قسط نمبر3
ٹافی کھاؤ۔ انھوں نے ایک ٹافی مجھے دیتے ہوئے کہا، میں تمہیں جن یا جادُوگر نظر آتا ہوں۔ نہیں تو، آپ تو بہت اچھے ہیں۔
یہ بلیّاں کہاں سے جمع کرلیں آپ نے۔۔۔۔؟
یہ تو میرے بیٹے بیٹیاں ہیں، خود ہی آگئی ہیں۔ میں ان کا خیال رکھتا ہوں، ان سے باتیں کرتا ہوں، میں ان کا کہنا مانتا ہوں یہ میرا۔
اور اگر یہ آپ کا کہنا نہ مانیں تو آپ انھیں سزا دیتے ہیں، کیا کھانے کو نہیں دیتے انھیں پھر آپ۔
نہیں نہیں کھانا تو بند نہیں کرتا۔ بس پیار سے سزا دیتا ہوں۔
کیا مطلب مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ پیار سے سزا کیسے دیتے ہیں۔۔۔؟
بس ان سے بات چیت بند کردیتا ہوں، پھر یہ ٹھیک ہوجاتی ہیں تو بات ختم۔
بات چیت بند کرنا بھی سزا ہوتی ہے کیا۔۔۔؟
ہاں یہ بہت بڑی سزا ہے۔
مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آیا۔
ہاں یہ تمہاری سمجھ میں آجائے گا لیکن ابھی نہیں۔
میری ان کی دوستی ہوگئی تھی۔ بارش جب تیز ہوگئی تو ہم کمرے میں آکر بیٹھ گئے۔ ہمارے چاروں طرف بلیاں ہی بلیاں تھیں۔ انھوں نے بلیوں سے کچھ کہا۔ میں نے پوچھا یہ آپ کی بات سمجھ گئیں۔ مسکرا کر کہنے لگے بالکل سمجھ گئیں۔ بہت سمجھ دار ہیں یہ۔ تو پھر یہ بولتی کیوں نہیں۔ بولتی ہیں یہ۔ کون سی زبان بولتی ہیں یہ۔ یہ دل کی زبان بولتی ہیں۔ کیا دل کی بھی زبان ہوتی ہے۔ ہاں ہاں دل کی زبان ہوتی ہے اور آنکھیں بھی۔
تب مجھے یاد آیا میری ایک رضاعی ماں تھی، وہ بھی اکثر کالے کپڑے پہنتی تھیں، گاؤں میں انھوں نے اخروٹ کے بہت سارے درخت لگائے تھے۔ گرمی ہو سردی ہو، برسات ہو، برف باری ہو، وہ ان سے ملنے ضرور جاتیں، بہت پیار سے ان سے باتیں کرتیں، تم اپنا خیال نہیں رکھتے، تم سدھر جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا، تم اپنے بھائی کو دیکھو وہ کتنا صحت مند ہے اور تم روز بہ روز کم زور ہوتے جارہے ہو کیوں، صحیح سے کھایا پیا کرو اور ایسی میں بہت سی باتیں۔
میں پوچھتا ماں یہ آپ کی بات سنتے ہیں۔ کیوں نہیں سنتے پگلے تُو میری بات سنتا ہے ناں۔ ہاں کبھی کبھی نہیں بھی سنتا، یہ تو دوسری بات ہے ناں۔ جس طرح تم میرے بیٹے ہو، اسی طرح یہ بھی میرے بیٹے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہوسکتا ہے نہیں، ایسا ہی ہے۔ یہ تو خفا بھی ہوجاتے ہیں۔ بہت لاڈ پیار مانگتے ہیں یہ۔ درخت بھی ناراض ہوجاتے ہیں کیا۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ کیوں نہیں، درخت کا سوکھنا یا مُرجھانا اس کی ناراضی کا اظہار ہی تو ہے۔ یہ سب میرے بیٹے ہیں۔ آپ کو ان کی آواز آتی ہے کیا ؟ میں نے پوچھا۔ کیوں نہیں آتی، یہ جو فرمائش کرتے ہیں، میں انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ تو پھر مجھے کیوں نہیں آتی، میں نے پوچھا۔ یہ دل کی زبان ہے دل کی زبان! ہاں پگلے! دل کی زبان ہوتی ہے جو ہر بات بیان کرسکتی ہے، اور اس کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں، جس کے دل کی آنکھیں کھل جائیں تو وہ سب کچھ دیکھنے لگتا ہے۔ تو پھر میری کب کھلیں گی؟ ہاں ایک وقت آئے گا کہ تیرے دل کی آنکھ کھل جائے گی۔ لیکن کب؟ میں نے پوچھا۔ بس کھل جائے گی چل اب گھر چلتے ہیں۔
اور اب میرے سامنے بلیوں والے بابا بیٹھے وہی بات کہہ رہے تھے جو ماں کہتی تھی۔ میں نے دل کی آنکھ، دل کی زبان، صبر و شکر، تسلیم و رضا جیسے الفاظ ضرور سنے تھے لیکن میں ان کا مطلب بالکل بھی نہیں جانتا تھا اور پھر وہ کالی چادر والی بھی یہی کہتی تھی مگر مجھے کچھ معلوم نہ تھا، میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
میں گھر پہنچا تو سارا محلہ جمع تھا۔ میرے دوستوں نے سب کو بتا دیا تھا کہ میں بلیوں والے بابا کے پاس گیا ہوں۔ مجھے آتا دیکھ کر سب کے سب میری طرف دوڑے، تم نے ان سے کچھ لے کر تو نہیں کھایا ؟ ٹافی کھائی تھی، پانی بھی پیا تھا۔ بس ہوگیا اس کا کام۔ قاسم پریشان تھا، صفیہ پریشان تھی کہ میں کیوں گیا وہاں، میں نے ٹافی کیوں کھائی، میں نے پانی کیوں پیا۔ پھر صفیہ نے سرخ مرچیں لیں اور مجھ پر پھیر کر چولہے میں جھونک دیں۔ جائے نماز بچھا کر نماز پڑھی اور مجھ پر دم کیا، یااﷲ میرے بچے کی خیر کرنا۔ وہ سب بہت پریشان تھے وہ تو خیر ہوئی کہ ابا جی اپنی زمینوں پر گئے ہوئے تھے ورنہ تو میری ہڈیاں توڑ دیتے۔
کیوں گئے تھے وہاں؟ صفیہ نے روتے ہوئے پوچھا۔ بس ویسے ہی، وہ تو بہت اچھے ہیں۔ میں کل پھر جاؤں گا۔ بالکل نہیں جاؤ گے تم وہاں۔ صفیہ نے چیختے ہوئے کہا۔ میں جاؤں گا ضرور جاؤں گا، کوئی مجھے نہیں روک سکتا۔ دیکھا ہوگیا ناں اثر۔ اب کچھ تم ہی کرو۔ اس نے قاسم سے روتے ہوئے کہا۔ میں کل مولوی صاحب سے بات کروں گا۔ ٹھیک ہوجائے گا سب کچھ۔ صفیہ میں ان کے پاس گیا تو بہت مزہ آیا۔ کیا مزہ آیا تجھے۔ بہت مزہ۔ میں کیوں بتاؤں۔ بتاؤ مجھے۔ نہیں بتاؤں گا اور میں کل ضرور جاؤں گا اور روز جاؤں گا۔ میں بڑے خان کو بتا دوں گی۔ اس نے مجھے دھمکی دی۔ ضرور بتانا۔ میں جاؤں گا۔
مغرب کی نماز ادا کرکے میں باہر نکلا۔ میرے پاس سترہ روپے تھے۔ ایک ہوٹل پر میں نے کھانا کھایا۔ اب رات کہاں گزاری جائے۔ میں نے پھر قبرستان کا رخ کیا۔ وہاں بھی دو قبریں ساتھ ساتھ تھیں۔ ان پر چھت بھی تھی۔ چاروں طرف سے چھوٹی سی دیوار۔ میں نے وہیں اپنا ڈیرہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ سارا دن کام کرکے تھک گیا تھا۔ نماز بھی ادا نہیں کی اور سوگیا۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔ قبرستان میں ہی چھوٹی سی ایک مسجد تھی۔ میں نے نماز ادا کی۔ ہوٹل پر ناشتہ کیا اور دکان پر پہنچ گیا۔ دکان بند تھی۔ مجھے کچھ دیر انتظار کرنا پڑا اور پھر وہ ایک چھوٹی ہنڈا موٹرسائیکل پر آتے ہوئے دکھائی دیے۔ واہ یار تُو تو وعدے کا بہت پکا نکلا۔ مجھ سے پہلے ہی پہنچ گیا۔ کب آیا۔ بس تھوڑی دیر پہلے۔ محنت کرے گا تو پھل پائے گا۔ میں پھر سے کام کرنے لگا۔ یہ تیرے پاس کوئی اور کپڑے نہیں ہیں، کیا حالت بنائی ہوئی ہے تُونے اپنی۔ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ کہاں سے ملتے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ او یار کپڑوں کی کوئی کمی ہے۔ یہ لے بیس روپے۔ انھوں نے مجھے پیسے دیے اور لنڈا بازار کا پتا سمجھایا۔ مجھے بس میں بٹھا کر کہا جلدی واپس آ جانا۔ میں نے کہا جی ٹھیک ہے۔ اتنا بڑا بازار کپڑوں سے بھرا ہوا، مجھے بہت اچھا لگا۔ پندرہ روپے میں مجھے دو پینٹ اور دو شرٹس اور وہ بھی بہت بہترین مل گئی تھیں۔ میں واپس اپنے کام پر پہنچا۔ تو انہوں نے کپڑوں کو دیکھا۔ چل اب کپڑے بدل کے آ۔ میں نے پوچھا کہاں؟ وہ سامنے نائی کی دکان پر حمام ہے۔ خوب نہانا اور کپڑے بدل کے آجانا۔ مجھے نہائے ہوئے بہت دن ہوگئے تھے۔ خوب نہایا، کپڑے بدلے تو یوں لگا دنیا ہی بدل گئی۔ لیکن وہ کالی چادر میں نے پھر گلے میں ڈالی ہوئی تھی۔ مغرب تک میں نے کام کیا۔ اور پھر اپنی مزدوری لے کر میں نے کھانا کھایا اور پھر قبرستان۔ اب زندگی بہت اچھی لگنے لگی تھی۔ مجھے جتنے پیسے ملتے تھے میرے لیے بہت تھے۔
میری ایک لڑکے سے اچھی بننے لگی تھی۔ وہ بھی میرے برابر والی دکان پر کام کرتا تھا۔ کل چھٹی ہے فلم دیکھنے چلیں۔ اس نے مجھے کہا۔ فلم دیکھنے؟ ہاں تو اور کیا۔ کہاں؟ میں نے پوچھا۔ سنیما میں اور کہاں۔ ٹکٹ میں لوں گا کھانا پینا تیرا۔ بول منظور ہے؟ میں نے کہا منظور ہے۔ دوسرے دن میں اس کے گھر پہنچا۔ تو اس نے اپنی ماں سے میرا تعارف کرایا، یہ ہے میرا دوست۔ اس کی دو بہنیں تھیں بس۔ والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ کہاں رہتے ہو بیٹا؟ میں قبرستان میں رہتا ہوں۔ قبرستان میں رہتے ہو۔ وہ حیرت سے بولیں۔ جی قبرستان میں۔ کیوں؟ تمہارا گھر نہیں ہے کیا۔ ہے ناں قبرستان میں۔ میں نے کہا۔ تم بہت شرارتی ہو۔ کیا نام ہے تمہارا؟ سلطان۔ بہت اچھا نام ہے یہ تو۔ جی۔ اس سنیما ہال کی چھت نہیں تھی اور فلم کا نام تھا ’’نیا سویرا‘‘ مجھے بہت مزہ آیا۔
مجھے یاد آیا جس زمانے میں ٹی وی نہیں آیا تھا۔ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں پروجیکٹر پر گلی محلوں میں فلم دکھایا کرتی تھیں۔ منور ظریف کی ’’جیرا بلیڈ‘‘ میں نے اسی پر ایک گلی میں دیکھی تھی، جہاں پر سگریٹ بھی بہت سستے ملتے تھے۔ مجھے سگریٹ پینے والے بہت اچھے لگتے تھے۔ ان میں رعب تھا، دبدبہ تھا۔ نہ جانے کیوں میرا دل چاہتا تھا کہ میں بھی سگریٹ پیوں۔ فلم دیکھنے کے بعد صلاح الدین اپنے گھر چلا گیا اور میں اپنے شہر خموشاں میں۔ ابھی میں لیٹا ہی تھا کہ ایک لمبا تڑنگا آدمی میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔ واہ جی سوہنیا کدھروں آیا ایں؟ میں اٹھ بیٹھا۔ پر تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے۔ میں نے کہا۔ بڑے غصے والے ہو تم تو سوہنیو۔ جاؤ اپنا کام کرو، میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میرے ساتھ چلو عیش کرو، یہ کوئی جگہ ہے رہنے کی۔ اس نے میری طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ مجھے یہی جگہ پسند ہے۔ تم جاتے ہو یا۔۔۔!
پھر تم کیا کرلو گے۔ اس نے میری کلائی پکڑ لی۔ میں نہیں جاؤں گا۔ تمہارا تو اچھا بھی جائے گا کہہ کر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرا اور خوف زدہ ہوکر مجھے دیکھنے لگا۔ مجھے معاف کردو۔ غلطی ہوگئی سرکار۔ کیوں آئے تھے میرے پاس سچ سچ بتاؤ۔ سرکار کیا چھپانا بس شغل میلے کے لیے آیا تھا۔ شغل میلہ! یہ کیا ہوتا ہے۔ بس جی سرکار غلطی ہوگئی۔ جاؤ یہاں سے پھر کبھی میرے پاس نہیں آنا۔ وہ بہت مشکل سے اٹھا اور پیچھے ہٹنے لگا۔ ابھی وہ چند قدم ہی گیا تھا کہ چیخنے لگا۔ مجھے معاف کردو سرکار، معاف کردو۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کہ اسے کیا ہوگیا۔ جاؤ معاف کردیا۔ مہربانی سرکار کہہ کر وہ بھاگ کھڑا ہوا۔
لوگ سمجھتے ہیں قبرستان میں صرف مُردے ہی ہوتے ہیں۔ قبرستان میں جو کچھ ہوتا ہے وہ میں آپ کو بتاؤں گا تو آپ کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ قبرستان میں رہتے ہوئے مجھے بہت عرصہ ہوگیا تھا اور قبرستان کے سارے باسی مجھے پہچاننے لگے تھے۔ کتے، بلیاں، منشیات بیچنے والے، پینے والے، محبوب کو راضی کرنے کے لیے چلہ کاٹنے والے اور نہ جانے کون کون۔ لیکن اس واقعے کے بعد مجھے کوئی نہیں تنگ کرتا تھا۔ رات کو جب میں آتا تو کتے میرا استقبال کرتے اور جب میں اپنی جگہ پہنچ جاتا تو وہ میرے چاروں طرف بیٹھ جاتے اور پھر میں ان سے باتیں کرتا۔ ان میں ایک کالا سیاہ کتا کبھی نہیں بھونکتا تھا، بس جدھر میں جاتا وہ آگے آگے چلتا۔ میری بات اس نے کبھی نہیں ٹالی۔ ہم گھنٹوں بیٹھ کر بات کرتے اور جب چاند نکلا ہو تو پھر قبرستان کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اور وہ کالا کتا اس کی داستان میں پھر سناؤں گا۔ ابتدا میں تو میں کتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا۔ لیکن پھر مجھے بابا جی نے جو کچھ سمجھایا، دکھایا اور بتایا وہ کسی اور وقت پر۔
میرے دوست صلاح الدین کی ماں نے مجھ سے بہت دفعہ پوچھا تھا کہ تمہارا گھر کہاں ہے اور میں ایک ہی جواب دیتا قبرستان۔ تنگ آکر انھوں نے مجھ سے پوچھنا چھوڑ دیا تھا اور وہ مجھ سے تھوڑا سا خائف بھی تھیں۔ پھر ان کا اصرار بڑھنے لگا کہ میں ان کے گھر پر ہی رہوں۔ لیکن میں نے صاف انکار کردیا تھا۔ وقت کو کون روک سکا ہے ناں۔ کوئی بھی نہیں۔ مجھے گھر سے نکلے ہوئے سال ہونے کو تھا اور کچھ خبر نہیں تھی مجھے گھر کی۔ نہ ہی مجھے کسی کی یاد آتی تھی۔ میں آزاد تھا جس سے چاہے بات کروں۔ جب چاہے سینما دیکھوں، آوارہ گھوموں۔ میرا والی وارث بس اوپر والا تھا۔ گھر سے باہر میری پہلی عید بھی خوب تھی۔ روزے کا بھی اپنا مزہ تھا۔ میرے پاس پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ کھانے پینے اور پہننے کا میں شوقین نہیں تھا۔ میرے دو شوق تھے۔ کتابیں خریدنا، گانے سننا اور ہر ہفتے فلم دیکھنا۔ یہی تھی میری زندگی جس میں خوشی ہی خوشی تھی۔ جس نے مجھے کام سکھایا تھا وہ مجھ سے بہت خوش تھا۔ میں نے باہر کا کام بھی سنبھال لیا تھا اور ان کی پرانی ہنڈا موٹرسائیکل بھی چلانا سیکھ لی تھی۔ تیار شدہ کھلونے میں مارکیٹ میں بھی جاکر دینے لگا تھا۔ وہ مجھ سے بہت مطمئن اور خوش تھا۔n
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.