصہ پانی ہے۔
امراض سے لڑنے والے ہمارے خلیے خون میں سفر کرتے ہیں اور خون بذاتِ خود 83 فیصد پانی ہے۔ ہمارے ہر جسمانی خلیے میں موجود پانی ہی سے بدن کے تمام نظام چلتے ہیں۔ لہذا یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پانی ہی زندگی ہے……لیکن بات اگر وطن عزیز کی ہو تو نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے ک ہمیں احساس تک نہیں کہ کتنی تیزی سے ہماری زندگی موت کی وادیوں میں کھچی چلی جا رہی ہے۔
خالقِ کائنات نے 796096مربع کلومیٹر پر محیط ارض پاک کو جن نعمتوں سے نوازا، ان کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ زمین کے اوپر اور اس کے اندر چھپے خزانوں کے بارے میں جان کر پرائے بھی حیراں ہیں، ان خزانوں میں سب سے اہم اور انمول چیز پانی ہے، جس کی فراوانی نے ہمیں اس کی ناقدری اور نتیجتاً آج قلت کا شکار کر دیا ہے۔ کوئی وقت تھا (سروے رپورٹ1951ء) جب ملک میں 5650 مکعب میٹر پانی فی کس دستیاب تھا، جو 49 سال بعد 2000ء میں کم ہو کر 1400مکعب میٹر اور آج یعنی 2018ء میں مختلف رپورٹس کے مطابق صرف 865 مکعب میٹر فی کس رہ چکا ہے۔
اور بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہو رہی بلکہ آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی رواں سال آنے والی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040ء تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے، کیوں کہ پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا کہنا ہے کہ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیموں کی ضرورت ہوگی۔ ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے، یعنی ہم اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور مجرمانہ غفلت کے باعث ہر سال 131.3 ملین ایکڑ فٹ پانی کی قدرتی امداد کو ضائع کر بیٹھتے ہیں۔
ایک زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان میں پانی کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ ملک میں 16 ملین ہیکٹر اراضی پر کاشت کاری ہو رہی ہے، لیکن 18ملین ہیکٹر اراضی ایسی بھی ہے، جو قابل کاشت ہونے کے باوجود کاشت کاری سے محروم ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ پانی کی عدم دستیابی ہے۔ پھر بات یہیں تک رہتی تو شائد کچھ گزارا ہو جاتا لیکن پانی کی روز بروز بڑھتی قلت قابل کاشت اراضی کو بھی بنجر بنا رہی ہے، تو جس ملک کی معیشت میں شعبہ زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس میں مذکورہ شعبہ ہی کمزور ہو جائے تو پھر اس ملک کے پاس کیا بچے گا؟
پاکستان میں مسلسل گھٹتے پانی کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک پانی کا غیرضروری بے دریغ استعمال اور دوسرا اس کو محفوظ بنانے کے لئے ذخائر کی کمی۔ لہذا بحیثیت قوم جہاں ہمیں ایک طرف پانی کے ضیاع کو روکنا ہو گا وہاں ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، لیکن افسوس صد افسوس اس معاملے میں بھی ہم نے سرمایہ کی کمی کا رونا رویا تو کبھی ملک کے بہترین مستقبل کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ہر دور میں آنے والا حکمران طبقہ اپنے نمائشی پروگرامز جبکہ اپوزیشن اپنی سیاسی موشگافیوں میں مصروف رہی۔
کئی سال تک لیت و لعل سے کام لینے کے بعد دسمبر 2005ء میں جنرل مشرف نے ملک کے لئے سب سے زیادہ قابل عمل اور فائدہ مند منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے‘‘ لیکن پھر 26 مئی 2008ء کو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے بیان دیا کہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے کالاباغ ڈیم قابل عمل نہیں رہا۔‘‘
یوں کالاباغ کہیں فائلوں میں ہی دب کر رہ گیا، جس کے بعد پھر بھاشا ڈیم کی منظوری دی گئی تو وہ بھی ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کے باعث تعطل کا شکار رہا۔ تاہم تقریباً تین ماہ قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے وہ قدم اٹھایا جو اس ملک کے حکمران کئی عشروں سے نہیں اٹھا سکے۔ ملک میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت پر آنے والی ایک رپورٹ کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر فوری شروع کی جائے اور اس سلسلے میں انہوں نے عوام سے چندے کی اپیل بھی کی۔ چیف جسٹس نے ایک فنڈ بنانے کا حکم دیا اور ’’دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ 2018‘‘ کے نام سے قائم کیے گئے بنک اکاؤنٹ میں سب سے پہلے خود دس لاکھ روپے جمع کرائے۔
گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر کے علاقہ بھاشا میں بننے والا مجوزہ ڈیم ایک کثیر المقاصد منصوبہ ہے، اس پراجیکٹ کے بنیادی مقاصد میں پانی ذخیرہ کرنا، سیلاب سے بچاؤ اور بجلی کی پیداوار شامل ہیں۔ 272 میٹر اونچا بھاشا ڈیم اس اعتبار سے دنیا کا سب سے بلند ڈیم ہو گا کہ یہ آرسی سی (Roller Compacted Concrete ) سے بنایا جائے گا۔ 25 ہزار ایکڑ (ایک مربع کلومیٹر) پر مشتمل یہ منصوبہ چلاس سے 40 کلو میٹر زیریں جانب دریائے سندھ پر تعمیر کیا جائے گا، جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 8.1 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل منصوبے سے سالانہ 18ارب یونٹ سے زائد کم لاگت اور ماحول دوست بجلی قومی نظام کو مہیا کی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم کی عمر میں مزید 35سال کا اضافہ ہوگا، کیوں کہ یہ ڈیم جس مقام پر بننے جا رہا ہے وہ 315کلومیٹر دور تربیلا ڈیم کی بالائی سطح پر واقع ہے۔
دیامیر بھاشا ڈیم سے زیریں علاقوں میں واقع پن بجلی منصوبوں سے بجلی کی پیداوار پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق موجودہ پن بجلی گھروں بشمول تربیلا، غازی بروتھا، جناح اور چشمہ سے بجلی کی سالانہ پیداوار میں 2 ارب 50 کروڑ یونٹ اضافہ ہوگا ، جبکہ داسو ، پٹن اور تھا کوٹ جیسے مستقبل کے منصوبوں سے بھی بجلی کی سالانہ پیداوار میں مزید 7 ارب 50 کروڑ یونٹ اضافہ ہو جائے گا۔ بھاشا ڈیم کے منصوبے کے آغاز پر اس کا تخمینہ 12 سو ارب روپے لگایا گیا، جو آج سرکاری اندازوں کے مطابق 1450 ارب روپے جبکہ مختلف ماہرین کے مطابق 18 سے 20 سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کی وجہ سے 30گاؤں، 22 سوگھر اور 22ہزار افراد متاثر ہوں گے، جنہیں نہ صرف معاوضہ ادا کیا جائے گا بلکہ متبادل جگہ بھی فراہم کی جائے گی۔
اگرچہ بھاشا ڈیم ورلڈ بنک کے 1967ء کے پلان میں شامل ہو چکا تھا، جس کے مطابق اسے 2010ء تک مکمل کیا جانا تھا، لیکن مختلف ادوار میں اپنوں اور غیروں کی طرف سے آڑے آنے والی رکاوٹوں کے باعث اس کی بروقت تعمیر شروع نہ ہو سکی، تاہم 17 جنوری 2006ء میں پرویز مشرف کی حکومت نے اعلان کیا کہ 2016ء تک ملک میں 5 بڑے ڈیم بنائے جائیں گے، جن میں سب سے پہلے بھاشا ڈیم بنایا جائے گا۔ ڈیم کے لئے ایک طرف ڈیزائن بنانے کا کام شروع کر دیا گیا تو دوسری طرف اراضی کے حصول کے لئے مقامی افراد کو نقل مکانی پر قائل کرتے ہوئے معاوضہ کی ادائیگی یقینی بنانے کا اعتماد دلایا گیا۔
اسی دوران 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مشرف کی ق لیگ بری طرح ہار گئی اور پیپلزپارٹی نے مسند اقتدار سنبھال لیا، لیکن پیپلزپارٹی نے اس منصوبے کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اسی سال وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایکنک سے بھاشا ڈیم کے لئے منظوری حاصل کر لی اور اس کے بعد کونسل آف کامن انٹرسٹ میں موجود تمام صوبوں کے وزرائے اعلی کی منظوری کے ساتھ ہی بھاشا ڈیم بنانے کا راستہ صاف ہو گیا۔
18 اکتوبر 2011ء کو یوسف رضا گیلانی نے بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ منصوبے کی تعمیر کے لئے تقریباً 1200 ارب کی ضرورت تھی، ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو قرض کے لئے درخواست دی گئی، جسے منظور کر کے ان بنکوں نے رقم دینے کی حامی بھر لی، لیکن جیسے ہی منصوبے پر کام شروع ہوا بھارت نے حسب معمول چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ بھارت نے ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو درخواستیں دینا شروع کر دیں کہ اس منصوبے کے لئے رقم فراہم نہ کی جائے کیونکہ یہ منصوبہ ایک ایسی جگہ پر بنایا جا رہا ہے جو کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔
بھاشا ڈیم کو رکوانے کی بھارتی کوششیں اس وقت رنگ لے آئیں جب اگست 2012ء میں ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے دی جانے والی رقم روک لی اور پاکستان سے کہا کہ بھارت لکھ کر دے دے کہ اسے اس منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں تو ہم یہ رقم جاری کر دیں گے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اسی شوروغل میں اپنی مدت پوری کرکے گھر چلی گئی اور اقتدار ن لیگ کے ہاتھ میں آ گیا۔ نواز حکومت نے بھی ڈیم کی تعمیر کے بلند و بانگ دعوے کئے، حتی کہ 2013ء میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ تک کہہ دیا کہ حکومت نے ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو رقم فراہم کرنے کے لئے راضی کر لیا ہے اور یہ بنک بھارت کی پرواہ کئے بغیر ہمیں پیسے دیں گے، لیکن ایسا ہو نہ سکا اور یوں ایک بار پھر یہ عظیم منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔
نواز شریف پانامہ کیس میں گھر چلے گئے تو شاہد خاقان عباسی وزارت عظمی کی مسند پر براجمان ہو گئے، جنہوں نے ہر طرف سے ہری جھنڈی دیکھنے کے بعد بالآخر اس منصوبے کو اپنی جیب (ریاست) سے بنانے کا فیصلہ کر لیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے پہلی بار بجٹ میں رقم مختص کی گئی، جس سے ڈیم کے لئے زمین کی خریداری، بے گھر ہونے والے افراد کی آبادی کاری اور منصوبے کے پی سی ون پر خرچ کئے گئے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد بھاشا ڈیم کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، یہ ارض پاک کی بقاء اور آئندہ آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کا سوال ہے۔ بھاشا ڈیم پاکستان کے لئے ناگزیر ہے، جس کے لئے چندہ مانگنا پڑے یا قوم کو کوئی بھی قربانی دینا پڑے، ہمیں اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ آج بڑے بڑے ماہرین بھاشا ڈیم کی تعمیر کے قومی عزم پر انگشت بدنداں ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں کی مدد کے بغیر اتنے بڑے پراجیکٹ کی تکمیل کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟
ہم ان ماہرین کے وسیع تجربے کی روشنی میں کئے جانے والے تجزیوں سے انکاری تو نہیں لیکن قوموں کا غیرمتزلزل عزم پہاڑوں میں راستے، خلاؤں کو تسخیر، دریاؤں کا رخ بدل اور ریگستانوں کو گل و گلزار بنا سکتا ہے۔ بھاشا ڈیم کے لئے قوم فخر سے چندہ بھی دے گی اور ایک بار یہ منصوبہ شروع ہو جائے تو دنیا بھر کا سرمایہ کار بھی اس طرف لپکے گا، بس ضرورت صرف اخلاص کے ساتھ پہلا قدم اٹھانے کی ہے۔
ہمارا نہری نظام اور آبی ذخائر
وطن عزیز میں پانی کے ذخائر اور اس کی ترسیل کا جائزہ لیا جائے تو 3 سو سالہ محنت اور مسلسل سرمایہ کاری کے نتیجہ میں پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم ہے، جو قیام پاکستان کے بعد قدرت کی طرف سے ہمیں تحفے میں ملا۔ لیکن افسوس ہمارا حکمران طبقہ اس تحفے کو گزشتہ 72 سال سے اپنی نااہلیوں کی بھینٹ چڑھانے میں مصروف ہے۔
پانی کے ذخائر کی بات کی جائے تو انٹرنیشنل کمیشن آن لارج ڈیمز کے مطابق 15 میٹر یا 49 فٹ اونچے ڈیم کو ہی بڑا ڈیم تصور کیا جائے گا، یوں آئی سی او ایل ڈی کی اس تعریف کی رو سے پاکستان میں 150 ڈیمز موجود ہیں۔ بنیادی طور پر پاکستان میں اس وقت پانی کے 3 بڑے ذخائر منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی صورت میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ نیلم جہلم، ورسک، باران، خانپور، ٹانڈا، راول، سملی، بخت خان، حامال جھیل، منچر جھیل، کنجھر جھیل اور چوتیاری جھیل بھی چھوٹے ذخائر کی صورت میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔
تربیلا ڈیم
1976ء میں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم دریائے سندھ پر تربیلا کے مقام پر بنایا گیا جس میں 11.62 ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کی گنجائش تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ڈیم میں پانی جمع کرنے کی گنجائش میں 24.6 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔
منگلا ڈیم
منگلا ڈیم پاکستان میں پانی کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے۔ یہ 1967ء میں دریائے جہلم پر بنایا گیا جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش 5.882 ایم اے ایف تھی۔ ریت اور مٹی کی وجہ سے اس کی گنجائش میں 13.2 فیصد کمی ہوگئی ہے اور اب یہ 4.636 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔
چشمہ بیراج
دریائے سندھ پر چشمہ بیراج کی تعمیر 1972ء میں عمل میں لائی گئی جو مجموعی طور پر 0.870 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرسکتا تھا اور اب یہ 39.3 فیصد کمی کے ساتھ 0.435 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔
پاکستان کے نہری نظام کی مالیت 20 ارب ڈالر سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن مجرمانہ غفلت کے باعث 14 بیراجوں، 6429 کلو میٹر لمبی نہروں، 31214 کلو میٹر لمبی ڈسٹری بیوٹریز اور 58 ہزار فیلڈ آؤٹ لٹس پر مشتمل یہ نظام کافی حد تک بوسیدہ ہوچکا ہے۔ اس نظام پر سوا تین ہزار کلو میٹر لمبے پشتے بھی قائم کیے گئے ہیں۔ فی الحال محکمہ آبپاشی کے تقریباً 50 ہزار مستقل اور غیر مستقل افسر و اہلکار اس نظام کی دیکھ بھال میں بالکل اسی طرح مصروف ہیں جیسے بلی دودھ اورچور تجوری کی حفاظت کرتا ہے۔ نہری نظام کے لیے مختص فنڈ کا 65 فیصد ان افسروں اور اہلکاروں کی تنخواہ دوسرا حصہ یوٹیلیٹی بلوں کی نذر ہوجاتا ہے جبکہ بچے کھچے فنڈز نہری نظام کی مرمت پر لگا دیئے جاتے ہیں۔
نظام کی بدحالی یہ ہے کہ آبیانہ لینے پر اٹھنے والے اخراجات اس کی آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔ عشر کو تو ہمارے ادارے بھول ہی چکے ہیں۔ ان کے خیال میں اس کی وصولی ہی بند کردی گئی ہے۔ 2007ء میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے عالمی بینک کے ساتھ مل کر ہمارے نہری نظام کو ’’راہ راست‘‘ پر لانے کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالر کا ایک منصوبہ شروع کیا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹس میں اس منصوبے کے تحت نہری نظام کا کچھ حصہ ٹھیک ہونے کے بعد کاشتکار کی آمدن میں 10 فیصد اضافہ، ٹیل پر پانی کی فراہمی یقینی اور سیم و تھور کے خاتمے کی نویدیں سنائیں۔ یہ منصوبہ 2007ء سے شروع ہوا، جس کے بعد شائد سرکاری فائلوں میں کہیں گم ہو گیا۔
سرمایہ بھاشا ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ نہیں بنے گا، ضرورت صرف اخلاص نیت سے پہلا قدم اٹھانے کی ہے: سابق چیئرمین واپڈا و سابق وزیر اعلی شمس الملک
دیامیربھاشا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعلی خیبرپختونخوا و سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ بدقسمتی! سے پاکستان میں موجود بھارت نواز اینٹی ڈیمز لابی کی مخالفت کے باعث جب کالاباغ ڈیم بنانے کی بھرپور مخالفت ہوئی تو اس وقت بھاشا ڈیم کی منظوری دی گئی، کیوں کہ ورلڈ بنک کے 1967ء کے پلان میں یہ دونوں (کالاباغ، بھاشا) ڈیمز شامل تھے اور اب صورت حال یہ ہے کہ چوں کہ ڈیمز ہماری بقاء کے لئے ناگزیر ہیں تو چلو! کالاباغ نہیں تو بھاشا ڈیم ہی سہی، لیکن یہ اب بن جانا چاہیے اور انشاء اللہ مجھے امید ہے یہ اب شروع ہو جائے گا اور بن بھی جائے گا، حالاں کہ واپڈا کے پروگرام کے مطابق کالاباغ ڈیم 1986ء اور بھاشا ڈیم 2010ء تک بن جانا چاہیے تھا۔
دیامیربھاشا ڈیم میں کچھ بھی متنازع نہیں، دیامیر پاکستان کا حصہ ہے اور جہاں تک انجینئرنگ پوائنٹ آف ویو کی بات ہے تو ڈیمز کے لئے جگہ دیکھنے سے قبل پوری سٹڈی کی جاتی ہے اور بھاشا ڈیم کے لئے یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوا تھا کہ یہاں ڈیم بن سکتا ہے، لہذا ڈیم کے لئے بھاشا کا محل وقوع موزوں ترین ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھئی! اگر ڈیم بننے سے کوئی ملک تباہ ہوتا تو چین تو اب تک کب کا تباہ ہو جاتا، کیوں کہ اس نے تو 22 ہزار ڈیم بنا لئے ہیں، ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو دیکھ لیں وہ بھی ساڑھے چار ہزار ڈیم بنا چکا ہے تو کیا یہ ملک تنزلی کی طرف جا رہے ہیں؟ نہیں تو پھر ہمیں کیا مسئلہ ہے، ہم کیوں اپنے دشمن خود ہی بنے ہوئے ہیں؟ رہی بات بھارت کی مخالفت کے باعث ہمیں ورلڈ بنک اور ایشیاء بنک سے قرضہ نہ ملنے کی تو ایسا صرف بھارت ہی نہیں بلکہ ہماری اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے بھی ممکن ہوا۔
پاکستان میں سرگرم اینٹی ڈیم لابیز کی وجہ سے ہم ورلڈ بنک کے سامنے اپنا کیس مضبوط نہیں بنا سکے۔ پھر اگر آپ متنازع جگہ کی بات کرتے ہیں تو سب سے زیادہ متنازع ڈیم تو منگلا ڈیم تھا، اگر وہ بن گیا تو کالاباغ یا بھاشا ڈیم کیوں نہیں بن سکتا؟ بھاشا ڈیم کی تعمیری لاگت پر بات کرتے ہوئے سابق چیئرمین واپڈا نے کہا کہ میرے خیال میں ہمیں بھاشا ڈیم کے لئے 10 سے 14 سو ارب روپے درکار ہیں، کیوں کہ یہ ایک روز میں تو بنے گا نہیں بلکہ بنتے بنتے 10 سے 12 سال لگ جائیں گے اور اس دوران قیمتیں بھی بڑھیں گی، تاہم چندوں پر ڈیم بنانے کے طعنے دینے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسے بڑے پراجیکٹ خلوص نیت کے ساتھ صرف پہلے قدم کے متقاضی ہوتے ہیں۔
جیسے ہی آپ نے پہلا قدم اٹھایا تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا بھر کا سرمایہ کار اس طرف کھچا چلا آئے گا۔ اس کی ایک مثال میں آپ کو یوں دیتا ہوں کہ ملک بھر میں قائم واپڈا کے تمام پاور ہاؤسز کے لئے حکومت پاکستان نے کبھی ایک روپیہ بھی نہیں دیا، یہ سب کچھ واپڈا نے خود کیا، جب کوئی پاور ہاؤس بننے جا رہا ہوتا ہے تو 40 فیصد پراجیکٹ کاسٹ اور 40 فیصد اس میں سول ورک ہوتا ہے، پھر ٹینڈر کیا جاتا ہے، جس کے بعد ٹینڈر حاصل کرنے والی کامیاب کمپنی سے ہی پراجیکٹ کے لئے سامان منگوایا جاتا ہے اور جب یہ سلسلہ ایک بار شروع ہوتا ہے تو دنیا بھر کے سرمایہ کار اس میں دلچسپی لیتے ہیں، کیوں کہ بجلی و پانی جیسے منصوبے کبھی ڈوبا نہیں کرتے۔ لہذا میرے خیال میں جب بھاشا ڈیم شروع ہو گا تو لوگ آپ کے پاس ضرور آئیں گے۔ پھر ڈیم کوئی ایک روز میں تو نہیں بننا، اسے بنتے 10 سے 12 سال لگیں تو اس دوران ہمارے پاس سول ورک کے لئے پیسے بھی انشاء اللہ بن جائیں گے۔ اچھا! اس میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ آپ بھاشا ڈیم کے لئے ایک کمپنی بنا دیں۔
جس کے شیئرز فروخت کرکے اچھی خاصی رقم اکٹھی کی جا سکتی ہے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے ہونے والے فوائد کے بارے میں بتاتے ہوئے شمس الملک نے کہا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے بجلی کا وہ یونٹ جو ہمیں 15 سے 20 روپے میں پڑتا ہے، وہ ملک کو 5 سے6 روپے میں ملے گا، اس ڈیم سے تقریباً 4 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ 2010ء میں آنے والا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا، جس کی تباہ کاریوں کے نتائج سے ہم آج تک نہیں نکل پائے، لیکن سٹڈیز ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ اگر اس وقت بھاشا ڈیم ہوتا تو یہ سیلاب ایک معمولی سیلاب سے کچھ بھی زیادہ نہ ہوتا، ماحولیات پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، پانی کی کمی کے مسئلہ پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے، ہر سال اربوں روپے کا ضائع ہونے والا پانی بچایا جا سکتا ہے، زیرزمین پانی کی ہر روز گھٹتی سطح کو بھی کسی حد تک استحکام ملے گا۔
جنرل مشرف کے دور میں آپ ان کے بہت قریب تھے اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ڈیمز بنانے کے لئے بھرپور عزم کا اظہار کیا تھا، تاہم وہ مضبوط حکمران ہونے کے باوجود ایسا کیوں نہ کر سکے؟ کے جواب میں شمس الملک گویا ہوئے ’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے خیال میں پاکستان میں آج تک جتنے بھی حکمران آئے ان میں سے میں صرف دو ہی کو مضبوط حکمران سمجھتا ہوں، ایک ایوب اور دوسرے بھٹو، باقی کوئی فوجی ہو یا سویلین کبھی بھی مضبوط ترین حکمران نہیں رہا، کیوں کہ وہ مصلحتوں کا شکار رہے۔ رہی بات مشرف دور کی تو اس وقت ڈیمز بنانے کے لئے ایک اعلی سطحی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کی ایک میٹنگ میں جنرل مشرف نے مجھ سے پوچھا کہ کالاباغ یا بھاشا ڈیم میں سے ہمیں کس کو ترجیح دینی چاہیے تو میں نے انہیں جواب دیا کہ یہ سوال اگر آپ مجھ سے آج سے 10 سال قبل پوچھتے تو شائد میں کوئی جواب دے دیتا، تاہم آج یہ دونوں ہمارے لئے ناگزیر بن چکے ہیں۔
کیوں کہ ہم پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔‘‘ بھاشا ڈیم کی سی پیک میں شمولیت پر چین کی کڑی شرائط کی افواہوں پر سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا کا کہنا تھا’’ میں یہ ماننے کے لئے ہی تیار نہیں کہ ایک کام پاکستان کے حق میں ہو اور چین اس میں ہماری مدد نہ کرے، کیوں کہ چین سے ہماری دوستی کوئی دکھاوا یا روایتی نہیں۔ چین ہمارا وہ دوست ملک ہے، جو اپنوں کو بھلاتا نہیں، کسی زمانے میں جب پوری دنیا نے چین کے لئے اپنے دروازے بند کئے تو صرف پاکستان وہ واحد ملک تھا، جس نے چین کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے اور چین کو اس بات کا بڑی اچھی طرح ادراک ہے، وہ ہمیں کبھی تنہا یا مشکل میں نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
The post دیامیر بھاشا ڈیم؛ آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت appeared first on ایکسپریس اردو.