Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

’وادی لیپا‘ اگر فردوس بر روئے زمیں است

$
0
0

پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج مظفرآباد (آزاد جموں و کشمیر)

مظفرآباد سے تاؤ بٹ اورمظفرآباد سے چکوٹھی کمان کدل : ہم زمین ناپ چکے لیکن عمر عزیز کے اڑتالیس برس، اللہ نے صحت اور سکون سے گزروا دیئے ہیں (اور یقین ہے کہ باقی برس بھی ایسے ہی گزریں گے) پر ہم بھی اتنے نالائق رہے کہ ’لیپا‘ کی محصور وادی کو نہ دیکھ سکے۔داؤکھن تک گئے اور واپس آگئے۔اس برس ’لیپا ‘کو دیکھنے کا ہم نے تہیہ کررکھا تھا۔قرعہ جولائی کے پہلے ہفتے کا نکلا اور ہم چار درویشوں (ڈاکٹر جاوید خان سربراہ شعبہ اردو آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی، میریوسف لیکچرر شعبہ اردوآزاد کشمیر یونیورسٹی، خاکسار اورمیزبان افضال عالم) نے پانچویں درویش(ڈرائیور) کے ہمراہ جمعہ 6جولائی کو بعد نماز جمعہ بوریا بستر باندھا (ویسے میں اس سے ماورا تھا کہ کچھ بھی ساتھ نہ لیا)اور مظفرآباد سے نکل پڑے۔

افضال اس سفر اور ’لیپا‘ میں ہمارا میزبان تھا۔ افضال شعبہ اردو جامعہ آزاد جموں وکشمیر کا دوسرا گولڈ میڈل طالب علم ہے۔ تحریکِ نفاذ اردو کی تحریک کو اس طرح کے یک سو قسم کے جوان ہی کامیابی کی منزل دکھا سکتے ہیں۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔ کھانا ہم نے گڑھی دوپٹہ کے پاک کشمیر ہوٹل میں کھایا۔اس وقت حبس بہت زیادہ تھا۔ ہم دریائے جہلم کے کنارے کنارے چل پڑے۔نیلی کے پل پر پہنچے تو ایک سپاہی نے سفرکا مدعا اور منزل کا پوچھا۔ پہاڑی زبان نے مسئلہ حل کردیا کہ مقامی ہی ہیں۔ نیلی سے داؤکھن ہم پہاڑی سڑک کے ساتھ یوں چمٹ گئے جیسے خوف زدہ بچہ ماں کی چھاتی سے چمٹ جاتا ہے۔

ڈاکٹر خواجہ اشفاق کی ’شاریاں‘ اور پروفیسر قاضی ابراہیم صاحب کی لمنیاں کو پاٹتے ہم ریشیاں بازار میں داخل ہوئے اور ایک مقامی ہوٹل پر چائے نوش کی۔ ہمارے موبائل کام کرنا چھوڑچکے تھے کیونکہ ریشیاں سے آگے صرف پاک آرمی کے نیٹ ورک، ایس۔کام کی کہیں کہیں سروس ہے یا پھر آپ لینڈلائن سروس استعمال کرسکتے ہیں۔اس طرح اب ہمارا رابطہ ’دنیا‘ سے کٹ چکا تھا۔ویسے اس ’عذاب‘ کے بغیر بھی رہ کر دیکھنا چاہیے کہ کیسا لگتا ہے (ہمیں تو بہت اچھالگا)۔ ریشیاں بازار سے گزرے تو پاک آرمی کی پوسٹ پر روک کر ہمارے شناختی کارڈز کی پڑتال کی گئی کہ ’لیپا‘ ایک حساس بارڈر ہے (سیاحوں کو مشورہ ہے کہ شناختی کارڈ کے بغیر سفر نہ کریں)۔ وہاں ہمیںایک چٹ جاری کی گئی اور ہم براستہ داؤکھن’ لیپا‘ کے لیے چل پڑے۔راستہ خراب سے خراب تر ہوتا چلا گیا اور ہم سیاست کو کوستے، چلتے رہے۔

چیڑھ،کائل اور دیودار کے درختوں کے ساتھ ساتھ مقامی درختوں کودیکھتے اور جڑی بوٹیوں کا معائنہ کرتے انتہائی مقام شیر گلی پہنچے۔ نیچے وادیوں سے مقامی افراد اپنے اہل خانہ اور ڈھورڈنگروں کے ہمراہ ڈھوکوں میں آبسے تھے اور ویرانے آباد ہو چکے تھے۔اس گلی سے اب دوسری طرف وادی لیپا کی طرف اترنے کا مرحلہ شروع ہوا تو افضال نے یہ کہہ کر پریشان کردیا کہ آگے اٹھارہ موڑ ہیں جو اس بدترین سڑک کے ابھی طے کرنے ہیں۔ یہاں برف بہت پڑتی ہے اور مقامی افراد کو اللہ کے بعد، آرمی کا سہارا نہ ہو تو اس گلی کو سردیوں میں عبور کرکے ’لیپا‘ پہنچنا ممکن نہیں۔ برف باری کے دوران فوج، رسے لگا کرمقامی افراد کے لیے چلنا آسان بنادیتی ہے تاکہ کوئی راستہ بھٹک کر برف برد نہ ہوجائے۔ ہم دھیرے دھیرے موڑ کاٹتے رہے۔ دیودار کا جنگل گھنا ہوتا چلا گیا کہ حضرتِ انسان کی دست برد سے تاحال محفوظ تھا۔

ہرایک موڑ اتنا خطرناک تھا کہ کسی’درخت کی جھکی ٹہنیوں‘ کی ضرورت ہر راہی کو ہوتی ہوگی۔ ایک موڑ پر ہماری چٹ کو صرف دیکھا گیا اور دوموڑ نیچے وہ چٹ لے لی گئی۔ تھوڑا اور نیچے آرمی کیمپ سے گزرے اور اردو انگریزی میں لکھی تحریریں نظرآنے لگیں۔ بھلا ہو حضرتِ اقبال کا کہ ان کی شاعری سب کو مرغوب ہے (یہاں ہر سو ’’یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے‘‘ جیسے اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں)۔ اس سے نیچے چلے تو پہلے گھوڑے اور پھر ایک موڑ مڑتے ہی والی بال کھیلتے فوجی جوان دکھائی دیئے۔ اس سے اور نیچے ایک نالے کی شروعات اور پھر آبادیاں۔ اکادکا گاڑیاں نظرآئیں جو جیپیں ہی تھیں۔ نالے کے ساتھ اور نالے میں سفر کرتے ہم موجی گاؤں میں داخل ہوئے۔ ’لیپا‘کو دائیں ہاتھ چھوڑتے ہم بائیں ہاتھ بڑھتے چلے گئے۔ نالہ قاضی ناگ پر بنے پل کو پار کیا تو ہوچڑی گاؤں شروع ہوا اور سڑک کی حالت قدرے سنبھل گئی۔

نالہ قاضی ناگ کے پار کے گاؤں کے بارے میں افضال نے بتایا کہ یہ گاؤں بخاری سادات کا ہے اور اس گاؤں سے جناب ممتاز بخاری، صدرِمعلم (جو مظفرآباد میں ہمارے ہمسائے ہیں)، جناب طفیل بخاری (ضلعی تعلیمی افسر ہٹیاں بالا) اور سید بشیر بخاری (ریٹائرڈ ناظم تعلیمات سکولز) اور دیگرکئی اساتذہ ماضی اور حال میں تعلیمی میدان میں خدمات انجام دے چکے یا دے رہے ہیں۔ ہوچڑی سے گزرتے ہم لبُگراں میں داخل ہوئے۔ میرے سکول فیلو پروفیسر ریاض مغل کا گھر دور سے دیکھا جس کو تالا لگا تھا کہ ریاض صاحب مظفرآباد منتقل ہوچکے ہیں، اس لیے وہ ہمارا استقبال کرنے سے رہے۔ اخروٹ کے دیوہیکل درختوں کے جھنڈوں سے گزرتے ہم لبُگراں کے درمیاں پہنچے اور افضال نے گاڑی کو رکنے کا کاشن آخر دے ہی دیا کہ درویشوں کا پہلا پڑاؤ آچکا تھا۔

گاڑی سے اترے اور نیچے وادی میں پیدل اترتے چلے گئے۔ ایک اور آرمی کیمپ سے گزرتے ہم افضال کے زیرتعمیر گھرمیں داخل ہوئے جس کی تعمیرات لکڑی سے کی گئیں ہیں۔ یہاں سب مکان لکڑی سے بنائے جاتے ہیں کہ وافر مقدار میں میسر ہے اور برف پڑنے کی وجہ سے سیمنٹ کی تعمیرات پائیدار نہیں ہوتیں۔ افضال کے قبیلے اور رشتہ داروں کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔ اس کے رشتہ داروں سے ملاقات کا سلسلہ اور چائے کے دور اکٹھے چلتے رہے اور اس محصور وادی کے مسائل پر بات چیت بھی ہوتی رہی۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی تاریکی کے سائے گہرے ہوئے تو سامنے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں پر بڑی بڑی بتیاں روشن ہوگئیں۔ ایک پہاڑ پر ہم تھے اور سامنے بھارتی فوج کامورچہ۔ اسی دوران ’لیپا‘ کے مقامی صحافی رضوان اعوان بھی آگئے ۔ ان سے کھانے پر اور رات گئے تک مختلف موضوعات پر بات چیت رہی۔

کھانا پرتکلف تھا اور اصولًا اس کو کھانے سے پہلے ہم کو ایک ہفتہ بھوکا رہنا چاہیے تھا۔ مقامی چاول، مقامی سبزی، دہی، گھی، چٹنی، مرغ، یخنی اور جانے کیا کیا۔ ہم کھانے کے ساتھ ’انصاف‘ کرنے لگے پر نہ کرسکے کہ کتابوں نے ہم کو کھانے پینے کے قابل چھوڑا ہی کہاں ہے۔کھانے کے بعد میٹھا اور پھر چائے کا دور۔ رات کے گیارہ بج گئے۔ خنکی بڑھنے لگی، خاموشی نے ڈیرے ڈالے اور ہم نے بھی سونے کی کوشش کی۔ رات سوتے جاگتے گزری۔ یہاں کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی کہ بیت الخلا مکان سے ہٹ کر بناتے ہیں۔ یہ اندازِ تعمیر ایران، ترکی اور ہسپانیہ کا سا ہے۔

8  جولائی کو فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر مشرق سے ابھرتے سورج اور بھارتیوں کی چوکیوں کو بغور دیکھتا رہا۔ دور نیچے نالہ قاضی ناگ کے پار، سیدھ پورہ گاؤں دو حصوں میں منقسم ہے، درمیان میں صرف درختوں کی لمبی قطار ہے اور ہندوستانی سیدھ پورہ کے کھیتوں کو جو پانی سیراب کرتا ہے، وہ بھی ہماری طرف سے نالی کے ذریعے جاتا ہے۔ اُس پار کی آبادی بھی مسلمان ہے اور وہ اِس طرف کے رہنے والوں کے رشتہ دار بھی ہیں۔ دور پہاڑوں کے دامن میں درنگلہ گاؤں ہے، جہاں سے ہجرت کرکے آنے والے جناب منظور گیلانی، اعلیٰ عدلیہ کے منصف اعلیٰ اور وائس چانسلر جامعہ آزادکشمیر بھی رہے۔ یہی نالہ قاضی ناگ سات کلومیٹر نیچے ٹیٹوال کے قریب دریائے نیلم میں گرتا ہے۔ عجیب تقسیم اور جبر ہے۔ اگر یہ علاقہ ہمارے پاس ہوتو ٹیٹوال کے راستے ’لیپا‘ بارہ مہینے آیا جاسکتا ہے اور صرف دوگھنٹے میں مظفرآباد سے ’لیپا‘ پہنچا جاسکتا ہے۔ یہاں بھارت نے 1981ء میں پیش قدمی کی۔ ہماری کمزور خارجہ پالیسی اس مسئلے کو موثر طریقے سے اقوام ِ متحدہ اور بھارت کے ساتھ نہ اٹھا سکی اور آج اس وادی کے عوام کے لیے پانچ سے چھ ماہ کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔

ستمبر 1965ء کی جنگ میں دشمن کا ہزاروں کلومیٹر کا رقبہ، جو ہماری بہادر افواج نے فتح کیا، ہم نے تاشقند معاہدے کے بعد واپس کردیا، لیکن مکار بھارت نے 1981ء میں جن علاقوں پر قبضہ کیا، انھیں واپس نہیں کیا اور نہ ہی ہم نے انھیں شملہ معاہدے یا اس کے بعد کسی اور معاہدے سے واپس لینے کی کوشش کی۔ بھارت ان علاقوں پر اسی طرح قابض ہے جس طرح اسرائیل، عرب اسرائیل جنگ کے بعدسے فلسطینی علاقو ں پر قابض ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام معاملات کو ہر فورم پر موثرطریقے سے اٹھایا جائے۔ اس دوران باقی دوست بیدار ہوچکے تھے۔ ناشتے کا ’تشدد‘ شروع ہوا۔ افضال نے رات کی کمی (اگر کوئی رہ گئی تھی تو) ناشتے میں پوری کردی۔ سو اس کے ساتھ ہم نے ’کچھ انصاف‘ کیا۔ تیار ہوئے، افضال کی والدہ سے ملے اور افضال کی کامیابی کی مبارک باد پیش کی۔ انھوں نے ہم سب کو ڈھیرساری دعائیں دیں۔ سب مائیں ایک ہی طرح کی ہوتی ہیں۔ جو ان کے بچوں سے محبت کرے، ان سب سے محبت کرنے والی۔

گھر سے پیدل ہی نکلے۔ افضال نے دور نیچے عبدالرشید کرناہی صاحب کا مکان دکھایا۔ کرناہی صاحب اس وادی کی علمی ترقی کے سرسید ہیں۔ انھوں نے ’لیپا‘ کے سکولوں، کالجوں، بنیادی صحت کے مراکز کے قیام کے لیے انتھک محنت کی،اور کررہے ہیں۔ ان کی کوششیں چھ عشروں پر محیط ہیں۔ ہم باتیں کرتے، بھارتی مورچوں کو دیکھتے ، سیب اور اخروٹوں کے درختوں کے درمیان سے گزرتے رہے۔ بیس، پچیس منٹ پیدل چلنے کے بعد سڑک پر پہنچے اور گاڑی میں بیٹھ کر تریڈہ شریف روانہ ہوئے، جو وہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر دور تھا۔ خط متارکہ پر واقع یہ مزار 1988ء کی تحریک سے پہلے آرپار کے عوام کے لیے مرجہء خلائق تھا۔ دونوں اطراف کے عوام نومبر کی یخ بستہ سردی میں یہاں اکٹھے ہوتے اور اس بہانے ان کو ملنے کا موقع بھی مل جاتا۔

تحریک کے شروع ہونے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اب ہردو اطراف، عرس کی تقریبات ہوتی ہیں۔ یہ اس طرف وادی لیپا کا ایک کونہ بھی ہے اور آخر بھی۔ اس سے آگے، اوپر اور نیچے بھارتی افواج ہیں۔ دور نیچے چھت کڑیاں گاؤں دیکھا جہاں کے گیلانی 1990ء میں ہجرت کرکے مظفرآباد آبسے اور اب ہمارے ہمسائے ہیں۔ یہ جسٹس منظور گیلانی صاحب کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔ اس علاقے نے تعلیم اور صحت کے میدان میں کئی نام پیدا کیے اور ثابت کیا کہ مشکل حالات آپ کو محنت کرکے آگے بڑھنا سکھاتے ہیں۔ تریڈہ شریف دربار پر حاضری کے بعد ہم نے اس دن کے سفر کا آغاز کیا۔ ہم بہترین لمحات سے محظوظ ہوتے اور ان کو محفوظ کرتے، موجی ، لب گراں ، گھاسلہ، بنہ مولہ، انٹلیاں، کپہ گلی، خیراتی باغ سے گزرتے چلے گئے۔ ’لیپا‘ کے یہ مشکل نام مجھے کوشش کے باوجود یاد نہ ہوسکے کہ ان پر سنسکرت کا اثر زیادہ نظرآیا۔

خیراتی باغ سے دور پہاڑوں پر پروفیسر ڈاکٹر رؤف صاحب کا گھر ہے، جنھوں نے جرمنی سے پی ایچ ڈی (ریاضی) کیا، جامعہ آزادکشمیر میں پروفیسر رہے اور سیاست کا شکار بھی۔ بہترین استاد، ہنس مکھ، باتونی اور سب سے محبت کرنے والے۔ ہم نے بی ایس سی میں ان سے تھیوری آف نمبرز پڑھی۔ ڈاکٹر صاحب، والد صاحب کے اچھے احباب میں سے تھے۔ ماشاء اللہ حیات ہیں اور آج کل مظفرآباد میں مقیم ہیں۔ ہم ان کی صحت اور عمر میں برکت کے لیے دعاگوہیں۔ ان کے علاقے اور اس سے اوپر تلہ واڑی، غائی پورہ، بجل دھار اور بٹلیاں کی وادیوں میں ہم وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں جاسکتے تھے۔ خیراتی باغ سے آگے گرلز ڈگری کالج ہماری پہلی منزل تھا۔کالج کی عمارت دیکھ کرخوشی ہوئی۔ وادی لیپاکی یہ سب سے جدید اور خوب صورت عمارت ہے۔ اسے پاک سعودیہ فنڈ کی مدد سے مکمل کیا گیا۔ یہ 2003ء میں انٹرمیڈیٹ کالج بنا اور 2016ء میں ڈگری کالج کا درجہ پاگیا۔

کالج کے پرنسپل ملک مشتاق صاحب، تاریخ کے پروفیسر ہیں اور ’لیپا‘ سے ہی ہیں۔ ان کا مقامی ہونا کالج کے لیے نعمت ِغیرمترقبہ ثابت ہوا ہے۔ مستعد، محنتی اور یکسو قسم کے انسان ہیں مگر کم گو ہیں۔ ملک صاحب سے زیادہ ملاقاتیں نہیں لیکن احترام کا رشتہ قائم ہے۔ انھوں نے باہر آکرہمارااستقبال کیا اور کالج کی عمارت دکھانے کے دوران اپنی انتظامی بپتا سنائی۔ ڈگری کالج تین اساتذہ پر چل رہا ہے۔ آٹھ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ میں حیرت اور دکھ کی کیفیت میں سنتا رہا کہ تعلیم کے ساتھ ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے۔ مہینوں نہیں، برسوں بیت گئے اور ان اسامیوں پر اساتذہ کو تعینات کرکے نہیں بھیجا جا رہا۔ ملک صاحب انتظامی معاملات کو دیکھنے کے علاوہ پانچ کلاسیں بھی پڑھا رہے ہیں۔ وہ تین اساتذہ اور دو مقامی جزوقتی اساتذہ کی مدد سے نظام چلا رہے ہیں۔ کالج میں 230 طالبات سال اول تا سال چہارم میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

ملک صاحب بی ایس شروع کرنے کی بات بھی کررہے تھے اور میں اس مردِ درویش کی باتوں کو حیرت اور خوشی سے سن رہا تھا۔ اس بے تیغ سپاہی کو دیکھ اور سن کر خوشی ہوئی، جو بہت سارے کالج اساتذہ کے لیے مینارہء نور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ان طالبات کے ساتھ ظلم نہیں جن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ٹیوشن پڑھ سکیں یا مظفرآباد جاکرپڑھ سکیں۔ یہ سوال میں اربابِ اختیار کے لیے چھوڑتا ہوں۔ رضوان اور افضال کوکہا کہ اس مسئلے پر’لیپا‘ کے ان معززین کو مظفرآباد میں اکٹھا کریں اور ان کے ذریعے سیاسی اور انتظامی قیادت پر دباؤ بڑھائیں اور اس تعلیمی مسئلے پر کھل کر لکھیں کہ یہ ہماری نئی نسل کے مستقبل کا مسئلہ ہے (میں کاشف گیلانی صاحب سے بھی امید رکھتا ہوں کہ وہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور حل کی ہرممکن کوشش کریں گے کہ وہ بھی اسی وادی سے ہیں)۔

کالج کے ہال میں اساتذہ کی تصاویر کا ایک گوشہ بہت پسند آیا۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جنھوں نے ایک نسل کو زیورِتعلیم سے آراستہ کیا اور ان کو وادی سے باہر کی دنیا کے ساتھ مقابلے کے قابل بنایا۔ ملک صاحب نے اپنی مدد آپ کی بنیاد پر بنایا گیا بنکر بھی دکھایا جو اس کالج کے لیے بہت ضروری ہے کیوں کہ یہ بچیوں کا کالج ہے۔ مظفرآباد کے بیوروکریٹ اور سیاست دان اس کالج میں ملک صاحب کے پاس آتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی کالج کے کچھ کام بھی کر دیتے ہیں لیکن ان کے لیے اس کالج کا سب سے بڑا کام تدریسی عملے کی ضرورت کا پورا کرنا ہے۔ ملک صاحب کے ساتھ طویل ملاقات کا اختتام پرتکلف چائے پرہوا، جس کے بعد ہم ’لیپا‘ کے لیے روانہ ہوئے۔

’لیپا‘ بازار لکڑی کی تعمیرات کی وجہ سے ایک سے زیادہ بار جل چکا ہے۔ یہ بازار مقامی آبادی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ بازار کے وسط میں جامعہ مسجد اور اس سے آگے آرمی ہسپتال ہے۔ یہ ہسپتال محدود حد تک علاقے کی صحت کی ضروریات کو پوراکرتا ہے۔ میں سوچتا رہا کہ جب وادی میں داخلے اور نکلنے کے راستے بند ہوجاتے ہوں گے تو شدید قسم کے معاملات میں کیا کیا جاتا ہوگا ؟ ایک بات اچھی کی گئی ہے کہ اب جوبھی ’لیپا‘ کی سیٹ پرڈاکٹر بن کرآتا ہے، اس کو پہلے اسی وادی میں خدمات انجام دینے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ڈگری کالج برائے طلبہ کی عمارت بازارکے وسط میں ہے اور اس کو اگلے دن دیکھنے کا پروگرام بنا۔ افضال نے ہمارے ’لیپا‘ آنے کی اطلاع اکثر طلبہ کو دے دی تھی، جو ٹنل چوک پر جمع ہورہے تھے۔

ہم ٹنل چوک پہنچے۔ سب سے ملاقات رہی۔ ظفر یاسمین بھی آپہنچے۔ ظفر پہلے ایک سکول میں استاد تھے۔ پی ایس سی کیا اور اسی سال لیکچرر ہوگئے۔ ایم فل بھی کررہے ہیں اور محنتی جوان ہیں۔ ’لیپا‘ کے لیے ٹنل اور پاکستان کے لیے کالا باغ ڈیم سیاسی مسئلہ زیادہ بنا دیا گیا ہے۔ 2016ء کا انتخاب ڈاکٹر مصطفٰی بشیرصاحب نے اسی کی بنیاد پر لڑا اور جیتا۔ ہمارا قافلہ نوکوٹ کے وسط میں دھان کے کھیتوں کے درمیان سے گزرتی نہر کنارے پہنچا اور براجمان ہوگیا۔ یہ نہر ’لیپا‘ کے لیے بجلی پیدا کرنے اور کھیتوں کو سیراب کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔

موسم اچھا تھا اور دھوپ میں تیزی نہ تھی۔ ہم تاریخ کے اوراق الٹتے رہے۔ کرنل حق نواز شہید سے لے کر دور شمس بری ، بارہ ہزاری، ریتلی گلی، کالا پہاڑ اور سادھنا کے دشوار گزار رستوں پر سفر کرنے والے مجاہدین اور شہدا کے تذکروں کے ساتھ اٹھے اور دوکلومیٹر دور ایک پہاڑی پر جاکرفوٹوگرافی کی۔ چنار کے درخت ’جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار‘ کی یاد تازہ کرتے رہے اور ہم دور پہاڑوں کے درمیان وادی کی جانب چل پڑے۔ رضوان نے بتایا کہ قریب ہی ’کیاں‘ سیکٹر ہے جہاں سے ایک روایت کے مطابق میاں نواز شریف صاحب کے اجداد ہجرت کرکے پنجاب چلے گئے تھے۔

ہم ایک اور آرمی چیک پوسٹ پر اپنی شناخت کرواتے سرحدی گاؤں ’چننیاں مرگی‘ میں داخل ہوئے۔ یہاں فطرت ایک دم ٹھہر سی گئی ہے۔ نالہ قاضی ناگ، دیوداراوراخروٹ کے درخت، بینس اور بن کھوڑکے دیوقامت درخت، گھراٹ، پیکو ، کشمیری اور کشمیری زبان، چنددکانیں، مسجد اور آبادی، سارے کشمیرکوہمارے سامنے لاکھڑاکرتے ہیں۔

خواتین کو یہاں ہرطرف کام کرتے دیکھا۔کھیتوں سے پیکو اور گھر۔ یہی حال میں نے تاؤ بٹ میں بھی دیکھا تھا۔ دل ہی دل میں ان کی ہمت کی داد دی۔ ہماری اگلی اور آخری منزل ’منڈاکلی‘ گاؤں تھا۔ ایک اور نالے کے ساتھ ہم دشوارگزار پہاڑی راستے کو چمٹ گئے۔ یہ وادی سب سے منفرد اور خاموش سی لگی۔ گھنے جنگلات میں سفر کرتے ایک آبادی سے گزرے اور انتہائی گھنے جنگل میں داخل ہوئے جہاں جنگل کے درمیان ایک کھلا میدان تھا اور کچھ مویشی چر رہے تھے اور کچھ نوجوان ادھر ادھر بیٹھے تھے۔ ہلکی ہلکی پھوار نے موسم ٹھنڈا کردیا۔ سنا کہ کچھ دن پہلے چھ وزراء بھی یہاں کرکٹ میچ کھیل کر وداع ہو چکے ہیں۔ ہم نے تو کرکٹ نہ کھیلی، ہاں بیٹھ کر مقامی لوگوں کی ہمت کو داد ضرور دی کہ انتہائی موسم میں بھی جو یہاں رہتے ہیں۔

یہ ’لیپا‘ کا دوسرا کونا ہے اور یہاں سے آگے ایک ہی گاؤں ہے جہاں ہم نہ جا سکے۔ بے دردی سے کاٹے گئے درختوں پر ہم افسوس کرتے رہے۔ رضوان نے بتایا کہ آرمی کے ساتھ مل کر ہم اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ویسے اگر ’لیپا‘ کے عوام کو بجلی سستی مہیا کی جائے تو ایندھن کے لیے درخت نہیں کٹیں گے۔ یہاں بیٹھ کر اقبال اور غالب یاد آئے کہ ’’دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو‘‘ اور ’’بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے‘‘۔ یہ جگہ اتنی خاموش اور خوب صورت ہے کہ اس کے مقابلے میں ناران، مری، نیلم اور سوات کچھ بھی نہیں، لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ بدترین سڑک سیاحوں کو یہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیتی۔ اقبال کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ کا مصرع ’’شرابے، کتابے ،ربابے ،نگارے‘‘ یاد آیا۔ مگر ہم کچھ دیر ہی رومانوی فضا میں گم رہ سکے کہ وقت کم تھا اور بارش واپسی پر زور دے رہی تھی۔

یہاں کی یادوں کو سمیٹتے واپس چلے۔ اب کھانے کا مسئلہ درپیش تھا اور یہ معرکہ سر کرنے کے لیے ہم نے ایک شاگرد عابد قریشی کے گھر ’کیسرکوٹ‘ جانا تھا۔ ظفر ہم سے رخصت ہوئے۔ ہم کیسرکوٹ پہنچے اور ایک چوبی گھر میں داخل ہوئے۔ کھانا مقامی تھا۔ مقامی ساگ، مکئی کی روٹی ، گائے کا گھی، دھی، لسی، چٹنی، دال موٹھ اور مقامی چاول۔ بھوکے تو تھے ہی، اس لیے کھانے کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ سیر ہوکرکھانا کھایا اور خواہش کے باوجود قیلولہ نہ کرسکے کہ اس کو ہضم کرنے کے لیے پیدل چلنے کا پروگرام بنا تھا۔ کیسرکوٹ سے چلے اور راستے میں ’گھی کوٹ‘ اورپھر ’کھیواڑہ‘ پہنچے۔ پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ صاحب کے گھر کے قریب سے گزرے تو افضال نے بتایا کہ ڈاکٹرصاحب کی بیگم کو دل کا تیسرا دورہ پڑا ہے اور ان کی بیٹی اور داماد کوحادثہ بھی پیش آیا ہے۔ سو، واپسی پر ان کے پاس جلال آباد جانے کا پروگرام بنایا۔ ڈاکٹر صاحب پہاڑی زبان کے ماہر عالم، شاعر اور ماہرتعلیم ہیں۔

پہاڑی نالے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔اس پورے علاقے میں کشمیری زبان بولی جاتی ہے۔ اس طرف کے آخری گاؤں ’رنجکولہ‘ پہنچے اور گھاس کے میدان میں بیٹھ گئے۔ دور اوپر بھارتی مورچے نظر آرہے تھے اور مقامی نوجوان خط متارکہ کے قصے سناتے رہے۔ گولہ باری کے دن اور رات،مویشیوں کا خط متارکہ کے پار چلے جانا اور واپس کیا جانا، بارودی سرنگوں کے مسائل، گولہ باری کے دوران کی کہانیاں، خوف کے لمحات اور ان کے درمیان شادی اور ماتم۔ موت سے یاد آیا کہ لیپہ کی یہ بات بھی اچھی لگی کہ قبریں کچی رکھی جاتی ہیں۔ یہاں کی شادیوں کے بارے میں نوجوانوں نے بتایاکہ دھوم دھام سے ہوتی ہیں اور خوب اسراف کیا جاتا ہے۔ ہم نے اس دوردراز کے گاؤں کے باسیوں کو معاشی طور پر بہتر پایا اور اس کی وجہ ان کی زمین کے ساتھ محنت اور لگن ہے۔

واپسی کا سفر گاڑی کے ذریعے تھا۔ ’نوکوٹ‘ سے ’لیپا‘ بازار پہنچے تو شام ڈھل چکی تھی۔ ملک مشتاق صاحب کا پیغام تھا کہ ہم رات کا کھانا ان کے ساتھ کھائیں۔ان کے خلوص نے انکار کی گنجایش ہی نہ چھوڑی۔ شاگردوں اور دوستوں سے رخصت ہوکر افضال اور رضوان کے ہمراہ ہائیڈل پاور ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ سیاحوں کے لیے ٹھہرنے کے لیے یہی ایک جگہ ہے۔ آج رات ہمارا پڑاؤ یہیں تھا۔ کچھ دیر سستائے اور پھر صحن میں آکر بیٹھ گئے۔ نالہ قاضی ناگ کے پار ’منڈل‘ گاؤں ہے جہاں ڈاکٹر نصراللہ صاحب کے اکثر رشتہ دار رہتے ہیں۔ نالے میں پانی اتنا ہے کہ ہائیڈل پاور کے اس طرح کے مزید پانچ چھ منصوبے لگ سکتے ہیں اور وادی کی تمام ضرورت پوری ہونے کے علاوہ باہر بھی بجلی مہیا کی جاسکتی ہے۔ درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ نالے میں دیکھے جو سفیدے کی طرح کے تھے۔ ان کو بالن کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ درخت جلدی بڑا ہوجاتا ہے۔

رات نو بجے ملک مشتاق صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ بیماری کے باوجود استقبال کرنے آئے اور اپنے بیٹے سے ملاقات کروائی جو انجینئر ہیں۔ ملک صاحب کی صاحبزادی ایم اے اردو میں اور ہماری شاگرد رہ چکی ہیں۔ گفتگو ’لیپا‘ کے مسائل سے لے کر قومی مسائل تک پھیلی رہی۔ اسی دوران دسترخوان بچھا اور لوازمات چن دیے گئے۔ پرتکلف کھانا اور اس پر ملک صاحب کا خلوص۔ ’انصاف‘ کرنے کی کوشش کی۔ کھانے کے بعد زیادہ دیر اس لیے نہ بیٹھے کہ ان کی طبیعت ناساز تھی۔ ملک صاحب باہر تک رخصت کرنے آئے۔ ہم واپس ہائیڈل پر آئے۔ ظفر یاسمین کا پیغام تھا کہ صبح ناشتہ میرے ساتھ میرے گھر پر کریں۔ رات بھر نالے سناتا رہا اور اس کے نالوں نے آرام سے سونے نہ دیا۔ صبح طلوع ہوئی اور ہماری تیاری کے دوران افضال اور رضوان بھی آگئے۔

ہائیڈل کے منصوبے کا معائنہ کیا اور یہ معائنہ افضال کے بھائی آفاق عالم نے کروایا۔ یہ منصوبہ اپنی عمر پوری کرچکا ہے اور ایک کروڑ کا منصوبہ بارہ کروڑ دے چکا ہے۔ہائیڈل سے نکلے اور ’لیپا‘ بازار آئے۔ پہلے ڈگری کالج دیکھا ۔ یہ عمارت بھی پاک سعودی فنڈ سے تیارکردہ ہے۔ عمارت جدید ہے اور مستقبل کی ضروریات کو بھی پورا کرلے گی۔ کالج میں چھٹی تھی، اس لیے پرنسپل اور تدریسی عملے سے ملاقات نہ ہوسکی۔ یہ کالج 1988ء میں انٹرکالج بنا اور2003ء میں ڈگری کی سطح پر پہنچ گیا۔ کالج کی سیر کے بعد ظفر کے گھر پہنچے جو کالج کے سامنے ہی تھا۔ کچھ دیر ظفر کی لائبریری کے معائنے اور گپ شپ میں گزری۔ دسترخوان بچھا اور بہت کچھ لاکر سجا دیا گیا۔ ہم ٹھہرے پینڈو، پراٹھے اور چائے کے خوگر۔ ان کے ساتھ خوب خوب انصاف کیا۔ ناشتہ ہضم کرنے کے لیے دھان کے کھیتوں کا چکر لگایا اور پروفیسر کرامت اللہ صاحب (جوانگریزی کے پروفیسر ہیں اور ایک مدت سے سعودی عرب میں ہیں) کے مقفل مکان کے قریب سے ہوتے، خواجہ سجاد کے گھر میں داخل ہوئے کہ ہمارا یہ شاگرد بضد تھا کہ اسے بھی کچھ وقت دیں۔ اس نے بھی کھلانے پلانے کا ’تشدد‘ کیا لیکن ہم اتنا کچھ کھا چکے تھے کہ صرف سونگھا ہی جاسکتا تھا۔

یہ ہمارا آخری پڑاؤ تھا۔ یہاں سے نکلے۔ آخری ملاقاتیں ہوئیں۔ واپسی کے لیے ہم نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا جو بعد میں درست ثابت نہ ہوا۔ رضوان ہمارے ساتھ تھے۔ اب ہم چھ تھے۔واپسی کے سفر کے لیے ٹنل چوک سے نکلے اور آرمی کیمپ سے گزرتے، منڈل کے سر پر پہنچے اور وادی کی آخری تصاویر لیں۔ اور پھر موڑ پر موڑ۔ پچھتانے لگے کہ اس طرف سے کیوں آئے۔ اب مراجعت ممکن نہ تھی۔ جنگل میں سفر کرتے رہے اور موڑ گنتے رہے جو اڑسٹھ سے کچھ زیادہ ہی تھے۔ روایت ہے کہ جب اس سڑک کا سروے ہوا اور ایک ٹھیکہ دار نے کام کی حامی بھری کہ میں ’لیپا‘ تک مفت سڑک بنا کردوں گا، شرط یہ ہے کہ راستے میں آنے والے درخت میرے ہوں گے۔ سروے اس انداز سے کیا گیا کہ ہزاروں دیودار اور کائل کے درخت قتل کردیے گئے اور ٹھیکہ دار نے دس گنا زیادہ معاوضہ پایا۔

انتہائی مقام پر پہنچے اور پھر دوسری طرف اترنے کا سفر شروع ہوا ۔دھیرے دھیرے دنیا سے رابطے بحال ہونے لگے اور موبائل کام کرنے لگے۔ یوسف نے بتایا کہ ہمارا دن کا کھانا ’سراں‘ کے مقام پر ایک اور طالب علم کے گھر پر ہے۔ پورا رستہ میں یہ سوچتا رہا کہ اس وادی کے مسائل کا حل کیسے ممکن ہے ؟ تو مجھے ایک حل یہ بھی ملا کہ اس وادی کا حلقہ انتخاب ہی الگ ہو اور کوئی یکسو قسم کی قیادت مل جائے تو اس وادی کے دلدّر دور ہوسکتے ہیں۔ تاہم ابھی بھی کم از کم سڑکوں کو پختہ کیا جاسکتا ہے اور اس سلسلہ میں بہتر یہ ہے کہ ’نیلی‘ تا ’لیپا‘ سڑکوں کو بھی NHA کے سپرد کردیا جائے۔

ریشیاں آرمی پوسٹ سے گزرے اور ان کو بتایا کہ ہم آگئے ہیں۔ پھر بازار میں چائے پی اور چل پڑے۔ ’لمنیاں‘ میں رضوان نے ہم سے اجازت لی کہ میرا آپ کاساتھ یہیں تک کا ہے۔ موسم تبدیل ہونا شروع ہوا اور جب ہم نیلی پل سے گزر کر جہلم ویلی روڈ پرچڑھے تو ہواگرم تھی۔ ’سراں‘ کے مقام پر ہمارا میزبان موجود تھاجس کے ساتھ ہم ایک گاؤں اسلام آباد کے لیے پہاڑوں پر چڑھ دوڑے، پھر پیدل چلے اور ایک بزرگ نے ہمارا استقبال کیا۔ ارے!یہ تو بدرمنیرعباسی صاحب ہیں۔ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہٹیاں بالا میں 16 برس بطورپرنسپل خدمات دینے کے بعد 4 برس قبل ریٹائر ہونے والے پروفیسر بڑی محبت سے ملے لیکن جتنی دیر ہم وہاں بیٹھے، ان کو ہی سننا پڑا۔ ایسا لگا کہ ان کو کسی ہم دمِ دیرینہ کی تلاش تھی اور وہ ہماری شکل میں ان کو بہت عرصے بعد کوئی سامع ملا تھا۔ ان کی گفتگو تعلیم اور اس کے مسائل کے گرد ہی گھومتی رہی اور پھر ہم نے کھانا کھایا جو سادہ لیکن ہماری خواہش کے عین مطابق تھا۔ کھانے کے بعد ان سے اجازت لی، لیکن وہ بندہء خلوص گاڑی تک چھوڑنے ساتھ آئے۔

بڑی سڑک پر آئے۔ چٹھیاں،گڑھی دوپٹہ، مجہوہی، کرولی، ٹنڈالی سے گزرتے ’رباڑیں‘ سے ہوتے ایئرپورٹ روڈ پر ایک درویش (میریوسف) کو اتارا۔ طارق آباد دوسرے درویش (افضال) کو اتارا اور اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی مدد سے یہ سفر ممکن ہوا اور ہم نے 48 برس بعد ’لیپا‘ کی محصور وادی کو بالآخر دیکھ ہی لیا۔ تیسرے درویش (یعنی راقم)کو ’ڈھیریاں‘ میں اتارا گیا تو دو درویش ہی باقی بچے۔ ڈرائیور (پانچویں درویش) کا شکریہ ادا کیا کہ یہ نوجوان نہ خود تنگ ہوا اور نہ اس نے ہمیں تنگ کیا۔ اس طرح کے سفر میں اس درویش (ڈرائیور)کا اچھا ہونا آپ کے سفر کو پرسکون اور مسائل سے آزاد کردیتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان سے اجازت لی کہ ان کے ساتھ ہمارا یہ پہلا سفر تھاجوخوب رہا۔

The post ’وادی لیپا‘ اگر فردوس بر روئے زمیں است appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles