کوئٹہ میں مارچ کا مہینہ عموماً بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ دسمبر سے فروری تک مسلسل شدید اور اکتا دینے والی سردی کے بعد پت جھڑ سے بے لباس درختوں کو بہار کی آمد پر کھلتے ہلکے سبز نئے پتوں کی پوشاک ملتی ہے تو جو پھلدار درخت ہیں جیسے ناشپاتی، بادام ، خوبانی، آڑو، شفتالو، سینٹ روزہ اور چیری کے درخت سبز پتوں سے پہلے پھولوں اور پھر پھلوں سے لد جاتے ہیں، زمین پر گھاس خود رو سرخ اور پیلے گل لالہ بوئے مادران نامی جڑی بوٹی کے پھولوں کے علاوہ ہر جگہ چنبلی مہکتی ہے تو موسم سر ما پر ہجرت کرنے والے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھی چہکتے، چہچہاتے آمد بہار کا اعلان کرتے واپس آ جاتے ہیں۔
دوسری جانب یکم مارچ ہی سے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے، تمام اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں ڈھائی مہینے کی طویل تعطیلات کے بعد کھل جاتی ہیں اور طلبا وطالبات نئے یونیفارم پہنے نئی کلاسوں میں آتے ہیں۔
اس موسم میں کو ئٹہ میںمقابلہ ِ گل بھی ہوتا ہے کیونکہ یہاں اس موسم میں پھولو ں سے محبت کرنے والوں کے لان، باغ اور باغیچوں میں ایک سو پچاس سے زیادہ اقسام کے گلاب اور تین سو سے زیادہ پھولوں کی اقسام ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی خنک موسم کے پھول کھلتے ہیں۔ یہ مقابلہ گل ملک کے دوسرے شہروں میں موسم بہار کی آمد پر منعقد ہونے والی پھولوں کی نمائشوں سے بہت مختلف ہوتا ہے، ان نمائشوں میں حصہ لینے والے یا تو پھولو ں کو توڑ کر یا ان کے گملوں سے کھلے میدانوں میں آرائش گل کرتے ہیں۔
اس میں پھولوں کی خوبصورتی سے زیادہ ان کی سجاوٹ پر مقابلہ ہوتا ہے، جب کہ کوئٹہ میں مقابلہ گل اس طرح نہیں ہوتا بلکہ لان، باغ اور باغیچوں کے مالکان کو بتا دیا جاتا ہے کہ مقابلے کے جج حضرات آئیں گے اور ان کے لان، باغ اور باغیچوں میں پھولوں کو دیکھیں گے۔ ہمارے تعمیر نو ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تعلیمی اداروں میں خصوصاً تعمیر نو بوائز کالج اور تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ مقابلہ میں ہمارے یہ دو ادارے اکثر پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشنوں میں سے کو ئی نہ کوئی پوزیشن لیتے رہے ہیں۔
اس مقابلے کے لیے 23مارچ کا دن مخصوص کیا گیا ہے۔ اس بار 23 مارچ کی سہ پہر کو تعمیر نو کالج ہزاروں افراد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا لیکن یہاں لگے ہزاروں لاکھوں پھولوں کی طرح یہ ہزاروں لوگ بھی سوگوار تھے کیونکہ بلوچستان کے سرسید کی شہرت رکھنے والے پروفیسر فضل حق میر انتقال کر گئے تھے، یہاں تعمیر نو کے چھ تعلیمی اداروں کے وہ پھول چہرہ طالب علم بھی تھے اورکالج کے لان، فٹبال گراؤنڈ ، برآمدے، ہر جگہ میر مرحوم اور تعمیر نو کے تعلیمی اداروں سے محبت اور عقیدت ر کھنے والوں اور کالج کے سابق طالب علموں سے بھرے ہوئے تھے۔
ہر آنکھ اشکبار تھی ہزاروں افراد کی ہچکیو ں اور سسکیوں نے بہار کے پورے تاثر کو رد کردیا تھا۔ پروفیسر فضل حق میر کا جنازہ ان کی تعمیر کردہ وسیع اور خوبصورت جامع مسجد اور فٹ بال گراؤنڈ کے درمیان رکھا ہوا تھا اورجب جنازہ اٹھا تو یوں لگا جیسے پورا شہر چیخ چیخ کر رو رہا ہو، افسوس کرنیوالوں میں وزیر اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزرا، گورنر اور اعلیٰ افسران شامل تھے۔
میر اتصور مجھے نصف صدی دور ماضی میں لے گیا جب میں کو ئٹہ شہر کے سنڈے من ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، ستر کی دہائی کا آغاز ہوا تھا مگر ابھی سقوط ڈھاکہ پیش نہیں آیا تھا، ہمیشہ کی طرح صوبائی سطح کا تقریری مقابلہ تھا، اس مقابلے میں ہم اپنے انچارج ٹیچر کے ساتھ آئے تھے جب کہ تعمیر نو کے نوجوان پرنسپل پروفیسر فضل حق میر اپنے مقرر طالب علم کے ساتھ آئے تھے، اس تقریری مقابلے میں، میں نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اور تعمیر نو ہائی اسکول کے طالب علم کی دوسری پوزیشن تھی۔ جیسے ہی تقریری مقابلہ ختم ہوا۔ پروفیسر فضل حق میرخود ہمارے پاس آئے اور مجھے اتنے پیار اور خلوص سے مبارکباد دی کہ مجھے یوں لگا کہ میں سنڈے من اسکول کا نہیں بلکہ تعمیر نو ہائی اسکول کا طالب علم ہوں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب بلو چستان کا واحد انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ سے تعمیر نو ہائی اسکول کے طالب علم ہی میٹرک کے سالانہ امتحانا ت میں پہلی، دوسری اور تیسری پو زیشنیں حاصل کرتے تھے حالانکہ یہ ایک نیا اسکول تھا جو اس اعتبار سے اچھوتا تھا کہ یہ ایک فلاحی ادارے کے طور پر کام کر رہا تھا جس میں آدھے سے زیادہ بچوں کی فیسیں معاف تھیں ابھی ہم نے میڑک پاس ہی کیا تھا کہ تعمیر نوکالج بھی شہر کے درمیان کھل گیا اور پھر کیا تھا کہ انٹر میڈیٹ یعنی ایف ایس سی کی بھی اول دوئم سوئم پوزیشنیں تعمیر نو کالج کی آنے لگیں۔
پروفیسر فضل حق میر اب واقعی پروفیسر اور کالج کے پرنسپل ہو گئے تھے۔ میں بھی چند برسوں میں تعلیم سے فارغ ہو کر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گیا۔ اب ہم ریڈیو، ٹی وی،آرٹس کو نسل اور دوسرے اداروں میں بطور شاعر ادیب اور ماہر تعلیم مدعو کئے جانے لگے تو پروفیسر فضل حق میر سے شناسائی زیادہ ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ فضل حق میر نہ صرف ایک اعلیٰ پائے کے دینی اسکالر ہیں بلکہ ان کی نظر تاریخ، اردو، فارسی اور انگریری ادب پر بہت گہری ہے۔ وہ بطور ماہر تعلیم بلوچستان کی قومی سطح پر منفرد انداز رکھتے تھے اور تعلیم کے ساتھ تربیت کو لازم وملزوم سمجھتے تھے۔
قدرے دراز قد، کھڑی ناک اور ہلکی گلابی رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھوں کے ساتھ گہری پلکیں اور ابرو اس وقت گھنے اور سیاہ بالوں میں قدرے دائیں نکلتی ہوئی مانگ، چھریرا بدن، ہمیشہ سفید کبو تر کی طرح اجلا سفید اور استری شدہ شلوار قمیض کا لباس، موسم گرما میںویسکوٹ پہنتے اور سردیوں میں کوٹ اور مفلر ہوتا۔ ان کے رنگوں کو اور ڈیزائن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ لباس اور صفائی کے معاملے میں وہ بہت محتاط تھے۔
فضل حق میر نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے چھ برس کی عمر میں مقبوضہ کشمیر میں جموں کے علاقے سے اس وقت ہجرت کی تھی جب تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے فوراً بعد کشمیر کی جدوجہد آزادی کی پہلی جنگ ہوئی اور آزاد کشمیر کے علاقے پر مجاہدین اور پاک فوج نے قبضہ کرلیا تھا۔ جموں اور وادی کے علاقے کو ایک سازش کے تحت کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ مسلم اکثریت سے محروم کرنا چاہتا تھا یوں ایک سازش کے تحت راجہ نے یہ اعلان کردیا کہ جو مسلمان آزاد کشمیر اور پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ جموںشہر کے مرکزی پارک میں جمع ہو جائیں۔
جہاں سے ان کو ٹرکوں کے ذریعے قافلوں میں روا نہ کردیا جائے گا۔ میر صاحب مرحوم بتاتے تھے کہ چونکہ جموں کے مرکزی میدان اور پارک میں اس مقصد کے لیے بنائے گے کیمپوں میں ان کشمیری مسلما نوں کی رہائش کے ساتھ ان کے تحفظ کے بہت اچھے انتظامات تھے اور راجہ کی فوجیں مسلمانوں کو ان کے اکثریتی علاقوں سے نکالنے کے لیے ٹرک لے آتی تھیں یوں مسلمان سادگی میں ان کے فریب میں آگئے اور جموں شہر کے مرکز میں جمع ہوتے جاتے جہاں سے روزانہ تین چار ہزار مسلمانوں کو ٹرکوں میں بھر کر لے جاتے اور پھر کو ئی چالیس پچاس کلو میٹر دور جنگل میں ان نہتے مسلمانوں کو ٹرکوں سے اتار کر گولیوں سے بھون دیتے، یہ سلسلہ جاری تھا اور جموں کے کیمپ میں اس کی کوئی خبر نہیں تھی ہم بھی ایک دن ٹرکوں کے قافلے میں روانہ ہوئے اور پھر پروگرام کے مطابق ہمارے قافلے کو جنگل میں روک دیا گیا اور ہمیں راجہ کی فوج نے گھیرے میں لے لیا۔ ہم نے دیکھا کہ ہم سے پہلے یہا ں آنے والے شہیدوں کی لاشیں بے گورو کفن بکھری ہوئی تھیں جن میں مائیں بہنیں، بچیاں، بچے، بوڑھے، جوان سبھی شامل تھے، ہم سے آگے دو تین ٹرکوں سے اتارے گئے مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔
گو لیوں کی آوازیں سن کر لوگ چلا رہے تھے کچھ بلند آوازوں میں کلمہ ِشہادت کا ورد کر رہے تھے کہ ہندوستان کی باقاعد ہ فوج یہاں اس مقام پر ان کے کمانڈر بریگیڈیئر عثمان کی قیادت میں پہنچ گئی اور اس نے ہم سب کو اللہ کے کرم سے بچا لیا اور سب کو باحفاظت آزاد کشمیر اور پاکستان کے علاقے تک چھوڑ دیا۔
دو ایک ماہ کے بعد فضل حق میر کا پورا خاندان کوئٹہ آگیا اور وہ کشمیر ی خاندان جو جموں اور وادی میں چاول کا کاروبار کرتا تھا یہاں کو ئٹہ میں آباد ہو کر گزر بسر کرنے لگا۔ یہاں اسپیشل ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد میر صاحب اپنے روحانی استاد مولانا عبدالمجید کے کہنے پر مولانا عبدالمجید ، فضل جمالی اور دیگر اہل دل کی جانب سے بنائے گئے تعمیر نو ہائی پرائمر ی اسکول میں پڑھانے لگے اور ساتھ ہی انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ایم اے اسلامیات اور بی ایڈ کیا ۔ پھر 1966ء میں پچیس سال کی عمر میں اسکول کے پرنسپل ہو ئے۔ یہاں سے میر صاحب نے تعمیر نو کے ادارے کو ایک ایسی تحریک بنا دیا جو بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے کے لیے علی گڑھ کی تحریک جیسی تحریک ثابت ہوئی ۔
پہلا تعمیر نو ہائی اسکول حکومت سے حاصل کی گئی زمین پر شہر کے قلب میں قائم ہوا اور پھر اس کے تھوڑے عرصے بعد میرصاحب نے اس اسکول سے کو ئی تین کلومیٹر دور حکومت بلوچستان سے حاصل کردہ زمین پر تعمیر نو پرائمری اسکول کی ایک اور نئی عمارت تعمیر کروا دی۔ ستر کی دہائی تک تعمیر نوکی ساکھ پورے صوبے میں قائم ہو چکی تھی۔ اسی کی دہائی میں جب تعمیر نو بوائز کالج قائم ہوا تو اس نے بھی بلوچستان بھر میں پہلی، دوسری اور تیسر ی پوزیشنیں حاصل کیں۔
میں اس دوران وفاقی حکومت کی سترا گریڈ کی نوکری سے صوبائی محکمہ تعلیم کالجز میں اسسٹنٹ پروفیسر آیا، اس دوران پروفیسر فضل حق میر نے کو ئٹہ ہی میں تعمیر نو ایجو کیشنل کمپلیکس کے لیے 72 ایکڑ زمین حکومت سے حاصل کر لی، اس وقت ان کے ساتھ میر عبدالخالق جمالی چیرمین تعمیر نو ٹرسٹ نے جو سابق وزیراعظم و وزیر اعلیٰ ظفر اللہ جمالی کے کزن ہیں انہوں نے بھی اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا اور پھر اس 72 ایکڑ زمین پر ایجوکیشنل کمپلیکس قائم کیا اور ساتھ ہی یہاںیو نیورسٹی بنانے کا منصوبہ شروع ہوا۔ راقم پروفیسر فضل حق میر کے اس عظیم مشن کے لیے میڈیا کے شعبے سے لکھتا رہا مگر ان سے گہرا اور قریبی تعلق اس وقت ہوا جب میں سرکاری ملازمت سے اپنی 25 سالہ سروس مکمل کرتے ہی45 برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے کر تعمیر نو کالج میں آ گیا۔ اس وقت پروفیسر فضل حق میر کی عمر 58 برس تھی۔ تعمیر نو کالج میں پہلے مطالعہ پاکستان اور پھر اردو ادب پڑھانے لگا۔
یوں تقریباً بیس سال میں ان کے قریب رہا اور ان کی شخصیت نے لاکھوں دوسرے افراد کی طرح مجھے بھی بہت متاثر کیا۔کالج ہی میں پرنسپل لاج ہے جو چار کمروں، ایک ڈرائنگ روم اور مختصر سے لان پر مشتمل ہے۔ وہ صبح وسویرے بیدار ہوتے، کالج کی جامع مسجد میں نماز پڑھتے اور پھر کچھ دیر قرآن پاک کی تلاوت فرماتے پھر کچھ دیر آرام کرتے اور بہت ہلکا ناشتہ کرکے کالج آجاتے، گھر میں ان کی مختصر فیملی تھی جن میں ضعیف والد، اہلیہ اور بیٹی جو اس وقت ہائی اسکول کی طالبہ تھی، وہ ہمیشہ باوضو رہتے، کالج میں اور گھر کے ڈرائنگ روم میں بھی جہاں میرا اکثر جانا ہوتا تھا ان دونوں جگہ اٹیج باتھ روم نہیں تھا، یہ ان کے مزاج کی پاکیزی اور طہارت تھی، اُن کا کہنا تھا کہ جہاں انسان رہے اٹھے بیٹھے وہاں ملحقہ باتھ روم کا ہونا پاکیزگی اور حس جمالیات کی نفی کرتا ہے، یوں ان کے دفتر اور ڈرائینگ روم دونوں سے کوئی بارہ چودہ فٹ دور باتھ روم تھے۔
دفتر میں ان کی میز پر روضہ رسولﷺ اور خانہ کعبہ کے ٹھوس شفاف شیشے کے بنے ماڈل کے قریب تازہ پھولوں کا خوبصورتی سے بنایا گیا گلدستہ ہوتا اور اکثر وہ اپنے کالر میں بھی پھول اور ہلکی خوشبو کا عطر لگاتے تھے، کرسی کی پشت پر دیوار کے اوپر مہر نبوت آویزاں تھی جس کے زیرِ سایہ وہ کام شروع کرنے سے قبل تلاوت کرتے، بائیں دیوار پر کسی اچھے خطاط کے ہاتھوں لکھی علامہ محمد اقبال کی یہ ُرباعی آویزاں تھی۔
تُو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پزیر
گر تُومی بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
تر جمہ ۔’’اے اللہ تعالیٰ تُو دونوں جہانوں کا مالک اور بخشنے والا ہے اور میں تو تجھ سے بھیک مانگنے والا ہوں، قیامت میں یومِ حساب مجھے معاف کردینا اور اگر تُو یہ سمجھے کہ حساب لینا ضروری ہے تو پھر میرے گناہوں کا حساب حضورﷺ کی نظروں سے بچا کر لینا یعنی مجھے اُن کے سامنے شر مندگی سے بچا لینا‘‘ کمرے میں میز کے سامنے چار کرسیوں کے علاوہ دائیں بائیں صوفے اور بائیں طرف ایک بڑی سی شوکیس نما الماری میں قرآن پاک کی چند جلدوں کے ساتھ تفسیر وتفہیم القرآن کی معتبر کتب اور بہت سی حوالہ جاتی کتابیں ترتیب سے رکھی ہوتیں اور ترجمے والا وہ قرآن پاک جو اکثر اُن کے استعمال میں رہتا یا تو ان کی میز پر دائیں طرف احترام سے باقی فائلوں سے فاصلے پر رکھا ہوتا یا اس الماری کے اس خانے میں رکھا ہوتا جہاں سے وہ اسے فوراً اٹھا لیا کرتے تھے۔
یوں تو پروفیسر فضل حق میر کو تعلیمی اور دینی خدمت پر ستارہ امتیاز،اعزاز فضیلت سمیت درجنوں، ایوارڈز اور شیلڈز ملی تھیں لیکن ان کو کبھی کسی نے ان کے دفتر یا گھر میں سجے نہیں دیکھا البتہ ایک جیسی پانچ شیلڈز ایسی تھیں جو مختلف برسوں میں انٹر نیشنل سیرتﷺ کانفرنسوں میں انھیں سیرت پر لکھے گئے بہترین مقالوں پر ملی تھیں۔ تعمیر نو ٹرسٹ کے چیرمین میر عبد الخالق جمالی اور دیگر اراکین ڈاکٹر مولاناعطا الرحمن، مولانا عبداللہ خلجی، غلام حسین جمالی، فضل جمالی، محمد نسیم لہڑی، ڈاکٹر عبداللہ خان، حافظ محمد طاہر،کرنل ر محمد مجیب خان کے ساتھ میٹنگ ہو یا اسٹاف روم میں ماہا نہ اسٹاف میٹنگ اُن کا یہ اصول تھا کہ اُس موقع یا اجلاس کی مناسبت سے قرآن پاک کی سورہ کا انتخاب کرتے اور اجلاس کے آغاز پر اُس سورہ کی آیات کی تلاوت کرتے جاتے، ایک ایک آیت کا ترجمہ کرتے، تفسیر بیان کرتے اور اس کے بعد میٹینگ ایجنڈے کے نکات پر بات شروع ہوتی۔
اجلاس میں نکات اور مسائل بیان کرتے اور پھر وہاں موجود ہر شخص کو اس پر تجاویز دینے،اعتراضات اٹھانے کی کھلی اجازت ہوتی اور آخر میں ان نکات پر اکثریتی بنیادوں پر فیصلے ہوتے باوجود یہ کہ اجلاس پروفیسر فضل حق میر ہی کی صدارت میں ہوا کرتے تھے مگر فیصلے اکثریت کی رائے پر ہی ہوتے تھے۔ جہاں تک تعلق فیصلہ سازی کا تھا تو اس میں ان کا یہ اصول تھا کہ دوران اجلاس کوئی کتنا ہی اختلاف کرے یہ اُس کا حق ہے مگر جب فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر ہو جائے تو یہ سب کا فیصلہ ہو گا اور وہ بھی جو اختلاف رکھتے تھے وہ بھی اس فیصلے کو نہ صرف قبول کریں گے بلکہ اس اجلاس میں ہونے والے فیصلے کے بعد اپنے اختلاف اپنی ذات تک محدود رکھیں گے۔
میر صاحب اپنی زندگی کے آخری ایام تک ایک خاص ڈسپلن سے اپنے معمولات پر قائم رہے وہ کم از کم ایک پیریڈ روزانہ ضرور لیتے، ٹیچنگ کا انہیں حد درجہ شوق تھا اور لیکچر دیتے ہوئے ڈوب جاتے تھے، اسلامیات ، تاریخ اور اردو ادب ان کے خاص پسندیدہ مضامین تھے۔ تعمیر نو کالج کی جامع مسجد کے خطیب تھے، جمعہ کے روز نماز سے پہلے بہت پُر اثر تقریر فرماتے، ہمیشہ ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے جس میں کسی کو کوئی اختلاف نہ ہوتا، ان تقاریر کے لیے نمازیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے علاقوں کی جامع مساجد کی بجائے یہاں آتی۔
رمضان المبارک میں بھی تراویح پر خاص اہتمام ہوتا جو پارہ حافظ صاحب جس دن تلاوت کرتے اُس کی اہم سورتوں کے تراجم اور تفسیر کی بنیاد پر تراویح سے قبل ان کی پُر اثر تقریر ہوتی اور پھر دوسرے روز صبح یہی تقریر کالج کے تقریباً ڈیڑھ ہزار طلبا کے سامنے ہوتی، بعد میں یہ اہتمام بھی ہوتا رہا کہ ٹیلیفون اور اسپیکروں کے ذریعے کوئٹہ کے تمام چھ اداروں میں یہ تقاریر بیک وقت سنی جاتی تھیں۔ انہوں نے تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس کے احاطے میں بھی چند سال قبل ایک بڑی خوبصورت جامع مسجد تعمیر کروائی اور جب بھی یہاں آتے یہاں کے اساتذ ہ اور طالب علموں کے سا تھ نماز ادا کرتے اور اکثر امامت بھی فر ماتے۔
ساری زندگی اُن کی بھرپور کوشش رہی کہ سیرت النبیﷺ کی بنیاد پر طالب علموں کی کردار سازی کی جائے، طہا رت، پاکیزگی، عبادات اور عشق نبیﷺ نے ان کے لہجے کی سچائی کو دو چند کردیا تھا، ان کی زبان سے نکلے الفاظ پوری تاثیر کے ساتھ سماعتوں سے ہوتے دلوں میں اترتے تھے، ایمانی قوت، جرات کے ساتھ اللہ تعالی نے انہیں نبی ﷺ کی ا یسی محبت بخشی تھی کہ یقین نہیں آتا تھا کہ کوئی انسان ایمانی قوت سے اتنا طاقتور اور تو انا ہوسکتا ہے۔
تعمیر نو کے اداروں کی تعمیر و ترقی کے دوران آخری بیس برس میں اُن کے ساتھ رہا، بہت طاقتور لوگوں نے اُن کی مخالفت کی لیکن اُن کا اللہ پر کامل ایمان تھا، اُ ن کو حکومت کی جانب سے تنبیہہ ملتی تھی کہ ان کو جان کا خطرہ ہے مگر وہ اپنے مشن میں ایک لمحے کی کو تاہی یا تاخیر برداشت نہیں کرتے تھے۔ چند سال پہلے تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس جاتے ہوئے اُن پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میںکلاشنکوف کی کئی گولیاں ان کی گاڑی کو لگیں اور دو گولیاں تو ان کے لباس میں سے بدن کو نقصان پہنچائے بغیر گزر گئیں۔ نسیم لہڑی جو میر صاحب کے شاگرد اور میرے گہرے اور پرانے دوست ہیں اس وقت کمشنر کوئٹہ تھے، مجھے فون کیا کہ میں آرہا ہوں اور فوراً ہی بغیر محافظوں کے خود اپنی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے آئے۔
میں سڑک کے کنارے ان کا انتظار کر رہا تھا، ہم دونوں اس مقام پر پہنچے جہاں اطلاع کے مطابق انہوں نے پناہ لی تھی لیکن معلوم ہوا کہ وہ گھر جا چکے ہیں، ہم گھر پہنچے تو تھوڑی دیر میں سینکڑوں افراد وہاں آچکے تھے اور وہ خیریت دریافت کرنے پر سب کا شکر ادا کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ اس واقعے سے دو برس قبل تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس کے پرنسپل پروفیسر فضل باری کو شہید کردیا گیا تھا، قاتلا نہ حملے کے بعد بھی وہ متواتر تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلکس جاتے رہے، وہ چاہتے تھے کہ بلوچستان میں معیاری تعلیم اور تربیت کے اداروں سے طالب علم ایسی قابلیت کے ساتھ عملی زندگی میں آئیں کہ وہ بین الاقوامی ، قومی اور صوبائی سطحوں پر مقابلے کی بنیادوں پر خود کو منوائیں۔
اس کے لیے ان کی کوشش ہوتی کہ غریب طالب علم زیادہ سے زیادہ تعداد میں آگے آئیں۔ میں نے ان کو اس وقت روتے دیکھا جب فیس معافی کی کمیٹی کے کسی رکن سے غلطی سے کسی مستحق بچے کی فیس معاف نہ کی گئی ، یوں اس کا پتہ چلتے ہی وہ اس کا ازالہ کردیتے تھے، ان کے اس کار خیر میں نامعلوم کتنے افراد حصہ دار تھے لیکن معتبر ناموں میں کراچی کی انفاق فاونڈیشن کے حاجی ناظم اور بلو چستان کے سابق گورنر اویس غنی آخر وقت تک تعمیر نو کے فلاحی کاموں میں ان کی مالی مدد یا تعاون کرتے رہے۔ وفات سے ایک برس قبل انہوں نے کوئٹہ شہر میں تعمیر نو گرلز کالج بھی کھول دیا جس کے لیے انفاق فاونڈیشن کراچی کے حاجی ناظم نے فوراً بسوں کا تحفہ بھجوایا۔
پروفیسر فضل حق میر کو 2000 کے آغاز میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے وزیر تعلیم بنانے کی پیشکش کی جس پر انہوں نے خاموشی سے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔ انہوں نے زندگی بھر نام ونمود کو پسند نہیں کیا، انہیں کسی قسم کا کوئی لالچ نہیں تھا، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تعمیر نو بوائز کالج شارع گلستان، تعمیر نو ہائی اسکول اردو بازار اور تعمیرنو گرلز کالج سمنگلی روڈ پر جو ادارے تعمیر کئے وہ اب کمرشل علاقے ہیں، جہاں زمین کی قیمت پچیس ہزار روپے مربع فٹ تک ہے، ان اداروں کے احاطوں کی دیواروں کے ساتھ اس وقت تقریباً سو دکانیں اندر کی جانب کئی ہال اور سینکڑوں فلیٹ پلازے بنائے جا سکتے تھے مگر انہوں نے اداروں کو ہوادار اور روشن رکھنے پر ترجیح دی۔
ان کی والدہ بہت بوڑھی تھیں اور مرحوم کی وفات سے تین سال قبل ان کا انتقال ہوا، اس وقت تک وہ باوجود انتہائی مصروفیت کے اپنی ماں کے پاس بیٹھتے، ان کے پاؤں دابتے، اُن کی صحت ،کھانے پینے کا ہر طرح سے خیال رکھتے۔ مرحوم اپنی اہلیہ سے بھی بہت محبت کرتے تھے اور سب سے زیادہ محبت اُن کو اپنی اکلوتی بیٹی سے تھی جو ان کی وفات سے چند برس قبل بیاہ کر امریکہ چلی گئیں تھیں، یوں پروفیسر فضل حق میر اپنی زندگی کے آ خری ایام میں تنہا رہ گئے تھے اور شائد ایک وجہ یہی تنہائی بھی ہوکہ انہوں نے خود کو حد درجہ مصروف کر لیا تھا۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوا ہش تھی کہ کسی طرح بلوچستان میں تعمیر نو یونیورسٹی بن جائے۔
افسوس ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی مگر امید ہے کہ تعمیر نو ٹرسٹ کے چیر مین میر عبدالخالق جمالی اور مرحوم کے سابق شاگرد ٹرسٹ کے جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ خان، ممبران ٹرسٹ ڈاکٹر مولانا عطاالرحمن ، نسیم احمد لہڑی، حافظ محمد طاہر، مولانا عبداللہ خلجی، پروفیسر فضل حق میر مرحوم کی اس خواہش کو پورا کرکے بلوچستان کے عوام کو ایک معیاری یو نیورسٹی ضرور دینگے ، فضل حق مرحوم ایسے عاشق نبی ﷺتھے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی سیرت ِ مبارک کو عام کرنے کا عظیم مشن رکھتے تھے اور تحریر وتقریر، درس وتدریس ہر وقت اُن کے دل ودماغ میں بقول علامہ اقبال یہی پیغام رہتا تھا،
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم ِ محمدﷺ سے اجا لا کردے
انہوں نے تعمیر نو کالج کی پیشانی پر یہ حدیثِ مبارکہ لکھوائی ’’عقل میرے دین کی بنیاد اور علم میرا ہتھیار ہے‘‘۔ بلوچستان میں ان کی علمی و دینی خدمات یہ ہیں کہ انہوں نے اس صوبے میں تعمیر نو کے چھ معیاری تعلیمی ادارے اور دو وسیع خوبصورت جامع مساجد تعمیر کروائیں اور ہزاروں طالب علمو ں کو معیاری تعلیم دینے کے ساتھ ان کی تربیت کی، پروفیسر فضل حق میر بیوٹم یو نیوسٹی، بلوچستان یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کے سنڈیکیٹ میں بھی شامل رہے۔
اس کے علاوہ وہ بہت سے رفاہی اور فلاحی اداروں کے بورڈ آف ڈائر یکٹرز میں بھی شامل رہے، اُن کی خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی اعلیٰ، سول اور فوجی افسران ہیں اِن میں سے نصف سے زیادہ تعمیر نو کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔ تعمیر نو کے چیرمین میر عبدالخالق جمالی، جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ خان اور تمام اراکین تعمیر نو ٹرسٹ ان کے مشن کو لیکرآگے بڑھ رہے ہیں۔
ان کے شاگردوں کی اکثر یت ’’تعمیرین ‘‘ یہ چاہتے ہیں کہ اس سال انٹرنیشنل ٹیچرز ڈے عالمی یوم اساتذہ کو پروفیسر فضل حق میر سے منسو ب کرکے یہ دن منایا جائے اور چونکہ اس بار بھی بلو چستان کے واحد انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کے انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات میں نہ صرف ٹاپ ٹونٹی میں تعمیر نو کالج نے تین پوزیشنیں لی ہیں بلکہ پورے صوبے میںسب سے زیادہ فرسٹ ڈویژن اسی تعمیر نو کالج نے حاصل کی ہیں اور رز لٹ 99% رہا ہے اور اس بار بھی تعمیرنو کے طالب علموں نے تقاریر، مضمون نویسی اور کھیلوں کے شعبوں میں قومی اور صوبائی سطحوں پر نمایاں پوزیشنیں حاصل کی ہیں، اس لیے یہ تجاویز بھی ہیں کہ اس سال سے فضل حق میر ایوارڈ اور میڈل کا اجراء بھی کیا جا ئے گا۔
The post بلوچستان کا سرسید … پروفیسر فضل حق میر appeared first on ایکسپریس اردو.