افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں طویل عرصے سے خوں ریزی کا سلسلہ جاری ہے، اس ملک کے رہنے والے خوشیوں کے لیے ترسے رہتے ہیں، اسی لیے جب کبھی موقع ملتا ہے، وہ خوشیوں کو نہیں چھوڑتے اور کسی نہ کسی طرح اپنے لیے ہنسنے مسکرانے کا سامان کرلیتے ہیں۔
کریم اسیر اس ملک سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا نوجوان ہے جسے عرف عام میں افغانستان کا چارلی چیپلن کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس نوجوان نے اپنے ملک کے لوگوں کو دکھوں اور پریشانیوں سے نجات دلاکر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا عزم کررکھا ہے، اس کی خواہش ہے کہ اس کے وطن کے لوگ بھی دوسرے عام لوگوں کی طرح خوب ہنسیں اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں، اس کام میں وہ مسلسل ان کے ساتھ ساتھ ہے۔
افغانستان کے اس ہنستے مسکراتے کردار یعنی افغانی چارلی چیپلن کا اصل نام کریم اسیر ہے، اس کی عمر صرف 25سال ہے اور اس نے خود کو ماضی کے لیجنڈ اداکار چارلی چیپلن کے روپ میں ڈھال کر دنیا کو وہ کردار ایک بار پھرزندہ روپ میں دے دیا ہے۔ وہ بہت محنتی اور جفاکش اداکار ہے جو اپنی ریہرسل کے دوران بھی مسلسل ورزشیں اور ایکسرسائزز کرتا رہتا ہے اور دنیا بھر کے نوجوانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ انہیں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ کام میں لینا چاہیے تاکہ ان کی ذات دوسروں کے لیے کچھ دینے والی بن جائے۔
افغانستان کے چارلی چیپلن کریم اسیر کا کہنا ہے:’’میری ساری زندگی اب تک خودکش حملوں، بم دھماکوں کی گھن گرج اور دہشت گرد گروہوں کی جانب سے دھمکیوں کے ماحول میں گزری ہے اور میں نے بار بار یہ گھناؤنی کارروائیاں خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ اس کے باوجود نہ تو میں کسی سے ڈرا اور نہ ہی ایسے دہشت گردوں سے خوف زدہ ہوا، بلکہ ان کی بزدلانہ کارروائیوں نے میری ہمت اور بھی بڑھائی اور میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میں اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور اپنے لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرتا رہوں گا۔‘‘
چناں چہ وہ بڑے من موجی انداز میں اسی طرح کابل کی سڑکوں اور گلیوں پر خوشی خوشی جھومتا اور گاتا رہا، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری سے کبھی غافل نہ ہوا اور وہ تھی اس کی اپنی جان کی حفاظت جسے بچانے کے لیے وہ ہمہ وقت مستعد رہا۔
افغان چارلی چیپلن یعنی کریم اسیر کا یہ بھی کہنا ہے:’’اپنے لوگوں کو مسکراہٹیں دینا بہت سادہ اور آسان کام ہے، میں افغانیوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتا ہوں، انہیں نہ اداس دیکھ سکتا ہوں اور نہ مایوسی کی دلدل میں اترے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں انہیں ہر وقت خوش اور مطمئن دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
کریم اسیر افغان دارالحکومت کابل میں چارلی چیپلن بنا پھرتا ہے، یعنی وہی حلیہ، وہی لباس، بیگی یا ڈھیلی ڈھالی پینٹ، بڑے سائز کے جوتے اور سیاہ لمبا ہیٹ، وہ سر سے پیر تک چارلی چیپلن بنا رہتا ہے جسے دیکھ کر لوگ بہت لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہر وقت اس کی کارکردگی کو دیکھنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔
25 سالہ کریم اسیر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں چارلی چیپلن کے نقال جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں، یہ وہ ہنستے مسکراتے لوگ ہیں جو لوگوں کے ذہنوں سے ان کے دکھ درد دور کرنے میں مدد دیتے ہیں اور ایسے لوگوں کو رنج و غم سے نکال کر انہیں خوشیوں کی وادیوں میں لے جاتے ہیں۔
کریم اسیر کے ابتدائی ایام ایران میں گزرے تھے جہاں اس کا خاندان اس وقت پہنچا تھا جب طالبان نے 1996 میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔ وہاں کریم اسیر نے ایرانی ٹیلی ویژن پر چارلی چیپلن کی اداکاری دیکھی تھی اور اس سے متاثر بھی ہوا تھا۔
جب یہ گھرانا واپس اپنے گھر افغانستان پہنچا تو عصر نے اپنے آپ کو افغانی چارلی چیپلن بناکر پیش کرکے نہ صرف افغانیوں کو بلکہ پوری دنیا کے ہی ناظرین کو چونکادیا، اور پھر جب اپنی جان دار اور بے مثال پرفارمنس دینی شروع کی تو ایک طرح سے اس نے ایک نئے چارلی چپیلن کو افغانیوں اور دنیا بھر کے لوگوں سے متعارف کرادیا۔ حالاں کہ یہ شہر یعنی کابل مسلسل دہشت گردی، وحشت و بربریت اور بم دھماکوں کی لپیٹ میں رہتا تھا، مگر پھر بھی کریم اسیر اپنے کام میں لگا رہا، کیوں کہ اس کی خواہش تھی کہ اس کے لوگ عارضی غموں کو فراموش کرکے ہنسیں بولیں، قہقہے لگائیں اور خوش رہیں۔
کریم اسیر نے یہ بھی بتایا کہ اسے یہ کہہ کر دھمکیاں بھی دی گئیں کہ وہ جو بھی کام کررہا ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے، اس کے باوجود اس نے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ عام طور سے اپنی پرفارمنس یا تو عوامی پارکس میں دکھاتا تھا یا نجی محفلوں میں، یتیم خانوں اور رفاہی پروگراموں میں بھی وہ اپنی کاردگی دکھاتا تھا جو عام طور سے بین الاقوامی امدادی ایجینسیاں منعقد کرتی تھیں۔
افغان چارلی چیپلن کریم اسیر کا کہنا ہے:’’میں اپنے لوگوں کو یہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے دکھ اور غم بھول جائیں، ان کے ذہنوں سے جنگ، جھگڑے، تنازعات، مسائل اور عدم تحفظ کے احساسات نکل جائیں جس کے بعد وہ صرف خوش رہیں اور خوشیاں منائیں۔‘‘
اپنے خوف اور دہشت گردی کا نشانہ بننے کے حوالے سے کریم اسیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرے سر پر ہمیشہ کسی خود کش بم بار کی جانب سے حملے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے، مگر یہ چیزیں میرا راستہ نہیں روک سکتیں۔ میرا کام اس ملک میں امن اور سلامتی کو فروغ دینا ہے اور میں لوگوں کے دلوں سے خوف و دہشت کو نکال پھینکنا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ وہ سب کچھ بھول کر صرف ہنستے اور مسکراتے رہیں اور ہر طرح کی دہشت گردی کو بھول کر امن و امان کے ساتھ زندگی گزاریں۔
کریم اسیر 1994 میں افغان والدین کے ہاں پیدا ہوا تھا جو اس وقت ایران میں رہتے تھے۔ ان کے ایران منتقل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی اور ان کی وجہ سے کریم اسیر کے والدین کو یہ ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ مگر بعد میں جب اس ملک میں امن قائم ہوگیا تو کریم اسیر اپنے والدین کے ساتھ واپس اپنے وطن آگیا لیکن یہاں آنے کے بعد بھی اس نے اپنا یہ کام جاری رکھا جس کی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹوں کے پھول کھلے رہتے ہیں اور وہ ہر طرح کے ٹینشن سے دور رہتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کریم اسیر نے کابل کے ایک یتیم خانے میں اپنی پرفارمنس دکھائی تھی۔ اس موقع پر اس کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہونے والے حاضرین میں دو درجن بچے تھے جنہوں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور افغانی چارلی چیپلن کی پرفارمنس خوب انجوائے کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کریم اسیر افغانستان میں بہت مقبول ہے اور خاص طور سے نوجوان نسل اس سے بہت زیادہ متاثر دکھائی دیتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس پر تنقید کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آج کے لوگ کامیڈی کو ان مسائل کا علاج نہیں سمجھتے جن کا سامنا آج کے لوگوں کو افغانستان میں کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ اس حوالے میری کامیڈی پر طنز کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
کریم اسیر نے بتایا کہ میرے ہی لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس پینے کے لیے صاف پانی نہیں ہے، ہمارے پاس رہنے کو اچھا گھر یا محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔ ایسے میں تم ہنسی مذاق کرکے ہمارا اور ہمارے لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہو، تمہاری ان باتوں سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ ہمیں تم پر غصہ بھی آتا ہے اور چڑچڑاہٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔
کریم اسیر نے بتایا کہ میں ان کی شکایات سن کر یہ جواب دیتا ہوں:’’یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، مگر ہمیں خوشیوں اور مسکراہٹوں کی بھی تو ضرورت ہے ناں، اور میں وہی کام کررہا ہوں۔ یہ ایک ایسی خدمت ہے جو کسی نہ کسی کو تو انجام دینی ہے، اگر میں وہ خدمت کررہا ہوں تو اس میں اعتراض والی کیا بات ہے؟ میں اس کام کو اپنے لوگوں کی ایک بڑی خدمت سمجھتا ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ چارلی چیپلن وہ لیجنڈ تھے جو دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آج میں اس عظیم شخصیت کو اپنے لوگوں کے لیے ایک عظیم تحفے کی صورت میں پیش کررہا ہوں۔‘‘
کریم اسیر اپنی اس شان دار پرفارمنس کو پورے افغانستان میں اور اس کے سبھی شہروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ میرا ایک ایسا مقصد ہے جس کی وجہ سے میرے لوگ خوف اور دہشت گردی کے سائے سے باہر نکل آئیں گے اور ہنستی مسکراتی دنیا میں قدم رکھ دیں گے جہاں ہر طرف امن و سلامتی اور پیار و محبت کے پھول کھلے ہوں گے اور آج ہمیں ایسے ہی ماحول کی ضرورت ہے۔
The post کریم اسیر؛ افغانستان کا چارلی چیپلن appeared first on ایکسپریس اردو.