مشتاق احمد یوسفی صاحب نے 20 جون (2018) کو داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
انھوں نے لگ بھگ پچانوے برس کی عمر پائی۔ وہ 4 ستمبر 1923 کو ٹونک (راجستھان، ہندوستان) میں پیدا ہوئے اور قیامِ پاکستان کے بعد یہاں آئے اور کراچی میں قیام کیا۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ کارِمعاش کے لیے بینکاری کا شعبہ اختیار کیا۔
آسٹریلیشیا بینک، الائیڈ بینک، یونائیٹڈ بینک وغیرہ میں کام کیا۔ یہ سفر بی سی سی آئی لندن کی ملازمت پر اختتام کو پہنچا۔ وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کراچی واپس آئے اور پھر تادمِ مرگ یہیں قیام رہا۔ اُن کے پس ماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اہلیہ چند برس پہلے انتقال کرگئی تھیں۔ اْن کی پانچ کتابیں ’’چراغ تلے‘‘، ’’خاکم بدہن‘‘، ’’زرگزشت‘‘، ’’آبِ گم‘‘ اور ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘ شائع ہوئیں۔ آخر الذکر کتاب دراصل ان منتخب مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف ادیبوں اور شاعروں پر لکھے اور تقاریب میں پڑھے گئے۔ یہ کتاب خود یوسفی صاحب نے مرتب نہیں کی، بلکہ اْن کے اعزہ اور احباب نے ان مضامین کو یک جا کرتے ہوئے کتابی صورت میں شائع کیا۔
یہ بات ادب سے تعلق رکھنے اور کتابیں پڑھنے والے سبھی لوگ جانتے ہیں کہ یوسفی صاحب بڑے ادیب، بلند پایہ مزاح نگار اور صاحبِ اسلوب نثر نگار تھے۔ انھوں نے ہمارے ادب پر گہرے اور دیرپا نقوش مرتب کیے۔ بیس ویں صدی میں اردو ادب نے جو بڑے نام ور لوگ پید کیے جنھوں نے اپنے معاشرے کے طرزِاحساس کی تشکیل اور ذہن سازی میں کردار ادا کیا، ان میں بلاشبہ مشتاق احمد یوسفی نہ صرف شامل ہیں، بلکہ اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے یوں تو مزاح کے شعبے میں کام کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں صرف مزاح نگار سمجھنا اُن کے ادبی منصب کے اعتراف میں تخفیف کے مترادف ہوگا۔ مزاح کے اسلوب میں انھوں نے وہ گہری باتیں کہیں اور ان افکار و احساسات کو زبان عطا کی ہے جن میں پوری ایک تہذیب کی گونج سنائی دیتی ہے اور ایک معاشرے کی جیتی جاگتی تصویریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ وہ ایک جداگانہ مزاج اور منفرد اسلوب کے ادیب تھے۔ طنز و مزاح کے بڑے بڑے لوگوں پطرس بخاری، کنہیا لال کپور، رشید احمد صدیقی، شفیق الرحمن، چراغ حسن حسرت، کرنل محمد خاں اور ابنِ انشا وغیرہم کے درمیان مشتاق احمد یوسفی اپنی انفرادی شان کے ساتھ ابھرے۔ اُن کی انفرادیت کا وسیع پیمانے پر اعتراف بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ مزاح کا عہدِیوسفی ہے۔ بلاشبہ جب تک ہماری تہذیب و معاشرت کی لطافت اور زبان و اسلوب کی نکتہ سنجی سے محظوظ ہونے والے باقی ہیں، عہدِیوسفی جاری و ساری رہے گا۔
یوں تو کم و بیش ہم سبھی سنی سنائی اور پڑھی پڑھائی باتوں سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع حاصل کرلیتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ زندگی اور آدمی دونوں کو جاننے اور ماننے کے معاملے میں عام طور سے ہم اپنے مشاہدے اور ذاتی تجربے پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ چناںچہ ہماری بہتر تفہیم کا دارومدار ہمارے ذاتی مشاہدات و تجربات پر ہوتا ہے۔ یوسفی صاحب سے ہماری شناسائی کا آغاز اُس وقت ہوگیا تھا جب ہم لکھنے پڑھنے کی طرف آئے۔ یہ شناسائی اُس وقت قربت و موانست میں تبدیل ہوئی جب ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
یہ 1989کی بات ہے۔ اُن دنوں یوسفی صاحب کی سب سے بڑی اور معرکہ کتاب ’’آبِ گم‘‘ طباعت کے مرحلے کے لیے تیار ہورہی تھی۔ اُس وقت کتابت اور کاتبوں کا دور بالکل ختم تو خیر نہیں ہوا تھا، لیکن اُس کی زوال آمادگی کا نقشہ بہت تیزی سے نمایاں ہورہا تھا۔ کمپیوٹر آچکا تھا اور کتابیں اب کتابت کے بجائے کمپیوٹر پر کمپوزنگ کے مرحلے سے گزر کر تیار ہونے لگی تھیں۔ یوسفی صاحب کی مذکورہ کتاب بھی کمپوزنگ کے بعد اُس دنوں پروف ریڈنگ کے مرحلے میں تھی۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ مرحلہ بھی ایک نہیں، کئی ایک پروف ریڈرز کی یکے بعد دیگرے خدمات حاصل کرکے سر کیا گیا تھا۔ غالباً یہ کام اْس وقت اختتامی مرحلے میں تھا اور اس کے لیے یوسفی صاحب کو مشفق خواجہ صاحب کی معاونت حاصل تھی۔
ایک روز ہم مشفق خواجہ صاحب کے پاس گئے ہوئے تھے کہ یوسفی صاحب کا فون آیا اور انھوں نے خواجہ صاحب کو بتایا کہ پروف ریڈر نے جن اغلاط کی نشان دہی کی ہے، وہ انھوں نے دیکھ لی ہیں۔ اب یہ کام واپس کمپیوٹر پر کریکشن کے لیے بھیجا جاسکتا ہے، تاکہ درستی کے بعد اگلے پروف کے لیے دوبارہ پروف ریڈر کو دیا جاسکے۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ڈرائیور کے ہاتھ کام مجھے بھجوا دیجیے۔ یوسفی صاحب نے کہا کہ وہ خود آنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ وہ پروف ریڈر صاحب سے بھی ملنے اور گفتگو کے خواہاں ہیں۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ پھر آپ آج زحمت نہ کیجیے۔ مجھے کل سی ویو اپنی بہن کے پاس آنا ہے، میں اُس سے پہلے آپ کی طرف آجاؤں گا۔ پروگرام طے ہوگیا تو ہم نے خواجہ صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم یوسفی صاحب سے ملنا چاہتے ہیں، مناسب سمجھیں تو وہ ہمیں بھی ساتھ لے چلیں۔ انھوں نے کہا، ’’ٹھیک ہے چلیے۔ میں رات کو فون کرکے آپ کا ذکر بھی یوسفی صاحب سے کردوں گا۔‘‘
اگلے روز یوسفی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اْن کی بابت خیال تھا کہ بڑے ادیب ہیں اور زندگی بھی بڑے عہدوں پر گزاری ہے۔ ہماشما کو کیا خاطر میں لاتے ہوں گے۔ ملاقات میں انھیں اس کے بالکل برعکس پایا۔ محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ تفصیل سے پوچھا، کیا پڑھتے لکھتے ہیں۔ فکشن سے دل چسپی کا اندازہ ہوا تو پوچھا، آپ نے ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ پڑھی ہے۔ ہم نے اثبات میں سر ہلایا۔ یوسفی صاحب کی چشمے کے پیچھے سے جھانکتی آنکھوں میں استعجاب کا رنگ سا چمکا۔ ہم نے فوراً عرض کی، محمد حسن عسکری صاحب نے جو انتخاب کیا ہے، وہ پڑھا ہے۔ مسکرا کر بولے، ’’میں آپ کی جوانی کو رشک اور رنج کے ملے جلے جذبے سے دیکھ رہا تھا کہ کن کاموں میں صرف ہورہی ہے، مگر اچھا کیا کہ آپ نے وضاحت کردی۔‘‘ پھر انگریزی ادب میں تعلیم کے حوالے سے پوچھا کہ فکشن میں کیا کیا پڑھا ہے۔
بس ہمیں رعب گانٹھنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ گریک ٹریجڈی سے لے کر انگریزی ناولوں میں درجن بھر نام ایک ہی سانس میں گنوا دیے۔
سر ہلایا اور زیرِلب تبسم کے ساتھ بولے، ’’اس کا مطلب ہے پڑھتے تو بہت ہیں آپ۔‘‘ اک ذرا تأمل کیا، پھر کہا، ’’لیکن جو نام آپ نے گنوائے ہیں، سب کے سب سنجیدہ ادیب ہیں۔ آپ کی عمر میں تو آدمی دوسری قسم کی ناول جسے پاپولر فکشن کہتے ہیں، زیادہ پڑھتا ہے۔ کیا آپ نہیں پڑھتے— یا پھر بتانا نہیں چاہتے۔‘‘
نوجوانی میں آدمی عام طور سے کورا، سچا اور سادہ ہوتا ہے۔ ایسی کوئی چوری پکڑی جائے تو بس جھینپ کر رہ جاتا ہے۔ سو، ایسا ہی ہوا۔ یوسفی صاحب نے چہرہ پڑھ لیا۔ بولے، ’’میاں! پڑھا کیجیے۔‘‘ گہری مسکراہٹ چہرے پر نمایاں ہوئی اور کہا، ’’اسی عمر میں آدمی پڑھ لے تو اگلی عمر میں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‘‘
اس کے بعد پروف ریڈر صاحب سے باتیں ہونے لگیں۔ یوسفی صاحب نے انھیں داد دی کہ انھوں نے بہت محنت اور توجہ سے کام کیا ہے، اور یہ کہ ان کی نگاہ اچھی ہے، غلطیوں کو پکڑتی ہے۔ پھر کہا کہ ان غلطیوں کی اصلاح ہوجائے تو ایک بار اور پروف لفظاً لفظاً پڑھ دیجیے۔ پروف ریڈر صاحب تعریف پر خوش تھے اور پھولے نہیں سماتے تھے۔ بھرے میں آکر بولے، ’’ایک نہیں، پروف تو آپ کو ابھی دو تین بار اور پڑھوانا پڑے گا۔ یہ کمپیوٹر پر کام کرنے والے لڑکے پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ بس مشینی انداز میں کام کرتے ہیں۔ ایک صفحے پر چار غلطیاں درست کرتے ہیں تو دو نئی ڈال بھی دیتے ہیں۔‘‘
خواجہ صاحب نے کہا، ’’وہ میں انھیں سمجھا دوں گا۔ آپ کو یہ پریشانی نہیں ہوگی۔‘‘
پروف ریڈر ہوا میں تھے۔ کمپیوٹر آپریٹرز کی کچھ اور عزت افزائی کی۔ یوسفی صاحب بولے، ’’ان کو تو خواجہ صاحب سنبھال لیں گے۔ بس آپ پروف دیکھ لیجیے گا، ہاں ایک گزارش اور بھی ہے۔‘‘
وہ صاحب شانِ استغنا کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے۔ بولے، ’’جی!‘‘
فرمایا، ’’آپ صرف املا کی غلطیاں درست کیجیے گا، تحریر اور مصنف کی غلطیوں کو یوں ہی جانے دیجیے۔‘‘
اُن کا چہرہ یک بہ یک سوالیہ نشان بن گیا۔ بولے، ’’میں سمجھا نہیں۔‘‘
یوسفی صاحب نے نہایت سنجیدگی سے کہا، ’’آپ سے بہت دیر میں ملاقات ہوئی ہے۔ عمر کے اس حصے تک آتے آتے میں ایسے ہی لکھنے کا عادی ہوگیا ہوں، اور لوگ بھی اب میری ایسی ہی تحریریں پڑھنے کے عادی ہیں۔ اس لیے گزارش ہے کہ میری تحریر کی اصلاح مت کیجیے۔ مسودے میں جیسا لکھا ہے، ویسا ہی جانے دیجیے۔ املا کی غلطیاں درست کردیجیے، بس یہی بہت ہے۔‘‘
بعد میں ملاقاتیں رہیں اور غور کرنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ اصل میں یہ محض ایک واقعہ نہیں تھا، بلکہ یوسفی صاحب کے مزاج کا ایک رُخ ہے۔ وہ شکایت یا سرزنش کے مسئلے پر بھی براہِ راست درشت فقرے کہتے اور سنگ دلی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ کم سے کم تین دہائیوں کے اس عرصے میں ہم نے تو انھیں سنگلاخی کا اظہار کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ جن لوگوں کا افسرانہ دورِ حیات میں ان سے سابقہ رہا، ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ وہ ایک سخت گیر افسر تھے یا کہ بیورو کریٹک مزاج رکھتے تھے۔ ممکن ہے، ایسا ہی ہو، لیکن اس کا سبب اُس منصب کی مجبوری کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہم نے تو یہ دیکھا کہ ناگوار معاملات اور مسائل پر بھی وہ تحمل سے کام لیتے ہوئے درگزر کا رویہ اختیار کرتے۔ کسی نہ کسی طور اگر ایسا کوئی اظہار ناگزیر ہوجاتا یا پھر انھیں کسی ردِعمل پر مجبور ہی کردیا جاتا تو وہ طنزلطیف یا ہجوِ ملیح سے کام لیتے۔ فیض صاحب ہی کی طرح مخالفین کی کسی بات پر جوابی کارروائی کے وہ بھی قائل نہیں تھے۔
پندرہ سولہ برس اُدھر کی بات ہے، ادبی دنیا میں ایک گم نام خط کی بڑی گونج ہوئی تھی۔ یہ خط کراچی کی ایک شاعرہ سے مراسم کا افسانہ لیے ہوئے تھا، جس میں افتخار عارف کے ساتھ ساتھ یوسفی صاحب کو بھی ساننے کی کوشش کی گئی تھی۔ زبان سخت گندی اور بیان بہت گرا ہوا تھا۔ یوسفی صاحب نے اس پر نہ صرف خود خاموشی اختیار کی، بلکہ افتخار عارف اور شاعرہ کو بھی اس کارروائی کو مکمل طور سے نظرانداز کرنے کا مشورہ دیا۔ ہمیں اس خط پر رہ رہ کر غصہ آتا تھا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یوسفی صاحب کی زندگی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا، بلکہ واحد واقعہ تھا۔ اس سے قبل اور اس کے بعد بھی وہ ایسے، بلکہ کسی بھی طرح کے الزام کی زد میں نہیں آئے۔ اُن دنوں اوپر تلے ہونے والی کئی ملاقاتوں میں ہم نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ انھیں ادیبوں شاعروں کے اس گھٹیا اور منافقانہ رویے کو رد کرنا اور اپنی کوفت کو ضرور ظاہر کرنا چاہیے۔ وہ کسی طرح اس پر آمادہ نہ ہوئے۔ آخر جب دیکھا کہ ہم بار بار انھیں اکسائے جاتے ہیں تو ایک روز مسکراتے ہوئے کہا، ’’میاں دیکھیے، مرد کی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ جب اُس پر ایسا کوئی الزام لگایا جائے تو اسے برا نہیں لگتا، بلکہ درپردہ کچھ طمانیت سی محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے کہ بھلے دنوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور پندارِمردانہ کی تسکین کا سامان ہوجاتا ہے۔‘‘
اب دیکھیے کوئی کودن ہی ہوگا کہ جو اس نکتہ رسی کی داد نہ دے۔ ہم نے ہنس ہنس کر سر دْھنا تو وہ سمجھ گئے کہ ہمارا غصہ فرو ہوگیا۔ تب انھوں نے اصل بات کہی۔ نہایت سنجیدگی سے بولے، ’’میاں! گھٹیا بات کا جواب اُس سے بڑی گھٹیا بات سے دیا جاسکتا ہے، لیکن اگر آدمی اِس کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو پھر خاموشی سے بہتر کوئی عمل نہیں۔‘‘
ایک اور واقعہ سن لیجیے۔ کوئی اٹھارہ بیس برس پہلے ایک ادیب و شاعر صاحب نے اپنے مداحوں سے حصولِ اعزاز کی یہ صورت نکالی کہ اپنی تاج پوشی کا اہتمام کرالیا۔ تصویر اخباروں میں شائع ہوئی اور یوسفی صاحب کی نظر سے بھی گزری۔ کسی نے اُن سے کہا کہ دیکھیے ہمارے ہاں اب ادیبوں شاعروں کی بھی اتنی پذیرائی ہونے لگی ہے۔ یوسفی صاحب نے جواب دیا، ’’نہیں صاحب، حسینۂ عالم کی طرح مسکراتے شرماتے ہوئے تاج پوشی کرانے کا یہ انداز ادیب کے لیے ہمیں تو نہیں بھایا۔ ادیب اور حسینۂ عالم کے کام میں فرق ہوتا ہے تو ان کے چال چلن اور اندازِتوقیر میں بھی فرق ہونا چاہیے۔‘‘
ظاہر ہے، یہ بات عمومی رویے کے حوالے سے کہی گئی تھی، تاج پوشی کرانے والے صاحب سے مخصوص نہ تھی۔ تاہم انھیں سخت ناگوار گزری اور انھوں نے براہِ راست یوسفی صاحب کو ہدف بناکر کئی بار گفتگو کی۔ یوسفی صاحب نے پلٹ کر ایک بار بھی جواب نہیں دیا۔ کوئی ذکر چھیڑتا یا بات نکالتا تو ہنس کر ٹال جاتے۔ ’’میاں چھوڑیے، کیا رکھا ہے ان باتوں میں۔‘‘ ہم نے انھیں کبھی کسی کو حریف، رقیب یا دشمن کے مرتبے پر فائز کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ درویشی تھی یا استغنا تھا، بڑا پن تھا یا کچھ اور، لیکن جو کچھ بھی تھا، یوسفی صاحب کے حق میں خوب نیک فال ثابت ہوا۔ اُن کی زندگی میں اس رویے نے عجیب برکت رکھ دی تھی۔ ان کے عیب جو، مخالف یا دشمن پیدا تو بے شک ہوتے، لیکن پنپ نہ پاتے۔ جلد ہی اپنی موت آپ مرجاتے۔
بغض، عناد، حسد، کینہ وغیرہ سے تو یوسفی صاحب کو بلاشبہہ کوئی علاقہ نہ تھا، لیکن چھیڑ خوباں سے والا معاملہ کبھی کبھار ہی سہی، مگر دیکھنے میں آہی جاتا تھا۔ ایک زمانے میں اسلام آباد سے ایک ادبی رسالہ شائع ہوتا تھا۔ اشاعتی معیار سے دیکھیے تو بڑی آب و تاب والا پرچہ تھا۔ آفسیٹ کاغذ پر ابواب کے اسکیچ اور سیپریٹرز کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ ایک صاحبِ حیثیت کاروباری شخصیت اس کے لیے کشادہ دلی سے مالی وسائل فراہم کرتی تھی۔ خود موصوف کو شاعری سے شغف تھا، کئی مجموعے بھی شائع ہوئے۔ اس پرچے کے لیے کچھ ادیب و شاعر اُن کی معاونت کرتے تھے۔ انھوں نے پرچے کے لیے باقاعدہ ایک مدیرہ بھی رکھی ہوئی تھیں۔ وہ بھی شاعرہ تھیں اور ایک بڑے معروف شاعر کی دوست۔ شوہر سے علاحدگی ہوگئی تھی۔ پرچے کی طباعت کا معیار تو بہت بلند تھا، لیکن مواد کا معاملہ کچھ ملاجلا سا تھا۔ معیار کڑا نہ تھا، اور مطبوعہ نگارشات بھی پرچے میں شامل کرلی جاتی تھیں۔ اْن دنوں اس پرچے کا تازہ شمارہ شائع ہوا تھا۔ دیدہ زیب اور ضخیم۔ بہت متأثر کن معلوم ہوتا تھا۔
اِدھر ’’مکالمہ‘‘ کا ساتواں شمارہ بھی اسی وقت منظرِعام پر آیا۔ اُس زمانے میں یوسفی صاحب ہفتے عشرے میں نئی کتابیں دیکھنے کے لیے اردو بازار کا پھیرا لگایا کرتے تھے۔ جب بھی آتے تو ہمارے دفتر بھی آتے۔ وقت کی قلت ہو تو بھی کھڑے کھڑے ہی سہی مگر آتے ضرور۔ خیر، تو ہم نے فون کرکے نئے شمارے کی اطلاع دی اور آنے کا دریافت کیا۔ بتایا اگلے ہفتے آئیں گے۔ اسی روز شام کو رؤف پاریکھ آگئے۔ اس شمارے میں یوسفی صاحب کا ایک مضمون بھی شائع ہوا تھا۔ پاریکھ اسے دیکھ کر خوش ہوئے۔ پوچھا، یوسفی صاحب تک پرچہ پہنچ گیا؟ بتایا کہ ابھی نہیں۔ آج ہی فون پر بات ہوئی ہے۔ اگلے ہفتے آئیں گے۔ پاریکھ بولے، ’’بھائی اگلے ہفتے کا انتظار کیوں کرتے ہیں آپ؟ فون کرکے پوچھیے، اگر وہ گھر پر ہیں تو دونوں اکٹھے چلتے ہیں اور آج ہی پرچہ دے آتے ہیں۔‘‘
فون کیا تو یوسفی صاحب نے کہا، آجائیے۔ پہنچے اور ’’مکالمہ‘‘ پیش کیا۔ بڑے چاؤ سے دیکھنے لگے۔ پوری فہرست دیکھی اور نام لے لے کر لوگوں کی شمولیت پر خوشی کا اظہار کیا۔ سچی بات ہے کہ دل بڑھاتے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ’’مکالمہ‘‘ کے لیے ہمیشہ انھوں نے دل دہی سے کام لیا۔ سن 2000 میں جب ملازمت چھوڑ کر ہم نے اپنا اشاعتی ادارہ قائم کیا تو یوسفی صاحب، جمال پانی پتی صاحب اور مشفق خواجہ صاحب تینوں حضرات نے اس بات پر اصرار کیا کہ بس اب ’’مکالمہ‘‘ کی سالانہ خریداری کا سلسلہ شروع کیا جائے اور رسالے کو اعزازی بانٹنا بند کردیا جائے۔ یہ بات محض مشورے کی حد تک نہیں تھی، بلکہ ان تینوں حضرات نے عملاً اس کام کا آغاز کیا۔ نہ صرف خود سالانہ خریداری کے لیے پانچ پانچ سو روپے دیے، بلکہ اپنے حلقۂ احباب میں بھی لوگوں سے کہا کہ ’’مکالمہ‘‘ خرید کر پڑھا جائے۔ خیر، اس روز یوسفی صاحب پرچہ اور اس کے مندرجات دیکھ کر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ بولے، ’’میاں! آپ کا رسالہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ مواد ہمیشہ نیا پڑھنے کو ملتا ہے۔ تازگی کا احساس ہوتا ہے۔‘‘
عرض کیا، ’’آپ سے داد ملتی ہے تو حوصلہ بڑھتا ہے اور دل بڑا ہوجاتا ہے۔‘‘
فرمایا، ’’میاں! ہم نے یہ رسماً نہیں کہا ہے۔ آپ کے پرچے میں واقعی تازگی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے پاس اور بھی کئی پرچے آتے ہیں، لیکن وہ بات نہیں ہے۔ دیکھیے ابھی ایک پرچہ آیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اٹھ کر گئے اور ڈرائنگ روم کے پرلے حصے میں رکھی میز سے ایک رسالہ لیے ہوئے آئے۔ ہم دونوں کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے، ’’دیکھیے، یہ پرچہ ابھی آیا ہے۔ طباعت اعلیٰ ہے، لیکن مواد۔۔۔‘‘ کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ ہم نے رسالہ لیا اور پھر اُن کی طرف دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہا، ’’میاں! آپ خود دیکھ لیجیے، مواد سے لے کر مدیرہ تک سیکنڈ ہینڈ ہونے کا تأثر بہت گہرا ہے۔‘‘
مستثنیات کا معاملہ الگ ہے، ویسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ تقریبات سے ادیب شاعر ایک خاص مناسبت رکھتے ہیں، اور خود کو نمایاں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یوسفی صاحب کا رویہ اِس کے بالکل برعکس تھا۔ تقریبات سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کرتے۔ بہ جبرواکراہ جانا ہی پڑتا تو کہتے کہ سننے کے لیے آجائیں گے۔ بعض عزیز کسی نہ کسی طور اصرار کرکے منا ہی لیتے کہ آنا ہے اور صدارت بھی کرنی ہے۔ یوسفی صاحب صدارت کے لیے مشکل ہی سے مانتے تھے۔ اگر مانتے تو کہتے بس آکر اسٹیج پر بیٹھ جائیں گے، گفتگو نہیں کریں گے، حتیٰ کہ رسمی قسم کے صرف دو فقرے کہنے پر بھی مشکل ہی سے تیار ہوتے۔ آخری برسوں میں تو کئی بار ایسا ہوا کہ مارے باندھے چلے آئے اور اسٹیج پر بیٹھ کر صدارت بھی نبھائی، لیکن خطبۂ صدارت کے طور پر ایک لفظ تک نہ کہہ کر دیا۔
شفیع عقیل صاحب مرحوم کچھ اپنی ہی وضع کے آدمی تھے۔ جب تین کتابیں شائع ہوجاتیں تو ایک پروگرام کرتے اور اُس میں اُن تینوں کتابوں کی رونمائی کا اہتمام کیا جاتا۔ پندرہ سترہ برس پہلے کا واقعہ ہے۔ شفیع عقیل کی مصوری سیریز کی کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔ یوسفی صاحب نے انھیں اس کام پر خود داد دی تھی۔ کہا تھا کہ اردو میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور عمدہ کام ہے۔ شفیع عقیل مسرور تھے۔ تقریب کا سوچا تو یوسفی صاحب نے کہا کہ صدارت آپ کریں گے۔ انھوں نے کہا، (معروف مصور) علی امام صاحب سے کرائیے۔ شفیع عقیل بولے، انھیں مہمانِ خصوصی بنالیتے ہیں، لیکن صدارت آپ کی۔
یوسفی صاحب بھلا کہاں ماننے والے تھے۔ کبھی طبیعت کی ناسازی کا عذر، کبھی شہر سے باہر جانا ہے، کبھی امریکا سے بیٹا اور اس کے بچے آئے ہوئے ہیں، کبھی دوحہ قطر کی ایوارڈ کمیٹی کی میٹنگ اور کبھی وہاں کا دورہ۔ غرضے کہ بچنے کے بہانے چلتے رہے، لیکن شفیع عقیل بھی ضد کے پکے تھے۔ اَڑ گئے کہ آپ صدارت کریں گے تو تقریب ہوگی ورنہ نہیں۔ مہینوں تقریب ٹلتی رہی۔ انھوں نے شفیع عقیل کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی، مگر بات نہ بنی۔ یوسفی صاحب نے بڑے رسّے تڑائے، لیکن ہتھیار ڈالے ہی بنی۔ یوسفی صاحب تقریبات میں فی البدیہہ گفتگو نہیں کرتے تھے، ہمیشہ لکھ کر لاتے تھے۔ اب جب صدارت پر آمادہ ہوگئے تو لکھنے کا مسئلہ پیش آیا۔ انھوں نے شفیع عقیل صاحب سے کہا کہ آپ کے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں، وہ سب سماجی اور ظاہری قسم کی باتیں ہیں۔ کچھ اندر کا حال بتائیے، خاندانی پس منظر اور کچھ ماضی کا احوال سنائیے۔ طے ہوا کہ شفیع عقیل اُن کے یہاں جائیں گے اور دونوں کے درمیان اس حوالے سے گفتگو رہے گی۔ اس سلسلے میں کئی نشستیں ہوئیں۔ جن لوگوں سے تعلقِ خاطر ہوجاتا، شفیع عقیل انھیں شاہ جی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ یوسفی صاحب کو بھی شاہ جی کہتے تھے۔ انھی ملاقاتوں میں ایک مرتبہ یوسفی صاحب نے شفیع عقیل سے کہا، ’’میں سیّد گھرانے سے تو نہیں ہوں، پھر آپ مجھے شاہ جی کیوں کہتے ہیں؟‘‘
شفیع عقیل نے جواب دیا، ’’شاہ جی! میں کوئی احتراماً تھوڑی کہتا ہوں، بس زبان پر چڑھا ہوا ہے، عادتاً کہتا ہوں۔‘‘
یوسفی صاحب نے مضمون لکھا اور عنوان رکھا، ’’شاہ جی کی کہانی— دوسرے شاہ جی کی زبانی‘‘۔ یہ مضمون شفیع عقیل کی تقریب میں خطبۂ صدارت کے طور پر پڑھا گیا تھا۔ اس میں یوسفی صاحب نے لکھا کہ میں بھی اب شفیع عقیل کو شاہ جی کہتا ہوں اور خدا گواہ ہے، احتراماً نہیں کہتا، بلکہ محض تکیۂ تخاطب کے طور پر۔
صدارت کا ایک اور واقعہ سن لیجیے۔
ایک روز یوسفی صاحب کا فون آیا۔ سلام دعا، خیریت و عافیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پہلا ہی فقرہ یہ تھا، ’’میاں ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ بہت غیرمعمولی بات تھی۔ محسوس ہوا کہ آواز میں رونق اور لہجے میں بشاشت بھی نہ تھی۔ تشویش ہوئی، فوراً کہا، ’’آپ حکم کیجیے۔‘‘
’’آپ کو کہیں جانا تو نہیں؟‘‘
’’نہیں، دفتر ہی میں ہیں؟‘‘
’’اچھا تو ہم آتے ہیں۔‘‘
’’یوسفی صاحب! آپ گھر پہ رُکیے، ہم آجاتے ہیں۔‘‘
’’نہیں میاں، ہمیں ہی آنا ہوگا۔‘‘
پھر ہم نے اصرار کیا کہ ہم آجاتے ہیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ اُن کے آئے بغیر بات نہیں بنے گی۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا قضیہ ہے۔ گومگو کی کیفیت میں ان کا انتظار کرنے لگے۔ اسی اثنا میں پروفیسر سحر انصاری صاحب آگئے۔ ہم نے اُن سے یوسفی صاحب کے فون اور اپنی تشویش کا ذکر کیا۔ وہ بھی متذبذب ہوئے۔ ہم دونوں مسئلے کا قیاس کرتے تھے، لیکن کچھ پلے نہ پڑتا تھا۔ خیر، آدھ پون گھنٹے میں یوسفی صاحب آگئے۔ خیر، خیریت کے بعد ہم نے مسئلہ دریافت کیا تو بولے، ’’میاں، ایک صدارت سر پہ آن پڑی ہے۔‘‘
ہم نے اطمینان کا سانس لیا اور عرض کیا، ’’لیجیے تو اِس میں کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’مسئلہ کیوں نہیں ہے میاں۔ ہم نے تو بینکاری کی ہے، پروفیسری تھوڑی کی ہے کہ بے رْکے، بے سمجھے بوجھے بولتے چلے جائیں۔ جلسے جلوس کے آدمی بھی ہم نہیں ہیں۔ ہمیں تو جلسے کی دعوت کے نام سے ہی انقباض ہونے لگتا ہے۔‘‘
پوچھا کون سے جلسے کی صدارت ہے۔ بتایا کہ ضیاء الحق قاسمی صاحب جو سالانہ تقریب کرتے ہیں، اُس کی صدارت پر مصر ہیں۔ پھر بتایا، ’’کل رات تک سمجھایا کہ کسی اور کو بلائیے، لیکن وہ ایک ہی بات کہے جاتے ہیں، آپ کے آنے سے پروگرام کی شوبھا بڑھ جائے گی۔‘‘
عرض کیا، ’’ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔ آپ کے جانے سے واقعی پروگرام کی رونق بڑھ جائے گی۔‘‘
کہنے لگے، ’’میاں ہمارے جانے سے کیا رونق بڑھے گی، اگر رونق ہی بڑھانی ہے تو عتیقہ اوڈھو کو بلانا چاہیے (یہ اس دور کی خوش رو اداکارہ تھیں)۔ ہم جلسے میں زبانی تقریر تو کرتے نہیں، لکھ کر لے جاتے ہیں۔ وہ کل تک نہیں مانے تو رات کو بیٹھ کر کچھ گھسیٹا ہے۔ آپ اگر اس کو کمپوز کرا دیں تو ہمیں پڑھنے میں آسانی ہوجائے گی۔‘‘
سمجھ میں آگیا کہ یہ تھی پریشانی۔ کاغذات لیے اور فوراً کمپوزنگ شروع کرا دی۔ پھر عرض کیا، ’’یوسفی صاحب، ویسے انھوں نے عتیقہ اوڈھو ہی کو بلایا ہے، مگر ٹی وی کی نہیں، ادب کی عتیقہ اوڈھو کو بلایا ہے۔‘‘
یوسفی صاحب لطف و انبساط کی بات پر عام طور سے مسکراہٹ سے کام لیتے تھے، لیکن اس بات سے ایسے محظوظ ہوئے کہ خاصا مردانہ قسم کا قہقہہ لگایا۔ بعد میں سنا کہ انھوں نے اپنے صدارتی خطاب سے پہلے جلسے میں یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ ایک عزیز نے اُن سے یہ بات کہی ہے، پھر کہا کہ وہ اس رائے سے قطعاً اتفاق نہیں کرتے اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر یہ بات عتیقہ اوڈھو کے علم میں لائی جائے تو وہ بھی اس سے اتفاق نہیں کریں گی، بلکہ خفا ہوں گی، اس لیے انھیں چاہیے کہ جس عزیز نے اس رائے کا اظہار کیا ہے فوراً اس پر ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کردیں۔
یوسفی صاحب کے بارے میں عام تأثر یہ ہے کہ وہ کم گو، کم آمیز اور لیے دیے رہنے والے آدمی تھے۔ یہ تأثر ایسا غلط بھی نہیں۔ وہ لوگوں سے ملتے تو حلم و انکسار سے تھے، لیکن ایک وضع، ایک تکلف ضرور برقرار رہتا تھا۔ تاہم جن لوگوں سے تعلقِ خاطر ہوجاتا ان سے وہ یوں گھل مل جاتے کہ اجنبیت کا شائبہ تک نہ گزرتا تھا۔ راقم الحروف سے انھوں نے پہلی ملاقات سے تادمِ آخر شفقت و محبت کا ایسا ہی رشتہ رکھا۔ ہم اُن سے گاہے گاہے مختلف امور پر رائے طلب کرتے، کسی مسئلے کی بابت سوال کرتے، ہنسی مذاق کے مواقع نکلتے، تفریح کے پہلے سامنے آتے اور لطف کا سامان ہوتا۔ عمر کا تفاوت اور حفظِ مراتب اپنی جگہ، لیکن اُن سے کبھی مصنوعی حجاب یا ناروا اجنبیت کا احساس قطعاً نہیں ہوا۔ بات کہنے اور بات سننے دونوں ہی میں اُن کے یہاں لطافت، ذہانت اور بصیرت کا احساس ہمیشہ اور بڑے خوش گوار انداز میں قائم رہتا تھا۔
ایک روز دفتر آئے۔ دورانِ گفتگو میں بتایا کہ دو روز پہلے عجب لطیفہ نما واقعہ ہوا۔ تفصیل جاننی چاہی تو بولے، ’’میاں ہم روز جہاں چہل قدمی کے لیے جاتے ہیں وہاں درمیانی عمر کی ایک خوش شکل خاتون بھی آتی ہیں۔ آتے جاتے اُن سے علیک سلیک ہونے لگی۔ پچھلے ہفتے وہ ملیں تو بولیں، ’مسٹر یوسفی! آر یو اے رائٹر؟‘ ہم نے ذرا تکلف سے کہا کہ ہاں بس یوں کچھ لکھنے لکھانے کا شوق ہے اور پوچھا کہ آپ کو یہ بھنک کہاں سے پڑی؟ بولیں، ’اخبار میں ایک تصویر چھپی ہے جس میں آپ رائٹرز لوگ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میں نے سوچا، یو مسٹ بھی انکلائنڈ ٹو رائٹنگ، ورنہ رائٹر لوگ کے بیچ آپ کیسے ہوسکتے تھے۔‘ پھر پوچھا، آپ کی کوئی کتاب بھی چھپی ہے۔ ایک لمحے کو تذبذب ہوا کہ انھیں کون سی کتاب بتائیں۔ خیال آیا ’خاکم بدہن‘ ٹھیک رہے گی۔
کہا کہ ہاں کتاب بھی چھپ چکی ہے۔ انھوں نے حسبِ توقع نام پوچھا تو ہم نے ’خاکمِ بدہن‘ بتایا۔ یہ نام ہی انھیں سمجھ آکے نہ دیا، سمجھ تو بعد میں آتا، پہلے تو زبان پر ہی نہ چڑھ رہا تھا۔ اب ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ سوچا ’’چراغ تلے‘ کہنا چاہیے تھا۔ ذہن نے کہا، یہ نام زبان پر تو آسانی سے آجاتا، لیکن مطلب اس کا بھی سمجھانا مشکل تھا۔ خیر، جوں توں ’خاکم بدہن‘ کا مطلب بتایا اور تلفظ سمجھایا۔ کئی دن اُن سے ملاقات نہ ہوئی۔ پرسوں وہ نظر آئیں۔ ہمیں دیکھا تو تیزی سے چلتی ہوئی ہماری طرف آئیں۔ ہم جی ہی جی میں خوش ہوئے کہ لو بھئی کتاب اپنا کام کرگئی۔ پڑھ کر متأثر ہوئی ہیں اور ملاقات کے لیے لپکی چلی آتی ہیں۔ وہ آئیں، علیک سلیک کے بعد بولیں، ’میں نے آپ کی کتاب پڑھی۔ جگہ جگہ اپنے نام کی طرح مشکل ہوجاتی ہے، لیکن پھر بھی میں نے پوری پڑھ لی۔‘ ہم نے سراپا انکسار ہوکر پوچھا، کیسی ہے؟ بولیں، ’آپ دیکھنے میں تو اتنے لچے نہیں لگتے جتنے کتاب میں نظر آتے ہیں۔‘‘
ہم نے پہلی بار جب یہ واقعہ سنا تھا تو یہ ہنسنے ہنسانے کی چیز معلوم ہوا تھا، لیکن اب جب کہ یوسفی صاحب رخصت ہوچکے، ہم اپنے اطراف کی صورتِ حال دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس لطیفے کے عقب میں یوسفی صاحب کی آنکھوں نے دیکھ لیا تھا کہ آگے چل کر ہمارا معاشرہ اپنے بڑے ادیبوں اور اعلیٰ ادب کے ساتھ کیا سلوک کرنے جارہا ہے۔
The post ایک ادیب کی مثالی زندگی— یوسفی صاحب appeared first on ایکسپریس اردو.