مجرم چاہے کوئی بھی ہو، انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جرم کرنے والے کو قانون پکڑے اور سزا دے۔
مغربی ممالک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں قانون کی موثر علمداری نافذ ہے اور جرم کرنے والا کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو وہ قانون کے لمبے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتا اور بالآخر شکنجے میں پھنس ہی جاتا ہے۔
دوسری طرف جانوروں سے اہل مغرب کی محبت بھی اظہر من الشمس ہے لیکن تعریف کی بات یہ ہے کہ وہاں اگر کوئی جانور بھی جرم کرے تو وہ بھی قانون کی گرفت میں آجاتا ہے۔ تاہم یاد رہے کہ مجرم جانوروں کے خلاف قانون کے اطلاق کا زیادہ زور یورپ میں 13 ویں صدی تا 18 ویں صدی میں رہا، جب ان پر حقیقت میں مقدمات بنے اور چلے۔ ان جانوروں میں بیل، گھوڑے، گدھے، گائیں، چوہے، ٹڈے، خنزیر اور بندر وغیرہ شامل ہیں۔
موجودہ دور میں تو انسانی حقوق کے نام پر مغرب، مجرم انسانوں کو بھی انتہائی سزا دینے سے گریز کرتا ہے تو مجرم جانوروں کو تو مزید چھوٹ حاصل ہے لیکن پھر بھی قانون تو بہرحال قانون ہے اور وہاں قانون کا احترام کیا ہی جاتا ہے۔ مگر آج کے زیر نظر مضمون میں کئی اور جانور بھی مجرموں کی اس فہرست میں کھڑے نظر آتے ہیں لیکن ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے جرائم کی نوعیت بہت مزاحیہ ہے۔
-1 کارجیکر ریچھ (The Car-Jacker Bear) :
اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جہاز اغوا کرنے والے ہائی جیکرز کے متعلق تو آپ نے اکثر سنا اور پڑھا ہی ہوگا۔ لیکن ہمارا آج کا پہلا مجرم ایک ریچھ ہے جس نے ایک کارکو ’’جیک‘‘ کرلیا تھا۔ اگست 2011ء میں امریکی ریاست ’’کولوراڈو‘‘ (Colorado) کے علاقے ’’ڈیورینگو‘‘ (Durango) کے رہائشی ’’رون کارنیلیس‘‘ (Ron Cornelius) کی آنکھ ایک کار کے اپنے ڈاک باکس سے ٹکرانے کی زوردار آواز سن کر کھلی۔ یہ کار اس کے ہمسائے کی تھی جو گلی میں سے گزرتے ہوئے اس کے گھر کے بیرونی لان میں در آئی تھی اور اب اس کے ڈاک باکس سے ٹکرانے کے بعد تباہ حال حالت میں کھڑی تھی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک کالے رنگ کا موٹا سا بھالو براجمان تھا جو خوراک کی تلاش میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے اس گاڑی میں گھس بیٹھا تھا۔ بھوکے ریچھ نے حادثاتی طور پر گاڑی کو گیئر میں ڈال دیا اور گاڑی چل پڑی اور قبل اس کے کہ بدحواس ریچھ گاڑی سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوکر منظر سے غائب ہوجاتا، گاڑی ’کارنیلیس‘ کے ڈاک باکس کو توڑتی ہوئی اس کے لان میں آکھڑی ہوئی۔ خوش قسمتی سے اس حادثے میں ریچھ سمیت کوئی بھی زخمی نہیں ہوا مگر کار کو کافی نقصان ہوا اور اس کی پچھلی کھڑی کا شیشہ کرچی کرچی ہوگیا، اسٹیرنگ ویل ٹوٹ پھوٹ گیا اور اگلی نشست پر ریچھ کے پنجے کا واضح نشان ثبت ہوگیا۔ یہ بتانا یقینا ضروری نہیں کہ یہ کار اب دوبارہ سڑک پر آنے کے قابل نہیں رہی۔
-2 ’’ایمو‘‘ (Emu) کی خرمستیاں :
’ایمو‘ (Emu) آسٹریلین نسل کا شترمرغ ہوتا ہے۔ یہ عام شتر مرغ سے نسبتاً کچھ چھوٹا، لیکن پرندوں میں دوسرا بڑا پرندہ ہے۔ یہ پرندہ کیونکہ آسٹریلوی ہے، اس لیے انگلستان کا دیس اس کے لیے نامانوس، اجنبی اور ’پردیس‘ ہے۔ اسی وجہ سے جب جنوب مشرقی انگلستان کی ایک کاؤنٹی ’’ڈیون ‘‘ (Devon) میں پولیس سارجنٹ ’’زوئی پارنل‘‘ (Zoe Parnell) کو یہ خبر ملی کہ ایک ’ایمو‘ برانگیختہ حالت میں قصبے کی گلیوں میں دوڑتا پھر رہا ہے، تو وہ شدید الجھن کا شکار ہوگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کو یہ اطلاع ملی تو ان کا خیال تھا کہ وہ پرندہ شاید ’’ٹرکی‘‘ Turkey (فیل مرغ) یا اسی قبیل کا کوئی دوسرا پرندہ ہوگا۔ لیکن جب انھوں نے چار فٹ اونچے ایک بڑے سے ’ایمو‘ کو ’’برنسٹیپل‘‘ (Barnstaple) جیسے چھوٹے سے قصبے کی گلیوں میں ادھر اُدھر بھاگتے دوڑتے دیکھا تو وہ ششدر رہ گئیں۔ یہ ’ایمو‘ لوگوں کے گھروں میں گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں ہراساں کررہا تھا۔ مزید پریشان کن بات یہ تھی کہ اس کا رخ مین روڈ کی طرف تھا۔ پولیس اس امر کے لیے کوشاں تھی کہ اسے مین روڈ کی ٹریفک درہم برہم کرنے سے پہلے ہی ’’گرفتار‘‘ کرلے۔ بالآخر پولیس اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کی اس افراتفری پھیلانے کی کوشش کی وجہ سے اسے ’’دماغی معائنے‘‘ کے لیے جانوروں کے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ آپ میں سے بہت سے قارئین کو شاید معلوم نہ ہو کہ ’ایمو‘ ان جانوروں کی فہرست میں شامل ہے جن کو پالتو جانور کے طور پر گھروں میں پالنا غیر قانونی ہے۔
-3 چور ’’سلوتھ‘‘ (Sloth) :
گزشتہ دسمبر کی ایک سرد رات کو براعظم امریکہ کے وسطی علاقے کے ملک ’’کوسٹاریکا‘‘ (Costa Rica) کے ایک کیفے میں ایک غیر متوقع ہستی چپکے سے داخل ہوئی۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی اور کیفے اس وقت بند تھا۔ تاہم سکیورٹی کیمرے
اپنی فلم بندی میں مصروف تھے۔ کیفے میں چوری چھپے داخل ہونے والا ایک بھوکا ’’سلوتھ‘‘ (Sloth) تھا۔ ’سلوتھ‘ امریکہ کے جنگلوں میں پایا جانے والا ریچھ کی شکل کا ایک چھوٹا جانور ہے، جو اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت اپنے ہاتھ پیروں کی مدد سے درختوں پر لٹک کر گزار دیتا ہے اور اگر اسے حرکت بھی کرنی پڑے تو یوں لگتا ہے جیسے سلوموشن میں چل رہا ہو۔ کیفے میں لگے کیمروں نے ’سلوتھ‘ کی کیفے کے اندر مضحکہ خیز حد تک سست نقل و حرکت کو ریکارڈ کرلیا۔ وہ بڑے ہی بھدے طریقے سے ایک کرسی پر چڑھا اور الماری میں لگے ایک گھومنے والے نمائشی ریک کو چکر دینے لگا۔ آخر کار یہ مشتبہ چور اپنی ان انہی حرکات و سکنات کی بدولت پر شور آواز کے ساتھ دھڑام سے کرسی سے نیچے آگرا اور اس طرح کیفے کی چوکیداری پر معمور عملے کو اپنی موجودگی سے آگاہ کر بیٹھا۔ لیکن کیفے کے رحم دل مالکان نے اس چور ’سلوتھ‘ کو کھلا پلا کر واپس جنگل میں چھوڑ دیا۔ البتہ وہ کیفے اس واقعے کے بعد کافی مشہور ہوگیا کیونکہ ’’دی ڈیلی میل (The Daily Mail) اور ’’نیشنل جیوگرافک‘‘ والوں نے اس سارے واقعے کی نمایاں کوریج کی تھی۔
-4 ’’روبن ہڈ‘‘ بلی (Robin Hood Cat) :
امریکی ریاست ’’اوکلا ہوما‘‘ (Oklahoma) کے دوسرے بڑے شہر ’’ٹلسا‘‘ (Tulsa) کی ایک معروف مارکیٹنگ فرم کے مالک ’’اسٹوارٹ میکڈانییل‘‘ (Stuart Mcdaniel) اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے اپنے دفتر کے شیشے والے دروازے کے پاس نوٹوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر پڑے ہوئے پایا۔ ان کے آفس کے ساتھ والے کمرے میں ایک بلی رہتی تھی۔ جس کو اردگرد کے تمام دفاتر والے بابرکت سمجھتے تھے۔ ’میکڈانییل‘ کے علم میں یہ بات آئی کہ دفتروں میں آنے جانے والے گاہک دروازے کی دراڑوں میں اپنے اپنے بلزاٹکا دیتے تھے اور ہوشیار بلی انہیں جھپٹ لیتی تھی۔ اس کے نزدیک یہ ایک دلچسپ کھیل کی حیثیت رکھتا تھا۔ ’میکڈانییل‘ کو محسوس ہوا کہ وہ اس کھیل کو کارآمد بنا کر رفاۂ عامہ کے کاموں میں مدد لے سکتا ہے۔ ’میکڈانییل‘ نے بلی کے چرائے ہوئے پیسوں کو جمع کرکے مقامی بے گھر افراد کو پناہ دینے والے ایک رفاہی ادارے کو چندے کی صورت میں دے دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ انٹرنیٹ پر ایک آن لائن مہم شروع کی جس کا نام ’’دی کیش نپ کیٹی‘‘ (The Cash Nip Kitty) رکھا۔ وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا کہ وہ اپنی کمائی میں سے چند ڈالرز الگ کرکے اسے دیں تاکہ وہ رقم انسانی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاسکے۔
-5 ثبوت خراب (temper) کرنے والا کوّا :
2016ء میں مغربی کینیڈا کے ساحلی شہر ’’وینکوور‘‘ (Vancouver) کی پولیس کا سامنا ایک چاقو بردار شخص سے ہوا۔ قانون نافذ کرنے والا ادارہ اس وقت ششدر رہ گیا جب اس نے دیکھا کہ ایک کوّا جائے وقوع کے اردگرد اڑتا پھر رہا ہے۔ اس کوّا کا نام ’’کینک‘‘ (Canuck) تھا اور یہ وہاں کے ایک مقامی فرد کا پالتو کوّا تھا۔ کوّے نے اچانک غوطہ لگایا اور اس شخص کے ہاتھ سے چاقو اچک کر یہ جا وہ جا۔ دراصل ’کینک‘ کو چمکدار چیزیں جھپٹ لینے کی عادت تھی اور یہ بات علاقے کے اکثر و بیشتر لوگوں کو پہلے سے معلوم تھی، لیکن اس واقعے سے قبل اس نے کبھی کوئی ہتھیار نہیں اچکا تھا۔ خوش قسمتی سے ایک پولیس والے نے کوّے کا پیچھا کیا تو دیکھا کہ اس نے مضبوطی سے اپنی چونچ میں پکڑا ہوا چاقو، کچھ آگے جاکر نیچے گرا دیا۔ ایک کانسٹیبل نے بتایا کہ گو، کوّا اپنی دھن کا پکا تھا تاہم بالآخر جرم کا ایک اہم ثبوت یعنی چاقو ضائع ہونے سے بچ گیا اور برآمد ہو ہی گیا۔
-6 کپڑے چوری کرنے والی نقب زن بلیاں :
بلیوں میں چوری کی وارداتوں کے بڑھے ہوئے ’’رجحان‘‘ کی مزید بات کرتے ہیں۔ انگلستان کے علاقے ’’پورٹسوڈ‘‘ (Portswood) کے رہائشی ’’پیٹر‘‘ اور ’’برج اٹ‘‘ اس وقت حیرانی میں مبتلا ہوگئے جب ان کے پالتو بلّے ’’آسکر‘‘ (Oscar) نے ہمسایوں کے گھروں اور ان کے لان میں بندھی الگنیوں پر ٹنگے کپڑوں کو چرا کر لانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ آسکر کو خاص طور پر جرابیں، باغبانی کے دستانے اور خواتین کے کپڑے چرانا بہت پسند تھا۔ پیٹر اور ’برج اٹ‘ نے اپنے تمام ہمسایوں کو اپنے بلے کے اس جنونی شوق سے آگاہ کردیا۔ گو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے لاڈلے بلے کا روزانہ اپنے لیے کچھ نہ کچھ لیے چلے آنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ’برج اٹ‘ نے ایک مزید دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا کے آخری کنارے یعنی نیوزی لینڈ میں اس کی ہم نام یعنی ’برج اٹ‘ نامی ایک بلی بھی ان کے بلے آسکر کی ہم ذوق ہے اور چیزیں چرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس کو مردوں کے کپڑے چرانا مرغوب ہے۔
7۔ مسخرا اکٹوپس :
2008ء میں جرمنی کے ایک ایکویریم میں رہنے والا ’’اوٹو‘‘ (Otto) نامی 2 فٹ 7 انچ کا اوکٹوپس، ایکویریم کے عملے کے لئے د رد سری کے باعث بن گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’اوٹو‘ کو ہر طرح کے وہ کام کرنے میں بہت لطف آتا تھا جو عملے کے لئے پریشانی کا باعث بن سکیں۔ مثلاً وہ اپنے احاطے میں رکھی گئیں نمائشی اشیاء کی ترتیب بدل کر بہت خوش ہوتا تھا، وہ اپنے شیشے کی باکس کی دیواروں کو اس میں رکھے گئے پتھر کے ٹکڑوں سے کھٹکھٹاتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ ان پتھروں سے ایکویریم میں اپنے ساتھ رہنے والے شریف النفس کیکڑوں کے ساتھ ’’کیچ کیچ‘‘ کھیلنا بھی بہت پسند کرتا تھا جو کیکڑوں کے لئے ایک نری مصیبت ہی تھی اور وہ اس سے تنگ آ گئے تھے۔ لیکن ان سب شرارتوں کا نقطئہ عروج اس وقت سامنے آیا جب ’اوٹو‘ نے اس وسیع و عریض ایکویریم میں تین راتوں تک مسلسل ’’بلیک آؤٹ‘‘ کیا۔ روزانہ ہونے والے اس بجلی فیلئر نے عملے کا سر چکرا کر رکھ دیا۔ آخر کار انہوں نے اس معاملے کی تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا اوررات کو چھپ کہ دیکھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ اس نگرانی کے نتیجے میں وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس بلیک آؤٹ کا مجرم ’اوٹو‘ تھا جو اپنے ٹینک کے کناروں سے باہر لٹکا ہوا جھوم رہا تھا اور تاک تاک کر اپنے ٹینک کے عین اوپر لگی ہوئی سپاٹ لائٹ کو پانی پھینک کر نشانہ بنا رہا تھا جس کی وجہ سے شارٹ سرکٹ ہو جاتا اور لائٹ چلی جاتی۔ لیکن کوئی اس شاطر اکٹوپس کا کیا بگاڑ سکتا ہے بھلا ؟
8- بھوکا سمندری بگلا :
یہ بات کسی کے لئے بھی اچھنبے کا باعث نہیں کہ اگر آپ ساحل سمندر پر پکنک منانے جائیں تو خوراک کے لالچ میں بہت سے پرندے خاص طور پر سمندری بگلے آپ کے گرد منڈلانے لگتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے تو اتنے نڈر ہوتے ہیں کہ وہ آپ کے ہاتھوں سے کھانے پینے کی ا شیاء جھپٹ کر اڑتے بنتے ہیں۔ لیکن آج جس سمندری بگلے کی کہانی آپ کو سنائی جا رہی ہے وہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گیا۔ اسکاٹ لینڈ میں ایک بہادر سمندری بگلا مزے سے چہل قدمی کرتا ہوا آتا اور ایک بیکری میں گھس کر آلو کے چپس کے پیکٹ لے اڑتا ۔ بیکری کے ملازمین نے اس مخصوص سمندری بگلے کو اتنی مرتبہ چوری کرتے ہوئے دیکھا کہ اس کا نام ہی ’’سٹیون سیگل‘‘ (Steven seagull) رکھ دیا۔ یہ سمندری بگلا انٹرنیٹ پر بھی اس وقت بہت مشہور ہو گیا جب بیکری کے ایک گاہک نے اس کی ’نمک اور سرکے‘ کی بوتلوں کو ٹھونگیں مارنے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی اور یوں ہمارا یہ چور سمندری بگلا سوشل میڈیا پر ہیرو بن گیا۔
9- گھر میں گھس بیٹھنے والا مگر مچھ :
آپ نے بچپن میں یقینا کبھی نہ کبھی یہ ڈر و خوف محسوس کیا ہو گا کہ جیسے آپ کے بیڈ کے نیچے کوئی بھوت پریت یا عفریت چھپا بیٹھا ہے۔ مگر 40 سالہ ’’وائٹال‘‘ (Whittall) کو جو تجربہ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک تھا۔ زمبابوے کے کرکٹر ’وائٹال‘ اس وقت سکتہ زدہ ہو گئے جب وہ زمبابوے کے ’’ہمانی لاج‘‘(Humani Lodge) میں ایک صبح سو کر اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ گزشتہ شب کسی وقت ایک 330 پاؤنڈ وزنی مگرمچھ ان کے کمرے میں چپکے سے آ کر گھس گیا اور اس نے ساری رات ’وائٹال‘ کے بیڈ کے نیچے گزاری۔ اس مگر مچھ کی موجودگی کا انکشاف اس وقت ہوا جب صفائی کرنے والی نوکرانی کی چیخ سنائی دی جو کمرے کی صفائی کر رہی تھی۔ ’وائٹال‘ کے رونگٹے یہ سوچ سوچ کر ہی کھڑے ہو گئے کہ وہ ساری رات ایک دیو ہیکل مگرمچھ سے محض چند انچوں کے فاصلے پر سوتے رہے تھے۔ بالآخر انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے اس مگر مچھ کو نزدیکی ڈیم تک پہنچا کر پانی میں چھوڑ دیا۔ شکر ہے کہ اس تمام عرصے میں کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ’وائٹال‘ کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد بھی اب جب میں یہ سوچتا ہوں کہ اس صبح اٹھنے پر میں کافی دیر تک اپنے بستر سے پاؤں نیچے لٹکائے بیٹھا رہا تھا تو مجھے خوف کے مارے پھریریاں آنے لگتی ہیں۔
10۔ دکانیں تہس نہس کرنے والا ’’اود بلاؤ‘‘ :
چھٹیوں کے دنوں میں خریداری کے دوران انسان بھی اکثر حیوانوں والی حرکتیں کرنے لگتے ہیں یعنی خاص مواقعوں پر سیل میں لگی ہوئی چیزیں دوسروں سے جلدی خریدنے کے چکر میں بدتہذیبی اور افراتفری کا مظاہرہ کرنا وغیرہ۔ تاہم دسمبر 2016ء میں ایک مشتعل جانور کو دکانوں میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے پولیس نے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ یہ ایک ’’اود بلاؤ‘‘ تھا جو امریکی ریاست ’’میری لینڈ‘‘ (Maryland) کے ’’ون ڈالر‘‘ (One Dollar) سٹورز میں گھس کر، کرسمس کے موقع پر سجائی گئی چیزوں کو تہس نہس کر رہا تھا۔ اسٹور کے ملازمین کو ڈر تھا کہ کہیں ان کے گاہک اس ’او د بلاؤ‘ سے خوف ذدہ ہو کر بھاگ نہ جائیں۔ سو، انھوں نے فوراً مقامی پولیس کو بلا لیا۔ پولیس کیپٹن نے انتہائی ’فرض شناسی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ’’دانتلے ڈاکو‘‘ (آگے کو نکلے ہوئے دانتوں والاڈاکو) پر دوسروں کی پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کی فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے ’گرفتار‘ کر لیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے اس ’اود بلاؤ‘ کو جانوروں کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے کے حوالے کر دیا، جس نے اسے باحفاظت جنگل میں لے جا کر چھوڑ دیا۔
11- عادی مجرم بندر :
حالیہ برسوں میں بھارتی پنجاب میں بندروں نے کافی ادوھم مچا رکھا ہے۔ بھارتی پنجاب میں رہنے والے ہزاروں جنگلی بندر انسانوں کے لئے خطرناک رویہ اپناتے دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر 2004ء میں ایک مخصوص بندر اس حوالے سے بہت بدنام ہوا۔ وہ لوگوں سے خوراک چھین کر بھاگ جاتا، ان پر پتھراؤ کرتا اور انھیں مسلسل پریشان کرتا رہتا، جب تک کہ وہ اسے کھانے کو کچھ نہ دے دیتے۔ آخر کار اس عادی مجرم بندر کو گرفتار کر کے 1990ء کی دہائی میں قائم کردہ بندروں کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ بھارت میں چونکہ بندروں کو مذہبی طور پر مقدس سمجھا جاتا ہے اور انہیں مارنا یا نقصان پہنچانا گناہ ہے اس لئے ان کے شر سے بچنے کا یہی حل نکالا گیا کہ انہیں پکڑ کر چڑیا گھر میں تعمیر کردہ ایک وسیع پنجرے میں بند کر دیا جائے۔ 2009ء میں پٹیالہ شہر میں واقع بندروں کی اس جیل کو بند کر دیا گیا ہے۔
12- جاسوس کبوتر :
2015ء میں جموں کے گاؤں ’’منوال‘‘ کے رہائشی ایک لڑکے نے ایک کبوتر پکڑا۔ بقول اس لڑکے کے، کبوتر کے جسم پر کچھ خفیہ نشانات بنے ہوئے تھے۔ وہ لڑکا اس کبوتر کو پولیس اسٹیشن لے گیا جہاں ’’ماہرین‘‘ نے کبوتر کے جسم پر چھپے ان نشانات کو ڈی کوڈ کیا تو ان کے مطابق وہ پاکستان کی قومی زبان اردو میں لکھا گیا ایک مختصر پیغام تھا۔ کیونکہ یہ کبوتر جموں کے علاقے سے پکڑا گیا تھا، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے انتہائی حساس ہے‘ اس لئے بھارتی ایجنسیوں نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ اس کبوتر کو جاسوسی کے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ۔ تاہم جب مزید تفتیش کے طور پر اس کبوتر کا ایکس رے کیا گیا تو کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔ اس پر اس معاملے کو د اخل دفتر کر دیا گیا لیکن پولیس کی رپورٹس میں مسلسل اس کو ’’مشتبہ جاسوس‘‘ ہی لکھا جاتا رہا۔
قارئین کرام ! اس واقعے سے بدحواس بھارتی ایجنسیوں کی پھرتیوں‘ کارکردگی اور ذہنی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
The post ہاں، میں مجرم ہوں appeared first on ایکسپریس اردو.