امریکی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے ایک مصنوعی گردے کو جانوروں میں لگادیا ہے جہاں یہ کامیابی سے کام کررہا ہے۔
جسم کے مختلف اعضاء کو لیبارٹریوں میں تیار کرنے کا کام کافی عرصے سے جاری ہے تاہم گردہ جسم کا ایک ایسا عضو ہے جو انتہائی پیچیدہ ہے جسے تیار کرنے میں آخر کارکامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔
جریدے ’’نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی سٹڈی کے مطابق اگرچہ مصنوعی طور پر تیار کیا گیا گردہ اصلی گردہ سے کم موثر ہے تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس میدان میں ابھی کام کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کی بہت گنجائش ہے۔یاد رہے کہ گردہ جسم کا ایک ایساعضو ہے جو خون سے فاضل مادوں اور اضافی پانی کو فلٹر کرتا ہے۔یہ سب سے زیادہ طلب رکھنے والا عضو بھی ہے اور مریضوں کی ایک بہت بڑی تعداد ٹرانسپلانٹ کے لیے گردوں کے عطیات کے انتظار میں ہے۔
محققین کا جو منصوبہ ہے اس کے مطابق ایک پرانے گردے کو لے کر اس کے تمام پرانے خلیات صاف کرکے اسے اس طرح بنانا ہے جیسے شہد کا چھتہ ہوتا ہے۔اس کے مطابق مریض سے خلیات لے کر اس گردے کو نئے سرے سے تیار کیا جائے گا۔موجودہ ٹرانسپلانٹ کے طریقے کے مقابلے میں اس سے دو فائدے ہوں گے۔
ایک تو ٹشو مریض کے ٹشو سے میچ کریں گے اور یوں اس کو تمام عمر وہ مخصوص ادویات لینے کی ضرورت نہیں ہوگی جو مدافعتی نظام کی جانب سے استرداد کو روکتی ہیں۔اس طرح اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے ٹرانسپلانٹ کے لیے دستیاب اعضاء کی دستیابی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا۔اس وقت جو زیادہ تر اعضاء ٹرانسپلانٹ کے لیے عطیہ کیے جاتے ہیں وہ جسم کی جانب سے مسترد ہوجاتے ہیں تاہم ان کو نئے اعضاء کے لیے ٹیمپلیٹ کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
میساچسٹس جنرل ہسپتال کے محققین نے اس طریقے سے قابل استعمال انجینئرڈ گردے تیار کرنے کی جانب سے پہلا قدم اٹھالیا ہے۔انہوں نے ایک چوہے کے گردے کو لے کر ڈٹرجنٹ کے ذریعے اس کے پرانے خلیات کو ختم کیا۔اس کے بعد جو کچھ بچا وہ پروٹین کا ایک جال تھا جو گردے کی شکل جیسا تھا جس میں خون کی شریانوں اور نکاسی کی نالیوں کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک بھی موجود تھا۔
پروٹین کے اس جال کو بعدازاں صحیح خلیات کو گردے میں صحیح ترین مقام تک پہنچانے کے لیے استعمال کیاگیا جہاں یہ ایک دوسرے سے صحیح طورپر منسلک ہوگئے تاکہ عضو کو نئے سرے سے تعمیرکرسکیں۔اس کو بارہ روز تک ایک خصوصی اوون میں رکھا گیا تاکہ اسے ایسا ماحول دیا جاسکے جو چوہے کے جسم میں ہوتا ہے۔اس کے بعد جب اس گردے کو لیبارٹری میں چیک کیا گیا تو اس کے ذریعے پیشاب کی پیدوار اصل گردے کے 23 فیصد تک پہنچ گئی۔
اس کے بعد ٹیم نے اس گردے کو چوہے میں ٹرانسپلانٹ کرنے کی کوشش کی لیکن جب اسے ٹرانسپلانٹ کیا گیا تو اس کی اثرپذیری صرف پانچ فیصد تک رہ گئی۔تاہم اس کے باوجود سرکردہ محقق ڈاکٹر ہیرالڈ اوٹ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نارمل عمل کا صرف معمولی ترین حصہ بحال کرنا بھی کافی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ ہیموڈائلاسس پر ہیں تو گردے کا صرف د س سے پندرہ فیصد کام کرنا بھی آپ کو ہیموڈائلاسس سے نجات دلاسکتا ہے اور ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اس میں مزید پیش رفت ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس میں امکانات بھی زیادہ ہیں۔اگر آپ صرف امریکہ کے بارے میں سوچیں تو اس وقت اس ملک میں ایک لاکھ افراد گردوں کے ٹرانسپلانٹ کے انتظار میں ہیں اور سالانہ صرف اٹھارہ ہزار ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں۔لہذا مذکورہ بالا تجربات کے کامیاب ہونے کی صورت میں اس سے وابستہ امیدیں بھی بہت بڑی ہیں۔جسمانی اعضاء کو مصنوعی طریقے سے تیارکرنا اگرچہ ایک تخیل لگتاہے لیکن حقیقت میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کو کامیابی کے ساتھ اس قسم کے اعضاء ٹرانسپلانٹ کیے جاچکے ہیں۔
اس قسم کا ایک بڑا بریک تھرو دو ہزار چھ میں ہوا تھا جب مریض کے اپنے خلیات سے تیار کیے گئے لبلبے ان میں ٹرانسپلانٹ کیے گئے تھے۔جہاں تک ری جینیریٹو میڈیسن کا تعلق ہے تواس میں چار سطح کی پیچیدگیاں ہیں۔اول ہموار سٹرکچر والے اعضاء جیسے جلد ، دوئم نالیاں جیسے خون کی شریانیں ، سوئم کھوکھلے اعضاء جیسے لبلبہ اور چہارم ٹھوس اعضاء جیسے گردے ، دل اور جگر وغیرہ۔ان میں آخری گروپ کے اعضاء انتہائی پیچیدہ ہوتے ہیں کیونکہ ان میں مختلف قسم کے ٹشوز ہوتے ہیں۔تاہم یہاں پر کامیابی کی ایک جھلک دکھائی دی ہے۔
ٹھوس اعضاء کو لیبارٹری میں تیارکرنا ابھی بہت ابتدائی مرحلے میں ہے تاہم جانوروں پر کیے جانے والے تجربات سے اس سلسلے میں خاصی پیش رفت دکھائی دیتی ہے کہ آیا اعضاء کے ٹرانسپلانٹ کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے۔
نئی موسیقی سننا دماغ کی صحت کے لیے مفید ہے
ایک سٹڈی میں قرار دیا گیا ہے کہ نئی موسیقی سننا دماغ کی صحت کے لیے مفید ہے۔ایم آئی آر سکینز کو استعمال کرتے ہوئے سائنس دانوں کی ایک کینیڈین ٹیم نے دریافت کیا کہ جب لوگوں نے ایک نغمہ پہلی بار سنا تو ان کے دماغ کا درمیانی حصہ متحرک ہوگیا۔ دماغ کا یہ حصہ ’’نیوکلیئس ایکیومبنز‘‘ کہلاتا ہے۔ شرکاء نے جتنا زیادہ اس نغمے سے لطف اٹھایا ، اتنا ہی دماغ کے اس حصے نے طاقتور ردعمل دیا۔مذکورہ سٹڈی جریدے ’’سائنس‘‘ میں شائع ہوئی۔
پورٹ مین ریسرچ سنٹر ٹورنٹو کی ڈاکٹر ویلوری سلیم پور نے اس حوالے سے بی بی سی کے پروگرام ’’سائنس ان ایکشن‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں سٹڈی سے پتہ چلا کہ نئی موسیقی سے نیوکلئیس ایکیومبنزکی تحریک میں اضافہ ہوا۔ تاہم موسیقی ایک تجریری شے ہے۔یہ اس طر ح نہیں ہے کہ آپ کو بھوک لگی ہے اور آپ کو کھانے کے لیے کوئی شے ملنے والی ہے اورآپ اس لیے خوش اور پرجوش ہیں کہ آپ اس کو کھانے والے ہیں۔یہی چیز کامیابی اور پیسہ ملنے پر بھی ہوتی ہے جب دماغ کے اس حصے میں تحریک دیکھنے میں آتی ہے۔
لیکن اس سٹڈی میں اچھی بات یہ ہے کہ آپ ایک بالکل تجریدی شے پر جوش اور مسرت محسوس کررہے ہیں اوراس بات پر خوشی محسوس کررہے ہیں کہ اگلا آنے والا میوزک کیسا ہے۔سٹڈی کے سلسلے میں مانٹریال نیورولوجیکل انسٹی ٹیوٹ میکگل یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی جانب سے انیس شرکاء کو ان کی پسند کے مطابق نئی موسیقی سنائی گئی۔جب وہ تیس سیکنڈ پرمبنی موسیقی کے ٹریک سن رہے تھے تو انہیں موقع دیا گیا کہ وہ آن لائن میوزک سٹور جو کہ فرضی تھا، سے اپنی پسند کے نغمے خرید سکتے ہیں۔
یہ تمام عمل اس وقت کیا جارہا تھا جب یہ لوگ ایم آر آئی کی مشینوں میں لیٹے ہوئے تھے۔سکین کا تجزیہ کرنے کے بعد سائنس دانو ں نے پایا کہ دماغ کا نیوکلئیس ایکیومبنز چمک رہا تھا اور اس حصے کی تحریک کی بنیاد پر محققین پیشگوئی کرسکتے تھے کہ آیا کہ شرکاء کی جانب سے کوئی گانا خریدا جانے کا امکان تھا یا نہیں۔ ڈاکٹر سلیم پور نے مزید کہا کہ جب وہ موسیقی سن رہے تھے تو ہم ان کے دماغ کی سرگرمی کو دیکھ سکتے تھے اور دیکھ سکتے تھے کہ ان کا دماغ موسیقی سے کس طرح لطف اندوز ہورہا تھا اور ا س کو کس طرح سراہ رہا تھا۔
محققین کو پتہ چلاکہ اس عمل کے دوران ’’نیوکلئس اکومبنز‘‘دماغ کے دوسرے حصے آڈٹری کورٹیکل سٹورز کے ساتھ رابطہ کررہا تھا۔یہ وہ حصہ ہوتا ہے جو اس موسیقی کی بنیاد پر ٹھوس معلومات جمع کرتاہے جو لوگ سن رہے تھے۔ڈاکٹر سلیم پور کہتی ہیں کہ ہر فرد میں دماغ کا یہ حصہ مختلف انوکھا پن رکھتا ہے کیونکہ ہم تمام لوگ ماضی میں مختلف قسم کی موسیقی سن چکے ہوتے ہیں۔محققین اس حوالے سے مزید ریسرچ کررہے ہیں۔
چقندر کا جوس بلڈپریشر کم کرتا ہے
محققین نے ایک ریسرچ میں قرار دیا ہے کہ ایک گلاس چقندر کاجوس بلڈپریشر کو نیچے لاسکتا ہے۔جریدے ’’ہائپرٹینشن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اڑھائی سو ملی لیٹر یا ایک گلاس چقندر کا جوس بلڈپریشر کو دس ملی میٹر تک کم کرسکتا ہے جبکہ بعض میں اس کو نارمل سطح پرلاسکتا ہے۔
سائنس دانوں کاکہنا ہے کہ چقندر میں موجود نائٹریٹ خون کی نالیوں کو کھلا کرتا ہے اور بہاؤ کو بڑھاتا ہے جبکہ انجائنا میں مبتلا بہت سے مریضوں کو نائٹریٹ والی ادویات کی ہی ضرورت پڑتی ہے۔بارٹس اینڈ دی لندن سکول آف میڈیسن اینڈ ڈنٹسٹری کے محققین کے مطابق وہ طویل عرصے سے چقندر کی بلڈپریشر کم کرنے کی صلاحیت کا مطالعہ کررہے ہیں اوراس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ چقندر کا رس بعض غیرمتوقع نتائج کا باعث بھی بن سکتا ہے۔جیسے کہ پیشاب کی رنگت کا گلابی ہوجانا وغیرہ۔
یاد رہے کہ نائٹریٹ مٹی میں قدرتی طورپر پایا جاتا ہے جہاں سے سبزیاں جڑوں کے ذریعے اس کو اپنے اندر لے لیتی ہیں۔یاد رہے کہ بلڈپریشر ایک ایسی بیماری ہے جس پر کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ ہارٹ اٹیک اور فالج کاباعث بن سکتی ہے۔بلڈپریشر میں دو قسم کی پیمائش لی جاتی ہے ، ایک اوپر کا اور دوئم نیچے کا ، اگر آپ کی ریڈنگ مسلسل 140/90 آرہی ہے تو آپ کا بلڈپریشر ہائی ہے اوراگر یہ 130/80سے نیچے ہے تو یہ نارمل ہے۔
محقق ڈاکٹر امریتا آہلووالیہ کے مطابق ہم اس بات پر حیران ہیں کہ کس طرح تھوڑا سا نائٹریٹ اس قدر بڑے نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اگر لوگ نائٹریٹ والی ہری پتے دار سبزیاں کھائیں یا چقندر کا جوس پئیں تو ان کا یہ لائف سٹائل ان کے دل اور دماغ کی صحت کے لیے بہت اچھا ہوگا۔
سٹڈی کی فنڈنگ کرنیوالی برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے پروفیسر پیٹر ویس برگ نے اس سلسلے میں کہا کہ مذکورہ سٹڈی سے ایک بار پھرواضح ہوتا ہے کہ ہمیں سبزیاں کثرت سے کھانی چاہئیں۔تاہم نائٹریٹ کی مذکورہ بالا افادیت کو جانچنے کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر مزید سٹڈیز کی ضرورت ہے کہ آیا سبزیاں کس طرح بلڈ پریشر کو کم کرنے کے ضمن میں مفید ہیں۔n
نبض کی تیز رفتارموت کے خدشے کو بڑھاتی ہے
ایک سٹڈی کے مطابق نبض کی تیز رفتار موت کے خدشے میں اضافہ کرتی ہے چاہے آپ جسمانی طور پر فٹ ہی کیوں نہ ہوں۔جریدے ’’ہارٹ‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیاکہ مذکورہ بالا سٹڈی کے سلسلے میں ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے درمیانی عمر کے تین ہزار مردوں کا سولہ سال تک تجزیہ کیا گیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹڈی کی تصدیق کے لیے ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاکہ اس سٹڈی کے نتائج پر فکرمند ہونے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ سگریٹ نوشی ترک کردی جائے ، صحت مند بلڈ پریشر اور کولیسٹرل کو برقرار رکھا جائے ، متحرک رہا جائے اور وزن پر نظر رکھی جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی سٹڈی سے ٹھوس نتائج نکالنا مشکل ہے کیونکہ اس میں مردوں کی فٹنس کو نہیں دیکھا گیا۔
اس کے بجائے اس میں محض اس میڈیکل ریکارڈ پر انحصار کیاگیا جو سٹڈی شروع ہونے سے بہت پہلے کا تھا۔اس کے بعد سے مردوں کی فٹنس خاصی خراب ہوسکتی تھی اور یہ چیز سٹڈی کے نتائج پر اثرانداز ہوسکتی تھی۔تاہم سٹڈی کے محققین کا کہنا ہے کہ اس بات سے قطع نظر ان کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ آرام کی حالت کے دوران نبض کی تیز رفتار عمومی جسمانی فٹنس کے باوجود صحت کے لیے ایک خدشہ ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق آرام کی حالت میں نبض کی تیزرفتار کا مطلب ہے کہ آپ کے دل کی فی منٹ دھڑکن بھی زیادہ ہے اور آرام کی حالت میں دل کی دھڑکن کی رفتار جتنی زیادہ ہوگی ، موت کا خدشہ بھی اتنا زیادہ ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آرام کی حالت میں دل کی تیزدھڑکن دل کے لیے دیگر خدشاتی عوامل کی طرح ہے جیسے کہ ہائی بلڈپریشر اور سگریٹ نوشی وغیرہ۔
سٹڈی میں مزید کہا گیا کہ توقع کے مطابق جن افراد کا دل آہستہ دھڑکتا ہے ،ان کے بارے میں امکان ہوگا کہ وہ جسمانی طورپر فٹ ہوں گے جبکہ اس کے مقابلے میں جن کا دل آرام کی حالت میں تیزدھڑکتا ہوگا وہ جسمانی طورپر بھی کم فٹ ہوں گے اوران میں دل کے لیے دیگر رسک فیکٹر بھی ہوںگے جیسے کہ بلڈ پریشر وغیرہ۔
جب اس کو ان عوامل کے ساتھ ایڈجسٹ کیا گیا تو دل کی دھڑکن اور موت کے خدشے کے درمیان تعلق پایا گیا۔برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے ڈوریان میڈوک نے اس سلسلے میں بتایا کہ اس تحقیق کے باوجود ہم یقینی طورپر یہ نہیں جانتے کہ آرام کی حالت میں دل کی دھڑکن کی تیز رفتار موت کے حوالے سے ایک آزاد خدشاتی عامل ہوسکتی ہے۔اس تحقیق کی کچھ محدودات ہیں کیونکہ اس میں صرف صحت مند اور درمیانی اور زیادہ عمر کے کاکیشیائی مردوں کا تجزیہ کیا گیا ہے اور ضروری نہیں کہ دیگر گروپ کے مردوں پر بھی اس کے نتائج لاگو ہوتے ہوں۔
لہذا ہمیں اس سٹڈی کے نتائج سے فکرمند ہونے کے بجائے اپنا لائف سٹائل بہتر بنانے کی طرف جانا چاہیے جیسے سگریٹ نوشی ترک کرکے صحت مند بلڈ پریشر قائم رکھنا چاہیے۔اس کے علاوہ ہمیں اپنا کولیسٹرل لیول بھی کم رکھنا چاہیے اور متحرک رہتے ہوئے وزن پر نظر رکھنی چاہیے۔