ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں پھیپھڑوں کی بیماریوں اوراس کے باعث اموات کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔
یورپین ریسپیریٹری سوسائٹی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف یورپ میں ہونے والی ہر سو میں سے دس اموات کی وجہ پھیپھڑوں کی بیماریاں ہیں اور سگریٹ نوشی ان بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔رپورٹ کے مطابق یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں یہ صورت حال ہے تو تیسری دنیا کے ممالک میں حالات کس قدر بدتر ہوں گے۔ادھر ایک برطانوی تنظیم کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ہر سو میں سے پچیس اموات کی وجہ پھیپھڑوں کی بیماریاں ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں کی جانے والی سگریٹ نوشی کی شرح کی وجہ سے پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی دیگر بیماریوں کے باعث آئندہ بیس سالوں کے دوران اموات میں مزید اضافہ ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق اگر ان بیماریوں کی روک تھام ، علاج اور تحقیقی سرمایہ کاری کی بات کی جائے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کو ترجیح نہیں دی جارہی۔European Lung White Book نامی کتاب میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق اس معاملے کو ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔مذکورہ کتاب میں عالمی ادارہ صحت اور یورپی ادارے European Centre for Disease Prevention and Control کے تازہ ترین اعدادوشمار کو استعمال کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق یورپی خطہ جو بحر اوقیانوس سے وسط ایشیا تک پھیلا ہوا ہے یہاں پر پھیپھڑوں کی چار مہلک بیماریاں بہت عام ہیں۔ یہ lower respiratory infections (بشمول نمونیہ) ، COPD، پھیپھڑوں کا کینسر اور ٹی بی ہیں اور خطے میں دس فیصد اموات انہی بیماریوں کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ادھر یورپی یونین کے اٹھائیس ملکوں میں یہ شرح اور بھی زیادہ یعنی آٹھ میں سے ایک موت ہے۔رپورٹ کے مطابق بیلجیم ، ڈنمارک ، ہنگری اور آئرلینڈ ایسے ممالک ہیں جہاں پھیپھڑوں کی بیماریوں کے باعث اموات یوکے سے زیادہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق پھیپھڑوں کی تمام بیماریوں سے اموات کو اگر جمع کیا جائے تو یوکے یا برطانیہ میں کل اموات میں سے ایک چوتھائی اموات کی وجہ یہی بیماریاں ہیں جبکہ فن لینڈ اور سویڈن میں ان سے اموات کی شرح سب سے کم ہے۔
رپورٹ میں مزید کہاگیا کہ یہ شرح یورپی ممالک کی ہے جہاں علاج اور روک تھام کامعیار بہت اچھا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں صورت حال یقیناً اس سے زیادہ خراب ہوگی۔تاہم کچھ ماہرین اس بات سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک میں زندگی کے اعلیٰ معیار کے باعث لوگوں کے پھیپھڑوں میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت بہت کم ہوچکی ہے جبکہ تیسری دنیا کے ممالک کے لوگ زیادہ مزاحمت رکھتے ہیں۔اس لیے یہ کہنا قرین قیاس دکھائی نہیں دیتا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں زیادہ اموات ہوتی ہوں گی۔
وائٹ بک کے ڈیٹا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سانس کی بیماریوں کی اگر سماجی معاشی قیمت کی بات کی جائے تو اس کی نصف ذمہ داری سگریٹ نوشی پر عائد کی جاسکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق سگریٹ نوشی یورپ میںصحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ عادت بن چکی ہے اور سگریٹ نوشی کو ختم کرکے ان بیماریوں اور ان کے نتیجے میں اموات سے بچا جاسکتا ہے جو سگریٹ نوشی سے ہوتی ہیں جیسے پھیپھڑوں کا کینسر ، سی او پی ڈی اور کورونیری آرٹری کی بیماریاں وغیرہ۔
اگرچہ 1970 کی دہائی سے یوکے اور ڈنمارک جیسے ملکوں میں سگریٹ نوشی کی شرح خاصی کم ہوچکی ہے تاہم رپورٹ کہتی ہے کہ جن لوگوں نے سگریٹ نوشی جاری رکھی ہوئی ہے ان کے طویل المعیاد اثرات کے نتیجے میں پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریوں کی شرح بدستور زیادہ رہے گی۔اس کا آسان لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ اگلے بیس سالوں کے دوران بھی پھیپھڑوں کی بیماریوں کے باعث اموات کا تناسب مستحکم رہے گا، ا گرچہ پھیپھڑوں کے انفیکشن کے واقعات میں کمی ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ کا قومی ادارہ برائے صحت 2000 سے ایسے افراد کی دوائوں اور مشوروں کے ذریعے مدد کررہا ہے جو سگریٹ نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے سگریٹ نوشی کے عادی دیگر افراد کو بھی حوصلہ مل رہا ہے کہ وہ اس بری عادت کو ترک کرنے کی کوشش کریں۔یورپ بھر کے ہسپتالوں کے ڈیٹا کے جائزے کے بعد وائٹ بک کو پتہ چلا کہ ان میں اعداد وشمار میں خاصا فرق تھا جو کہ اموات کے تناسب، جن کی کہ بات کی گئی، سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ وائٹ بک کے مطابق اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف ملکوں میں صحت کی سہولیات میں فرق ہے اور بہت سے ملکوں میں ہوسکتا ہے کہ مریضوں کو ہسپتال داخل نہ کرایا گیا ہو۔
کتاب میں European Respiratory Society کے صدر پروفیسر فرانسسکو بلاسی نے کہا کہ اگر یورپ اور دنیا بھر میں اوسط عمر میں اضافہ کرنا ہے ، لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے اور معاشرے پر سے معاشی بوجھ کو ختم کرنا ہے تو پھیپھڑوں کی بیماریوں کی روک تھام اور علاج کے عمل کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔پروفیسر بلاسی نے مزید کہا کہ ان بیماریوں کی وجہ سے یورپ کے بہت سے گھرانوں میں غربت میں اضافہ ہوا اور ان کامجموعی معیار زندگی بھی متاثر ہوا ہے۔
ادھر British Lung Foundation کے صدر پروفیسر رچرڈ ہوبارڈ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ سے یوکے پر موجود اس بوجھ کی مکمل عکاسی نہیں ہوتی جو کہ سانس کی بیماریوں کی وجہ سے اس پر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پھیپھڑوں کے کینسر اور سی او پی ڈی جیسی بیماریاں ہرسال لاکھوں افراد کی زندگیاں ختم کررہی ہیں لیکن پھیپھڑوں کی کوئی چالیس قسم کی بیماریاں ہیں۔ ان میں سے کچھ بیماریوں کی وجہ سے اموات کی شرح باقیوں سے زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ان سب کو ملایا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یوکے میں کل میں سے ایک چوتھائی اموات کی وجہ یہی بیماریاں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یوکے میں ان بیماریوں سے زیادہ اموات کی وجہ غالباً یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لوگ ڈاکٹر کے پاس بہت دیر سے پہنچتے ہیں۔
پروفیسر ہوبارڈ کا مزید کہنا تھا کہ نہ تو برطانیہ میں قومی ادارہ صحت پھیپھڑوں کی بیماریوں کے علاج اور روک تھام کو زیادہ ترجیح دے رہا ہے اور نہ ہی محققین کو اس سلسلے میں زیادہ فنڈ دیے جارہے ہیں۔مثال کے طورپر چھاتی کے سرطان پر ریسرچ کے لیے جو رقم دی جارہی ہے پھیپھڑوں کی بیماریوں پر ریسرچ کو اس کا تیسرا حصہ بھی نہیں مل رہا جبکہ انتڑیوں کے کینسر اور لیوکیمیا پر تحقیق کے لیے جو پیسہ دیا جارہا ہے ، پھیپھڑوں کی بیماریوں پرریسرچ کے لیے اس کا آدھا بھی نہیں مل رہا جبکہ پھیپھڑوں کی بیماریوں کے باعث جتنے لوگ مررہے ہیں ، وہ ان تمام دیگر بیماریوں کو ملا کر جتنے لوگ مرتے ہیں ، اس سے زیادہ ہے۔