انتخابات میں دھاندلی کی اصطلاح کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ حریف امیدواروں کی جعلی ووٹ ڈلوانے یا دوسرے ناجائز ذرائع اختیار کرنے کی وہ ’’صلاحیت‘‘ ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کیسے کردار ادا کرتی رہی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے روپ بدلتی رہی ہے۔ آج کل کے جدید دور میں یہ ’’تجارتی‘‘ شکل اختیار کرچکی ہے اور اس کی مختلف جہتوں میں قبل از انتخابات دھاندلی، انتخابی عمل کے شروع ہونے کے بعد کی دھاندلی، انتخابات کے دن دھاندلی اور انتخابات کے بعد کی دھاندلی شامل ہیں۔
پاکستان کا قیام 14 اگست 1947ء کو عمل میں آیا۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر پاک و ہند پر قابض انگریز سامراج نے اپنی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے 1936-37ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں انتخابات منعقد کروائے۔ ان صوبوں میں مدارس، مرکزی صوباجات، بہار، اوڑیسہ، متحدہ صوبہ جات، بمبئی پریذیڈنسی، آسام، شمال مغربی سرحدی صوبہ، بنگال، پنجاب اور سندھ شامل تھے۔ ان انتخابات کے حتمی نتیجے کا اعلان فروری 1937ء میں کیا گیا۔ نتائج کے مطابق انڈین نیشنل کانگریس۔۔۔۔ بنگال، پنجاب اور سندھ کے علاوہ باقی آٹھ صوبوں میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ کسی بھی صوبے میں حکومت نہ بناسکی۔
1937ء کے ان انتخابات میں ہندوستانیوں کی بڑی تعداد رائے دہندگی کے اس عمل میں شریک ہوئی۔ محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 3 کروڑ افراد، جن میں چالیس لاکھ خواتین بھی شامل تھیں، نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ یہ اس وقت کے ہندوستان کی کل آبادی کا 12 فیصد بنتا ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے کل 1,585 نشستوں میں سے تقریباً نصف یعنی 707 نشستیں جیت لیں۔
مسلمانوں کے لیے محفوظ 59 نشستوں میں سے 25 نشستیں بھی اسی کے کھاتے میں گئیں۔ دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ نے صرف 106 نشستیں (تقریباً 6.7 فیصد) جیتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کامیاب نشستوں میں اتنے بڑے تفاوت کے باوجود آل انڈیا مسلم لیگ نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام نہیں لگایا، بلکہ مسلمانوں میں اپنے مقاصد کی آگاہی اور شعور بیدار کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھی۔ انڈین نیشنل کانگریس کے وزراء کی طرف سے 1939ء میں استعفے دے دینے کے باعث یہ حکومتیں ختم ہوگئیں۔
جنوری 1946ء میں برطانوی راج کے زیر تسلط ہندوستانی صوباجات میں دوبارہ انتخابات کروائے گئے جن میں آل انڈیا مسلم لیگ نے 75 فیصد مسلم نشستیں جیت کر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ سچ کر دکھایا۔ ان انتخابات نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن بنائے جانے کی راہ ہموار کردی۔ یہاں بھی یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ گو ان انتخابات کے نتائج انڈین نیشنل کانگریس کے لیے غیر متوقع ہی نہیں بلکہ حیران کن بھی تھے مگر کسی بھی قسم کی دھاندلی کا شور نہیں مچایا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد کے مشکل مسائل، مہاجرین کی آمد اور ان کی آبادکاری، پاکستان کو اس کے حصے کی رقوم نہ ملنے کے باعث معیشت کی زبوں حالی اور حکومتی اور انتظامی ڈھانچے کی کمزوری کی وجہ سے باقاعدہ انتخابات کا ڈول نہ ڈالا جاسکا اور اسی وجہ سے 1947ء سے لے کر 1958ء تک پاکستان میں قومی سطح پر براہ راست انتخابات نہیں کروائے جاسکے۔ تاہم گاہے بگاہے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوتے رہے لیکن مغربی پاکستان میں ہونے والے صوبائی انتخابات کو رائے دہندگان کے ساتھ ایک ڈھونگ، مذاق اور دھوکا قرار دیا جاتا رہا اور یوں پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگنے کا آغاز ہوگیا۔ بعد ازاں انتخابات میں دھاندلی کا رجحان کوئی نئی بات نہ رہا اور یہ ابتداء سے لے کر اب تک شکل بدل بدل کر ہمارے سامنے وارد ہوتا رہا ہے، چاہے وہ مقامی حکومتوں یا بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہوں یا قومی اسمبلی کے اور چاہے یہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں۔
آزادی حاصل کرنے کے بعد ملک میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی 197 نشستوں کے لیے انتخابات 10 تا 20 مارچ 1951ء کو منعقد ہوئے۔ 189 نشستوں کے لیے 939 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا جبکہ باقی نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوئے۔ ان انتخابات کی دوڑ میں سات سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی تھیں اور یہ بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ہو رہے تھے۔ رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد تقریباً دس لاکھ تھی۔ لیکن ٹرن آئوٹ کافی کم رہا، جو لاہور میں تیس فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں اس سے بھی کم تھا۔
8 دسمبر 1951ء کو شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبرپختونخواہ) کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ حسب معمول ہارنے والے امیدواروں نے جیتنے والوں پر دھاندلی کا الزام لگایا کیونکہ دھاندلی کا الزام لگانے کی روایت اب پاکستان کی انتخابی تاریخ میں مستحکم ہونے لگی تھی۔ اسی طرح مئی 1953ء میں صوبہ سندھ کی اسمبلی کے انتخابات کو بھی دھاندلی کے الزامات نے آلودہ کردیا۔ اپریل 1954ء میں مشرقی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے، جن میں پاکستان مسلم لیگ، بنگالی قوم پرستوں اور یونائٹڈڈ فرنٹ الائنس کے ہاتھوں بری طرح شکست سے دوچار ہوگئی۔ مشرقی پاکستان کے وزیراعظم نور الامین، ضلع میمن سنگھ کے حلقے ’’نندائل‘‘ سے اپنی آبائی پارلیمانی نشست ایک سکہ بند اسٹوڈنٹ لیڈر اور بنگالی لسانی تحریک کے سرخیل خلیق نواز خان سے ہار گئے۔ ایک نوجوان اسٹوڈنٹ لیڈر اور بنگالی قوم پرست کے ہاتھوں جناب نورالامین جیسے معروف قومی راہنما کی عبرتناک شکست نے مشرقی پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے مسلم لیگ کو یکسر غائب کردیا۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ 1950ء کی دہائی سے ہی پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگنا شروع ہوگئے تھے۔ اس دوران پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبرپختونخواہ)، سندھ، بلوچستان اور اس وقت کے مشرقی پاکستان کے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ان الزامات سے مبرا نہیں تھے۔ ان انتخابات میں کی جانے والی صریحاً دھاندلی کے خلاف عوام نے پرزور طریقے سے آواز بلند کی۔
ملکی اخبارات میں بھی جب احتجاج اور ہنگامہ آرائیوں کو نمایاں جگہ ملی تو اس وقت کے وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی کو سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنا پڑا کہ ملک میں جمہوریت اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے 1955ء میں ’’الیکشن ریفارمز کمیشن‘‘ تشکیل دیا، جس کی سفارشات پر آئندہ آنے والے انتخابات میں عملدرآمد کیا گیا۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ بعد میں انتخابات میں دھاندلی کے اور نت نئے طریقے استعمال ہونے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ 1951ء سے 1954ء تک دھاندلی کے لیے اختیار کیے جانے والی کاریگری آج کی نسبت انتہائی سادہ ہوتی تھی۔ مثلاً جعلی ووٹوں کی رجسٹریشن، کمزور بنیادوں پر کاغذات نامزدگی مسترد کروا دینا، امیدواروں پرجبر یا ووٹروں کو لالچ و ترغیب، چوری چھپے یا طاقت کے بل بوتے پر بیلٹ باکس کو کھولنا، مخالف امیدواروں کو ہراساں کرنا اور یا پھر انہیں جیل میں ڈالنا وغیرہ۔ اس کے بعد 1958ء میں مارشل لاء لگ گیا اور فوجی حکومت کے زیر انتظام 1962ء اور 1965ء کے بلاواسطہ انتخابات کروائے گئے، جن کے دوران خاص طور پر مشرقی پاکستان کے ممبران کو ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے آسانی سے ’’قابو‘‘ کرلیا گیا۔
اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہونے والے بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان جیسا ملک جو ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا، کے عوام کو براہ راست حکومتی عمل میں شرکت کے مواقع دینے کے لیے ہونے والے مقامی حکومتوں کے زیادہ تر انتخابات آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کے ادوار میں ہوئے جو بدقسمتی کی بات ہے اور دوسرے یہ کہ ان انتخابات میں بھی دھاندلی کے وہی طریقۂ کار استعمال ہونے کے الزامات لگے رہے جو مقامی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران منظر عام پر آتے رہے۔ بہرحال پاکستان کی تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات پہلے مارشل لاء ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میں 1959ء میں ہوئے۔
ان انتخابات میں ملک کے دونوں بازوئوں یعنی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں ’’بی ڈی‘‘ ممبران بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت منتخب ہوئے۔ بعدازاں صرف انہی ’’بی ڈی‘‘ ممبران کو صدارتی انتخابات میں ووٹ دینے کا حق دے کر صدر ایوب خان نے ریکارڈ دھاندلی کے بعد اپوزیشن کی متفقہ امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا کر اپنے منتخب صدر ہونے کا اعلان کردیا۔
دوسرے بلدیاتی انتخابات 1979ء میں ایک اور مارشل لاء ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوئے، جن میں افغان وار کے ثمرات یعنی منشیات کی کمائی اور کلاشنکوف کلچر نے بااثر افراد کی دھاندلی کی شکل میں اپنا روپ دکھایا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مقامی حکومتوں کے تیسرے انتخابات ایک اور مارشل لاء ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2000ء میں کروائے گئے۔ اور آخر کار ملکی تاریخ کے جمہوری دور میں ہونے والے پہلے بلدیاتی اداروں کے انتخابات 7 دسمبر 2013ء کو ہوئے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ انتخابات سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں نے بہت لیت و لعل کے بعد ان کا انعقاد کروایا اور جہاں جہاں جس سیاسی پارٹی کی حکومت تھی وہاں وہاں اس نے علاقے کے لوگوں کو مراعات، بیروزگاروں کو نوکریاں اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کے بعد اپنے منظور نظر لوگوں کو منتخب کروایا۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ پاکستان میں مارشل لاء لگانے والے ڈکٹیٹروں نے اپنے آپ کو منتخب قرار دینے اور جمہوریت کے ساتھ اپنی نام و نہاد وابستگی ظاہر کرنے کے لیے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا سہارا لیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوام کے ساتھ ریفرنڈم کی صورت میں بھی ایک مذاق کیا۔ جنرل ضیاء الحق کا 1984ء کا صدارتی ریفرنڈم اور جنرل پرویز مشرف کا 2002ء کا ریفرنڈم عوام کے جمہوری مزاج کا تمسخر اڑانے کے سوا اور کیا تھا؟ البتہ ان ریفرینڈمز میں دھاندلی کا ذکر کرنا بھی محض شرمندگی ہی کا باعث ہے۔
1970ء کے عام انتخابات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مقابلتاً شفاف تھے لیکن مشرقی پاکستان کے کچھ علاقوں میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پر یہ الزامات لگے کہ اس کے کارکنوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کرکے ووٹ ڈلوائے۔ مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں حیات ٹمن کے ماتحت کام کرنے والے الیکشن سیل نے مبینہ طور پر ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کھلی دھاندلی کی جو بالآخر اپوزیشن کے سیاسی اتحاد، پاکستان نیشنل الائنس کے ملک گیر احتجاج پر منتج ہوا، جس نے 1977ء کے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی راہ ہموار کی اور ملک اگلے آٹھ سالوں کے لئے پھر آمریت کے شکنجے میں پھنس گیا۔ جنرل ضیاء نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات منعقد کروائے جس میں زیادہ تر وہ مالدار امیدوار کامیاب ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت سے ہی پاکستان میں انتخابات میں حصہ لینا غریب آدمی کے لیے ایک خواب بن کر رہ گیا ، الیکشن پیسے کے کھیل کی حیثیت اختیار کر گیا اور اس نے انتخابات کے عمل میں ایک مستقل کردار کے طور پر اپنی جگہ بنالی۔ 1988ء اور اس کے بعد 1990ء کی دہائی میں ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت موجود تھی۔ علاوہ ازیں ان انتخابات میں دھاندلی کے لیے جو دیگر ذرائع استعمال کیے گئے ان میں پٹواری، پولیس (پاکستان کی 70 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور وہاں پٹواری اور پولیس کی اثر اندازی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے)، پیسہ، دبائو کے حربے، ووٹروں کو لالچ اور ترغیب دینا، ووٹروں کو ٹرانسپورٹ مہیا کرنا، مقامی غنڈوں کے ذریعے مخالف امیدواروں کو مارپیٹ کر ہراساں کرنا، پولنگ ایجنٹ، مخالف امیدوار کے ووٹروں کو ڈرا دھمکا کر پولنگ اسٹیشنوں سے دور رکھنا، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے اور نتائج کو تبدیل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
1988ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی پھر دوبارہ اقتدار میں آئی اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان بن گئیں مگر صرف پونے دو سال بعد ہی صدر پاکستان نے آئین میں دیئے گئے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت کو کرپشن کے الزامات پر برطرف کردیا۔ 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے نواز شریف نے پاکستان کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ لیکن 1993ء میں ان کے اتحادیوں کی علیحدگی کے بعد ان کو بھی برطرف کردیا گیا اور یوں 1993ء کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو پھر دوبارہ جیت کر پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئیں۔ تاہم 1996ء میں صدر پاکستان فاروق لغاری (جن کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا) نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو کرپشن پر برطرف کردیا۔ اس طرح 1997ء میں ایک بار پھر نواز شریف وزیراعظم پاکستان کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ 1990ء کی پوری دہائی میں میوزکل چیئر کا یہ کھیل جاری رہا اور ہارنے والی جماعت، جیتنے والی جماعت پر انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگاتی رہی۔
بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ 1990ء کے انتخابات پاکستان کی انتخابی تاریخ میں وہ واحد انتخابات تھے جن میں دھاندلی کی تدابیر منظم طریقے سے استعمال کرنے کے باقاعدہ شواہد ملے، جیسا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے مشہور زمانہ اصغر خان کیس کے فیصلے میں کہا۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنایا گیا اور ان کو انتخابی اخراجات وغیرہ کے لیے رقوم بھی دیں گئیں۔
اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران، آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل (ر) اسد درانی نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی جمع کرواتے ہوئے بتایا کہ اس وقت کے آرمی چیف مرزا اسلم لیگ کے حکم پر مختلف سیاستدانوں کو مہران بینک کے سربراہ عارف حبیب کے توسط سے رقوم کی ترسیل کی گئی۔ اس حوالے سے سابق ڈی جی۔ آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل کا استدلال یہ تھا کہ ایسا اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ پاکستان کے خفیہ اداروں کو یہ اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے امریکہ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ پاکستان کا جوہری پروگرام منجمد کردیں گے۔ بہرحال 19 اکتوبر 2012ء کو ایپکس کورٹ نے ایک مختصر حکم جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو یہ ہدایات جاری کیں کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم لیگ اور سابق ڈی جی۔ آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کو 1990ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف، سیاستدانوں کے ایک گروپ کو سہولیات باہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے پر آئین اور قانون کی روشنی میں مناسب اقدامات اٹھائے۔
سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے 141 صفحات پر مشتمل اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ اعلیٰ فوجی قیادت کے غیر آئینی احکامات یا اپنے ماتحتوں کو غیر قانونی اقدامات سے باز رکھنے میں ان کی ناکامی قابل مذمت ہے۔ اس فیصلے میں وضاحت کی گئی تھی کہ کیوں ایپکس کورٹ نے یہ قرار دیا کہ 1990ء کے عام انتخابات کو لاکھوں روپے سیاستدانوں کے ایک مخصوص گروپ کو فراہم کرکے آلودہ کیا، ظاہر ہے کہ یہ اس وجہ سے تھا تاکہ عوام الناس کو اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کرنے کے حق سے محروم کیا جاسکے۔ عدالتی فیصلے میں اس بات پر صراحت سے روشنی ڈالی گئی کہ کن کن سیاستدانوں نے یہ رقوم وصول کیں۔
ان سیاستدانوں کے ناموں کا تذکرہ سابق ڈی جی۔ آئی ایس آئی جنرل (ر) اسد درانی نے عدالت میں 24 جولائی 1994ء کو جمع کروائے گئے اپنے بیان حلفی میں کیا تھا۔ رقوم وصول کرنے والے ان سیاستدانوں کی فہرست میں نواز شریف کا نام بھی شامل تھا، جن کو 1990ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ فائدہ ہوا اور وہ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ تاہم 2012 ء میں جس وقت اعلیٰ عدلیہ کا یہ تاریخ ساز فیصلہ سامنے آیا اس وقت ملک میں پیپلزپارٹی ہی کی حکومت تھی لیکن اس نے قومی مفاہمت کے نام پر اس عدالتی فیصلے کے بعد کارروائی کو مزید آگے بڑھانے سے اعراض برتا۔ بدقسمتی سے اس کی اسی قومی مفاہمت کی دوغلی پالیسی نے سیاسی طور پر اسے بالآخر اندرون سندھ تک محدود کرکے ایک ملک گیر سیاسی جماعت سے مقامی جماعت میں تبدیل کر دیا۔
1999ء میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک ایک بار پھر مارشل لاء کی گود میں چلاگیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے تین سال بعد جنرل مشرف نے 2002ء میں عام انتخابات کروائے مگر اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا کہ دونوں سابقہ وزرائے اعظم، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ان انتخابات سے باہر رہیں۔ 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم پاکستان بنے اور 2004ء میں شوکت عزیز نے ان کی جگہ وزارت عظمیٰ سنبھالی۔
امریکہ میں ہونے والے 9/11 کے دہشت گردی کے واقعہ کے بعد ساری دنیا کے حالات یکسر بدل کر رہ گئے۔ جنرل مشرف نے امریکہ کے افغانستان پر حملے پر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے اندرون ملک ان کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو برطرف کرنے کے معاملے اور اس کے نتیجے میں چلنے والی ملک گیر عدلیہ بحالی تحریک نے جنرل مشرف کی گرفت اقتدار پر ڈھیلی کردی اور یوں 2008ء کے عام انتخابات میں جنرل مشرف کی قائم کردہ سیاسی جماعت مسلم لیگ (ق) کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا اور پاکستان پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر برسراقتدار آگئی۔
ان انتخابات سے قبل کیونکہ بینظیر بھٹو ایک قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوچکیں تھیں اس لیے ان کے شوہر آصف علی زرداری پارٹی سربراہ اور صدر پاکستان کی حیثیت سے اس حکومت کو چلاتے رہے۔ بدقسمتی سے ان سمیت ان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر کابینہ اراکین کی کرپشن کی داستانیں زبان زد عام رہیں اور ناقص معاشی کارکردگی امن و امان کی ابتر صورتحال اور خارجہ پالیسی کے معاملات کی وجہ سے 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں وہ مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں شکست کھاجانے کے بعد ڈھیر ہوگئی۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے وہ تمام طریقے جو پہلے سے پاکستان کی انتخابی تاریخ میں رائج چلے آرہے تھے وہی اور زیادہ مہارت کے ساتھ 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات میں بھی بروئے کار لائے جاتے رہے اور دھاندلی نے ایک ’’کلاسک‘‘ اور ’’آرٹ‘‘ کا درجہ حاصل کرلیا۔
2013ء کے عام انتخابات میں گو ایک بااختیار الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے ’’الیکٹورل ریفارمز‘‘ کے نئے ایجنڈے کے مطابق کام کرنا شروع کیا جس میں ’’نادرا‘‘ کی جانب سے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نمبر اور تصاویر کے ساتھ انتخابی فہرستیں، نظرثانی شدہ نامزدگی فارم، FBR کے آن لائن مہیا کردہ اعدادو شمار اور نیب جیسے اداروں کی معاونت وغیرہ شامل تھیں۔ لیکن دوسری طرف ’’ہوشیار‘‘ امیدواران جو پہلے ہی ہمیشہ سے دھاندلی کے حوالے سے اپنی ’’مہارت‘‘ کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، ان تمام ’’حفاظتی اقدامات‘‘ کے توڑ اور دھاندلی کے نئے طریقے دریافت کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے کوشاں اور تیار تھے۔ ان نئے طریقوں میں ’’تجارتی‘‘ بنیادوں پر متعلقہ افسران کے ساتھ ڈیل اور حکومت میں آنے کی صورت میں انہیں نوازنے جیسے عوامل بھی ایک اہم عنصر کے طور پر متعارف کروائے جاچکے تھے۔
2013ء کے عام انتخابات میں عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری اور دونوں دوسری بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے ایک حقیقی خطرے کا روپ دھار گئی۔ ان انتخابات کو منعقد کروانے کی ذمہ داری اٹھانے والے الیکشن کمیشن کے سربراہ فخر الدین جی ابراہیم تھے، جن کی دیانت داری ضرب المثل کی حیثیت رکھتی تھی۔ تاہم وہ ایک کمزور منتظم ثابت ہوئے۔ انتخابات کی دوڑ میں شامل تینوں سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی عمل میں ایک دبائو کی فضا نمایاں رہی جس کی ایک بڑی وجہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کی گزشتہ 5 سال کی خراب کارکردگی، ناقص طرز حکومت اور دوغلی مفاہمت کی پالیسی بھی تھی جس کے سبب پاکستان تحریک انصاف ان دونوں سیاسی جماعتوں پر ’’مک مکا‘‘ کا الزام لگاتے ہوئے انہیں ایک ہی سکے کے دورخ قرار دے رہی تھی۔
تحریک انصاف کے مطابق ان دونوں سیاسی جماعتوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے باریاں مقرر کی ہوئیں تھیں اور ان کی قیادت ایک دوسرے کی کرپشن کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتی تھیں۔ انتخابات کے فوراً بعد پیپلزپارٹی کے راہنما آصف علی زرداری نے ان انتخابات کو ’’آر۔ اوز‘‘ کے انتخابات قرار دے کر ان کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگادیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساز باز کرکے اس کی جیت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کمیشن اور پنجاب کی نگران حکومت کی معاونت سے انتخابات جیتے۔ اسی مسئلے کو لے کر عمران خان نے معاملے کی تحقیق کے لیے ایک عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کو منوانے کے لیے تحریک انصاف نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور وہاں پہنچ کر ایک طویل دھرنا دیا جو کئی ماہ تک جاری رہا۔
آخر کار ایک عدالتی کمیشن بنایا گیا جس کی سربراہی اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کررہے تھے۔ کمیشن نے اپنی کارروائی کے دوران تمام شواہد اور ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد یہ قرار دیا کہ گو بہت سارے حلقوں میں دھاندلی کا ارتکاب ہوا مگر وسیع پیمانے پر منظم دھاندلی کے عمران خان کے الزامات کو کمیشن نے مسترد کردیا۔ عمران خان کو کامل یقین تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے ملی بھگت کے ذریعے ان انتخابات کو چرایا تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے نتائج کو دھاندلی کے الزامات لگا کر مسترد کرنے کی روایت کیونکہ کافی مضبوط رہی ہے۔ عمران خان کا خیال بھی یہی تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے حکومت سازی کا ان کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے انہیں اقتدار میں آنے سے محروم کردیا تھا۔ تاہم عمران خان بظاہر عدالتی کمیشن کے سامنے اپنا کیس ثابت نہ کرسکے۔
اب ایک بار پھر پاکستان میں انتخابی میلہ سجنے کو ہے۔ 25جولائی 2018ء کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کرپشن پر تاحیات نااہل ہوچکے ہیں اور وہ اسے انتخابات سے قبل دھاندلی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف اسے کڑے احتساب اور آئین و قانون کی عملداری سے تعبیر کررہی ہے اور آمدہ انتخابات میں عوام کی حمایت حاصل کرکے اقتدار میں آنے کے لیے بہت پر امید ہے۔ بدقسمتی سے ان انتخابات میں بھی قبل از وقت دھاندلی کی کوششیں نمایاں نظر آرہی ہیں، جن میں جانے والی حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر وفاقی اور صوبائی اداروں میں ورکروں کو نوکریوں کی فراہمی، پیسہ اور کھانا دینے جیسے حربوں پر لاکھوں روپے خرچ کرکے اور ترقیاتی سکیموں کے ذریعے حلقے کے عوام کو اپنا ہم نوا بنانے کے جتن، نگران حکومتوں میں من پسند افراد کی تعیناتی وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح انتخابات کے بعد دھاندلی کے جن حربوں کا خطرہ ماضی کے تجربات کے تناظر میں محسوس کیا جاسکتا ہے، ان میں Representation of the People ایکٹ 1976ء کے سیکشن 103-AA کے تحت الیکشن کمیشن کو حاصل شدہ اختیارات میں مداخلت اور ردوبدل کرنا، مشکوک بے قاعدگیوں کی بنیاد پر کسی حلقے کا انتخابات کالعدم قرار دینا، متاثرہ فریقوں کی رٹ پٹیشنوں کے بروقت فیصلے میں رکاوٹ پیدا کرنا، امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم میں اخراجات کی قانونی حد سے تجاوز کرنے پر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کو روکنا اور اسی طرح کی دیگر بددیانتیاں ہوسکتی ہیں۔ اس لیے متعلقہ اداروں اور حکام کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایسے اقدامات کریں کہ جس سے انتخابات سے پہلے اور بعد، کسی بھی فریق کو شکایت کا موقع نہ ملے اور سب امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو عوام کی حمایت حاصل کرنے کے یکساں مواقع میسر ہوں اور انتخابات کی شفافیت پر کوئی بھی انگلی نہ اٹھاسکے۔
The post انتخابی دھاندلی؛ عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکے کی کوشش appeared first on ایکسپریس اردو.