24 جولائی 1948ء سے 11ستمبر1948ء تک قائداعظمؒ کرنل الٰہی بخش اور ان کے دیگر ساتھی ڈاکٹرز کے زیر علاج رہے۔
اس دوران میں قائداعظمؒ اس قدر لاغراور ناتواں ہو چکے تھے کہ 13اگست کو طبی نقطۂ نظر سے زیارت سے کوئٹہ لے جانے کے لیے انہیں سٹریچر پر لٹا کر زیارت ریذیڈنسی کی سیڑھیوں سے نیچے لایا گیا اور انہیں ہیمبر لیموزین کی پچھلی سیٹ پر لٹا کر کوئٹہ لے جایا گیا۔ وہاں جب ڈاکٹروں نے ان کے لیے اولاً چھ قدم پیدل چلنے کی ورزش تجویز کی تو اس کے لیے ڈاکٹر ریاض علی شاہ کو ان کا دایاں اورڈاکٹر الٰہی بخش کو بایاں بازو تھامنا پڑا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا ان پچاس ایام کے دوران میں قائداعظمؒ کی نقاہت اور ان پر بیماری کے حملے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ جب 11ستمبر کو کراچی لانے کے لیے انہیں سٹریچر پر کوئٹہ ائرپورٹ لے جایا گیا اور وہاں عملے نے انہیں سلیوٹ کیا تو وہ اس قدر نحیف ونزار تھے کہ بقول کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش:’’قائداعظمؒ کی طرف سے پھرتی سے دیئے گئے جواب پر ہم ہکا بکا رہ گئے۔
وہ اس قدر لاغر ہوچکے تھے کہ بستر پر کروٹ بدلتے وقت انہیں تکلیف محسوس ہوتی تھی اور کھانسنے کے لیے انہیں زور لگانا پڑتا تھا۔ ہم تعجب زدہ ہوئے کہ انہوں نے سلیوٹ اس قدر پھرتی سے لوٹانے کے لیے اپنے اندر قوت کس طرح مجتمع کرلی۔ جذبے کا یہ ناقابلِ فراموش اظہار حتٰی کہ گورکنارے بھی ان کی طرف سے یہ احساسِ فرض اور ڈسپلن کی ایک علامت تھا‘‘۔
اس قدر کمزور صحت اور مختلف بیماریوں میں گھرا رہنے کے باوجود بعض لوگ اس مؤقف پر قائم ہیں کہ قائداعظمؒ کی موت قدرتی نہ تھی، سازش کا نتیجہ تھا۔ یہ سوچ درست نہیں۔ قائداعظمؒ ایک عرصے سے بیمار تھے۔ اس کے کئی شواہد ہیں۔ مثلاً: قائداعظمؒ کے ایک معتمد اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری سید شمس الحسن نے قائداعظمؒ کے غیر سیاسی خطوط پر مشتمل’’…..پلین مسٹر جناحؒ‘‘ مرتب کی، جس کا میں نے ’’…..صرف مسٹر جناحؒ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کرکے ’’آتش فشاں‘‘کے تحت اسے شائع کیا۔ وہ لکھتے ہیں:’’…..لیگ کی تنظیم نو کے لیے انہیں حد سے زیادہ کام کرنا پڑا۔ ان کی صحت برباد ہوگئی۔ 1943ء کے بعد وہ شاذ ہی تندرست رہے‘‘۔ (…..صرف مسٹر جناح۔ صفحہ93)۔
24 اپریل 1945ء: قائداعظمؒ نے ماتھیران سے 6انڈرہل روڈ دہلی کے ڈاکٹر البرٹ بیٹی (ALBERT BATTY)کو خط میں لکھا:’’…..آپ جانتے ہیں کہ میں دہلی میں ایک طویل عرصے تک آپ کے زیر علاج رہا‘‘۔ (ایضا۔صفحہ:100)
مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ’’میرا بھائی‘‘ (پبلشر:آتش فشاں لاہور) میں قائداعظمؒ کی بیماری پر تفصیل سے لکھا ہے کہ قرارداد لاہور (23مارچ1940ء) کی منظوری کے بعد’’کام کی زیادتی کے باعث وہ اپنی گرتی ہوئی صحت کا بھی خیال نہ رکھتے….. وہ اپنی صحت اور اس قسم کے دیگر معاملات سے قطعی بے نیاز ہو چکے تھے‘‘۔ (صفحات68، 69)۔ بیماری اور نقاہت کے باوجود وہ تقریبات اور جلسوں میں شریک ہوتے ۔
واپسی پر ان میں ہمت نہ رہتی اور وہ انہی کپڑوں اور جوتوں سمیت بستر میں لیٹ جاتے۔ نقاہت اور بیماری کی شدت کے باوجود، یکم جولائی 1948ء، سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں کوئٹہ سے کراچی جا کر اس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ محترمہ نے اس حالت میں انہیں سفر سے باز رہنے کے حق میں دلائل دیے تو قائداعظمؒ نے کہا:’’تم میری صحت کے بارے میں اس قدر پریشان کیوں ہو۔ مجھے اپنا فرض بہرحال ادا کرنا ہے‘‘۔(صفحہ:96) ۔
سٹیٹ بینک کی اس تقریب کے حوالے سے محترمہ لکھتی ہیں:’’ تقریب میں موجود ہر شخص نے یقیناً محسوس کیا ہوگا کہ قائداعظمؒ کی صحت خراب ہو چکی ہے۔ ان کی آواز بمشکل سنی جا سکتی تھی‘‘۔ (صفحہ:97) ۔
مرحوم خالد شمس الحسن نے مجھے بتایا:’’عین اس دوران میں یوں لگا کہ وہ گر جائیں گے۔ لیاقت علی خاںؒ وغیرہ کے چہروں کے رنگ اڑ گئے۔ لیکن قائداعظمؒ نے قوتِ ارادی سے اپنے آپ کو سنبھال لیا‘‘۔
قوتِ ارادی کے حوالے سے مجھے قائداعظمؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری(1944ء- 1947ء) کے ایچ خورشید نے ایک دفعہ یہ عجیب واقعہ بتایا:’’45ء میں مجھے ایک مدراسی نجومی ملا۔ اس نے بتایا کہ پاکستان بن کے رہے گا۔ میں نے اس سے دلیل مانگی تو وہ کہنے لگا کہ میں سیاست کی بنا پر نہیں اپنے علم کے زور سے ایسا کہہ رہا ہوں، اس لیے کہ میں نے ایک دفعہ قائداعظمؒ کا ہاتھ دیکھا تھا۔ اب جو میں انہیں دیکھ رہا ہوں تو یہ صرف ان کی قوتِ ارادی ہے، کیونکہ وہ عزم کرچکے ہیں کہ پاکستان بنائے بغیر نہیں مریں گے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ وہ اس وقت تک انتقال نہیں کریں گے جب تک کہ پاکستان بن نہیں جاتا۔ یہ بھی بتادوں کہ پاکستان بن جانے کے بعد وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں گے‘‘۔ (دی گریٹ لیڈر (اردو) جلد: دوم۔ ص:316۔ جون 2012ء۔ آتش فشاں لاہور)۔
یہ طے ہے کہ قائداعظمؒ ایک نصب العین کی خاطر زندہ رہے۔ جو وقت اور عمر ان کے آرام کرنے کی تھی اس میں بھی انہوںنے جدوجہد ترک نہ کی، بلکہ اس میں اور اضافہ کیا۔ مسلمانوں کے بکھرے ہوئے غول کو قوم کا روپ عطا کیا اور ایک مادر وطن کے حصول کی جدوجہد انہیں بیماری کی طرف دھکیلتی رہی۔ بقول مرزا ابوالحسن اصفہانی:’’…..فکر، تشویش اور اضطراب کے ساتھ ساتھ شدید محنت کے ہیبت ناک زور نے گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں منتقلی کے بعد ان کی صحت کے پرخچے اڑا دیئے‘‘۔
(قائداعظم جناحؒ، جیسا میں انہیں جانتا ہوں۔ پبلشر:آتش فشاں لاہور۔صفحہ386)۔
1936ء میں قائداعظمؒ ساٹھ برس کے تھے۔ تب بھی جُہدِ مسلسل کا یہ عالم تھا:’’غور فرمائیے! مسٹر جناح کی عمر اس وقت ساٹھ سال ہوچکی تھی۔ انہوںنے اپنی ساری زندگی آرام و راحت اور تموّل میں گزاری تھی۔ وکالت کے ابتدائی دو، چار برسوں کی مشقت کے بعد قدرت نے انہیں زندگی کی تمام آسائشیں اور نعمتیں بڑی فراخ دلی اور فیاضی سے مہیا کردی تھیں۔ مدت سے ان کا یہ معمول چلا آرہا تھا کہ وہ گرمیوں میں سیرو تفریح کے لیے یورپ چلے جایا کرتے تھے۔ لیکن اب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ کر، جب قوائے انسانی کو آرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، انہوں نے شب بیداریاں شروع کردی تھیں۔ (’’اقبال کے آخری دوسال‘‘۔مصنف:ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی۔ صفحہ389۔اشاعت اول: اپریل 1961ء۔ ناشر و طابع:اقبال اکادمی،پاکستان کراچی)۔
مارچ 1941ء، پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے لاہور میں ’’پاکستان سیشن‘‘ کیا۔ اس اجلاس کے حوالے سے سید مرید حسین شاہ نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا:
’’آخری دن فیڈریشن کی مجلس عاملہ کے لئے مخصوص تھا۔ نیڈوز ہوٹل کے لاؤنج میں یہ ایک قسم کی ملن پارٹی تھی۔ اس موقع پر قائداعظمؒ نے فرمایا:’’میں نے بمبئی بار میں بطور وکیل پریکٹس شروع کی تو وہاں بہت ہی قابل وکیل تھے۔ ہندو، پارسی اور انگریز بار پر چھائے ہوئے تھے۔ مجھے سخت محنت کرنا پڑی۔ محنت سے میں نے جو مقام حاصل کیا وہ بے مثال تھا۔اس سے پہلے کسی کو یہ مقام حاصل نہ ہوا تھا ۔
جس طرح کی زندگی میں نے گزاری ہے آپ لوگ اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ اپنے پیشے میں جو کامیابی مجھے نصیب ہوئی اور جو شہرت میں نے حاصل کی ہے اس کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ محنت سے میں نے جو کما رکھا ہے وہ اس لحاظ سے کافی ہے کہ اپنی باقی ماندہ زندگی آسودگی سے گزار سکوں ۔ اتنی محنت کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنا اگرچہ میرا حق بھی تھا لیکن میں نے اس کے باوجود ریٹائر ہونا پسند نہیں کیا۔ مال و دولت کی فراوانی اور عزت و شہرت کی معراج کوئی حیثیت نہیں رکھتی، اگر میں غلام قوم کا ایک غلام فرد رہوں۔ یہی خیال مجھے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ یہ وقت میرے آرام کرنے کا تھا، لیکن میں قَریہ قَریہ گھوم رہا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے آزاد ریاست حاصل کی جا سکے۔
جس کے سامنے ہر دنیاوی آسائش اور عزت و شہرت کا ہرمقام ہیچ رہ جاتا ہے‘‘۔ (حوالہ:’’دی گریٹ لیڈر (اردو) ۔ جلد دوم ۔ص:158)۔ایک دفعہ جب ان کے ذاتی ڈاکٹرکرنل رحمٰن نے معائنے کے بعد کہا کہ انہیں ملیریا ہے۔ محترمہ لکھتی ہیں:’’انہوںنے اس کی تجویز کردہ ادویات استعمال کرنے سے انکار کردیا:’’مجھے ملیریا نہیں ہے۔ مجھے کام کی کثرت نے نڈھال کر رکھا ہے‘‘۔ اس قسم کی صورت حال میں ظاہر ہے کہ آرام ہی سب سے بہترین دوا تھی، مگر آرام وہ کر نہیں سکتے تھے۔ ابھی انہیں بہت سا کام کرنا تھا۔ انہوںنے مجھ سے کہا :’’میں اپنی جسمانی طاقت کی کان کھود کر توانائی کا آخری اونس تک ڈھونڈ نکالوں گا اور اسے اپنی قوم کی خدمت میں صرف کردوں گا۔ اور جب وہ بھی ختم ہو جائے گا تو میرا کام مکمل ہو چکا ہوگا۔ پھر زندگی نہیں رہے گی‘‘۔
(میرا بھائی۔ صفحہ 82)۔
انہوں نے واقعی اپنی توانائی کا آخری اونس تک قوم کی نذرکردیا۔ بیماری کو راز میں اس لیے رکھا، کہیں برہمن قیادت اور انگریز حکمران ان کی موت کے منتظر نہ ہو جائیں۔ اس رازداری پر کرنل الٰہی بخش بھی حیران ہیں:’’جس کسی سے بھی میں ملا وہ قائداعظمؒ کی بیماری کی تمام تر تفصیل جاننے کے لیے مضطرب رہا۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا، اسے راز میں کیوں رکھا گیا۔ میرا جواب صرف یہی ہو سکتا تھا، ایسا قائداعظمؒ کی اپنی خواہش پر کیا گیا….. یہ میری سمجھ سے بالا تھا کہ قائداعظمؒ نے اپنی بیماری راز میں رکھنے کی خواہش کیوں کی‘‘۔
اس کا جواب متحدہ ہندوستان کے آخری انگریز وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کی زبانی:-
وائیکاس پبلشنگ ہاؤس آف انڈیا نے 1983ء میں لیری کولنز(Larry Collins) اور ڈومینک لیپری (Dominique Lapierre) کی تصنیف’’مونٹ بیٹن اینڈ دی پارٹیشن آف انڈیا‘‘ شائع کی۔ پیپر بیک ایڈیشن۔ 296صفحات۔ اس کتاب کے 122صفحات پر پہلا حصہ مونٹ بیٹن سے انٹرویو پر مشتمل ہے۔
کولنز اور لیپری نے مونٹ بیٹن سے پوچھا، انہیں علم نہ تھا کہ مسٹر جناح ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں اور 6 ماہ تک ہی زندہ رہ سکیں گے۔اس پر مونٹ بیٹن نے کہا، دیکھیں! ساری طاقت اس شخص کے پاس تھی۔اگر کسی نے مجھے بتایا ہوتا کہ وہ کسی وقت بھی فوت ہوجائیں گے تو میں یہ سوال اب اپنے آپ سے کرتا ہوں، میں کہتا: ہندوستان کو تقسیم نہ کریں یکجا رہنے دیں۔ میں وقت کو پیچھے کی طرف دھکیل دیتا۔ اور اپنے مؤقف پر قائم رہتا؟….. تاہم یہ مجھے نہ بتایا گیا لیکن یہ حرکت مجرمانہ ہے۔ اور یہ میں اب ارتجالاً کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان کو کسی قسم کی متحدہ صورت میں رکھنے کا یہی واحد موقع ہوتا۔ کیونکہ صرف وہی تھے۔ میں صرف وہی کا لفظ دہراتا ہوں کہ صرف وہی(مسٹر جناح) راستے کا پتھر تھے۔ دوسرے اس قدر بے لوچ نہیں تھے۔ مجھے یقین ہے کانگریس ان لوگوں کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچ جاتی۔ (صفحہ57 تا 59) ۔
کرنل الٰہی بخش کی تصنیف بتاتی ہے کہ ان کی زندگی کے آخری50 یوم ان کی بیماری اور تھکن کا نقطہ ٔ عروج تھے کہ بستر میں کروٹ بدلتے وقت بھی انہیں تکلیف ہوتی اور کھانسنے کے لیے زور لگانا پڑتا تھا۔ لیکن قوم کو سربلند کرنے کی لگن اخیر دم تک چھائی رہی۔
تقدیر کے آگے کب کسی کا بس چلا ہے۔ نواب بہادر یار جنگ نے ایک جلسۂ عام میں دعا کی تھی: یا اللہ میری عمر قائداعظمؒ کو لگ جائے۔ اور جس مدراسی نجومی کا کے ایچ خورشیدمرحوم نے ذکر کیا ہے۔ اس کا اندازہ اپنی جگہ، ہمارا ایمان تو یہی ہے، موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنے ہیرو کو مرتا دیکھ نہیں سکتے۔ اس کی موت کو غیر قدرتی سمجھنے لگتے ہیں جو کوئی ایسا لکھے یا کہے اسے درست جانتے ہیں۔ لیکن میری اب تک کی جستجو اور مطالعہ کی رو سے قائداعظمؒ کی موت سازش کا نتیجہ قطعاً نہ تھی۔ چونکہ ہمیں یہ منظور نہیں اس لیے شروع دن سے کرنل الٰہی بخش کی اس کتاب
“WITH THE QUAID-I-AZAM
DURING HIS LAST DAYS”
کے بارے میں یہ بات عام رہی، وزیراعظم لیاقت علی خاںؒ کے حکم پر یہ کتاب ضبط کر لی گئی تھی، کہ اس میں ان کے بارے میں کچھ ناپسندیدہ باتیں تھیں۔ 1976ء قائداعظمؒ کی صد سالہ سالگرہ کے طور پر منایا جانا تھا۔ میں نے قائداعظمؒ کے ساتھیوں، ورکروں اور کسی مرحلے پر ان کے قریب رہنے والے افراد کی یادداشتوں پر مبنی انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جن تک کسی نے رسائی نہ پائی تھی۔
ان انٹرویوز پر مبنی میں نے آتش فشاں کا 232 صفحاتی خصوصی نمبر شائع کیا۔ اس میں سید شریف الدین پیرزادہ کا انٹرویوبھی شامل ہے، جو میں نے ان سے30 نومبر 1975ء کوکراچی میں ان کی رہائش گاہ پر کیا تھا۔جب میں انٹرویو سے فارغ ہوا انہوں نے مجھے کہا، آپ کرنل الٰہی بخش کی کتاب کیوں نہیں چھاپتے؟ میرا جواب تھا، وہ کتاب تو ضبط ہے۔ پیرزادہ صاحب نے اس کی تردید کی۔ مجھے اس پر سخت حیرت ہوئی، کیونکہ ہم بچپن سے سن رہے تھے، وزیراعظم لیاقت علی خاںؒ کے بارے میں کرنل الٰہی بخش نے اس میں کچھ ایسے حقائق افشا کئے کہ انہوں نے یہ کتاب ضبط کرا دی۔
پیرزادہ صاحب کی بات کی تصدیق کے لیے میں نے کراچی میں ڈاکٹروں کی انجمن کے ایک بڑے عہدہ دار ڈاکٹر سے صدر کراچی، نوید کلینک، میں ملاقات کی۔ وہ ڈاکٹر، کرنل الٰہی بخش کے ہم عصر تھے۔ میں نے ان سے پیرزادہ صاحب کی بات کی وضاحت چاہی تو انہوںنے بتایا، یہ درست ہے حکومت نے کرنل الٰہی بخش کی یہ تصنیف ضبط نہ کی، ہم نے البتہ مطالبہ ضرورکیا تھا، یہ کتاب ضبط کرلی جائے۔ میں نے اس مطالبے کی وجہ پوچھی توان کا کہنا تھا، اسے ہم نے اپنے پیشے کے منافی سمجھا کہ ایک ڈاکٹر علاج کے بعد اپنے مریض کو کتاب کا موضوع بنا ڈالے۔
لاہور واپسی پر میں اس کتاب کا ایک ابتدائی نسخہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ مجھے اس میں لیاقت علی خاںؒ کے متعلق کوئی قابلِ اعتراض بات نہ ملی۔ بلکہ ان کے بارے میں جو مواد ملا وہ ان کے حق میں تھا۔ مثلاً مصنف لکھتا ہے:
’’…..اس روز قائداعظمؒ نے دوپہر کا کھانا رغبت سے نہیں کھایا۔ ان کی کھانسی تکلیف دہ رہی اور شام تک ان کا ٹمپریچر بھی بڑھ چکا تھا۔ نو بجے کے قریب مجھے مس جناح کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں درج تھا کہ ان کی نبض کی رفتار بہت تیز ہوچکی ہے۔ میں گھبرا گیا، لیکن دوبارہ معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کوئی نئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے محترمہ کی ڈھارس بندھائی۔ نیچے کی منزل پر ڈرائنگ روم میں وزیراعظم سے میری ملاقات ہوئی، جو مسٹر محمد علی کے ہمراہ قائداعظمؒ کی خبر گیری کے لئے اسی روز آئے تھے۔
انہوں نے بڑی بے چینی سے قائداعظمؒ کی حالت دریافت کی، اور میری تحسین کی کہ میں مریض کا اعتماد حاصل کرکے پہلے مرحلے میں کامیاب رہا ہوں۔ انہوںنے امید ظاہر کی کہ یہ چیز ان کی صحت یابی میں مددگار ثابت ہوگی۔ انہوں نے مجھے سخت تاکید بھی کی کہ میں اس طویل بیماری کی اصل وجہ کاکھوج لگاؤں۔ میں نے وزیراعظم کو یقین دلایا کہ قائداعظمؒ کی تشویش ناک حالت کے باوجود بڑی امید ہے کہ اگر جدید ترین ادویات، جو کراچی سے منگوائی گئی ہیں، کے مثبت اثرات ظاہر ہوگئے تو ان کے صحت یاب ہونے کا امکان ہے۔ اور سب سے زیادہ امید افزا بات مریض کی مضبوط قوتِ مدافعت ہے۔ وزیراعظم کو اپنے چیف اور دیرینہ رفیق کی صحت پر جو گہری تشویش تھی میں اس سے بہت متاثر ہوا‘‘۔ (کرنل الٰہی بخش:ود دی قائداعظمؒ ڈیورنگ ہز لاسٹ ڈیز۔1949ء۔صفحہ23 ، 24۔ پبلشرز:مکتبہ المعارف، لاہور)۔
گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ایک آخری اے ڈی سی (تب کیپٹن) این اے حسین کے اس بیان سے بھی کرنل الٰہی بخش کی تائید ہوتی ہے:
’’وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاںؒ زیارت آئے، جہاں انہوںنے دو رات قیام کیا۔ ا س دوران انہوں نے قائداعظمؒ، محترمہ فاطمہ جناحؒ اور ڈاکٹروں سے ملاقاتیں کیں۔ باہر سے سپیشلسٹ بلانے کے لئے بہت زور لگایا، قائداعظمؒ اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو وزیراعظم نے ان سے علاج کیلئے باہر جانے کی درخواست کی۔ قائدؒ نے اس بات سے بھی اتفاق نہ کیا۔ اب انہیں وزیراعظم نے کراچی تشریف لے آنے کی ترغیب دی کہ وہیں باہر سے ماہرین بلوا لیے جائیں گے۔ قائداعظمؒ نے ان کا یہ مشورہ بھی قبول نہ کیا۔ وزیراعظم مکمل طور پر مایوس ہوچکے تھے۔
وہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو قائدؒ کے کمرے سے باہر لے آئے، اور محترمہ سے جو کہا وہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں:’’محترمہ! قطع نظر اس سے کہ قائداعظمؒ آپ کے بھائی ہیں، وہ ہماری بھی متاعِ عزیز ہیں۔ ہمیں ان کے علاج معالجہ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہئے‘‘۔ (دی گریٹ لیڈر(اردو) ۔ جلد: اول۔ اگست 2011ء۔ ص:152 آتش فشاں لاہور) ۔
نومبر2003ء- روزنامہ جنگ لاہور میں قائداعظمؒ کی موت پر بحث چھڑی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین کے بیانات اورنذیر ناجی کے کالموں کے ایک سلسلے میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ قائداعظمؒ کو ایک سازش کے تحت ہلاک کیا گیا تھا۔ میں نے روزنامہ ایکسپریس لاہور میں اس کا تفصیلی اور حوالوں سے جواب دیا، جومیری کتاب ’’قائداعظمؒ- اعتراضات اور حقائق‘‘ کا ایک باب ہے۔ اس لیے میں نے یہاں زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کیا ہے۔
کراچی میں قائداعظمؒ کو جس ایمبولینس کے ذریعے گورنر جنرل ہاؤس لے جایا جا رہا تھا، راستے میں اس کے خراب ہو جانے کو بھی سازش کہا جاتا ہے۔ میں اس پر کوئی حتمی رائے تو نہیں دے سکتا، لیکن اب تک کی دستیاب معلومات کی رو سے یہ سازش ہرگز نہ تھی۔ ہمیں اس سلسلے میں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ قائداعظمؒ سٹریچر پر گورنرجنرل ہاؤس جانے کے قطعاً حق میں نہ تھے۔
اس کی کرنل الٰہی بخش سے بھی تصدیق ہوتی ہے، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے محترمہ فاطمہ جناحؒ سے گزارش کی کہ وہ قائداعظمؒ کو کراچی جانے کے لیے رضامند کریں تو محترمہ نے بتایا:’’وہ ایک معذورشخص کی حیثیت میں گورنر جنرل ہاؤس واپس جانا نہیں چاہتے‘‘۔اس کے بعد کرنل الٰہی بخش قائداعظمؒ کے ساتھ ملاقات میں انہیں کراچی جانے پر آمادہ کرنے کے لیے دلائل دیتے ہیں تو قائداعظمؒ کہتے ہیں:’’مجھے بیساکھیوں پر کراچی مت لے جائیں۔ میں وہاں اس وقت جاؤں گا جب میں کار سے اپنے کمرے تک چل کر جا سکوں۔ آپ کو پتہ ہے، میرے کمرے تک پہنچنے کے لیے پورچ سے آپ کو اے ڈی سی اور پھر ملٹری سیکرٹری کے کمرے کے پاس سے گزرنا ہوگا۔ میں کار سے اپنے کمرے تک سٹریچر پر جانا پسند نہیں کرتا‘‘۔
10ستمبر1948ء- ڈاکٹروں نے اگلے روز، 11ستمبر، قائداعظمؒ کو کوئٹہ سے کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا۔ کراچی سے کوئٹہ جہاز بھیجنے کے لیے بقول اے ڈی سی کیپٹن این اے حسین:’’چنانچہ مظہر اور میں نے قائدؒ کے ملٹری سیکرٹری کرنل نولز سے کراچی میں رابطہ قائم کرنے کے لیے کال بک کرائی….. محترمہ فاطمہ جناحؒ نہیں چاہتی تھیں کہ لوگ قائداعظمؒ کوسٹریچر پر دیکھیں، اس لیے انہوں نے ہمیں بلا کر خاص طور پر تاکید کی: ’’ملٹری سیکرٹری کو بتادیں کہ کراچی میں قائداعظمؒ کا یہ Arrival (ورود) پرائیویٹ ہوگا‘‘۔ (دی گریٹ لیڈر۔ جلد:اول۔ ص:154و155)۔
ایسا ہی کیا گیا حتٰی کہ بقول بریگیڈیئر (ر) این اے حسین:’’جہاز کوئٹہ ائرپورٹ سے اڑا تو جس کے ذمے یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ کرنل نولز کو اس کی اطلاع کردے، اسے یہ بھی کہا گیا کہ وہ ملٹری سیکرٹری کو کہہ دے کہ کراچی میںقائداعظمؒ کی آمد سراسر پرائیویٹ ہے‘‘۔ (ص:155)۔
گورنر جنرل کے پرائیویٹ وزٹ یا ارائیول پر اس کا ذاتی سٹاف ائرپورٹ پر آتا ہے۔ وزیراعظم اور کوئی دوسرا سرکاری عہدہ دار نہیں آتا۔گورنر جنرل کا پرسنل سٹاف یہ تھا:ملٹری سیکرٹری، کمانڈنٹ گورنر جنرل کا باڈی گارڈ، اے ڈی سی، کمپٹرولر آف دی ہاؤس ہولڈ، پرائیویٹ سیکرٹری، اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری۔
قائداعظمؒ کے ذاتی معالج کرنل رحمٰن کراچی میں ہی تھے۔ بریگیڈئر(ر)این اے حسین کا کہنا ہے کہ ملٹری سیکرٹری نے ایمبولینس کے لیے کرنل رحمٰن سے رابطہ کیا’’ کرنل رحمٰن نے کراچی میں تمام اچھی ایمبولینسوں کا معائنہ کرنے کے بعد جو بہترین تھی وہ قائداعظمؒ کے لیے منتخب کی‘‘۔(ص:156)۔
وہی ایمبولینس ماڑی پور کے ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاؤس جاتے ہوئے راستے میں خراب ہوگئی۔ اے ڈی سی کے بیان کے مطابق اس ایمبولینس کا انتظام وزیراعظم لیاقت علی خاںؒ نے کیا تھا نہ حکومت نے۔ درست کہ دوسری ایمبولینس ساتھ نہیں رکھی گئی۔ یہ کوتاہی یا غلطی ہوگئی۔ اگر اسے سازش قراردیا جائے تو یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے قائداعظمؒ کی موت ایمبولینس کی خرابی کے باعث قطعاً نہ ہوئی۔
جیسا کہ کرنل الٰہی بخش لکھتے ہیں:’’ہم چار بج کر پندرہ منٹ پر ماڑی پورکے ہوائی اڈے پر اترے‘‘۔ چار میل طے کرنے کے بعد جب ایمبولینس خراب ہوگئی اور دوسری ایمبولینس آنے میں جو وقت صرف ہوا اس کے باعث وہ گورنر جنرل ہاؤس مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکے:’’ماڑی پور ہوائی اڈے پر اترنے کے قریباً دوگھنٹے بعد چھ بج کر دس منٹ پر ہم اپنی منزل پر پہنچے‘‘۔ قائداعظمؒ فوت ہوتے ہیں دس بج کر بیس منٹ پر ۔ ان کی رحلت میں ایمبولینس کی خرابی کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔
اگر قائداعظمؒ کی موت طبعی نہ ہوتی تو کیا خیال ہے ان کی ہمشیرہ مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ خاموش رہتیں؟ انہوں نے ہی کرنل الٰہی بخش کی کتاب کی تمہید لکھی ہے۔ اس میں اشارۃً بھی ایسا شبہ ظاہر نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی انہوں نے ’’میرا بھائی‘‘ میں ایسا لکھا ہے۔
10ستمبر کی صبح ڈاکٹر کوئٹہ میں قائداعظمؒ کا جو معائنہ کرتے ہیں، اس بارے میں کرنل الٰہی بخش لکھتے ہیں:’’ہم نے مس جناحؒ سے ملاقات کی اور انہیں بتایا، معجزہ ہو جائے تو الگ بات ہے ورنہ قائداعظمؒ کا ایک یا دو روز سے زائد زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں‘‘۔ مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے کتاب کی تمہید میں یہ لکھ کر کرنل الٰہی بخش ہی کی نہیں اس امر کی بھی تصدیق کردی کہ قائداعظمؒ کی موت کسی سازش کا نتیجہ نہیں، طبعی تھی:
’’قائداعظمؒ کی ناقابلِ تسخیر شخصیت کے ساتھ ایک معالج کے آخری چند روزہ رابطے کی یہ مختصر روئداد الجھن کے شکار ان افراد کی وہ گہری تشویش دور کردے گی جو قائداعظمؒ کی بیماری اور رحلت کے سبب سے آگاہ ہونے کے شدید خواہاں ہیں۔ یہ ان کی بیماری اور رحلت کے وقت اور جگہ کے متعلق کئی بے بنیاد افواہوں کو باطل کردے گی‘‘۔
لیکن ہوا اس کے برعکس، افواہوں نے ایسا جنم لیا کہ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی وہ ختم نہیں ہو رہیں، الٹا وہ پختہ ہو رہی ہیں بلکہ بہ قائمی ہوش و حواس انہیں پختہ کیا جا رہا ہے۔
The post قائداعظمؒ کے آخری ایام appeared first on ایکسپریس اردو.