چوری کرنا یقینا ایک برا کام ہے اور جرم بھی، لیکن بدقسمتی سے بہت سے دوسرے جرائم کی طرح یہ فعل بد انسانی تاریخ کے ہر معاشرے میں قدیم عرصے سے انجام دیا جا رہا ہے۔
چوروں کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ تو واقعی کسی انتہائی مجبوری کی وجہ سے اس جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں جبکہ چند افراد اس کو باقاعدہ پیشے کے طور پر اپناتے ہیں۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ کئی چور رات کی تنہائی میں چھپ کر چپکے سے اپنا ہنر آزماتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو دن دہاڑے دیدہ دلیری سے گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر لوگ محض اپنی تفریح طبع کے لیے بھی اس فن کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ یہاں تک کہ ایک نفسیاتی بیماری ایسی بھی ہے کہ جس میں مبتلا شخص امیر ہونے کے باوجود چھوٹی چھوٹی کم وقعت کی اشیاء چرا کر ذہنی تسکین حاصل کرتا ہے۔ البتہ انگریزی ادب میں ایک ایسے نابغۂ روزگار چور نک ویلوٹ کی چوریوں پر مبنی فکشن کہانیوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو اپنے گاہکوں کے لیے بھاری معاوضے پر مادّی لحاظ سے بے وقعت چیزیں چرایا کرتا تھا۔
چوروں اور ڈاکوؤں کا ہدف عام طور پر قیمتی چیزیں مثلاً کاریں، موٹر سائیکل، کمپیوٹرز، آرٹ کے شاہکار، نقدی اور زیورات وغیرہ چرانا ہوتا ہے۔ لیکن گھر کے لان اور برفانی گلیشیز چرانے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ زیر نظر مضمون میں چند ایسی ہی عجیب و غریب چیزوں کی چوری کے بارے میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔
-1 پنیر کی چوری :
پنیر ایک فائدہ مند غذا ہے۔ دنیا بھر میں پنیر کھانے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ لوگ صبح ناشتے میں یا عصرانے کے ہلکے پھلکے کھانے کے وقت سلائس پر پنیر لگا کر کھانا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی یہ دیگر طریقوں سے کھانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن 2017ء میں جرمنی کے علاقے ’’بیڈہرسفیلڈ‘‘ (Bad Hersfeld)، میں جو اپنے معدنی پانی کے چشموں اور تہواروں کی وجہ سے مشہور ہے، چوری کی ایک عجیب و دلچسپ واردات ہوئی۔ پنیر کے ایک بہت زیادہ پسند کیے جانے والے معروف برینڈ کے کارٹنز سے لدے ہوئے ایک ٹرالر میں سے پنیر کے 6,875 جارز جن کی مالیت 18,000 امریکی ڈالرز تھی، چرا لیے گئے۔ چوری ہونے والے اس پنیر کا وزن تقریباً 5 ٹن بنتا ہے۔ چور شائد پنیر کھانے کا کوئی بہت ہی بڑا شوقین تھا۔
-2 پل کی چوری :
چونک گئے نا ؟ پر کہاوت مشہور ہے کہ ’’اگر آپ نے کوئی بڑی چیز چوری کرنی ہے تو یوں ظاہر کریں کہ جیسے سرکار نے آپ کو اس چیز کو اس کی جگہ سے ہٹانے کا ٹھیکہ دیا کرتا ہے۔ اسی پے من و عن عمل کرتے ہوئے ’’جمہوریہ چیک‘‘ (Czech Republic) میں لوہے کے سکریپ کا کاروبار کرنے والے ایک گروہ نے اس کہاوت کو سچ کر دکھایا۔ 2012ء میںاس شاطر گروہ کے ایک بدمعاش نے مقامی افراد کے سامنے اپنے آپ کو باقاعدہ ایک انجینئر ظاہر کرتے ہوئے جعلی سرکاری دستاویزات دکھائیں، جن کے مطابق وہاں نزدیکی نہر پر واقع پل کو ہٹا کر اس جگہ پر سائیکل چلانے والوں کے لیے ایک نیا راستہ بنائے جانے کا سرکاری منصوبہ تھا اور اس کے لیے نئے ڈیزائن کا پل تعمیر ہونا تھا۔ مقامی افراد کے لیے گو یہ اچنبھے کی بات تھی تاہم انہیں تجسس آمیز مسرت بھی تھی کہ دیکھیں اب وہاں کیسا نیا پل تعمیر کیا جاتا ہے۔ بدمعاش گروہ کے اراکین نے 10 ٹن وزنی اس پل کو ٹکڑوں میں کاٹ کاٹ کر توڑا اور پھر اسے مقامی مارکیٹ میں ہی سکریپ میں بیچ ڈالا اور یوں چوری اور دیدہ دلیری کی مثال قائم کردی۔
-3 انسانی پاؤں کے پنجوں کی چوری :
اہل مغرب بھی عجیب وغریب کام کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔کیا کبھی آپ نے ان نمائشوں کے متعلق سنا ہے جن میں انسانوں یا جانوروں کی حنوط شدہ لاشوں کی نمائش کی جاتی ہے؟ ان نمائشوں کو ’’ٹریولنگ باڈی ورلڈز ایگزیبٹ‘‘ (Travelling Body Worlds Exhibit) کہا جاتا ہے۔ گزشتہ موسم بہار میں ’’آکلینڈ‘‘ (Auckland) میں منعقد ہونے والی ایک ایسی ہی نمائش کو دیکھنے کے لیے آنے والے نیوزی لینڈ کے ایک باشندے نے سوچا کہ اسے اس نمائش کی یادگار کے طور پر کوئی ’’سوینئر‘‘ (Souvenir) اپنے وطن ساتھ لے کر جانا چاہیے۔ سو، اس نے نمائش میں پیش کی جانے والی ایک حنوط شدہ انسانی نعش کے پاؤں کے دونوں پنجے چرا لیے تاکہ واپس وطن جا کر اپنے دوستوں، عزیزوں کو فخریہ طور پر دکھا سکے۔ پنجوں کی اس جوڑی کی قیمت تقریباً 5,500 ڈالرز تھی۔ تاہم یہ چوری پکڑی گئی اور پنجوں کی جوڑی نمائش کی انتظامیہ کو واپس کردی گئی۔
-4 گلیشیر کی چوری :
براعظم جنوبی امریکہ کے انتہائی جنوب میں ایک علاقہ ’’پیٹاگونیا‘‘ (Patagonia) واقع ہے جس پر ارجنٹائن اور چلی کا مشترکہ کنٹرول ہے۔ اس علاقے میں موجود گلیشیرز سیاحوں کے لیے خاص دلچسپی کا باعث ہیں۔ گو دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں یہاں بھی اپنا اثر دکھا رہی ہیں اور یہ گلیشیرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں تاہم یہ بات یقینی ہے کہ کبھی کسی نے ان کو چرانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا۔ لیکن 2012ء میں ’’چلی‘‘ (Chile) کے ایک ’’ذہین‘‘ کاروباری شخص نے اپنے ’’ریفریجریٹر ٹرک‘‘ سے ’’مسلح‘‘ ہوکر یہ کام کر گزرنے کی ٹھانی تاکہ اس سے کاروباری نفع حاصل کرسکے۔ اس نے ’’پیٹا گونیا‘‘ کے ’’برنارڈو او ہیگنز‘‘ (Bernardo O’ Higgins) نیشنل پارک کے اندر سے 5 ٹن برف غیر قانونی طور پر اکٹھی کی اس کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ برف ’’آئس کیوبز‘‘ Ice Cubes (برف کے ٹکڑوں) کی شکل میں شراب خانوں کو فروخت کرکے دولت کمائے گا۔ کیا آپ مغرب کے اس ’شیخ چلی‘ کے اس کاروباری منصوبے کی داد نہیں دیں گے؟
-5 پنیر کی ایک اور چوری :
جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ پنیر بہت سے لوگوں کا بہت پسندیدہ ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے اس کی چوری کے واقعات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ سوال البتہ یہ ہے کہ کوئی زیادہ سے زیادہ کتنا پنیر کھاسکتا ہے؟ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پنیر استعمال کرنے والے امریکہ کی ریاست ’’وسکونسن‘‘ (Wisconsin) کے علاقے ’’گرین بے‘‘ (Green Bay) سے اس ریاست کے ایک اہم شہر ’’میلوؤکی‘‘ (Milwaukee) کے درمیان 130 میل کی مسافت ہے۔ 2017ء میں اس روٹ پر ایک ٹرک چلا جارہا تھا، جس پر 20,000 پاؤنڈ پنیر کا اسٹاک لدا ہوا تھا۔ اس پنیر کی مالیت تقریباً 46,000 ڈالرز تھی۔ دوران سفر ٹرک ڈرائیور نے ٹرک کی سروس کروانے کے لیے اسے سڑک کی ایک سائڈ پر روک دیا۔ ٹرک کا الگ ہوجانے والا ڈرائیور والا اگلا حصہ (کیبن) ٹرک سے الگ کرکے وہ اسے سروس کروانے کے لیے لے گیا اور ٹرک کا پچھلا سرد خانے والا حصہ جس میں پنیر لوڈ تھا، اس نے سڑک کنارے ہی کھڑا رہنے دیا۔ جب وہ واپس آیا تو معلوم ہوا کہ ٹرک کا ٹرالی نما پچھلا سرد خانہ پورے کا پورا غائب ہوچکا تھا۔ ظاہر ہے بے چارہ پنیر چور اتنا زیادہ پنیر اپنے گھر کے فرج میں تو نہیں رکھ سکتا تھا نا ؟
6۔ دماغ کی چوری :
دنیا کے مشہور سائنس دان آئن سٹائن سے کون ہے جو واقف نہیں۔ بی بی سی کے مطابق آئن سٹائن کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر ’’تھامس ہاروے‘‘ (Thomas Harvey) نے اس کا دماغ نکال کر اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا۔ جب آئن سٹائن کے بیٹے کو اس صورتحال کا علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوا۔ لیکن ڈاکٹر تھامس نے اسے یہ کہہ کر بالآخر قائل کر ہی لیا کہ اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے تاکہ وہ آئن سٹائن جیسے عظیم سائنس دان کے دماغ پر تحقیق کے ذریعے یہ پتا لگاسکے کہ اس کے اور عام آدمی کے دماغ میں کیا فرق ہے ؟ جس کے باعث وہ باقی لوگوں کے مقابلے میں اتنا ذہین تھا۔ آئن سٹائن کا دماغ ڈاکٹر تھامس کے پاس برسوں شیشے کے ایک مرتبان میں بند ، ایک کولر میں پڑا رہا۔
اب امریکہ میں ’’فلاڈیلفیا‘‘ (Philadephia) کے ’’مٹرمیوزیم‘‘ (Mutter Museum) دو میں سے وہ ایک جگہ ہے جہاں آئن سٹائن کے دماغ کے حصے رکھے ہوئے ہیں۔
-7 لان کی چوری :
جن لوگوں کے پاس گھر ہو، جگہ بھی وافر ہو اور انھیں شوق بھی ہو تو وہ گھر کے ساتھ لان بنانے اور اس کو خوبصورت گھاس، مختلف رنگوں کے پھولوں کے پودوں، پھلواریوں اور درختوں سے سجا کر اپنے ذوق کی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔البتہ دفتر سے یا بیرون شہر چھٹیاں گزار کر گھر واپسی پر اپنے لان میں کوئی غیر معمولی چیز پڑی ہوئی دیکھنا، پودوں کی کیاریوں کو ٹوٹا پھوٹا دیکھنا یا پھر گھاس کی روشوں کو مسّلا ہوا پانا ناخوشگوار اور پریشان کن ہی سہی، لیکن اگر پورے کا پورا لان ہی غائب ہو تو پھر آپ کی کیا حالت ہوگی؟ اس صورتحال کا سامنا 2011ء میں کینیڈا کے صوبے ’’البرٹا‘‘ (Alberta) کی رہنے والی ایک خاتون کو ہوا۔ وہ خاتون جب اپنی سالانہ چھٹیاں شہر سے باہر ایک تفریحی مقام پر گزار کر واپس اپنے گھر لوٹیں تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے گھر کا لان غائب تھا اور اب وہاں محض مٹی کے ڈھیر موجود تھے۔ تفتیش کے نتیجے میں آخر کار ’’چور‘‘ پکڑا گیا اور اس نے اپنے ’’جرم‘‘ کا اعتراف بھی کرلیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ چور درحقیقت ایک پیشہ ور فنکار تھا جو معاوضے پر لوگوں کے لان کی، ان کی ہدایت کے مطابق آرائش و زیبائش کرتا تھا۔ اس فنکار کا کہنا تھا کہ کسی سنکی آدمی نے اسے فون پر پتا سمجھایا اور ہدایت دی کہ وہ آکر اس کے لان کو مٹی کے ڈھیر والی شکل کی سجاوٹ سے مزین کردے۔ اس فنکار کے مطابق لوگ اسے عجیب عجیب طرح سے اپنے لان کا ڈیزائن بنانے کے آرڈر دیتے رہتے ہیں اس لیے یہ آرڈر بھی اس کے لئے کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔ مسئلہ یہ ہوا کہ وہ غلط پتے پر جاکر یہ کام کر آیا جو اس خاتون کے گھر کا تھا اور یوں وہ خاتون اپنے اچھے بھلے لان سے محروم ہوگئیں۔
-8 گٹر کے ڈھکنوں کی چوری :
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے غریب ممالک جہاں تعلیم بھی اتنی عام نہ ہو، میں گٹروں کے ڈھکن چوری ہوجانا ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ زیادہ تر یہ کام نشئی قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ مگر امریکہ جیسے امیر اور مہذب کہلائے جانے والے ملک میں ایسا کام ہونا یقینا حیرانی کی بات ہی سمجھی جائے گی۔ 1990ء کی دہائی میں لاس اینجلس میں پولیس اس وقت ہکابکا رہ گئی جب تواتر سے مین ہولز کے ڈھکن چوری ہونے لگے۔ یہ وارداتیں کسی ایک علاقے میں نہیں بلکہ پورے لاس اینجلس میں مسلسل ہورہی تھیں۔ اور ان کی وجہ سے سڑکوں کے کھلے مین ہولز ٹریفک کے لیے انتہائی خطرناک بن چکے تھے۔ بالآخر ایک کباڑ گھر میں ان گٹر کے ڈھکنوں کو بیچنے کے لیے آنے والے دو نوجوانوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا جو ان ڈھکنوں کے ذریعے پیسے بنانے کے چکر میں تھے۔
-9 گھر کی چوری :
2015ء میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی جھیل ’’لون‘‘ (Loon Lake) کے کنارے بنے اپنے کیبن میں موسم بہار کی چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والے میاں بیوی اس وقت حیران و پریشان رہ گئے جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا وہ گھر اپنی جگہ سے غائب ہوچکا تھا۔ چوروں نے صرف گھر چرانے پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ گھر کا تمام فرنیچر، کیمپنگ کرنے کا سامان یعنی خیمے وغیرہ، گھر سے لے کر جھیل کنارے پانی تک پہنچنے والی لکڑی کی روش، پانی میں اترتی سیڑھیاں اور پختہ فرش یعنی گھر اور اس سے متصل ہر ہر چیز غائب تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے چور کسی اور پر فضا مقام پر چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنا ذاتی کیبن بنانے کے لیے اس گھر اور اس کا تمام تر سامان وہاں سے چرا کر لے جاچکے تھے اور بس زمین ہی چھوڑ گئے تھے کیونکہ وہ تو بہرحال وہ لے جا نہیں سکتے تھے نا۔
-10 ساحل سمندر کی چوری :
دنیا بھر میں سیاح خوبصورت مقامات خاص طور پر سمندر کے ساحلوں کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں صاف ستھری نرم ریت پر لیٹ کر سمندر کے نیلگوں پانیوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ بحر غرب الہند میں واقع جزیرہ ’’جمیکا‘‘ (Jamaica) ایک ایسا ہی ملک ہے جو اپنے شاندار ساحلوں کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے اور سیاح یہاں کی دلکشی دیکھنے کے لیے کھینچے چلے آتے ہیں۔ لیکن وہاں کے مقامی باشندے، جن کی روزی کا زیادہ تر انحصار انہی سیاحوں کی آمد پر ہے، روز بروز اپنے معروف ساحل ’’کورل سپرنگ بیچ‘‘ (Coral Spring Beach) کی ریت کی گھٹتی ہوئی مقدار کی وجہ سے پریشان تھے۔ معاملہ جب پولیس تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہاں پر آنے والے ہزاروں لاکھوں سیاح واپسی پر یہاں کی ریت اپنے ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ اسے ان ہوٹلوں کو بیچ سکیں جو اپنے گاہکوں کے لیے اچھے ساحلوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ سیاح یہ ریت نمونے کے طور پر ہوٹلوں کو سپلائی کردیتے تھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چوری کی جانے والی اس ریت کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ جس سے 500 ٹرک آسانی کے ساتھ بھرے جاسکتے تھے۔
-11 خلائی مخلوق کی چوری :
کیا کائنات میں ہماری زمین کے علاوہ بھی کہیں زندگی پائی جاتی ہے ؟ اس معاملے میں سب ہی لوگوں کو بے حد دلچسپی محسوس ہوتی ہے۔ اسی تجسس کو مدنظر رکھتے ہوئے ادیبوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں، فلم سازوں نے فلمیں بنائیں اور سائنسدانوں نے مختلف نظریات پیش کیے، جو لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ خلائی مخلوق کی تصاویر اور گڈے نما ماڈل بھی بچوں میں بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ تاہم جب انگلستان کے علاقے ’’پورٹس ماؤتھ‘‘ (Ports Mouth) کی رہائشی ’’مارگریٹ ویلز‘‘ (Margaret Wells) کے گھر نقب زنی کی واردات ہوئی تو اسے اس بات کی پریشانی نہیں تھی کہ نقب زن اس کے سارے زیور چرا کر لے گئے بلکہ اسے اصل دکھ خلائی مخلوق کی شکل کے اس قدآدم گڈے کی گمشدگی کا تھا جو اس کی بیٹی نے اس کے لیے اپنے ہاتھوں سے گھر پر ہی تیار کیا تھا۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہوئی کہ قریباً ایک سال بعد وہ گڈا نزدیکی ساحل کے پانیوں میں بہتا ہوا مل گیا اور گھر واپس پہنچ گیا۔
The post بچا سکتے ہیں تو بچا لیں، اب کس کس چیز کی حفاظت کی جائے ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.