اگر نریندر مودی جی نے گذشتہ ماہ اپنا 68واں یومِ پیدائش بنارس کے نور پور گاؤں میں پرائمری اسکول کے بچوں کے ساتھ منایا تو اس میں حیرت کس بات کی۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں جس بچکانہ ذہنیت کا ثبوت دیا ہے اس کے بعد تو وہ اور کہیں منہہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ البتہ حیرت تو اس بات کی ہے کہ وہ اس دورے میں غلطی سے ایک دانش مندانہ بات کر بیٹھے جو ان کے اپنے ہی گلے پڑگئی ہے۔ اس کے لیے تاریخ تو شاید انہیں معاف کردے لیکن وہ خود کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
پردھان منتری جی نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’پیارے پیارے بچوں سوال کرنے میں کبھی ڈرنا اور ہچکچانا نہیں چاہیے کیوں کہ یہی سوالات تو سیکھنے اور سمجھنے کی کنجی ہوتے ہیں۔‘‘ یہ نصیحت کرتے وقت ان کو کہاں معلوم تھا کہ بلندوبالا ایفل ٹاور کے نیچے بہتی خوب صورت اور سبک رو سین ندی پر سے گزرنے والی ہوا جلد ہی گنگا جمنا کی موجوں میں تلاطم برپا کر دے گی۔
سوالات کا بڑا ریلا ہوا کے دوش پر اڑان بھرے گا، خدشات کے بادل گرج گرج کر برسیں گے اور ہر وقت ٹپ ٹپ کرنے والے مودی جی دریا کی مانند ساکت ہو جائیں گے اور سوچیں گے کہ کاش میں سال گرہ میں بچوں کے ساتھ تالیاں بجاتا، کیک کاٹتا، غبارے پھاڑتا، کھیلتا اور کودتا مگر سوالات کرنے کی ترغیب نہ دیتا۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت مودی جی! سوچے سمجھے بنا بولنے میں آپ مسٹر ٹرمپ سے بس ذرا ہی کم ہیں۔
فرانس کے سابق صدر فرینکوئس ہولاندے نے 2015میں مودی جی کے دورہ فرانس کی ایک حسین شام کا احوال کیا سنا دیا مانو قیامت ہی آگئی۔ انہوں نے کہا کہ جب رافیل دفاعی معاہدہ ہورہا تھا ، اس وقت حکومتِ ہند کی طرف سے نریندر مودی کے قریبی دوست انیل امبانی کی ریلائنس کمپنی کو ہی منتخب کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ چھتیس رافیل جنگی طیاروں کے معاہدے میں ہونے والی اقربا پروری پر گوکہ کافی مہینوں سے شبہات ظاہر کیے جارہے تھے جنہیں مودی حکومت کافی ڈھٹائی سے جھٹلا رہی تھی، لیکن اب جب فرانسیسی صدر نے ہی پردہ فاش کردیا تو پردھان منتری کو منہہ چھپانے کی بھی جگہ نہیں مل رہی۔
اس دفاعی معاہدے کی تفصیلات خود بھارتی میڈیا سے چھپالی گئیں۔ این ڈی ٹی وی کے پیرس میں موجود نمائندے نے جب حکومت ہند سے ان کمپنیوں کے ناموں کی فہرست مانگی جن میں سے کسی ایک کو فرانس کی ڈاسو ایوی ایشن کے ساتھ مشترکہ پروڈکشن کے لیے منتخب ہونا تھا۔
اس فہرست میں انیل امبانی کا نام سب سے نیچے تھا ، لیکن جب جو لسٹ انہیں فرانس حکومت کی جانب سے ملی اس میں انیل امبانی کا نام سب سے اوپر تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ فرانس کے سابق صدر کے مطابق انہیں انیل امبانی کی کمپنی کے چناؤ کا پابند بھی کیا گیا تھا۔ انیل امبانی نریندر مودی کے جگری یار ہی نہیں بلکہ بھارت کے ایک مقروض ترین صنعت کار بھی ہیں۔ ان کی گرتی ہوئی مالی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے مودی نے ریاستی مفاد پر سمجھوتا کرلیا جس پر پورے بھارت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس معاہدے سے بھارت کو اکتالیس ہزار کروڑ کا نقصان پہنچا ہے۔ پہلے نوٹ بندی اور اب رافیل دغا بازی پر خود بی جے پی کے بعض ارکان بھی مودی سے منہہ موڑے بیٹھے ہیں۔
مودی جی کی نصیحت کے عین مطابق اب پوری بھارتی قوم دوستی یاری کی اس گدلی سیاست کو سمجھنے کے لیے سراپا سوال ہے لیکن وہ آنا کانی کر رہے ہیں۔ بچہ بچہ پوچھ رہا ہے کہ آخر رافیل گُھٹالے میں شریک ’’کتنے آدمی تھے؟‘‘ بھلا اتنا بڑا کارنامہ کیا انہوں نے اکیلے ہی انجام دے دیا یا اس دفاعی معاہدے کے تاریخی غبن میں وہ ترچھی ٹوپی والے، بابو ’’بھولے بھالے‘‘ بھی شامل تھے جو پچھلے دنوں کیمرے کے سامنے ہیرو بن کر کھڑے پاکستانیوں کو للکارتے ہوئے جنوبی ایشیا کا امن ایک بار پھر تاراج کر نے کی سازش بُن رہے تھے۔ بھارتیوں کے دماغ میں یہ سوال بھی مسلسل کلبلا رہا ہے کہ مودی جی کب تک ریاستی اور عوامی مفاد کو پس پشت ڈال کر ’’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے‘‘ کا راگ الاپتے رہیں گے۔
جن دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے مودی جی نے سارے داؤ کھیلے ان میں سے اکثر تو بھارتی بینکوں کو نچوڑ کر ملک سے فرار بھی ہوچکے جن میں للت مودی، نیرو مودی، مہیل چوکسی، وجے مالیا اور میہل بھائی شامل ہیں، جن کے بعد اب نتن سندیسارا بھی بھارت سے خاندان سمیت چمپت ہوگئے ہیں۔ صرف نتن سندیسارا نے ہی بینکوں سے پانچ ہزار کروڑ روپے قرض لیے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اس کے علاوہ نیرو مودی اور مہیل گیارہ ہزار کروڑ سے زائد کی رقم لے اڑے۔ مودی کی دوستوں کی اس فہرست میں ملکی خزانے کو چونا لگانے والے مزید انتیس نام اور موجود ہیں۔ ان بھگوڑوں کی اکثریت نے فرار ہونے کے لیے نائیجیریا کی طرف اڑان بھری ہے، کیوں کہ نائجیریا اور حکومتِ ہند کے درمیان خود سپردگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ اس صورت میں ان لٹیروں کو واپس بھارت لانا مشکل نہیں بلکہ سرے سے ناممکن ہے۔
مودی جی جو خود کو بار بار بھارت کا پردھان منتری نہیں بلکہ چوکی دار قرار دیتے رہے ہیں، افسوس ان کی چوکی داری میں بھارت کے تمام بینک ’’دیوالیہ پن‘‘ کی سرحد پر کیسے آن کھڑے ہوئے؟ مودی جی سے میڈیا سوال کر رہا ہے کہ محترم! آپ نے یہ کیسی چوکی داری کی کہ گجراتی سرمایہ دار پورے کے پورے بینک لوٹ کر لے گئے اور آپ سوتے ہی رہ گئے۔ آپ کو کون سا سائیکل پر ان کا پیچھا کرنا تھا، بس ایک سیٹی بجا کر اپنی قیادت میں چین سے سوئے ہوئے اداروں کو ہی تو جگانا تھا۔ آپ وہ بھی نہ کرسکے۔ بھارتی عوام بے چارے اب ایک دوسرے کے چہرے تکتے ہوئے سوال کر رہے ہیں کہ کیا انہوں نے دودھ کا رکھوالا بلے کو بنانے کی غلطی کر ڈالی؟ اور رافیل گھٹالے میں تو خود چوکی دار کے ہاتھوں ریاست پر اکتالیس ہزار کروڑ کی چٹی پڑگئی۔ رافیل کیس میں بھی دوستی ملکی مفاد پر غالب رہی۔
انیل امبانی کی دیوالیہ ہوتی ناتجربہ کار کمپنی کو پچاس سال کا تجربہ رکھنے والی ہندوستان ایروناٹیکل لمیٹڈ پر فوقیت دے کر اپنے ملک کے غریبوں کا مذاق خود اڑایا، قوم کے پیسے کو دوستی پر لٹایا، اس دوستی میں وہ اس حد تک گر گئے کہ انہیں دیس کی غربت نظر آئی نہ ریاست کا مفاد۔ سوالات ہیں کہ کسی سیلابی ریلے کی مانند امڈے چلے آرہے ہیں۔ ہر آنکھ مودی جی سے کہ رہی ہے کہ جناب کا بہت یارانہ لگتا ہے امبانی سے۔ بھارتی میڈیا میں تو یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ رافیل ڈیل میں مودی جی نے اپنے قریبی دوست انیل امبانی کے لیے دلالی کی۔ اس ریلائنس کمپنی کے لیے راستہ ہموار کرتے رہے جو پہلے ہی پانچ ہزار کروڑ کی مقروض ہے۔
مودی کی دوست نوازی دیکھتے ہوئے تو یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ ان کی سرکار میں اچھے دن کیا صرف کارپوریٹ سیکٹر اور سرمایہ داروں کے لیے آئے تھے؟ جو مودی جی کو ان کی گذشتہ انتخابی مہمات میں بلاوجہ ہی اڑن کھٹولوں پر لے کر نہیں گھومے، نہ انہوں نے مودی جی کی دوستی میں اندھے ہوکر ان کی الیکشن مہمات پر پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ ان کو یقین تھا کہ مودی صاحب کے اقتدار میں وہ اسی پیسے کو دس گنا زیادہ کرکے وصول کرلیں گے، اور ایسا ہی ہوا۔ سو اب بھارتی عوام پوچھ رہے ہیں کہ کیا انہوں نے مودی جی کو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ عوام کی دولت دوستوں پر نچھاور کردیں؟ لیکن یاروں کے یار نے تو گہری چپ سادھ لی ہے۔ بھارتی عوام کی لٹیا ڈبونے پر انہیں اگلے انتخابات میں اپنی جیت کے امکانات معدوم ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔
رافیل گھٹالے نے مودی اور بی جے پی کی چناؤ میں جیت کی آس پر مٹی ڈال دی ہے، لیکن اقتدار کی لت ایسی کافر لت ہے کہ چھوٹے نہیں چھٹتی۔ سو اب مودی صاحب اگلے الیکشن میں فتح کا جھنڈا گاڑنے کی دھن میں اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ گائے، مسلمان اور پاکستان یہ تین وہ ہتھیار ہیں جن کے انتہائی استعمال سے وہ عوامی حمایت اپنے حق میں کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جانے سے گریز نہیں کریں گے۔ ہندوتوا کے ایجنڈے پر پہلے بھی بی جے پی جیتتی چلی آئی ہے اب بھی یہ خدشہ پوری طرح موجود ہے۔ گذشتہ ماہ دہلی میں بی جی پی کی مجلسِ عاملہ کی میٹنگ میں باقاعدہ یہ طے کیا گیا ہے کہ ہندوتوا کے ایجنڈے کو لے کر ہندو ووٹوں کو یکجا کیا جائے گا۔
اس اعلان کی اگرچہ ہر سطح پر مذمت کی گئی لیکن مودی سرکار کو کب کسی کی بات پر کان دھرنے ہیں۔ انہیں تو اپنی کرسی سے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتوا کا ہی تو بول بالا رہا اور اس نعرے پر وہ ان ریاستوں میں بھی الیکشن جیتنے میں کام یاب ہوئے جہاں ان کی انتخابی مہمات میں خالی پنڈالوں میں کرسیاں لڑھکتی تھیں۔ وہ اب بھی اسی ناپاک ایجنڈے کو انتخابی مہم کی بنیاد بنانے کا ارادہ ظاہر کر کے مسلمانوں اور اعتدال پسند ہندوؤں میں بے چینی پیدا کر چکے ہیں۔ اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ وہ گجرات ماڈل کو فالو کر کے مسلم منافرت کی آگ بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں گے۔
دوسرا ہَوّا وہ پاکستان کا کھڑا کرچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنے فوجی مروا کر پاکستان پر ملبہ ڈالا اور لگے جنگ کی دھمکیاں دینے۔ پاکستان سے جنگ کے خطرات بڑھاکر موصوف ہم دردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح پاکستان کی طرف سے نہایت تحمل کا مظاہرہ کر کے ان کی سازش کو پہلے ہی قدم پر ناکام بنادیا گیا۔ رہ گئی بات پاک بھارت وزرائے خارجہ اجلاس کی، تو جناب اس کو منسوخ کرنا بھارتی حکومت کے لیے اس لیے ضروری تھا کہ یہ ملاقات خیرسگالی کا پیغام بن کر مودی سرکار کے نئے الیکشن ایجنڈے میں فِٹ ہی نہیں بیٹھ رہی تھی سو فوجیوں کی ہلاکت کا الزام پاکستان ے سر ڈال کر اس سے جان چھڑا لی گئی۔
یہ حقیقت اب روزِروشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ نریندر مودی نے اپنے دور حکومت میں ذاتی دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے سوا اور کوئی کام نہ کیا۔ کسی ایک سیکٹر نے بھی ترقی کے درشن نہ کیے ، الٹا گراف تیزی سے نیچے آیا ہے۔ اب مزید جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے مودی جی نے الیکشن سے محض چند ماہ کی دوری پر مفادِعامہ کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ اسکیم ’’مودی کیئر‘‘ کا اجرا کر کے دنیا کو اور ہنسنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔
یہ اسکیم ’’اوباما کیئر‘‘ کا چربہ ہے جو امریکا کے سابق صدرباراک اوباما نے اپنے دور حکومت میں شروع کی تھی۔ جگری یاروں کے ملک سے اڑان بھرنے کے بعد اب مودی جی کو اپنی اگلی فتح کا صرف یہی راستہ نظر آرہا ہے کہ کچھ کام ان کے لیے بھی کرلیا جائے جن کے خون پسینے کی کمائی سے حکومتیں اپنے خزانے بھرتی ہیں، لیکن بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ اب مودی کیئر کی کیئر‘‘ کس کو ہے؟ بھارتی شہریوں کو جتنا چونا لگ چکا اس کے بعد انہیں ایسی کیئر کی عادت ہی کہاں رہی ہے۔ اور وہ بے چارے بھارتی شہری جو بھاگتے چور کی لنگوٹی پکڑنے کی خاطر مودی کیئر سے استفادہ کریں گے، اس وقت ان کا کیا بنے گا جب نئے الیکشن کے بعد انہیں ’’ڈونٹ کیئر‘‘ کہہ کر واپس زمین پر پٹخ دیا جائے گا۔
ایسی اسکیموں کا اجرا کرکے مودی جی خود کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارتیوں کا ایمان مودی پر سے اٹھ چکا ہے۔ پہلے ان کا کھوٹا بھی کھرا تھا اب کھرا بھی اپنی اہمیت کھوچکا ہے۔ کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی رافیل گھٹالے کو بہترین طریقے سے اپنے حق میں کیش کر رہے ہیں۔ مودی سرکار اپوزیشن کے نشانے پر آگئی ہے۔ مودی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس زبانی جنگ میں اب گھمسان کا رن پڑ چکا ہے۔ راہول گاندھی مودی کو دھوکے باز کہہ رہے ہیں تو جواب میں انہیں حکومت ہند کی طرف سے Ra – Fail (راہول فیل) کا لقب دیا جا رہا ہے۔ سو اس طرح 74 فی صد شرح خواندگی کے حامل بھارت میں اگلے انتخابات کی تیاریاں زور وشور سے کی جارہی ہیں۔ ڈیم فنڈ پر پاکستان کا مذاق اڑانے والوں سے آج رافیل گھٹالے کے بارے میں سوالات ہو رہے ہیں تو انہیں جانے کیوں برا لگ رہا ہے؟
بنارس کے اسکول میں بچوں کو سوالات پر اکسانے والے مودی جی سے میرا بھی ایک سوال ہے کہ اتنے گھٹالوں کے بعد بھی آپ کو چوکی دار ہی کہا جائے یا پھر لُٹیرا؟ مودی جی کو زعم تھا کہ سب ’’نام دار‘‘ ہیں، بس ایک وہی ’’کام دار‘‘ ہیں۔ گہری نیند سے جاگیے جناب! آپ جرائم میں شراکت دار اور داغ دار بھی ہیں۔
The post مودی جی! گھٹالے پر گھٹالا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.