قسط نمبر13
امّاں بالکل سچ کہتی تھیں اور مائیں تو ہمیشہ سچ ہی بولتی ہیں، جُھوٹ صرف اس وقت بولتی ہیں جب ان کا بچہ کسی خطرے کی زد میں ہو، یا باپ اس کے بیٹے کو پیٹنے کے لیے پَر تول رہا ہو، میں نے آج تک کوئی دعویٰ نہیں کیا، بالکل بھی نہیں، خدا اس سے اپنی پناہ میں رکھے، لیکن جناب ایک دعویٰ تو میرا ہے اور وہ یہ کہ مجھ سے زیادہ ماں کو کوئی نہیں پہچان سکتا، اب اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ خدا نے مجھے ایک ماں تو وہ دی جو مجھ ناہنجار کے دنیا میں لانے کا سبب بنی اور چھے مائیں وہ ہیں جو میری رضائی مائیں ہیں۔ ظاہر ہے ایک مشکل ترین بچے کے لیے خدا نے سات ماؤں کا انتظام تو کرنا ہی تھا کہ وہی تو ہے جو نظام کائنات کو جانتا اور اسے رواں رکھتا ہے، سو صاحبو! میں آوارہ، عامی اور عاصی سات ماؤں کا بیٹا ہوں، میں کسی اور وقت اپنی ماؤں کا بہت تفصیل کے ساتھ ذکر کروں گا۔
میں محلے بھر میں سیلانی مشہور تھا، یہیں تک ہی ہوتا تب بھی گوارا کرلیا جاتا، میں تو ہر پل نئی شرارت سوچتا اور پھر اس پر عمل درآمد میں بھی دیر نہیں لگاتا تھا۔ ظاہر ہے پھر مجھے پٹنا ہی تھا ناں۔ ایک اور مرض بھی مجھے لاحق تھا کہ جہاں کسی کو کوئی کام کرتے دیکھتا وہ کام خود کرنے پر تُل جاتا۔ ہمارے پاس زمینوں کے لیے ایک ٹریکٹر تھا، روسی ساختہ بیلارس، جسے سرفراز چلاتا تھا اور میں اکثر اس سے کہتا رہتا مجھے چابی دو میں اسے خود چلانا چاہتا ہوں، ظاہر ہے وہ مجھے چابی کیسے دیتا، بس بہلاتا رہتا کہ ہاں شہر میں ٹریکٹر نہیں چل سکتا، جب زمینوں پر جائیں گے تو وہاں چلا لینا اور میں اس وقت کا انتظار کرنے لگتا۔ گولا گنڈے والے مُشکی ماما کی کہانی میں پھر کبھی سناؤں گا، پہلے تو ماما مستقیم کی سُن لیجیے۔
گھاس پھونس کا ایک چھپّر تھا، در نہ دیوار، ایک گھڑا، ایک ٹوٹی پھوٹی سی چارپائی، ایک جستی صندوق اور چند بکریاں اس کی کُل کائنات تھی۔ میلے کچیلے کپڑے، نہ جانے کب سے اس نے بال نہیں کٹوائے تھے، ہوائی چپل پہنے وہ ایک ملنگ ہی لگتا تھا، سردی ہو یا گرمی وہ گریباں چاک اپنے کام میں مگن رہتا تھا…اور کام بھی کیا؟ جی وہ ایک چرواہا تھا۔
محلے میں صبح سویرے سب سے پہلے اس کی آواز ہی گونجتی:’’آگیا رکھوالا‘‘ اور میں دیکھتا، مختلف گھروں سے بکریاں نکلتیں اور اس کے سنگ ہوجاتیں، بہت ساری بکریاں اس کے آگے ہوتیں اور وہ کسی درخت کی چھوٹی سی شاخ اور المونیم کی گڑوی پکڑے ان کے پیچھے ہوتا۔ بالکل بے پروا تھا وہ … اونچی آواز میں کوئی فلمی گیت گاتا چلا جاتا تھا۔
تھا بہت مزے کا انسان۔ پھر میں دیکھتا کہ شام کو سورج ڈوبنے سے ذرا پہلے وہ ہر گھر کے در پر آتا اور پکارتا: ’’آگیا رکھوالا‘‘ جس گھر کی بکری ہوتی وہ اپنے گھر چلی جاتی اور وہ آگے بڑھ جاتا، آخری بکری کو اس کے گھر پہنچا کر اپنی بکریوں کو لیے ہوئے وہ اپنے چھپر میں چلا جاتا، اس کی بکریاں اس کے چھپر کے گرد بنے ہوئے جھاڑیوں سے بنائے گئے حصار میں چلی جاتیں اور وہ خود جاکر چارپائی پر لیٹ جاتا۔ تو اس طرح اس کا دن شروع اور تمام ہوجاتا، وہ بہت جلد سوجاتا تھا۔ میں نے اسے کبھی رات کو جاگتے نہیں دیکھا۔
نام تو اس کا مستقیم تھا لیکن میں ہی کیا سب ہی اسے ماما کہتے تھے، ماما مستقیم۔ بہت سادہ، میں نے اسے کبھی کچھ کھاتے پیتے بھی نہیں دیکھا، نہ جانے کیسے جی رہا تھا وہ! ایسا نہیں ہے کہ محلے والے اس کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتے تھے، لیکن بس بے نیازی میں گُندھا ہوا تھا وہ۔ ہاں اس کے پاس ایک بانسری بھی تھی۔ میں نے ماما مستقیم سے ضد کی کہ مجھے بھی چرواہا بننا ہے۔ شروع میں تو وہ بہت غصے سے بولا: جاؤ پڑھو لکھو۔ میں نہ مانا اور پھر آخر وہ ہار ہی گیا۔
میں بہت مرتبہ اس کے ساتھ جنگل گیا ہوں، بکریاں چَرانے۔ عجیب سی بات تھی اس میں، جنگل جاکر وہ کسی بھی درخت کے نیچے بیٹھ جاتا اور بکریاں ادھر ادھر چَرنے لگتیں۔ پھر وہ اپنی بانسری نکالتا۔ کیا جادو بھری سانسیں تھیں اس کی جو بانسری میں جان ڈال دیتی تھیں۔ میں نے بھی بہت کوشش کی لیکن اس کی طرح نہیں بجا سکا۔ چاروں اُور سناٹا اور بانسری کی سیدھی دل میں اُتر جانے والی دُکھ بھری کُوک۔ اکثر وہ آواز لگاتا: ’’ہُشیار رہنا ہُشیار، ہاں۔‘‘ اس نے ہر بکری کا نام رکھا ہوا تھا۔ سوہنی، کالی، بھوری، نہ جانے کیا کیا، ایک بکری کا نام شمع بھی تھا۔
مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ ہر بکری اس کی بولی سمجھتی تھی۔ پتا نہیں کیسے! پھر مجھے بتایا گیا کہ بکریاں ہی نہیں ہر جانور انسانی جذبات کو سمجھتا ہے۔ پچھلے ہی دنوں میں نے ایک ریسرچ رپورٹ بھی پڑھی جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے، تفصیل کچھ یوں تھی کہ وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’جریدے رائل سوسائٹی اوپن سائنس‘‘ میں شایع ہونے والی اس تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ بکریاں انسانی جذبات پڑھنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ جب بکریوں کے سامنے چند ایسی انسانی تصویریں رکھی گئیں جن میں کچھ چہروں پر مسکراہٹ اور کچھ پر غصہ تھا تو بکریوں نے مسکراتے چہروں کو ترجیح دی۔ کوئین میری یونی ورسٹی آف لندن میں کی جانے والی اس ریسرچ کے دوران بیس بکریوں کے سامنے ایک ہی شخص کی دو تصویریں رکھی گئیں جن میں سے ایک تصویر میں اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب کہ دوسری تصویر میں وہ غصے میں بھرا ہوا تھا۔ اسکالرز نے، جن کا تعلق یورپ اور برازیل سے تھا، بتایا کہ بکریوں نے غصے سے بھرے ہوئے چہرے پر کوئی توجہ نہیں دی اور مسکراتے چہرے کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار مسکراہٹ والی تصویر کو اپنی ناک سے چُھو کر کیا۔ لندن کی کوئین میری یونی ورسٹی کی کرسٹین نوروتھ نے، جو اس تحقیق کی شریک مصنفہ بھی ہیں۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بکریوں نے مسکراتے چہرے والی تصویروں پر تقربیاً ڈیڑھ سیکنڈ تک توجہ دی جب کہ غصے سے بھرے چہروں کی تصویروں پر اچٹتی سی نگاہ ڈال کر وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں آگے بڑھ گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بکریوں کو مسکراہٹ والے انسانی چہرے زیادہ اچھے لگے اور انہوں نے مسکرا تی تصویروں کو دیکھنے کے لیے پچاس فی صد زیادہ وقت صَرف کیا۔ جریدے رائل سوسائٹی اوپن سائنس میں شایع ہونے والی اس تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ اس بارے میں پہلا سائنسی ثبوت ہے کہ بکریاں انسانی جذبات پڑھنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ بکری اور انسان کا ساتھ ہزاروں سال پرانا ہے۔ لیکن بکریاں گھوڑوں اور کتوں سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ بکریوں کو دودھ، گوشت اور اس کی اون اور کھال کے لیے پالا جاتا ہے، جب کہ کتے شکار اور حفاظت اور گھوڑے سفر کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ تحقیق میں شامل ایک اور اسکالر ایل نمک ایلی گاٹ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم کس طرح مویشیوں اور دوسرے جان داروں کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں کیوں کہ انسانی جذبات کو سمجھے کی صلاحیت صرف پالتو جانوروں تک ہی محدود نہیں ہے بل کہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
میں کہیں اور چلا گیا، کیا کروں گم راہ جو ٹھہرا۔ تو میں بتا رہا تھا کہ شام ہوتے ہی وہ آواز لگاتا اور ساری بکریاں جمع ہوجاتیں۔ میں نے اسے اکیلا ہی دیکھا تھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: ماما! آپ کے امّی، ابّا کہاں ہیں؟ تو بہت ہنسا اور کہنے لگا: امّی، ابّا تو مرگئے، بہن بھائی یہ رہے۔ اس نے بکریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد میں نے کبھی اس سے نہیں پوچھا۔ نہ جانے کہاں سے آیا تھا وہ، کون تھا۔ میں بس اتنا جانتا تھا کہ وہ میرا ماما ہے، جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا، بکریاں چَرانا بھی، یہ دوسری بات کہ بہت عرصے بعد مجھے بتایا گیا کہ بکریاں چَرانا کوئی معمولی کام نہیں ہے، کارِ پیغمبری بھی کوئی معمولی ہوتا ہے کیا۔
اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں اور میری آوارگی عروج پر تھی۔ ایک دن صبح سویرے میں اس کے چھپر میں جا پہنچا۔ خلاف معمول وہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ میں نے تو اسے ہر دم ہنستے کھیلتے دیکھا تھا، ہر دم تازہ دم … زندہ دل، ماما کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ میری آواز سن کر اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ رو رہا تھا وہ، کیا ہوا ہے ماما! میں نے اصرار کیا۔ ارے کچھ نہیں ہوا، بس ویسے ہی، کچھ نہیں بس وہ اپنی سوہنی بیمار ہوگئی ہے۔ سوہنی بیمار ہوگئی ہے تو آپ رو رہے ہیں! سوہنی اس کی چہیتی بکری تھی۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ماما ہمارے محلے کے حکیم دادا کے پاس سوہنی کے لیے دوا لینے آئے تھے اور حکیم دادا نے انہیں ڈانٹ دیا تھا۔ وہ مطب سے جانے لگے تو حکیم دادا کی آواز آئی … بہت شفیق آواز: پگلے میں انسانوں کا معالج ہوں، جانوروں کا نہیں ہوں، سیدھا مسعود کے پاس جا، وہ ہے جانوروں کا ڈاکٹر۔ اور ماما ڈاکٹر مسعود کے پاس گئے تھے دوا لینے۔ ماما سے کوئی پیسے نہیں لیتا تھا۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا جب ماما کی سوہنی ٹھیک ہوگئی تھی اور ماما پھر سے گنگنانے لگے تھے۔
گھنگھرو کی طرح بجتا ہی رہا ہوں میں
کبھی اِس پگ میں، کبھی اُس پگ میں
ایک دن میں نے ماما کو چھیڑا، ماما آخر سوہنی سے اتنی محبت کیوں ہے آپ کو؟ تو عجیب سی بات کی انہوں نے۔ چریے مجھے تو ان سب سے محبت ہے، یہ تو میرے بہن بھائی ہیں، لیکن سوہنی میری بچی ہے۔ وہ کیسے ماما؟ میں نے پوچھا۔ سوہنی کی ماں کو بھی میں چَرایا کرتا تھا، بہت فرماں بردار تھی وہ، سوہنی میرے سامنے پیدا ہوئی اور میں نے بچوں کی طرح اسے پالا پوسا، جب سوہنی چھوٹی تھی ناں، تو بہت کم زور تھی، اتنی کم زور کہ ماں کا دودھ بھی نہیں پی سکتی تھی، میں اسے بوتل سے دودھ پلاتا تھا، مجھے ایسا لگتا تھا کہ بس یہ میری بچی ہے، اور دیکھ میں ان کا چرواہا ہی نہیں رکھوالا بھی ہوں۔
میری ذمّے داری ہے کہ میں ان کا خیال رکھوں، اگر میں نے ان کا خیال نہ رکھا تو اﷲ میاں مجھ سے پوچھے گا پھر میں کیا جواب دوں گا بھلا۔مجھے اس وقت تو اتنا سمجھ نہیں آیا تھا۔ اب آیا کہ کتنا عظیم انسان تھا وہ۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ماما کے چھپر کے گرد بہت سے لوگ جمع تھے۔ ماما رات کو تو بالکل ٹھیک تھے، آرام سے سوگئے تھے اور پھر وہ سوتے ہی رہ گئے۔ کتنے سکون سے چلے گئے وہ، پورے محلے میں سوگ تھا اور بہت سے لوگ اشک بار تھے۔ پھر ماما کا جنازہ اٹھا اور انہیں مٹی کے سپرد کردیا گیا۔ میرا معمول رہا بہت عرصے تک کہ شام کو ان کی قبر پر پانی چھڑکتا تھا اور کچھ پھول ڈالتا تھا۔ کیا بات تھی ماما مستقیم کی، واہ ۔
وہ ایک چرواہا تھا جو اپنی ذمے داری کتنی جاں فشانی اور لگن سے ادا کرتا تھا۔ وہ خود کو ذمے دار سمجھا تھا۔ بالکل ان پڑھ۔ کتنی محنت سے، محبت سے، شفقت سے وہ بکریوں کا خیال رکھتا تھا۔ ایک ہم ہیں جو بہت لکھے پڑھے ہیں، روشن خیال ہیں، نہ جانے کیا کیا ہیں اور خلقِ خدا در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، خودکشی کررہی ہے، بھوک اور افلاس سے دم توڑ رہی ہے، اغوا ہیں، ڈکیتیاں ہیں … کون سا عذاب ہے جو ہم پر نہیں اتر رہا! اور ہم چین و سکون سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے بتائیے وہ ان پڑھ چرواہا اچھا تھا، یا ہم لکھے پڑھے روشن خیال، بے حس، بے ضمیر، بدکردار، بدقماش …!
لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں پاگلوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، لوگوں کو کام سے فرصت نہیں ہے اور کچھ پاگل عجیب و غریب مشاغل میں مگن ہیں۔ ابھی حال ہی میں میری ایک ایسے ہی پاگل سے ملاقات ہوئی تھی۔ میری باتوں کو احمقانہ کہہ رہا تھا۔ پہلے تو بہت ہنسا، پھر لمحے بھر سانس بحال کی اور مسکرا کر بولا:
’’ تم اپنا کام کیے جاؤ اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔‘‘
یہی تو میں کہہ رہا ہوں، کوئی کام وام کرو۔ یہ کیا اپنا وقت ضایع کررہے ہو، میں نے اپنی دانش وری جھاڑی۔ اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا، اپنی نئی کار اسٹارٹ کی اور ہاتھ ہلاتے ہوئے نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ میں نے اسے ایک بڑے اسکول کے سامنے ایک اجاڑ درخت کے نیچے کھڑے ہوئے دیکھا تھا۔ میں سمجھا، اس کا بچہ اسکول میں پڑھتا ہوگا تبھی تو یہ اکثر یہاں نظر آتا ہے۔ میں نے نظرانداز کردیا، پھر اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئیں، لیکن وہ بندۂ بے کار اکثر وہاں نظر آتا۔ آخر وہ کرتا کیا ہے؟ میرے اندر کے تجسس نے انگڑائی لی، کرتا ہوگا کچھ تجھے کیا ہے؟ تُو اپنا کام کر۔‘‘ لیکن صاحب میرا تجسس اور گہرا ہوتا گیا۔ اچھا میں معلوم کروں گا۔ میں نے خود کو بہلانے کی کوشش کی۔ ’’کب؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’جب وقت ہوگا‘‘، ’’وقت ہوتا نہیں ہے نکالنا پڑتا ہے پیارے۔‘‘ ’’اچھا نکال لوں گا۔‘‘ ایک ہفتہ تو جیسے تیسے گزر گیا لیکن میں اپنے اندر کی آواز سے تنگ آگیا تھا۔ خانۂ خدا کے بلند میناروں سے غافل انسانوں کو پکارا جانے لگا۔ صبح سویرے کا وقت اور اذان کی آواز کیا سماں باندھتی ہے، میں جلدی جلدی تیار ہوا۔ شاہراہ فیصل پر ٹریفک بہت کم تھا۔ اخبار لیے ہوئے موٹر سائیکل سوار تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ دودھ سپلائی کرنے والی گاڑیاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔ ایئرپورٹ جانے اور آنے والے بہت جلدی میں تھے۔ میں بھی اس سیلابِ بلاخیز میں بہا چلا جارہا تھا۔ اسی بڑے اسکول کے سامنے والے درخت کے نیچے پہنچ کر میں اس پاگل کا انتظار کرنے لگا۔ ’’نہیں، یہاں نہیں۔‘‘ میرے اندر سے آواز آئی۔ ’’پھر کہاں؟‘‘ کہیں چُھپ کر اسے دیکھتے ہیں، میں نے نرسری کے پودوں کی اوٹ لی اور اس کا انتظار کرنے لگا۔ بہت دیر ہوگئی تھی، میں نے سوچا کیا خبر وہ آئے گا بھی یا نہیں۔ ’’آئے گا، آئے گا‘‘ ذرا صبر کر۔‘‘ اور میں صبر سے اس کی راہ دیکھنے لگا۔
اس اجاڑ درخت کے اوپر مٹی کی دو رکابیاں رسی سے بندھی ہوئی تھیں اور چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ پھر میں نے عجیب سا منظر دیکھا، ایک نئی کار آکر رکی۔ وہی صاحب تھری پیس میں ملبوس اترے۔ ان کے ایک ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل اور دوسرے میں ایک تھیلی تھی۔ وہ خاموشی سے اس درخت کے قریب آئے۔ پھر منرل واٹر کی بوتل کھولی اور رکابی میں انڈیل دی۔ دوسری تھیلی میں سے ایک لفافہ نکالا اور دوسری رکابی میں ڈال دیا۔ رکابی باجرے سے بھر گئی۔ پھر وہ صاحب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنی کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے اور درخت کی طرف دیکھتے رہے، چڑیوں کا ایک غول ان رکابیوں میں سے دانہ چُگ رہا تھا، کچھ پانی پی رہی تھیں۔ ایک عجیب سی خوشی اس کے چہرے پر رقص کرنے لگی اور گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔ اس سے پہلے کہ وہ گاڑی کو آگے بڑھاتا، میں اس کے سامنے تھا۔
’’واہ صاحب واہ! کیا کام چُنا ہے آپ نے!‘‘
وہ مسکرایا ، کیا ہوا ۔۔۔۔ ؟
بہت وقت ہے کیا آپ کے پاس!
’’نہیں، میں بہت مصروف ہوں لیکن ان کے لیے وقت نکالتا ہوں اور پھر میرے اصرار پر وہ بتانے لگا: ’’ یہ کام مجھے اچھا لگتا ہے۔ چڑیوں کا چہچہانا، ان کا دانہ چُگنا، پانی پینا، اچھا لگتا ہے، بہت سکون ملتا ہے مجھے۔‘‘
لوگ تو زندہ انسانوں کو کچھ نہیں دے رہے، آپ نے آسان راہ اپنائی۔ میں نے کہا۔
’’ نہیں نہیں، یہاں بہت اچھے لوگ بستے ہیں۔ انسانوں کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘
اچھا اتنا تو بتائیے آج کل آپ روزانہ کیوں آتے ہیں۔
وہ مسکرایا اور کہنے لگا: ’’جب اسکول کھلا ہوتا ہے تو بہت سے لوگ ان چڑیوں کو دانہ ڈالتے ہیں۔ اب اسکول میں چھٹیاں ہیں، میں نے سوچا، دو ماہ میں ان چڑیوں کی خدمت کرتا ہوں، بس اسی لیے روزانہ یا ہر دوسرے دن یہاں ضرور آتا ہوں۔ اچھا پھر ملیں گے۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے اپنی کار کا ایکسیلیٹر دبا دیا۔
میں سوچ رہا تھا، کیسے کیسے پاگل ہیں یہاں، کہ اندر سے آواز آئی، ’’یہی ہے زندگی پیارے، دوسرے کے لیے جینا سیکھو، عبادت سے جنّت اور خدمت سے خدا ملتا ہے۔ خدمت، خدمت اور خدمت۔ محبّت محبّت اور محبّت۔
کیا مزید بتاؤں کہ بلیوں والے بابا کیا کرتے تھے، چلیے ضرور بتاؤں گا۔
The post جہاں گشت؛ میں چرواہا بن گیا appeared first on ایکسپریس اردو.