جب ہال نے اعجاز بٹ کے ناک کی ہڈی توڑ ڈالی
چھ فٹ دوانچ کے وزلے ہال ایسے خطرناک بولرتھے ، جن کا سامنا کرنے سے بڑے بڑے بیٹسمین گھبراتے۔ گیارہ سالہ بین الاقوامی کرکٹ کیریئرمیں وہ دہشت کی علامت بنے رہے۔1959ء میں وہ پاکستان کے دورے پرآئے تو اپنی برق رفتاری سے پاکستانی بلے بازوں کو پریشان اور شائقین کرکٹ کو حیران کیا۔لاہورمیں باغ جناح کرکٹ گرائونڈ میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میںوہ قہربن کر ٹوٹے۔ان کی گیند سے اعجازبٹ کی جو بعد میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے،ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اور قمیص خون سے تربتر ہوگئی۔ اتفاق کی بات ہے، عمران خان جو اس وقت سات برس کے تھے، والدہ کے ساتھ پہلی بار اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے گئے تھے، اعجازبٹ کو زخمی دیکھ کرعمران کا میچ دیکھنے سے جی اچاٹ ہوگیا ۔باغ جناح ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں وزلے ہال نے پاکستانی بیٹنگ لائن اپ کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔پندرہ برس کے مشتاق محمد کا یہ پہلا ٹیسٹ تھااور انھیں سامنا وزلے ہال کا کرنا پڑ گیا۔وہ چودہ رنز بناکرہال کی گیند پرہی ایل بی ڈبلیو ہوئے۔
مشتاق محمد کی والدہ جواپنے بیٹوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اسٹیڈیم بھی جاتی تھیں، ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوا کہ وزلے ہال جب مشتاق محمد کو گیند کرانے کے لیے دوڑتے تو وہ دیکھنے لگتیں لیکن جونہی وہ گیند پھینکنے لگتے تو اپنی آنکھوں کے سامنے فوراً کتاب یا اخبار رکھ لیتیں۔ان کا کہنا تھا کہ دیو ہیکل وزلے ہال کے سامنے تو حنیف محمد اور مشتاق محمد بالکل بچے لگتے تھے۔عالمی کرکٹ میں وزلے ہال کی فسطائیت کو جن بیٹسمنوں نے چیلنج کیا ان میں امتیاز احمد نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، اور ان کی دلیری کا اعتراف وزلے ہال نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔48ٹیسٹ میچوں میں192وکٹیں لینے والے اس فاسٹ بولرکو ویسٹ انڈین کرکٹ میں ممتاز مقام حاصل رہا۔آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان 1960 ء میں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے پہلے ٹائی ٹیسٹ میچ میں انھوں نے نو وکٹیں حاصل کیں اوریادگارآخری اووربھی کرایا۔وزلے ہال کوکرکٹ میں ان کی خدمات کے پیش نظر گذشتہ برس سر کا خطاب دیا گیا۔
ہال کے بال
(ویسٹ انڈیزکے تیز رفتار بائولروزلے ہال کا کھیل دیکھ کر)
سیدضمیرجعفری
شور اٹھا کہ ہال آتا ہے
کھیل کا انتقال آتا ہے
بال پرجب جلال آتاہے
بال سے پہلے حال آتا ہے
ہم کو تو کچھ نظر نہیں آتا
لوگ کہتے ہیں بال آتا ہے
الاماں اس کی برق رفتاری
بال ہے یا خیال آتا ہے
بال آتا ہے یا نہیں آتا
کچھ مگر لال لال آتا ہے
امتیاز احمد کی ’’گوڈا ٹیک شاٹ‘‘ کا مستنصر کے ناول میں ذکر
پاکستان کے سابق وکٹ کیپرامتیاز احمد کا ادب سے براہ راست تعلق بھی ہے کہ وہ ایک شعری مجموعے’’میرے شعر‘‘کے خالق ہیں، معروف ادیب ابراہیم جلیس نے جس کا پیش لفظ لکھا۔ شوکت تھانوی نے اس کتاب پردلچسپ تبصرہ بھی تحریر کیا جوان کی کتاب’’نمک مرچ‘‘ میں شامل ہے۔شوکت تھانوی کاعلیحدہ سے کرکٹ پربھی ایک نہایت پرلطف مضمون ہے، جس میں انھوں نے امتیاز احمد کے کھیل سے لوگوں کی دلچسپی بھی ظاہرکی ہے۔امتیاز احمد کے جارحانہ طرزبیٹنگ کے باعث لاہور میں تماشائی خاص طور سے ان کی بیٹنگ دیکھنے آتے، اس اعتبار سے غالباً وہ پہلے پاکستانی بیٹسمین ہوں گے، جنھیں ہمcrowd-pullerکہہ سکتے ہیں۔ ممتاز فکشن نگار مستنصر حسین تارڑ کے انعام یافتہ ناول’’راکھ‘‘میں بھی امتیاز احمد کا ذکرآیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ کسی زمانے میں ان کی گوڈا ٹیک شاٹ کس قدرمشہور تھی۔ ’’راکھ‘‘ کا وہ ٹکرا جو ہم نقل کرنے جارہے ہیں، اس میں ناول کے کردار مشاہد سے منٹو صاحب کی ملاقات کا بھی احوال ہے۔اب ملاحظہ کریں ’’راکھ‘‘ سے اقتباس:
’’دھوپ ہے تو کیا ہے یار…وائلڈ ویسٹ میں تو اتنی دھوپ ہوتی ہے کہ کسی کائو بوائے کو آج تک سن سٹروک نہیں ہوا… اور اگر ہوتا ہے تو ہو جانے دو زندگی ایک فضول چیز ہے…‘‘
’’ہاں…‘‘ مشاہد نے سر ہلایا کیونکہ وہ بھی کمال کے فلسفہ بیزاری و بوریت سے متاثر ہو رہا تھا۔ ’’زندگی کتنی فضول ہے… آئو یار کرکٹ کھیلیں…‘‘
مینشن کی کچی اور کھڈوں والی گرائونڈ ایک تنور کی طرح تپ رہی تھی اور اس تنور کے درمیان وہ دونوں ٹاس کر رہے تھے کہ بیٹنگ پہلے کون کرے گا۔ یہ خوش بختی مشاہد کے حصے میں آئی اور وہ Manto End پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں پسینے کے دھارے گر رہے تھے اور اسے سامنے اُدھر جدھر کمال اپنا گیند چمکاتا چلا آتا تھا، کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گرمی کی لہروں میں ایک سناٹا اور ایک چپ سی تھی۔ کمال نے ایک لمبا سٹارٹ لیا اور پھر جس وقت اس نے مناسب جانا بازو گھما کر گیند مشاہد کی طرف پھینک دیا۔ مشاہد نے بڑے سٹائل سے گھٹنا ٹیکا اور لیگ کی جانب بیٹ گھما دیا۔ ایک چھناکے کی آواز مینشن کے گرم سناٹے میں تمام کرچیوں کے ساتھ گونجی۔ مشاہد نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو اُسی گھٹنا ٹیک پوزیشن میں برقرار رکھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ مینشن کی بالکونیوں میں متعدد لڑکیاں اُسے رشک آمیز نظروں سے تَک رہی ہیں اور وہ چاہتا تھا کہ وہ اسے جی بھر کے دیکھ لیں۔ ان دنوں امتیاز احمد کا گوڈا ٹیک سٹائل لاہوریوں میں بے حد مقبول تھا۔
گیند کسی قسم کا بھی ہوتا باغ جناح میں کرکٹ کے شائقین ’’گوڈا ٹیک‘‘ کے نعرے لگاتے اور امتیاز احمد ان نعروں کے سحر میں آکر گھٹنا ٹیک کر بلا گھما دیتے۔ اگر گیند بلے کو چھو جاتا تو شاندار لیگ گلانس ہو جاتی ورنہ اکثر ایل بی ڈبلیو ہو کر موصوف ٹھنڈے ٹھنڈے پویلین میں واپس آجاتے۔ ادھر لکشمی مینشن میں بھی یہی سٹائل فالو کیا جاتا تھا۔ گیند اگرچہ آف پر وائڈ جا رہی ہے لیکن بیٹس مین گھٹنا ٹیک کر اسے لیگ پر ہی کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے اور مشاہد آج بے حد خوش قسمت رہا تھا کہ اس سٹائل میں گیند اس کے بلے کے عین درمیان میں آئی تھی اور زوردار شاٹ کھیلا گیا تھا۔ مینشن کا سناٹا پہلے کی نسبت زیادہ معلوم ہوا تو اسے احساس ہوا کہ کمال بالکل غائب ہے اور وہ کڑکتی دھوپ میں گوڈا ٹیکے سٹائل بنائے تنہا کھڑا ہے اور اسی لمحے ایک کڑکتی ہوئی آواز ادھر سے آئی جدھر گیند گلانس ہوا تھا… اوئے امتیاز احمد کے بچے… مشاہدے کو بے حد دکھ ہوا کہ یہ کون کم عقل اسے امتیاز احمد کے کھاتے میں ڈال رہا ہے اور اس نے گرم زمین پر سے بمشکل اپنا گھٹنا اٹھا کر اُدھر کو ہی دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی اور وہاں برآمدے کے دروازے میں منٹو صاحب کھڑے تھے اور اُبل رہے تھے۔
’’اوئے ادھر آ…اِدھر دفع ہو…‘‘ مشاہد لرزتا ہوا اُدھر دفع ہوا تو منٹو صاحب نے جھک کر اس کا کان پکڑ لیا ’’نشانے لگاتا ہے بے ایمان… بیس شیشوں میں سے صرف تین باقی بچے تھے اور تو نے اُن میں سے بھی ایک توڑ دیا… اوئے توبہ کر…‘‘
’’جناب آپ کان چھوڑیں تو میں توبہ کروں…‘‘
منٹو صاحب نے اُسے گھورا اورپھر ان کا موڈ کچھ بدلا ’’آئندہ کرے گا؟‘‘
’’نہیں جی…‘‘ ’’جا پھر دفع ہو جا۔‘‘
مشاہد وہیں کھڑا رہا ۔ ’’جاتا کیوں نہیں؟‘‘ ’’گیند…‘‘
’’نہیں ملے گا گیند…‘‘ منٹو صاحب پھر جلال میں آگئے۔
’’ساڑھے چار روپے کا ہے جی… کرائون کا گیند… تمام بچے چندہ اکٹھا کرکے لائے تھے…‘‘
منٹو فوراً موم ہو گئے۔ اندر گئے اور گیند لے آئے ’’خبردار جو آئندہ…‘‘
باقر صاحب والی گلی میں کمال اُس کا انتظار کر رہا تھا۔
’’ہے ناں زندگی فضول چیز… پہلی گیند پر ہی ٹریجڈی ہو گئی… لیکن شکر ہے کہ گیند واپس مل گیا ورنہ صفیہ آپا…بھئی بہت جابر خاتون ہیں۔ ان کے ہاں کم از کم چھ سات گیندیں ہوں گی ہماری…بچوں کی بددعائیں لے رہی ہیں خواہ مخواہ… منٹو صاحب نائس ہیں یار…‘‘
’’پاکستانی کرکٹ ٹیم ‘‘تہاڑ جیل میں
ممتازکشمیری صحافی افتخار گیلانی کو9جون2002ء کی رات ساڑھے چار بجے پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام میں گرفتارکرکے تہاڑ جیل میں قید کردیا گیا۔اس وقت وہ کشمیر ٹائمزکے دہلی میں بیوروچیف کی حیثیت میں کام کررہے تھے۔ ان پرآئی ایس آئی کو جموں کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی کے بارے میں معلومات دینے کا الزام لگا اور چودہ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ان کی گرفتاری پرصحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھرپور آواز اٹھائی اورسات ماہ گزرنے پرہی بھارتی حکومت کو ان پر عائد الزامات واپس لیناپڑے، جس سے اسے خاصی خفت اٹھانا پڑی۔مشہورزمانہ تہاڑ جیل میں سات ماہ کا گزراعرصہ افتخار گیلانی کے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ وہ شدید تشدد کا نشانہ بنے۔ان سے شرٹ اتروا کرٹوائلٹ صاف کرایا گیااورپھراسی غلیظ شرٹ کو زیب تن کرنے پرمجبورکیا گیا۔افتخار گیلانی نے جیل میں بیتے لمحوں کو تحریری صورت میں محفوظ کیا اور ان کی کتاب ’’My days in Prison ‘‘سامنے آگئی، جس کا پینگوین انڈیا نے ’’ تہاڑ میں میرے شب وروز‘‘ کے عنوان سے ترجمہ بھی چھاپا۔یہ غالباً پہلی اردو کتاب تھی، جس کو پینگوین نے چھاپا۔افتخار گیلانی پاکستان کے کئی انگریزی اور اردو اخبارات کے نمائندے رہے ہیں۔
ان دنوں بھی ان کا ایک پاکستانی اردو قومی روزنامے میں کالم تواتر سے شائع ہورہا ہے۔کرکٹ کی اثرانگیزی کا دائرہ دیکھیے ، کہ تہاڑ جیل بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اس جیل میں ہر برس قیدیوں کے درمیان کرکٹ ٹورنامنٹ کا ذکر بھی کتاب میں ملتا ہے ۔ افتخارگیلانی لکھتے ہیں:’’ قید تنہائی میں طویل عرصہ گزارنے سے قیدی کئی طرح کے شدید نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ایسے قیدی جنہیں بہت لمبے عرصے کے بعد قید تنہائی سے نکال کر وارڈ کے بھیڑ بھاڑ والے ماحول میں منتقل کیا جاتا ہے، نئے وارڈ میں اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرپاتے اور جیل حکام سے واپس قید تنہائی میں رکھنے کی درخواست کرنے لگتے ہیں۔ مجھے اس طرح کے دو قیدیوں کو دیکھنے کا موقع ملا جو تین برسوں سے قید تنہائی میں تھے۔ انہیں ان کے اچھے رویے کی وجہ سے ہائی سکیورٹی وارڈ سے عام وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک کو جیل نمبر تین کی کرکٹ ٹیم میں کھلاڑی کے طور پر شامل کیا جانا تھا کیونکہ جیل حکام کو پتہ چل گیا تھا کہ جیل آنے سے پہلے وہ ایک اچھا کرکٹ کھلاڑی تھا۔ ہر سال اکتوبر میں تہاڑ جیل کی مختلف جیلوں کے بیچ ٹورنامنٹ منعقد کیا جاتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ کو تہاڑ اولمپک کہتے ہیں۔
کرکٹ میں عام طور پر جیل نمبر تین کی ٹیم ہی کامیاب ہوتی تھی۔ تاہم پارلیمنٹ پر 13دسمبر کے حملے کے بعد پانچ قیدی کرکٹروں کو ہائی لائٹ بھیج دیا گیا کیوں کہ وہ پاکستانی شہری تھے۔ اس وجہ سے اس ٹیم کو پاکستانی ٹیم بھی کہا جاتا تھا۔ ٹیم کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب اس کا کپتان سات سال جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہوگیا۔ ٹیم اب کافی کمزور ہوگئی تھی اور جیل نمبر تین کے حکام کو یہ فکر لاحق تھی کہ اس سال ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے گی اس لیے کرکٹ کھلاڑیوں کی تلاش شروع ہوگئی تھی۔ جس قیدی کو کرکٹ کھیلنے کے لیے ہائی لائٹ سے باہر نکالا گیا تھا عام وارڈ میں پہنچتے ہی اس نے جیل حکام سے درخواست کی کہ اسے فوراً قید تنہائی میں واپس بھیج دیا جائے۔ وہ بے چارہ تین سال کے طویل عرصے کے بعد اتنے سارے لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ رہا تھا۔ ساتھی قیدیوں کی بات چیت کا شوروغل اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ اس نے ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ راجندر کمار سے رابطہ قائم کیا اور واپس قید تنہائی میں بھیجنے کے لیے اسے 5000روپے کی پیشکش کی لیکن قسمت یہاں بھی دغا دے گئی۔ بدقسمتی سے راجندر کمار بدعنوانی کے اس سمندر میں واحد ایماندار افسرنکلا۔ اس نے رشوت لینے سے انکار کردیا۔‘‘
’’وسیم اکرم ‘‘مظفر نگر میں؟
بھارتی ریاست یوپی کے ضلع مظفر نگر میں گذشتہ دنوں ہونے والے فسادات نے وہاں کی باسیوں کے لیے زندگی کو بہت زیادہ مشکل اور تکلیف دہ بنادیا۔ان فسادات کی برق بیچارے مسلمانوں پرگری اور بہت سوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر امدادی کیمپوں میں رہنا پڑاجہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔چند دن قبل بی بی سی نے کاندھلا کے امدادی کیمپ میں مقیم یاسین سے گفتگو کی، تو اس نے اپنے جو دکھڑے بیان کئے، ان کے بیچ ممتاز پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم کا بھی ذکرنکل آیا۔
شاملی میں لساڑھ گائوں کے مکین یاسین نے بی بی سی کو جو بتایا اس کا کچھ حصہ ہم نقل کرتے ہیں: ’’ہمارا کچھ ہے ہی نہیں، ان کے ہاتھ میں قانون ہے، حکومت ان کی، گائوں ان کا، انھی کی چلے گی۔جب ان کی چلے گی تو اب ہمیں ایسی جگہ بھیج دوجہاں ان کی نہ چلے اور ہم کماکھاسکیں۔وہ کہتے ہیں کہ آپ تو پاکستانی ہو۔کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک غریب بچے کی گیند اچھی پڑ گئی تو کہتے ہیں کہ تم تو پاکستانی وسیم اکرم بن رہے ہو۔یہ کیا ہے؟ میری بیوی کے پیٹ میں بچہ تھا۔ لات مار کر ختم کردیا۔مجھے یہ بھی نہیں پتاکہ وہ بچی تھی یا بچہ تھا۔میری داڑھی کھینچی گئی۔نوے سال کے ایک ضعیف کو زندہ جلایا۔اسے کیوں ماردیا؟وہ تو چاردن روٹی نہ ملتی تو خود ہی مرجاتا۔‘‘