امریکا کے صدر ڈونلڈٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ کے خطوط نے انھیں کم جونگ کی محبت میں مبتلا کردیا ہے۔
ٹرمپ صاحب نے یقیناً مذاق فرمایا ہے، لیکن دونوں شخصیات میں محبت کا ہوجانا بعیدازقیاس نہیں بل کہ اس کے پورے امکانات موجود ہیں، کیوں کہ محبت طبعیت مل جانے کا نام ہے اور ان دونوں حضرات کی طبعیتیں اور خصلتیں ایک سی ہی ہیں۔ دونوں ہی کے تیور دنیا کے بارے میں ’’مٹا‘‘ دے ٹھکانے لگادے اسے، والے ہیں، اور اتنے دونوں حضرات محبت بھرے ہیں کہ موقع ملنے پر محبت گولیوں سے بونے اور زمیں کا چہرہ خون سے دھونے میں ذرا دیر نہیں کریں گے۔ سو محبت تو بنتی ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کو کس طرح کے پریم پتر لکھیں گے، شاید اس طرح کے:
’’پیارے ٹرمپو!
کیسے ہو، کیا حال ہے۔ کبھی کبھی مِرے دل میں خیال آتا ہے، کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے۔۔۔۔تو اب سے پہلے جنگل میں بس رہا تھا کہیں، شہر میں تجھ کو بسایا گیا ہے میرے لیے۔ اگرچہ مجھ میں اور تم میں چہرے مہرے اور رنگ سے ہیئراسٹائل تک بہ ظاہر بہت فرق ہے لیکن پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ ہم دونوں بھائی ہیں جو کنبھ کے میلے میں بچھڑ گئے تھے، کیوں کہ ہم دونوں مزاجاً ’’میلے‘‘ ہیں۔ بدقسمتی سے میرے ابو جی اور بے بے بھی دنیا میں نہیں رہیں اور تم بھی ماں باپ سے محروم ہوچکے ہو، ورنہ حقیقت کُھل جاتی۔
حقیقت کچھ بھی ہو تم مجھے بھائی ہی سمجھو، بھائی چارہ قائم کرو بھائی کو چارہ بنانے کی دھمکیاں مت دیا کرو۔۔۔اپنے ’’بھیاؤں‘‘ سے ایسا بھی کوئی کرتا ہے۔
تمھارا کم جونگ‘‘
’’جانی!
تمھارے خط نے مجھے تمھاری محبت میں مبتلا کردیا۔ اتنے پیار سے تو میری بیگم نے کبھی مجھ سے بات نہیں کی، وہ تو مجھ سے ناراض ہی رہتی ہے۔ جہاں تک بھائی ہونے کا تعلق ہے، ممکن ہے تمھاری بات درست ہو، لیکن میں کسی بھائی بندی کا قائل نہیں، ’’بندی‘‘ کی حد تک تو میرے کارناموں کی اطلاعات تم تک پہنچ چکی ہوں گی، لیکن بھائی ہونے کا مسئلہ یہ ہے کہ ’’دوست یاں کم ہیں اور بھائی بہت۔‘‘ اگر مزاج، اوصاف اور خصوصیات کو پیمانہ بنایا جائے تو دنیا میرے بھائیوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ اپنا نریندرمودی، میری ’’کاربن کاپی‘‘ ہے، لندن میں مقیم ایک پاکستانی سیاست داں مجھے اپنا سایہ لگتا ہے، اور کتنے نام گنواؤں۔ ارے فکر کیوں کرتے پَپّو! جسے تم دھمکی سمجھتے ہو تو میرا پیار ہے۔ ہم امریکیوں کی دھمکی سے نہیں تھپکی سے ڈرا کرو پیارے۔
تمھارا ڈونلڈٹرمپ‘‘
’’میرے چھیل چھبیلے ٹرمپو!
محبت کے اعتراف کا شکریہ۔ یعنی انگریزی محاورے کے مطابق تم میری محبت میں گر گئے ہو۔ خیر یہ تو میں جانتا تھا کہ تم میں ہر قسم کی گراوٹ ہے اور گرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہو، لیکن یہ پتا نہ تھا کہ میری محبت میں بھی گر جاؤ گے۔ تمھارے اعترافِ محبت نے میرے دل میں تمھارا پیار اور بڑھا دیا اور دل سے بے اختیار نکلا۔۔۔۔’’ایک پَپّی اِدھر ایک پَپّی اِدھر۔‘‘ چلو اب اس محبت کی کہانی کو آگے بڑھائیں، فرہاد کی پیروی میں ایک دوسرے کے لیے خون کی نہریں بہائیں، رانجھا نے عشق میں بھینسیں چَرائی تھیں ہم دونوں دنیا بھر سے بھینسیں چُرائیں اور دودھ بیچ کر مال بنائیں، مجنوں صحرا میں نکل گیا تھا، ہم دونوں مجنوں آبادیوں کو صحرا بنائیں۔ چلو یہ سب تو ہوتا رہے گا، مگر جلد میں تمھیں میزائل پر گل دستہ باندھ کر بھیجوں گا، تمھاری سال گرہ پر بم کا کیک پیش کروں گا، اور شدت جذبات کا تقاضا ہوا تو ایٹم بموں کی موم بتیاں بھی روشن کروں گا۔
تمھارا زیادہ اپنا کَم۔۔۔کِم‘‘
’’کِمو!
ہٹ پگلے، ہر بات کہنے کی تھوڑی ہوتی ہے۔ تو پھر یہ طے ہے کہ لوگ محبت میں خود کو برباد کرتے ہیں ہم اپنے پیار میں دنیا کو برباد کردیں گے، اور پھر خالی کرۂ ارض پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گاتے پھریں گے:
ہم چھوٹے موٹے لڑکوں نے کیا کام کیے ہیں بڑے بڑے
تمھارا ٹرمپو‘‘
The post ڈونلڈ ٹرمپ اور کِم جونگ کے پریم پتر appeared first on ایکسپریس اردو.