21 مارچ 1998ء کو بھارت کے ہاتھوں آسٹریلیوی ٹیم کی کلکتہ ٹیسٹ میں ہارسے مایوس وہ ہوٹل کے کمرے میں واپس لوٹے تو دروازے کے نیچے سے کھسکایا ہوا خط نظرآیا۔
اس مایہ ناز کھلاڑی کا خیال تھا کہ یہ خط آٹوگراف کے کسی متمنی کے طرف سے ہوگایا پھرامداد کے کسی طلبگار کا یا پھرکسی ایسے کا جو چاہتا ہوگا کہ وہ اس کے خاندان کوآسٹریلیا جانے کے لیے اسپانسر کردے۔ خط کا لفافہ چاک ہونے پر سب اندازے باطل نکلے ۔خط کے متن نے دل کے تاروں کو البتہ چھولیااورانھوں نے خود کوفوری جواب دینے پرمجبورپایا۔خط کے ذریعے انھیں کلکتہ فائونڈیشن کی جانب سے جذام کے مرض میں مبتلا افراد کے بچوں کی بحالی کے لیے’’ ادیاں ‘‘کے نام سے قائم سینٹر کادورہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی ،جس کووہ قبول کر لیتے ہیں ۔اس سینٹر میں جاکرانھوں نے جانا کہ ڈھائی سولڑکوں کی دیکھ ریکھ ہورہی ہے ، لیکن لڑکی ادھر کوئی نہیں، لڑکوں کو ترجیح دینے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے بڑے ہونے پرمتاثرہ خاندان کی کفالت کا بار اٹھاناتھا۔
کلکتہ فائونڈیشن اب یہ چاہ رہی تھی کہ ادیاں میں لڑکیوں کے لیے الگ سے ونگ بنایا جائے، اوراس نیک مقصد کے لیے ہونے والی فنڈریزنگ کے سلسلے میں وہ اسٹیووا سے تعاون کے خواستگار تھے ۔اسٹیوا وا کلکتہ کے مضافاتی علاقے بیرک پور میں پولیس کے حفاظتی حصار میں ادیاں ہوم پہنچے جس کی 1970 میں برطانوی شہری ریورینڈ جیمز سٹیونزنے بنیاد رکھی تھی ۔یہ صاحب آج چالیس برس سے زائد عرصہ گزرنے پربھی تندہی سے بچوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا ساماں کررہے ہیں۔ اسٹیو وا نے سینٹر میں بچوں کو ملنے والی سہولیات کا بغورجائزہ تو لیالیکن معاملے کی سنگینی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے کی خاطر اس بستی میں جانے کی ٹھانی جہاں پران معصوموں کے مقہور خاندان آباد تھے۔
اس غم کدے میں پہنچے تو جھونپڑی نما خستہ حال مکانوں میں مصیبت کے ماروں کو دیکھ کر ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے،جو اس گھٹن زدہ اورتاریک ماحول میںبڑے آزار کے ساتھ زیست کررہے تھے، معاشرے کی دھتکارنے دکھوں اور غموں میں اور بھی اضافہ کردیا تھا۔ اسٹیو وا نے تین بچوں کی ماں سے جس کے ہاتھ پائوں بیماری نے تباہ کردیے تھے پوچھا ’’تم مستقبل میں اپنے لیے کیا دیکھتی ہو؟ ’’اس کا مسکت جواب تھا ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ ایک اور خاتون بڑے شوق سے انھیں وہ کنگھادکھانے لگی، جس سے وہ متاثرہ ہاتھوں کے باوجود اپنی بیٹی کے بال بناتی تھی ۔دکھ درد سے معموراور بھی دل خراش قصے سننے کو ملے۔ اسٹیو وا نے جاناکہ وہ دن جو بچوں کے کھیلنے اور کھانے کے ہوتے ہیں، ان میں یہ گداگری کا ہنرجان رہے ہیں تاکہ جلد از جلد لوگوں کو اپنی مدد کے لیے مائل کرنے کے قابل ہوجائیں۔وہ یہ سن کر کانپ گئے کہ چھوٹی عمر کی بچیوں کو اپنے خاندان کو سپورٹ کرنے کے لیے جسم بیچنا پڑتا ہے۔
اسٹیووانے پولیوکی شکاراس بچی لاکھی کماری کو اسپانسرکیا۔وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ چھ ماہ کی عمر میں پولیو نے بچی کو جس کے ماں باپ دونوں کوڑھی تھے، آلیا۔ادیاں میں وہ پہلے چھ ماہ اداس رہی لیکن یہ کم آمیز بچی رفتہ رفتہ ماحول سے مانوس ہوتی گئی اور پھراس نے موسیقی سیکھی۔رقص کی تربیت لی اورپڑھائی میں بھی متاثرکن کارکردگی دکھائی:
اسٹیو وا نے اپنی خود نوشت “Out of My Comfort Zone”میں لکھا ہے کہ ان کوڑھیوں سے ملنے سے قبل انھوں نے ایسے افراد کو صرف فلموں میں دیکھاتھا یا پھر ان سے متعلق لطیفے سن رکھے تھے، اور وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دنیا میں چودہ ملین افراد اس مرض میں مبتلا ہیں ، جن میں سے چارملین بھارت میں بستے ہیں۔ جذام وہ مرض ہے جو جلد، جھلیوں اور اعصاب پر حملہ آور ہوکر صورت بگاڑ دیتاہے۔مختلف جسمانی اعضابھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ایسے افراد کوبیماری سے بڑھ کر جو بات زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے، وہ لوگوں کا ان سے تنفرہے۔ کوڑھ سے متاثرہ لوگوںکو تباہ حال دیکھ کراسٹیو وا ان کی بچیوں کے لیے لڑکوں کی طرح ونگ کے قیام کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا تہیہ کرتے ہیں اور کلکتہ فائونڈیشن کے نمائندے کی موجودگی میں لڑکیوں کے لیے ونگ بنانے کے مہم میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ہامی بھرتے ہیں۔
2003ء میں اسٹیو وا اور ان کی اہلیہ اس خاتون سے جس کے خاندان نے اسے تنہا چھوڑ دیاتھا، ملے تو وہ انسانی توجہ کے لیے اس قدرترسی ہوئی تھی کہ جب دونوں میاں بیوی نے رخصت ہونا چاہا تو اس نے انھیں پکڑ لیا اور اپنے پاس ٹھہرنے پراصرار کرنے لگی:
دورے سے اگلے روز مقامی اخبار میں کوڑھیوں کے ساتھ اسٹیو وا کی تصاویر شائع ہوئیں تو اس کا بھی لوگوں پرمثبت اثر پڑا۔ اسٹیو وا کویقین ہوگیاکہ ادیاں سے ان کا تعلق ایسا نہیں جو تھوڑے عرصے کے لیے ہو بلکہ یہ اٹوٹ بندھن ہوگا۔وہ اب ایسا ذریعہ بننے جارہے تھے، جس کی وجہ سے فنڈ ریزنگ سے متعلق مختلف النوع سرگرمیوں میں تیزی آئے اور بچیوں کے لیے مجوزہ’’ نیویدیتاہائوس ‘‘ پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔اسٹیووا کی پکار پر لوگ امداد کرنے کے لیے گرم جوشی سے آگے آئے، ان کا یہ عمل اسٹیووا کو حیران کرگیا۔چینل نائن نے ادیاں ہوم کے بانی ریورینڈ اسٹیونز کے کردار اور اسٹیو وا کی اس سینٹرکی ترقی کے لیے جاری کام میں شرکت کے بارے میں ڈاکومنٹری دکھائی تو پیغام کا وسیع پیمانے پرابلاغ ہونے سے لوگوں کی بڑی تعداد کواس مسئلے کو سمجھنے میں مدد ملی۔
جذام سے متاثرہ شخص جس کے پاؤں کا برا حال ہے:
جنوری2000 ء میں اسٹیو وانے کوڑھیوں کی بچیوں کے لیے قائم ’’ نیویدیتا ہائوس‘‘ کا افتتاح کیا۔اس موقع پر ادھر موجود بچوں کے جذبے نے انہیں بہت سرشار کیا۔آنے والے دنوں میں یہاں کے صاف ستھرے ماحول نے بچوں کی شخصیت کو نکھار دیا۔ان میں بچگانہ معصومیت کے آثار دکھائی دینے لگے۔زندگی میں پہلی بار انھیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہورہا تھا۔ماں باپ کا جذبہ بھی دیدنی تھا۔وہ اپنے اعضاء پر بندھی مرہم پٹیوں سمیت اپنے جھونپڑوں سے باہر نکل آئے اور اسٹیو وا اور ادیاں کے ورکروں سے بچیوں کے سینٹر میں داخلے پراصرار کرنے لگے۔ان کے ہاں یہ خیال جنم لے چکا تھا کہ ان کے بچے بھی اچھی زندگی گزار سکتے ہیں اور وہ اب ان کے لیے بہتر ماحول کے خواہاں ہیں۔ اسٹیووا کا اپنا یہ یقین ہے کہ ایسی آبادیوں میں جہاں غریب لوگ رہتے ہوں وہاں تعلیم ہی وہ سب سے موثرذریعہ ہے، جس سے بچے بہترزندگی کا خواب دیکھ سکتے ہیں،اورتعلیم ہی وہ کنجی ہے، جو والدین کے لیے باعث فخراوران میں توقیرنفس کا احساس جگاسکتی ہے۔
جذام سے متاثرہ خاتون اپنی بچی کے لیے کچھ بُن رہی ہے:
2001ء میں اس نے بچوں کے ساتھ مل کر ہولی کا تہوار منایا۔ انھیں اپنے درمیان پاکر بچے خوشی سے جھوم اٹھے اور اپنے اس محسن پر جو ان کے لیے تحائف لے کر پہنچا تھا،پھولوں کی بارش کردی۔اس سفر میں اسٹیو واکے بھائی اور نامور کرکٹر مارک وا،جسٹن لینگر، بریڈ ہیڈن اورآسٹریلیوی کوچ جان بکانن بھی ہمراہ تھے۔بچوں کے ساتھ آسٹریلیوی کھلاڑیوں نے کرکٹ بھی کھیلی۔اس موقع پربچوں نے کلچرل شو کا اہتمام کیا،جس میں موسیقی اور رقص سے مہمانوں کو محظوظ کیا گیا۔ پندرہ برس قبل وہ ادیاں سے نتھی ہوئے اوراب بھی اس مرکز سے ان کا تعلق قائم دائم ہے، حال ہی میں انھوں نے ادھر کا دورہ کیا اور بچوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیااوران کے ساتھ وقت گزارا۔ یہاں کے بچوں سے ان کا قلبی رشتہ استوار ہے اور وہ ان میںہردل عزیزہیں ۔ بچوںکی اس کرکٹر سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ اسے پیار اور احترام سے اسٹیو دا کہہ کر پکارتے ہیں۔بنگالی میں احترام کے لیے نام کے ساتھ ’’دا‘‘ کا لفظ برتا جاتاہے۔
وہ خاتون جس کا ٹخنہ ٹوٹ چکا ہے لیکن بقول اسٹیووااس کا جذبہ سلامت ہے:
2004ء میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسٹیو وا نے طے کیا کہ وہ مستقبل میں فلاحی کاموں میں مصروف رہیں گے ،اس سوچ کے تحت انھوں نے2005ء میں اسٹیو وا فائونڈیشن کی بنیاد رکھی، جس کا بنیادی مقصد بھی بیمار بچوں کے علاج معالجے پرخصوصی توجہ ہے۔اس فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے بھی ادیاں سے تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔فلاحی کاموں میں انھیں اپنی بیوی کا عملی تعاون بھی حاصل ہے۔انسانی فلاح کی سیدھی راہ پرگامزن ہونے کے لیے عظیم مدر ٹریسا ان کی انسپریشن بنیں،جن سے وہ کلکتہ میں مل کر بہت متاثر ہوئے تھے۔نیلسن منڈیلا بھی ان کی آئیڈیل شخصیت ہیں۔
وہ میلبورن کے ایک نوجوان متھیوز سے بھی متاثررہے ہیں، جس کے مختلف نوعیت کے درجنوں آپریشن ہوئے لیکن اس نے حالات کا بڑی جوانمردی سے سامنا کیا۔ وہ جب کرکٹ کے میدان میں زخمی ہوتے تو متھیوزکی تکلیف کو یاد کرکے قوت حاصل کرتے۔ اسٹیوواکا کہنا ہے کہ ان کی زندگی میں کئی ایسے لوگ آئے جن کا اسپورٹس سے تعلق نہیں تھا لیکن وہ ان سے بیحد متاثر ہوئے۔اسٹیوواخود کو ہمہ وقت فلاح کار سمجھتے ہیں اور اس نیک کام کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے کے لیے پرعزم ہیں۔اسٹیو وا اس بات پرشکر گزار ہیں کہ 1998ء میںکلکتہ ٹیسٹ کا فیصلہ چار دن میں ہوگیا اور بچ جانے والے اضافی پانچویں دن انھوں نے ادیاں کی طرف وہ سفر اختیار کیا ،جو ان کی زندگی کارخ بدلنے کا موجب بن گیا۔