30 جولائی 2003ء وہ تاریخی دن تھا جب ہسپانوی اور فرانسیسی سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم نے وقت کا پہیا الٹا چلادیا! اس روز یہ ٹیم ایک ایسے جانور کو زندہ کرنے میں کام یاب ہوئی جس کی نسل معدوم ہوچکی تھی۔
یہ جانور ایک قسم کی جنگلی بکری تھی، جسے bucardo یا Pyrenean ibex کہا جاتا تھا۔ بکارڈو بڑے قد والی خوب صورت بکری کی نسل تھی، جس کا وزن 220 پونڈ تک اور سینگ خم دار ہوتے تھے۔ فرانس اور اسپین کو منقسم کرنے والے پہاڑی سلسلےPyrenees کی اونچی نیچی چوٹیوں پر بکریوں کی یہ نسل چار ہزار برس تک اچھلتی کودتی اور پودوں کے پتوں اور تنوں پر گزارہ کرتی رہی۔
پھر بندوق کا دور آیا، کئی صدیوں تک شکاری ان بکریوں کا شکار کرتے رہے،ِ جس کا نتیجہ ان کی آبادی میں کمی کی صورت ظاہر ہوا۔ 1989ء میں ہسپانوی سائنس دانوں نے ایک سروے کیا، جس کے نتیجے میں یہ تشویش ناک بات سامنے آئی کہ یہ بکریاں محض ایک درجن کی تعداد میں باقی رہ گئی تھیں۔ مزید دس برس کے بعد اس نسل کی صرف ایک بکری باقی رہ گئی تھی جسے ’’سیلیا‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اورڈیسا اور مونٹے پرڈیڈو نیشنل پارک کی ٹیم نے جانوروں کے معروف ڈاکٹر البرٹو فرنانڈز کی قیادت میں سیلیا کو پکڑ اس کی گردن میں ’’ریڈیو کالر‘‘ باندھا اور واپس جنگل میں چھوڑدیا۔ نو ماہ کے بعد ریڈیو کالر سے ایک طویل بیپ آنے لگی، جو اس امر کی علامت تھی کہ سیلیا مرچکی ہے۔ ریسرچ ٹیم کو سیلیا ایک درخت کے نیچے دبی ہوئی ملی۔ سیلیا کی موت کے ساتھ ہی بکارڈو کی نسل معدوم قرار پاگئی، مگر سیلیا کے جسم سے حاصل کردہ خلیات زندہ تھے، جنھیں زاراگوزا اور میڈرڈ میں واقع تجربہ گاہوں میں محفوظ کیا گیا تھا۔
اگلے چند برسوں میں reproductive physiologists کی ایک ٹیم نے جوز فولک کی سربراہی میں ان خلیوں میں سے مرکزے نکال کر اسی بکری کے ڈی این اے سے محروم کردہ بیضوں میں داخل کردیے، جس کے بعد یہ بیضے 57 زندہ بکریوں کے تولیدی اعضا میں رکھ دیے گئے۔
صرف سات بکریاں حاملہ ہوسکیں اور ان میں سے بھی چھے کا حمل ضائع ہوگیا۔ فولک اور ان کی ٹیم آپریشن کے بعد بکارڈو کا ایک کلون حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئی، مگر یہ کلون بھی صرف چند منٹ ہی تک زندہ رہ سکا۔ سائنس داں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسے نہ بچاسکے۔ کلون کا اندرونی معائنہ کرنے پر پتا چلا کہ اس کے پھیپھڑے کا ایک حصہ غیرمعمولی طور پر بڑا تھا، جس کی وجہ سے نومولود جانور کے لیے سانس لینا ممکن نہ تھا۔
ایسے جانوروں کی فہرست خاصی طویل ہے، جن کی نسلیں انسانوں کے ہاتھوں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں اور متعدد جانور ایسے ہیں جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ البرٹو فرنانڈز کا تعلق سائنس دانوں کے اس گروہ سے ہے جس کا یقین ہے کہ کلوننگ کے ذریعے معدوم جانوروں کو پھر سے وجود میں لایا جاسکتا ہے۔ معدوم ہوجانے والے جانوروں کے دوبارہ زندہ ہوجانے کا تصور دو عشروں سے حقیقت اور سائنس فکشن کے درمیان جھول رہا ہے جب سائنسی ناول نگار مائیکل کرائٹون نے اپنے ناول میں ڈائنوسارز کو پھر سے سطح ارض پر دندناتے ہوئے دکھایا تھا۔
اس عرصے کے دوران معدومیت کی سائنس قصے کہانیوں سے بہت پیچھے رہی ہے۔ سیلیا کے کلون کی پیدائش کی صورت میں سائنس دانوں کو پہلی بار معدومیت کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اب فرنانڈز، جو اب حکومت کے محکمہ برائے شکاریات، ماہی گیری اور دلدلی علاقے کا سربراہ ہے، ان لمحات کا منتظر ہے جب سائنس اور انسان بالآخر صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والے جانوروں کو دوبارہ وجود میں لانے کے قا بل ہوں گے۔ اور فرنانڈز کا کہنا ہے کہ یہ انقلابی لمحات اب زیادہ دور نہیں ہیں۔
گذشتہ دنوں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے امریکی دارالحکومت میں واقع صدر دفتر میں ماہرین جینیات، ماہرین جنگلی حیاتیات، جنگلی حیات کے تحفظ کے ماہروں اور ماہرین اخلاقیات جانوروں کو عدم سے وجود میں لانے کے موضوع پر غور و فکر کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اور کیا واقعی ایسا کیا جانا چاہیے؟ اجتماع کے شرکاء نے ایک ایک کرکے اسٹیم سیلز سے کام یاب ’چھیڑ چھاڑ‘ ، قدیم رکازوں سے ڈی این اے کے کام یاب حصول، گُم شدہ جینوم کی دوبارہ تشکیل کے ضمن میں ہونے والی انقلابی پیش رفتوں کا ذکر کیا۔ جیسے جیسے شرکاء کی گفت و شنید آگے بڑھی وہ پُرجوش ہوتے چلے گئے۔ بہ تدریج اس بات پر اتفاق رائے پایا جانے لگا کہ معدوم جانوروں کو پھر سے زندہ کرنا ممکن ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق جانوروں کی صرف ان ہی نسلوں کو وجود میں لانا ممکن ہوپائے گا جو چند لاکھ سال قبل معدوم ہوئی تھیں اور جن کی باقیات میں سالم خلیات یا کم از کم ان جانوروں کے جینوم کی تشکیل نو کے لیے درکار مقدار میں ان کا ڈی این اے موجود ہے۔
انحطاط پذیری یا گلنے سڑنے کے قدرتی عمل کی شرح کے پیش نظر Tyrannosaurus rex ( ڈائنوسار کی قسم ) کو زندہ نہیں کیا جاسکتا جو ساڑھے چھے کروڑ سال قبل معدوم ہوگیا تھا۔ نظری طور پر تو وہ تمام انواع دوبارہ وجود میں لائی جاسکتی ہیں جو انسانیت کے ارتقا کے ساتھ ساتھ مٹتی چلی گئیں۔
حالیہ برسوں میں ناپید ہونے والی حیوانی نسلوں کا ذمہ دار خصوصیت سے خود انسان ہے، جس نے ان جانوروں کے شکار، ان کے قدرتی مسکن کی تباہی وبربادی اور ان میں مختلف امراض کے پھیلاؤ کا سبب بن کر انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ وجہ بھی ان جانوروں کو پھر سے وجود میں لانے کے لیے جواز فراہم کرتی ہے۔ درحقیقت معدوم جانوروں کو زندہ کرنے کے معاملے پر سائنس داں برادری میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔
نیو ساؤتھ ویلز یونی ورسٹی کے ماہر رکازیات مائیکل آرچر سمیت سائنس دانوں کی نمایاں تعداد ناپید حیوانی انواع کو وجود میں لانے کی حامی ہے جس کا کہنا ہے کہ اس کے بے شمار فوائد سامنے آئیں گے۔ بہت سے لوگ اس کی مخالفت بھی کررہے ہیں جن کا موقف ہے کہ یہ عمل خدائی کا دعویٰ کرنے کے مترادف ہوگا۔ مائیکل آرچر اور ان کے ہم نواؤں کے مطابق حیاتیاتی تنوع فطری ایجادات کے لیے ذخیرہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
مثال کے طور پر بیشتر طبی ادویہ پہلی بار ان جنگلی پودوں کی مختلف انواع میں پائے جانے والے مرکبات سے اخذ کی گئی تھیں جو ہنوز معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ تاریخ کا حصہ بن جانے والے کچھ جانور اپنے ماحولیاتی نظام میں چند مفید تبدیلیوں کا باعث تھے، ان جانوروں کی واپسی سے ان فوائد کا حصول پھر سے ممکن ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر بارہ ہزار سال قبل سائبیریا دیوقامت ہاتھیوں ( mammoths) اور دیگر قوی الجثہ چرنے والے ممالیہ کا مسکن تھا۔ اُس دور میں اس پورے خطے پر سرسبز گھاس لہلہاتی تھی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ میمتھ اور متعدد دیگر چرندوں کے فضلے کی وجہ سے یہ قطعۂ ارض گھاس سے ڈھکا ہوتا تھا۔ ان جانوروں کے معدوم ہوجانے کے بعد بہ تدریج گھاس کی جگہ کائی نے لے لی اور اس خطے کی زرخیزی میں بھی کمی آتی چلی گئی۔ اب سائنس داں یہاں گھوڑوں اور چرنے والے دیگر بڑے ممالیہ کو بساکر اس علاقے کی زرخیزی واپس لانے کی سعی کررہے ہیں۔
دس برس قبل جب فرنانڈز نے بکارڈو کو ’واپس‘ لانے کی کوشش کی تھی تو ان دنوں کلوننگ میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی خام تھی۔ اس وقت جس جانور کو کلون کرنا مقصود ہوتا تھا، سائنس داں اس کا ایک خلیہ لے کر اس کا ڈی این اے جینیاتی مواد سے عاری ایک بیضے میں رکھ دیتے تھے۔ پھر بجلی کے جھٹکے کی مدد سے یہ بیضہ تقسیم کے مرحلے سے گزرتا تھا اور جنین میں ڈھلنے لگتا تھا، جسے بعدازاں متبادل ماں کے رحم میں رکھ دیاجاتا تھا۔
اس تیکنیک کے ذریعے بہت کم حمل قرار پاتے تھے اور پیدا ہونے والے جانور اکثر اوقات جسمانی معذوری اور صحت کے دیگر مسائل سے دوچار ہوتے تھے۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران سائنس دانوں نے کلوننگ کے میدان میں اپنی کام یابی کی شرح کو کئی گنا بہتر بنالیا ہے اور اب یہ تیکنیک پُرخطر سائنس سے معمول کے کاروبار کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ محققین نے یہ قدرت بھی حاصل کرلی ہے کہ وہ جانور کے بالغ خلیات کو جنین جیسی حالت اختیار کرنے پر مجبور کرسکیں۔ پھر انھیں بیضوں یا نر تولیدی خلیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بعدزاں ان بیضوں کے ساتھ ’ چھیڑ چھاڑ‘ کر کے انھیں کامل جنین کی شکل دی جاسکتی ہے۔
ٹیکنالوجی میں ہونے والی اس ترقی نے معدوم حیاتیاتی انواع کو وجود میں لانے کا عمل آسان تر کردیا ہے۔ سائنس داں اور محققین عشروں سے میمتھ کو زندہ کرنے پر غور کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا قدم سائبیریا کے یخ بستہ میدان میں میمتھ کا رکاز تلاش کرنا تھا جو بہترین حالت میں ہو۔ سیئول میں قائم سوآم بایوٹیک ریسرچ فاؤنڈیشن کے نئی کلوننگ ٹیکنالوجی سے لیس محققین میمتھ سے متعلق وسیع علم رکھنے والے ماہرین کے ساتھ مل کر معدوم نسل کے ہاتھی کی باقیات تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
گذشتہ موسم گرما میں اس ٹیم نے دریائے یانا کے ساتھ ساتھ اوپر کی جانب سفر کیا تھا۔ اس دوران انھوں نے منجمد برفانی چوٹیوں میں سرنگیں کھودی تھیں۔ ایسی ہی ایک سرنگ میں سے انھیں میمتھ کے عضلات کے چند ٹکڑے بشمول ہڈیوں کا گودا، بال، کھال اور چربی دست یاب ہوئے۔ ان تمام باقیات کا سوآم کے سائنس داں تجزیہ کر رہے ہیں۔ اگر انھیں ان باقیات میں کوئی زندہ خلیہ مل جاتا ہے تو وہ اس کی مدد سے اسی طرح کے لاکھوں خلیات تیار کرسکیں گے، جنھیں بعدازاں جنین کی شکل دے کر کسی ہتھنی کے رحم میں رکھا جاسکے گا۔
بیشتر سائنس داں اس بارے میں شکوک کا شکار ہیں کہ سائبیریا کے کھلے میدان میں اور نقطۂ انجماد سے بھی نیچے اتنے طویل عرصے تک کوئی خلیہ زندہ رہ سکتا ہے۔ تاہم ایسی صورت میں سوآم بایوٹیک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر ہوانگ اور ان کے ساتھیوں نے متبادل منصوبہ ترتیب دے رکھا ہے: یعنی میمتھ کے ایک خلیے کا صحیح سالم مرکزہ حاصل کرنا۔
اس امر کے امکانات کافی روشن ہیں کہ خلیے کی نسبت اس کا مرکزہ محفوظ حالت میں ہو۔ بہرحال صرف مرکزے سے میمتھ کی کلوننگ بہت ہی پیچیدہ عمل ہوگی۔ اس کے لیے محققین کو مرکزہ ، ہاتھی کے ایک ایسے خلیے میں منتقل کرنا ہوگا جس کا اپنا مرکزہ نکال دیا گیا ہو۔ اس مقصد کے لیے ہاتھی سے خلیہ حاصل کرنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو ابھی تک نہیں کیا جاسکا۔
اگر مرکزے کے اندر موجود ڈی این اے اتنا طاقت ور ہو کہ وہ بیضے کا کنٹرول سنبھال سکے تو پھر بیضے کی تقسیم کا عمل شروع ہوسکتا ہے، جو بعدازاں جنین کی شکل اختیار کرلے گا۔ اگر سائنس داں یہ رکاوٹ عبور کرلیتے ہیں تو پھر انھیں اس جنین کو ہتھنی کے رحم میں رکھنے کا کٹھن مرحلہ درپیش ہوگا۔ اس کے بعد، جیسا کہ ڈاکٹر ہوانگ کہتے ہیںِ، انھیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ اگر سب کچھ ان کی توقع کے مطابق ہوجاتا ہے پھر بھی انھیں یہ دیکھنے کے لیے دو برس تک انتظار کرنا ہوگا کہ ہتھنی صحت مند میمتھ کو جنم دیتی ہے یا نہیں۔
1813ء میں دریائے اوہایو کے ساتھ ساتھ ہارڈنسبرگ سے لوئزولے جاتے ہوئے فرانسیسی نژاد امریکی ماہرطیوریات جان جیمز اوڈوبن نے ایک حیران کن نظارہ دیکھا۔ وہ لکھتا ہے،’’ پورا آسمان ہجرت کرنے والے کبوتروں سے بھر گیا تھا، یوں لگ رہا تھا جیسے فلک پر چادر تن گئی ہو۔ ‘‘ جب جیمز لوئز ویلے پہنچا تو شام ہوچکی تھی اور اس وقت بھی اس کے سر کے اوپر سے یہ مخصوص نسل کے کبوتر گزر رہے تھے، اور آئندہ تین روز تک مسلسل گزرتے رہے۔
جان لکھتا ہے کہ اوہایو کے دونوں کنارے مردوں اور بچوں سے بھرے ہوئے تھے جو بندوقوں سے ان ہجرتی پرندوں کا شکار کررہے تھے۔ 1813ء میں یہ تصور کرنا بھی دشوار تھا کہ اتنی کثیر تعداد رکھنے والے کبوتروں کی یہ نسل ایک دن صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گی مگر انیسویں صدی کے اختتام تک سرخ سینوں والے ان مسافر کبوتروں کی تعداد بہت محدود ہوچکی تھی۔ اس نسل کا آخری تصدیق شدہ کبوتر 1900ء میں ایک لڑکے کی شکاری بندوق کا نشانہ بنا۔
دو سال قبل مصنف اور ماہر ماحولیات اسٹیورٹ برانڈ اور اس کی شریک حیات اور جینیٹک ٹیسٹنگ کمپنی ’’ ڈی این اے ڈائریکٹ ‘‘ کی بانی ریان فیلن اس بارے میں سوچنا شروع کیا کہ کیا اس خوب صورت پرندے کو پھر سے زندگی دی جاسکتی ہے۔ اپنے خیالات جب انھوں نے ہارورڈ یونی ورسٹی کے ماہرحیاتیات اور ڈی این اے سے ’چھیڑ چھاڑ ‘ کے ماہر جارج چرچ کے سامنے رکھے تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ بھی ان ہی خطوط پر سوچ رہا تھا۔
چرچ جانتا تھا کہ اس سلسلے میں کلوننگ کے معیاری طریقے سود مند ثابت نہیں ہوں گے، کیوں کہ پرندوں کا جنین خول کے اندر افزائش کے عمل سے گزرتا ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ اس ’مسافر کبوتر‘ کے میوزیم میں رکھے ہوئے کسی نمونے میں صحیح سالم اور فعال جینوم موجود ہو۔ اسی لیے اس کے تخیل نے اسے ایک نئی راہ سُجھائی۔ محفوظ شدہ باقیات میں ڈی این اے کے ریشے یا ٹکڑے پائے جاتے ہیں۔ ان ریشوں کو آپس میں جوڑ کر سائنس داں مسافر کبوتر کے جینوم کے ایک ارب کے لگ بھگ نشانات کو پڑھنے یا ڈی کوڈ کرنے میں کام یاب ہوچکے ہیں۔
چرچ ابھی تک کسی جانور کی باقیات سے اس کا مکمل جینوم تیار کرنے کے قابل نہیں ہوسکا البتہ اس نے ایسی ٹیکنالوجی ضرور ڈیولپ کرلی ہے، جس کی مدد سے وہ کسی بھی سلسلے کے ڈی این اے کے ٹکڑے ترتیب دے سکتا ہے۔ وہ نظری طور پر مسافر کبوتر کے جسم کے کسی حصے مثلاً دُم کے جینز تیار کرسکتا ہے اور پھر انھیں عام پہاڑی کبوتر کے اسٹیم سیل کے جینوم سے منسلک کرسکتا ہے۔ پہاڑی کبوتر کے اس تیارشدہ جینوم کے حامل اسٹیم خلیات کو بیضوں یا نرتولیدی خلیوں کی ابتدائی شکل میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
بعدازاں انھیں پہاڑی کبوتر کے بیضوں میں داخل کیا جاسکتا ہے، جہاں یہ بہ تدریج جنین کی شکل اختیار کرلیں گے۔ اس تیکنیک سے انڈوں سے نکلنے والے بچے عام پہاڑی کبوتر کے بچوں ہی کے مانند ہوں گے مگر ان میں بیضے اور نر تولیدی خلیے تبدیل شدہ ڈی این اے کے حامل ہوں گے۔ جب یہ ’ پٹھے‘ بلوغت کو پہنچیں گے اور افزائش نسل کے مرحلے سے گزریں گے تو اب انڈوں سے نکلنے والے بچے مسافر کبوتر جیسی خصوصیات کے حامل ہوں گے۔ بعدازاں ان پرندوں کو باہمی افزائش نسل کے عمل سے گزارا جائے گا اور پھر سائنس داں ان میں سے اُن پرندوں کا انتخاب کریں گے، جو اپنی خصوصیات میں معدوم ہوجانے والے کبوتروں سے قریب ترین ہوں گے۔
جینوم کو ازسرنو ترتیب دینے( genome-retooling) کا چرچ کا طریقہ نظری طور پر کسی بھی ایسی حیاتیاتی نوع کی تخلیق میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے، جس کے قریبی رشتے دار زندہ ہوں اور ان کے جینوم میں ازسرنو ترتیب پانے کی خاصیت بھی موجود ہو۔
اس طرح اگر سوآم کی ٹیم میمتھ کا سالم مرکزہ تلاش کرنے میں ناکام ہوبھی جاتی ہے تب بھی ناپید حیاتیاتی انواع میں روح پھونکنے کا ایک راستہ موجود رہے گا۔ میمتھ کو وجود میں لانے کے لیے درکار جینز کی ازسرنو ترتیب کے لیے سائنس دانوں کے پاس پہلے ہی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ازسرنوترتیب کے بعد ان جینز کو ایک ہاتھی کے اسٹیم سیل میں داخل کیا جاسکتا ہے۔
اگرچہ میمتھ یا مسافر کبوتر کی تخلیق اب محض افسانوی داستان نہیں رہی، بہرحال حقیقت اب بھی کئی برس دور ہے۔ تاہم دیگر معدوم انواع کے لیے یہ مدت کم بھی ہوسکتی ہے، اتنی کم کہ اس مضمون کی اشاعت سے پہلے ہی کوئی انواع عدم سے وجود میں آسکتی ہے۔ ناپید جانوروں کو دوبارہ وجود عطا کرنے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے ڈیولپ کی جانے والی کلوننگ اور جینومک انجنیئرنگ ٹیکنالوجیز معدومیت کے خطرے سے دوچار حیاتیاتی انواع کی بقا ، بالخصوص ان انواع کی بقا میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں جو حالتِ قید میں آسانی سے افزائش نسل نہیں کرتیں۔ اگرچہ جدید ترین بایوٹیکنالوجی پہلی بار بہت منہگی ثابت ہوسکتی ہے مگر بہت جلد یہ ارزاں ہوجائے گی۔
کئی لوگ یہ سوالات بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر سائنس داں میمتھ، مسافر کبوتر اور دیگر معدوم حیوانات کی باقیات سے جانوروں کی پیدائش میں کام یاب ہوگئے تو کیا یہ جانور اپنی تمام خصوصیات میں معدوم جانوروں جیسے ہی ہوں گے؟ اور کیا یہ جانور صرف تجربہ گاہوں یا چڑیاگھروں ہی تک محدود رہیں گے؟ یا انھیں جنگلوں میں چھوڑ دیا جائے گا تاکہ کہا جاسکے کہ یہ انواع حقیقی معنوں میں وجود میں آچکی ہیں۔
ڈیوک یونی ورسٹی کے ماہر حیاتیات اسٹیورٹ پِم کہتے ہیں کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کو پھر سے جنگل میں چھوڑنے کی تاریخ کچھ خوش گوار نہیں ہے۔ اس سلسلے میں عربی غزال کی مثال دی جاسکتی ہے۔ 1982ء میں اس نسل کے غزال وسطی اومان کے جنگلات میں چھوڑے گئے تھے مگر بہت جلد تقریباً سب ہی جانور شکاریوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معدوم جانوروں کی دوبارہ تخلیق مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔
دوسرے الفاظ میں جانوروں کو معدومیت سے بچانا سب سے اہم ہے۔ صرف شکار ہی معدومیت سے دوچار حیوانی نسلوں کے لیے خطرہ نہیں ہے، بلکہ متعدد حیاتیاتی انواع اپنے قدرتی مسکن سے محروم ہوچکی ہیں۔ چین کی دریائی ڈولفن آبی آلودگی اور دریائے یانگ ژے پر انسانی آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے نابود ہوگئی۔ آج بھی وہاں یہی صورت حال ہے۔ دنیا بھر میں مینڈک انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پھیلنے والے chytrid fungus کے ہاتھوں ہلاک ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں مینڈک اور دیگر معدوم جانوروں کو دوبارہ وجود عطا کرنا کیسے سود مند ثابت ہوسکتا ہے؟
اگر انسان پھر سے زندگی پانے والے جانوروں کے لیے موزوں اور محفوظ ماحول فراہم کرنے میں کام یاب ہو بھی جاتا ہے تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جینیاتی طور پر تخلیق کیے گئے جان دار کو کھلی فضا میں چھوڑ دینا راست اقدام ہوگا؟ کیا مسافر کبوتر کسی مہلک وائرس کی افزائش کا وسیلہ تو نہیں بن جائیں گے جو پرندوں کی کسی اور نسل کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کردے؟ سائنس دانوں کو ان سوالات پر بھی غور کرنا ہوگا۔