اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان خود جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے اور اس کی بقا صرف جمہوری عمل سے ہی وابستہ ہے۔ لیکن پاکستان گذشتہ سات دہائیوں میں چار مارشل لا بھگت چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جمہوری حکومتوں میں بھی فوج کی جانب سے ڈکٹیشن، مداخلت اور آمرانہ رویے کی بازگشت عام رہی ہے۔ تاہم، سیاسی راہ نماؤں، مقتدر طبقات، ذرایع ابلاغ اور عوام کی سطح پر یہ بحث آج بھی جاری ہے کہ پاکستان کی بہتری کس نظام کو اختیار کرنے میں ہے۔
آمریت کے حمایتی طبقات کو بہ ظاہر یہ لگتا ہے کہ جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے اور بندوقوں کی حکم رانی سے ملک کو اندرونی استحکام حاصل ہوسکتا ہے جو معاشی ترقی اور مبینہ بدعنوان سیاسی قیادت سے نجات کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تاہم تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر سماجی اور معاشی خرابیوں کے بیج فوجی حکم رانوں کے دور میں ہی بوئے گئے تھے، جن کے بھیانک اور سنگین نتائج آج بھی ہم سب کے سامنے ہیں اور اس کا کڑوا پھل کھانے پر مجبور ہیں۔
داستان شرم ناک ہونے کے ساتھ بہت طویل بھی ہے۔
7 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے کمانڈر انچیف ایوب خان کو پہلا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا تھا۔ اقتدار سنبھالتے ہی ایوب خان نے پہلے بنیادی جمہوریت کے نام سے جمہوریت کی نئی نرسری لگانے کا اہتمام کیا اور جب حسب منشا نتائج ملتے نظر نہ آئے تو صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے ہرا کر برسر اقتدار ٹولے کے لیے سرکاری وسائل کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی پہلی مثال قائم کی۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر فوجی مداخلت اور پھر دھاندلی نہ ہوتی تو فاطمہ جناح پاکستان کی صدر ہوتیں تو کیا یہ ممکن تھا کہ ملک دولخت ہوتا ۔۔۔۔۔ ؟ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بل کہ جب ایوب خان کو عوام کے شدید ردعمل کے نتیجے میں بہ امر مجبوری اقتدار سے الگ ہونا پڑا تو انہوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے تحت قومی اسمبلی کے اسپیکر کو قائم مقام صدر بنانے کے بہ جائے حکومت کی باگ ڈور جنرل یحییٰ خان کو سونپ دی، جو بادہ خواری اور جنسی بے اعتدالیوں کی شہرت رکھتے تھے۔ جنرل یحییٰ خان پاکستان کی تاریخ کے سب سے غیرجانب دارانہ انتخابات کروانے کے دعوے دار تھے، تاہم انتقال اقتدار کے موقع پر وہ بھی اپنی غیرجانب داری برقرار نہ رکھ سکے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ملک دولخت ہوگیا۔ جنرل ٹکا خان کے وہ الفاظ تو سب کو یاد ہوں گے کہ ہمیں آدمی نہیں زمین چاہیے۔ پھر پلٹن میدان میں جنرل امیر عبداﷲ خان نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی شرم ناک تقریب کون بھلا سکتا ہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بن جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں راول پنڈی میں علامتی طور پر نظربند کردیا تھا۔ تاہم جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی یہ نظربندی ختم کردی اور 10 اگست 1980 کو ان کے انتقال کے بعد انہیں حکومتی سرپرستی میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کو دولخت کرنے کے باوجود وہ اس اعزاز کے حق دار تھے۔۔۔۔۔۔ ؟
ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا ایک اور آمر نے نوے دن میں انتخابات کا وعدہ کرتے ہوئے وزیراعظم بھٹو کی حکومت پر بہ زور قبضہ کرلیا۔ جنرل ضیاء الحق جنہیں مذہبی حلقوں نے ’’امیرالمومنین‘‘ کہنا شروع کردیا تھا، اور وہ خود کو یہ سمجھتے اور کہلوانا پسند بھی کرتے تھے، ساڑھے گیارہ سال چیف آف آرمی اسٹاف رہے۔ ابتدا میں انہیں سیاسی اور معیشت کی ابتر صورت حال نے مشکلات میں ڈالے رکھا لیکن پھر افغانستان، امریکا اور روس کی جنگ کا میدان بن گیا اور امریکی ڈالروں کی برسات میں انہوں نے پاکستان میں مذہبی گروہوں، تنظیموں اور جماعتوں کی پشت پناہی سے جہادی بھرتی کرنا شروع کیے۔ یہ جہادی امریکی اسپانسرڈ تھے۔
اسی دور میں انہوں نے غیرجماعتی بنیادوں پر بلدیاتی اداروں، صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے ذریعے اپنی من پسند جمہوریت کو فروغ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں نظریات کے بہ جائے پیسے اور ذاتی مفادات نے لے لی۔ کلاشن کوف کا چلن عام ہوا، منشیات کی وبا بھوٹ پڑی، مسلح گروہوں نے اپنی حکم راں اور اپنے زیرتسلط علاقوں میں اپنے من پسند قوانین متعارف کرائے اور یوں وطن عزیز یرغمال بنالیا گیا۔ مدارس کے طلبہ اس جہاد کا ہراول دستہ قرار پائے۔ یہ ضیاء الحق ہی تھے جنہوں نے ملک کی سیاسی نظریات کی حامل بڑی وفاقی پارٹیوں کے مقابل لسانی اور فرقہ وارانہ نظریات کے حامل مسلح جتھوں، جماعتوں، تنظیموں اور افراد کی آب یاری کی۔ اس طرح وہ پاکستان کا سماجی، سیاسی اور معاشی منظرنامہ تبدیل کرنے میں کام یاب ہوگئے، جس کے نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔
یہ ضیاء الحق ہی تھے جنہوں نے ملک کے منتخب اور ہردل عزیز وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر کھینچا، اس میں کیا شک ہے کہ عدلیہ نے ان کی مکمل پشت پناہی کی۔ بھٹو کے عدالتی قتل کے ساتھ جنرل ضیاء الحق نے ظلم و جبر کی جو تاریخ رقم کی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اخبارات کو بند یا پابند کیا گیا، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارنے کے ساتھ قید کیا گیا اور ان پر معاش کے دروازے بند کیے گئے۔ اپنے سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یہ ضیاء الحق ہی تھے جنہوں نے مذہبی جماعتوں کی مدد سے فرقہ وارانہ منافرت کے بیج بوئے جن کی ایک ’’لہلہاتی‘‘ فصل ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔
اس کا متعارف کروایا ہوا کلاشنکوف کلچر، منشیات کی اسمگلنگ اور استعمال، دہشت گردی، رجعتی سماجی رویے، خواتین کے خلاف امتیازی سلوک، مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرتیں سماج میں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف بنانے کا فیصلہ نوازشریف نے کیا تھا۔ پرویزمشرف خیر سے کمانڈو بھی تھے، جو نواز شریف کو معزول کرتے ہوئے خود برسر اقتدار آگئے۔ تاہم انہیں بھی اپنے پیش رو طالع آزما کی طرح افغانستان کی جنگ میں امریکی پیادہ بننے کا موقع مل گیا اور اس طرح خود کو بہادر کمانڈو کہنے والے، جن کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں، نے امریکی حکام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی اور وہ واشنگٹن کے حضور سجدہ ریز ہوگئے۔
پرویز مشرف کی سجدہ ریزی کے باعث نومبر2001ء میں گوادر اور جیوانی میں امریکی نیوی کے بحری جہاز لنگر انداز ہوئے، بھاری ہتھیاروں کے گودام بنے اور ڈرون حملوں کا آغاز ہوا، لیکن بہ قول ’’نڈر کمانڈو‘‘ پاکستان کی خودمختاری پر آنچ نہیں آئی۔ اس کے بعد امریکی فوج بلوچستان کے راستے افغانستان میں داخل ہوکر اپنی کارروائیاں تیز کرنے میں کام یاب ہوئی، جب کہ گوادر میں 2005ء میں بھی امریکی فوج کے مراکز موجود تھے۔ ضیا نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے جو کام اسلام کی آڑ میں سیاسی مخالفین پر کوڑے برسا کر کیا، مشرف نے وہی کام روشن خیالی کی مسند پر بیٹھ کر کیا۔
یہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے بلوچستان میں جبر کو فروغ دیا ۔ انہوں نے اکبر بگٹی کو قتل کیا جس کی وجہ سے آج بھی بلوچستان آتش فشاں بنا ہوا آگ اگل رہا ہے۔ یہ وہی دور ہے جس میں ملک بھر میں خصوصاً قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں سیکڑوں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور ہزاروں نوجوان غائب کردیے گئے، جن کے لواحقین آج بھی در بہ در خاک بہ سر گھوم رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو امریکا کے ہاتھوں قیمتاً فروخت بھی کیا۔ کراچی میں بارہ مئی کے واقعات کے پیچھے کون تھا؟ کیا اب یہ بات سب نہیں جانتے کہ اس رات کو اسلام آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کمانڈو نے اپنے بازو لہراتے ہوئے کہا کہ آج سب نے عوام کی طاقت دیکھ لی ہے۔
ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی آمریت اور اس کے زیرسایہ پالتو سیاست دانوں کی گملوں میں اگائی گئی نرسری کبھی بھی کام یاب نہیں رہی، بل کہ اس کی وجہ سے عوامی سطح پر بھی سیاسی شعور میں کمی آئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ایسے فارمی سیاست دانوں کے غیر جمہوری رویوں کا ملبہ بھی ہمیشہ جمہوریت پر ڈال کر مارشل لا کے جواز تراشے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ جمہوریت کو عوام کی نظر میں قابل بھروسا بنانے کے لیے سیاست دانوں کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر ریاست کے مقتدر ادارے سیاسی عمل کو قدرتی حالات میں آگے بڑھنے کا راستہ دینے کے بہ جائے اپنے مفادات کو ہی مقدم رکھیں گے تو پھر پاکستان میں جمہوریت سے آمریت اور آمریت سے جمہوریت کا چکر یوں ہی جاری رہے گا۔
بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے جمہور کی رائے کے مطابق ہی کہا تھا کہ پاکستان میں جمہوری نظام ہوگا، اور تمام طبقات اس سے متفق تھے اور ہیں۔ جمہوری نظام سے مراد ہے سب فیصلے جمہور کی رائے سے طے پائیں گے۔ پارلیمنٹ اسی جمہور کے نمائندوں کا مرکز اور مقام ہے۔ جہاں ہونے والے فیصلے عوامی امنگوں کے مطابق اور ان کے مفاد میں ہوتے ہیں یا ہونے چاہییں۔ آئین پاکستان سب کے کردار کو متعین کرتا اور یہ بتاتا ہے کہ فلاں ادارے کی حدود کیا ہیں اور اس کا سیاسی کردار کتنا ہے؟ مثلاً آئینِ پاکستان فوج کے کردار کی وضاحت کر دیتا ہے جس میں حکومت، اقتدار اور سیاسی قوت اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
تمام سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اپوزیشن اسی پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی محرومیوں اور شکایتوں کا ازالہ کرے۔ اگر اپوزیشن یا حکومتی ارکان وزیراعظم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرتے ہیں تو اسے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا آپشن بھی آئین میں موجود ہے۔ سیاسی جماعتوں کو متفقہ طور پر میثاقِ جمہوریت کی طرح ایک لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے۔
انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں سیاسی پختگی کا ثبوت دیتے ہوئے سیاسی مسائل کے حل کے لیے سڑکوں کو نہیں پارلیمنٹ کو اپنا مرکز بنائیں۔ سیاسی جماعتیں ایسی جماعتوں اور افراد سے اعراض برتیں جن کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں، نہ ایسا ہونے کی انھیں امید ہے، چناں چہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جمہوریت اور پارلمینٹ کی بساط لپیٹ دی جائے اور وہ آمریت کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹیں۔ ایسی جماعتوں کا کوئی جمہوری کردار نہیں جو فقط مادی وسائل اور اپنے زیرکفالت اداروں کی بنیاد پر مجمع اکٹھا کرلیتی ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں زیادہ عرصہ آمریت برسراقتدار رہی ہے اور عوامی حکومت کا عرصہ اس کے مقابل کم بنتا ہے لیکن جب بھی جمہوری حکومت آئی ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہوا ہے۔ جمہوری حکومت کے خلاف اقدام و سازش ہی سیاسی بحران کی اصل وجہ ہے، اگر سیاسی جماعتیں طے کر لیں کہ وہ کسی کا آلۂ کار بننے کے بہ جائے، سیاسی اور جمہوری کلچر کو فروغ دیں گی، کسی ایک جماعت یا جمہوری حکومت کے خلاف غیرجمہوری اقدام صرف ایک جماعت کے خلاف نہیں بل کہ سب کے خلاف تصور کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ کو سپریم بنایا جائے، اس کے فیصلوں کو من و عن نافذ کیا جائے گا۔ حکومت ہو یا اپوزیشن اپنی آئینی ذمے داریوں سے تجاوز نہیں کرے گی۔
الیکشن کو سب سے بڑی عدالت خیال کیا جائے گا جس میں عوام کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ سناتی ہے۔ الیکشن میں غیرجمہوری ہتھ کنڈے اور دھاندلی کی روک تھام کے لیے، تمام سیاسی جماعتیں تعاون کریں، قانون سازی کریں اور انتخابی اصلاحات کے ساتھ انتخابی عمل کو زیادہ شفاف بنانے کے لیے جدید سائنسی طریقے اختیار کریں۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو سیاسی وابستگی اور دباؤ سے آزاد اور خودمختار ادارہ بنایا جائے۔ ملک میں خفیہ ہاتھوں اور غیرجمہوری قوتوں کا آلہ کار بننے کے بہ جائے ہر جمہوری حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے تو اس ملک سے سیاسی بحرانوں اور انتشار کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے۔
The post جمہوریت؛ پاکستان کی بقا اور ترقی کا واحد راستہ appeared first on ایکسپریس اردو.